ذکر غوثیہ کے نام پر کئے گئے چندہ کو دوسرے کام میں استعمال کرنا ؟
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام صورت مسئلہ میں کہ ذکر غوثیہ کے نام پر چندہ اکٹھا ہوا تاکہ شیرنی لائی جائے شیرنی کے انتظام کے بعد بقیہ رقم سے طلبہ کے لیے درسی و غیر درسی کتاب خریدنا کیسا ہے ؟ کتاب و سنت کی روشنی مفصل جواب عنایت فرمائیں ۔
از ریاض احمد علیمی اتردیناجپور بنگال ۔
پرنسپل دارالعلوم اشرفیہ ضیاء الاسلام خوشحالڈیھ اترولہ ضلع بلرام پور یوپی ۔
باسمه تعالى وتقدس الجواب بعون الملك الوهاب
چندہ جس کام کے لیے کیا جائے اسی میں خرچ کرنا چاہیئے اور اس میں خرچ کرنے کے بعد جو باقی بچ جائے وہ چندہ دہندگان کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کار خیر میں خرچ کرنا جائز نہیں کیونکہ چندہ چندہ دہندگان کی ملک پر باقی رہتا ہے ۔
لہذا صورت مسؤلہ میں ذکر غوثیہ کے نام پر جو چندہ کیا گیا اور اس میں خرچ کرنے کے بعد جو روپیہ باقی بچا ہے اس سے مدرسہ کے طلبہ کے لیے درسی وغیر درسی کتابیں خریدنے کے لیے چندہ دہندگان سے اجازت لینی ضروری ہوگی ۔ ان میں سے جو جو اجازت دیں گے ان کے روپیہ سے کتابیں وغیرہ خریدنی جائز ہوں گی ۔
اور ان میں سے جو موجود نہ ہوں تو ان کے عاقل،بالغ وارثوں سے اجازت لینی ہوگی اگر وارثوں کا بھی پتہ نہ چل پائے تو انہوں نے جس کام کے لیے چندہ دیا تھا اسی میں خرچ کیا جائے ۔ اور اگر اس میں خرچ کرنے کی ضرورت نہ ہو تو فقرا پر صدقہ کر دیا جائے،اور چندہ دہندگان میں سے اگر کوئی مجنون یا نابالغ ہو تو اسکا حصہ بھی واپس کرنا ہوگا ۔
در مختار میں ہے "ان لم يكن بيت المال معمورا او منتظما فعلى المسلمين تكفينه فان لم يقدروا سالواالناس له فان فضل شیئ رد للمتصدق ان علم والا كفن به مثله والا تصدق به ۔
مجتبی”اور اس کے تحت رد المحتار میں ہے"(قوله والا كفن به مثله)هذا لم يذكره فى المجتبى بل زاده عليه فى البحر عن التجنيس والواقعات قلت فى مختارات النوازل لصاحب الهداية فقير مات فجمع من الناس الدراهم وكفنوه وفضل شیئ ان عرف صاحبه يرد عليه والا يصرف الى كفن فقير اخر ويتصدق به”
(در مختار مع رد المحتار ج3ص101 تا102/دار عالم الكتب الرياض)
اعلحضرت امام اہلسنت رحمه اللہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں رقمطراز ہیں”ایسے چندوں سے جو روپیہ فاضل بچے وہ چندہ دہندان کا ہے، انہیں کی طرف رجوع لازم ہے ۔ وہ دیگ وغیرہ جس امر کی اجازت دیں وہی کیا جائے ۔ ان میں جو نہ رہے اسکے عاقل بالغ وارثوں کی طرف رجوع کی جائے ۔ اگر ان میں کوئی مجنون یا نابالغ ہے تو باقیوں کی اجازت صرف اپنے حصص کے قدر میں معتبر ہوگی ۔ صبی ومجنون کا حصہ خواہی نخواہی واپس دینا ہوگا اور اگر وارث بھی نہ معلوم ہوں تو جس کام کے لیے چندہ دہندوں نے دیا تھا اسی میں صرف کریں ۔ وہ بھی نہ بن پڑے تو فقراء پر تصدق کردیں غرض بے اجازت مالکان دیگ لینے کی اجازت نہیں”۔ (ج6ص339 تا340)
واللہ تعالی اعلم بالصواب
کتبہ محمد ارشاد رضا علیمی غفرلہ خادم دارالعلوم نظامیہ،نیروجال،راجوری،جموں وکشمیر-
13/صفر المظفر 1443ھ مطابق 21/ستمبر 2021ء
-الجواب صحيح-محمد نظام الدین قادری خادم درس وافتا جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی