جو صاحب نصاب ہو کیا اس کو زکوۃ وصدقہ فطر دے سکتے ہیں ؟ مفتی ارشاد علیمی
الســـــلام علیکــــــــم مفتی محمد ارشاد علیمی صاحب قبلہ امید کرتے ہیں خیر و عافیت سے ہونگے اللہ تعالیٰ سلامت و بابرکت رکھے –
عرض یوں ہے کہ(۱)زید جس کی آنکھوں کی بنائی ختم ہوچکی ہے- ایک بیوی اور بچا رکھتا ہے,بچا ابھی سات سال کا ہے- اور نیز یہ کہ دونوں (بیوی اور بچے) کا ذہنی توازن بھی ٹھیک نہیں ہے,ساتھ ہی ساتھ زید نقد (۴۰۰۰۰) چالیس ہزار روپے مع (۱۰)دس بکریوں کا مالک بھی ہے- اب زید اور بکر میں اس بات پر بحث ہوئی کہ زید کو صدقہ فطر دینے سے ادا ہوگا یا نہیـــــــں زید کہتا ہے ,کہ صدقہ فطر ادا ہوجاے گا کیوں کہ اس شخص کی آمدنی کا اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں نہ ہی وہ خود مزدوری کرسکتا ہے اور نہ ہی بیوی بچے لہذا اس کو صدقہ فطر دینے سے ادا ہوجاے گا -جب کہ بکر کا کہنا ہے, کہ ایسے شخص کو صدقہ فطر ادا کرنے سے ادا نہیں ہوگا کیوں کہ شخص مذکور ۷۰ ہزار سے زائد مال و جائدات کا مالک ہے ,اور جس کے پاس اتنا مال اور رقم ہو اس کو صدقہ فطر دینے سے ادا نہیں ہوگا-
(۲)ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بیان فرمادیں کہ کس شخص کو صدقہ فطر دیا جاسکتا ہے؟
(۳)کیا جس پر زکاۃ واجب ہو اس شخص کو صدقہ فطر دینے سے ادا ہوگا؟
(۴)نیز یہ بھی ارشاد فرمادیں کہ آج کل مساجد کے دروازے پر بھکاریوں کی یوں قطار لگی رہتی ہے,جیسے دلہن کو دیکھنے کے لیے عورتیں, بعض ایسے لوگوں کو بھی فقیر جانتا ہے,جن کے مکان و مال و زر اگر دیکھ لیں تو سیٹھ لوگ بھی حیرت و استعجاب میں مبتلا ہوجائيں ایسے لوگوں کو بھیک دینا کیسا ہے؟ بالتفصیل جواب عنایت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں,یہ عوام نوشہرہ پر آپ کی کرم نوازی ہوگی -منجانب:۔ عوام اہلسنت نوشہرہ
وعلیکم السلام
باسمه تعالیٰ وتقدس الجواب بعون الھادی الی الحق والصواب
(۱) پوچھی گئی صورت میں زید مالک نصاب ہے کیونکہ اس کے پاس اتنی رقم ہے جو ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے بھی زیادہ ہے ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت اس وقت ہمارے یہاں ٣٩٣۵۰ ہے لہذا زید کو صدقہ فطر دینے سے ادا نہ ہوگا،کسی مستحق کو دینا ہوگا، ہاں! اگر اس کی دیگر حاجات ومشکلات کے سبب حیلہ شرعی کرکے دے دیں تو حرج نہیں۔والله تعالیٰ أعلم۔
(۲) صدقہ فطر کے مصارف وہی ہیں جو زکاۃ کے ہیں یعنی(۱) فقیر (۲) مسکین(۳) عامل (۴) رقاب(۵) غارم (۶) فی سبیل اللہ (۷) ابن السبیل۔ ہر ایک کی تفصیل بہار شریعت وغیرہ میں دیکھیں۔والله تعالیٰ أعلم
(۳) جس شخص پر زکاۃ واجب ہو اس کو صدقہ فطر دینے سے ادا نہ ہوگا۔والله تعالیٰ أعلم
(۴) بغیر ضرورت کے مانگنا حرام ہے جو لوگ بغیر ضرورت کے مانگتے ہیں ایسوں کو دینا ناجائز ہے اور انکو جان کر دینے والے گنہگار ہیں۔
حدیث شریف میں ہے:بخاری ومسلم عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے راوی، رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: "آدمی سوال کرتا رہے گا یہاں تک کہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ٹکڑا نہ ہوگا” یعنی نہایت بے آبرو ہوکر۔
