باپ کی پوری جائیداد پر قبضہ کرکے بہنوں کو حصہ نہ دینا ظلم اور عذاب جہنم کا سبب ہے

باپ کی پوری جائیداد پر قبضہ کرکے بہنوں کو حصہ نہ دینا ظلم اور عذاب جہنم کا سبب ہے

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلۂ ذیل میں.
کہ! زید نے چار نکاح کیا اور چاروں بیویوں سے اولادیں ہیں اور اللہ کے فضل و کرم سے زید صاحب ثروت تھا اس کے انتقال کے بعد دھیرے دھیرے زید کے بیٹوں نے کروڑوں کی زمین و جائداد پر وراثت چڑھوالیا اب زید کی بیٹیاں اپنا حق وراثت بھائیوں سے مانگ رہی ہیں لیکن ان میں سے اکثر بیٹے ٹال مٹول کررہے ہیں اور ایک دو بیٹے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ ہماری ماؤں کو ان کے والد کے انتقال پر ترکہ سے کچھ نہیں ملا تو ہم کیوں دیں, ایک بھائی کہتا ہے کہ جاؤ جب تم اپنی نندوں کو ترکہ دینا تب ہم سے لے لینا,ایک دو بیٹے کو شرعی مسئلہ بتانے پر جواب ملا کہ مفتی لوگ صرف فتویٰ دیتے ہیں اس پر عمل نہیں کرتے اگر کوئی مفتی دیا ہوتو ہم بھی دے دیں یا دور دور تک کوئی دیا ہوتو ہم بھی دے دیں (جب کہ زید ترکے میں کروڑوں کی زمین جائداد چھوڑا ہے) کئی بیٹیاں رہائش و معاش کے اعتبار سے حد درجہ غریب و مفلس ہیں اور کروڑوں کی جائیداد سے اپنے حق کا سواں حصہ بھی نہیں مانگ رہی ہیں بلکہ رہائش کے لیے دوچار بسہ زمین مانگ رہی ہیں لیکن اس پر بھی رضامندی نہیں. جبکہ ابھی تک صرف زید کے بیٹوں نے گھر میں بٹوارا کیا ہے باقی درجنوں بگہ زمین غیر منقسم ہے.

واضح ہوکہ زید کو انتقال ہوئے تقریبا بیس سال سے زیادہ کا زمانہ گزر گیا.
اب زید کے بیٹوں کا یہ غیر شرعی رویہ اور شریعت کے خلاف قول کرنا
بیٹیوں کو حق وراثت سے محروم کرنا یا نہ دینے کا بہانہ کرنا یا صرف دینے کا وعدہ ہی کرنا(یہ سوچ کر کہ کب تک مانگیں گی ,ایک دن تھک ہار کر مانگنا بند کر دیں گی جیساکہ دوسال سے مسلسل ہورہاہے) تو غیر شرعی قول کرنے اور حق وراثت کو صلب کرلینے پر زید کے بیٹوں پر شرع شریف کا کیا حکم ہوگا اور حکم شرع بیان ہوجانے پر ان کا اپنے سابقہ عمل پر برقرار رہنے پر شرع شریف کا کیا حکم ہوگا اور اگر وہ اس کے برخلاف اقدام کریں کہ جاؤ کورٹ کچہری سے اپنا حق لے لو (جبکہ شاید مسلم لڑکیوں کے لیے حق وراثت کا کوئی قانون نہیں) تو اس کے متعلق کیا حکم ہوگا ؟

حضور مفتی صاحب قبلہ سے گزارش ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں مکمل و مفصل جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقع مرحمت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں.

المستفتی :عبدالحفیظ قادری علیمی (ممبئ)

الجوابــــــــــــــــــــ

صورتِ مسئولہ میں زید کے لڑکوں کا اپنے باپ کی پوری جائیداد اپنے نام کرالینا اور بہنوں کو نہ دینا سراسر ظلم ہے، اس کے بیٹے جفا کار گنہگار، حقوق العباد میں گرفتار اور عذابِ جہنم کے سزاوار ہیں۔قرآن مقدس اور احادیث مبارکہ میں صاف صاف بیٹیوں کا اپنے باپ کی جائیداد میں حصہ دار ہونے کی صراحت ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
"یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ ٭ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ۚ فَاِنۡ کُنَّ نِسَآءً فَوۡقَ اثۡنَتَیۡنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ۚ وَ اِنۡ کَانَتۡ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصۡفُ۔” (سورہ نساء: آیت نمبر١١)
اور وارثین کا حصہ بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا:﴿تِلۡكَ حُدُودُ ٱللَّهِۚ وَمَن یُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ یُدۡخِلۡهُ جَنَّـٰتࣲ تَجۡرِی مِن تَحۡتِهَا ٱلۡأَنۡهَـٰرُ خَـٰلِدِینَ فِیهَاۚ وَذَ ٰ⁠لِكَ ٱلۡفَوۡزُ ٱلۡعَظِیمُ
وَمَن یَعۡصِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَیَتَعَدَّ حُدُودَهُۥ یُدۡخِلۡهُ نَارًا خَـٰلِدࣰا فِیهَا وَلَهُۥ عَذَابࣱ مُّهِینࣱ﴾ (سورہ نساء: آیت نمبر ١٣، ١۴)
حدیث کی مشہور کتاب ترمذی شریف میں ہے:
"عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ قال: جاءت امرأۃ سعد بن الربیع بابنتیہا من سعد إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقالت: یا رسول اللّٰہ! ہاتان ابنتا۔ سعد بن الربیع قتل أبوہما معک یوم أحد شہیدا، وإن عمہا أخذ مالہما فلم یدع لہما مالا ولا تنکحان إلا ولہما مال، قال: یقضي اللّٰہ في ذٰلک فنزلت آیۃ المیراث، فبعث رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی عمہما فقال: اعط ابنتي سعد الثلثین وأعط أمہما الثمن وما بقي فہو لک۔ (ترمذی شریف ج٢)
اور زید کے لڑکوں کی وہ سب باتیں جو سوال میں مذکور ہیں حد درجہ جاہلانہ ہیں، اللہ کا قانون زید بکر عمر یا کسی مولوی یا مفتی کے عمل نہ کرنے سے بے ناقابلِ عمل نہ ہوجائے گا۔اور اگر کوئی بد بخت لڑکیوں کے وراثت سے حصہ کا انکار کی جرات کرڈالے تو وہ مسلمان ہی نہیں رہ جائے گا۔
زید کی بیٹیوں کو اپنے حصہ کی پوری جائیداد کے مطالبہ کا شرعا حق حاصل ہے۔اور بیس سال بلکہ پچاس یا اس سے بھی زیادہ وقت گزرجانے سے ان کا حق باطل نہیں ہوجائے گا۔ ہاں! اگر زید کے لڑکے زید کی جائیداد سے کچھ دے کر اپنی بہنوں کو اس پر راضی کرلیں کہ وہ اتنا ترکہ کا جز حصہ لے کر ترکہ سے دستبردار ہوجائیں اور "تخارج” کی شرطیں متحقق ہوں تو ایسا کرنے میں حرج نہیں ہے۔(اس کی تفصیل کے لیے بہار شریعت حصہ ١٣ تخارج کے بیان کا مطالعہ کریں) واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس و افتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔ یوپی۔ ١۴/شعبان المعظم ١۴۴٣ھ//١٨/مارچ ٢٠٢٢ء

Leave a Reply