دوسری حدیث ہے: ابو داؤد وترمذی ونسائی وابن حبان سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے راوی، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: "سوال ایک قسم کی خراش ہے کہ آدمی سوال کرکے اپنے مونھ کو نوچتا ہے، جو چاہے اپنے مونھ پر اس خراش کو باقی رکھے اور جو چاہے چھوڑ دے،ہاں اگر آدمی صاحب سلطنت سے اپنا حق مانگے یا ایسے امر میں سوال کرے کہ اس سے چارہ نہ ہو( تو جائز ہے)
تیسری حدیث پاک ہے: نسائی نے عائذ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، رسول الله ﷺ فرماتے ہیں: "اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ سوال کرنے میں کیا ہے تو کوئی کسی کے پاس سوال کرنے نہ جاتا”
چوتھی حدیث پاک ہے: طبرانی کبیر میں اور ابن خزیمہ اپنی صحیح میں اور ترمذی اور بیہقی حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے راوی، کہ رسول الله صلى الله تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: ” جو شخص بغیر حاجت سوال کرتا ہے، گویا وہ انگارا کھاتا ہے”(بہار شریعت ج ١ ح ۵ ص ٩٤١،٩٤٢/مکتبۃ المدینۃ دعوت اسلامی)
نیز بہار شریعت میں ہے:۔ "آج کل ایک عام بلا یہ پھیلی ہوئی ہے کہ اچھے خاصے تندرست چاہیں تو کما کر اوروں کو کھلائیں، مگر انہوں نے اپنے وجود کو بیکار قرار دے رکھا ہے، کون محنت کرے مصیبت جھیلے، بے مشقت جو مل جائے تو تکلیف کیوں برداشت کرے۔ ناجائز طور پر سوال کرتے اور بھیک مانگ کر پیٹ بھرتے ہیں اور بہتیرے ایسے ہیں کہ مزدوری تو مزدوری، چھوٹی موٹی تجارت کو ننگ وعار خیال کرتے اور بھیک مانگنا کہ حقیقتہ ایسوں کے لیے بے عزتی وبے غیرتی ہے مایئہ عزت جانتے ہیں اور بہتوں نے تو بھیک مانگنا اپنا پیشہ ہی بنارکھا ہے، گھروں میں ہزاروں روپے ہیں سود کا لین دین کرتے زراعت وغیرہ کرتے ہیں مگر بھیک مانگنا نہیں چھوڑتے، ان سے کہا جاتا ہے تو جواب دیتے ہیں کہ یہ ہمارا پیشہ ہے واہ صاحب واہ! کیا ہم اپنا پیشہ چھوڑ دیں۔ حالانکہ ایسوں کو سوال حرام ہے اور جسے ان کی حالت معلوم ہو، اسے جائز نہیں کہ ان کو دے”(ج ١ ح ۵ ص٩٤٠ تا ٩٤١/مکتبۃ المدینۃ دعوت اسلامی)
وہ مانگنے والے جن کے بارے میں تحقیق کہ وہ مالک نصاب ہیں ان کو دینا جائز نہیں اور ان کو دینے سے زکاۃ ادا نہ ہوگی، البتہ جن کے بارے میں تحقیق نہیں اور ظاہر حال سے وہ فقیر لگتا ہے اس کو دے دینے سے زکاۃ ادا ہو جائے گی۔
بہار شریعت میں ہے: "جس کو زکوٰۃ دینا چاہتا ہے اس کی نسبت غالب گمان یہ ہے کہ وہ فقیر ہے یا خود اس نے اپنا فقیر ہونا ظاہر کیا یا کسی عادل نے اس کا فقیر ہونا بیان کیا، یا اسے فقیروں کے بھیس میں پایا ،یا اسے صف فقرا میں بیٹھا ہُوا پایا ،یا اُسے مانگتا ہوا دیکھا اور دل میں یہ بات آئی کہ فقیر ہے ان سب صورتوں میں اس کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے”(ج ٣ ح ١٧/تحری کا بیان/مکتبۃ المدینۃ دعوت اسلامی)
والله تعالیٰ أعلم
کتبہ:۔ محمد ارشاد رضا علیمیؔ غفرلہ خادم دار العلوم رضویہ اشرفیہ ایتی راجوری جموں وکشمیر مقیم حال بالاسور اڑیسہ ٢٤/رمضان المبارک ١٤٤٥ھ مطابق ٤/اپریل ٢٠٢٤ء
الجواب صحیح :محمد نظام الدین قادری خادم درس وافتا دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی