زکوٰۃ کی رقم اسکول میں لگانا
صورت مسئولہ:
ہم نے ایک عمارت چارپانچ سال قبل عوامی چندے سے خریدی جس کے لیے ہم نے زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ صدقۂ نافلہ وغیرہ وصول کیا ۔ چندہ کرتے وقت اکثرکو یہ بتایاگیاکہ اس عمارت میں مسجد، مدرسۃ المدینہ،جامعۃ المدینہ ،تربیت گاہ ،مکتبہ ،اسکول اورہاسپیٹل وغیرہ قائم کیے جائیں گے ۔ لہٰذا اس عمارت میں پنج وقتہ نمازکے ساتھ ساتھ جامعہ ،مدرسہ،مکتبہ،تربیت گاہ وغیرہ قائم ہوچکے ہیں ۔ کیااب ہمیں اسی عمارت میں ایک طرف اسلامی اسکول (جس کانصاب عام نصاب سے الگ اسلام وسنیت اورشریعت کوملحوظ رکھ کربنایا گیا ہے ) کھولنے کی اجازت ہوگی جب کہ اس کے آنے جانے کاراستہ بھی الگ الگ ہوگا ۔ جواب باصواب عطا فرماکر عنداللہ ما جور ہوں ۔
المستفتی:ابوجیلانی محمدابوبکرعطاری وسیدسلیمان عطاری ۔
حکم شرعی:
زکوٰۃ وصدقات واجبہ کے مصارف فقراومساکین ہیں ،ان کے سوا عام مصارف مثلاًمدرسہ ومسجدوغیرہ میں صرف کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ مصرف بجائے خود قربت وکارثواب ہو ۔ اوراس کی حفاظت کے لیے تبرعات کی فراہمی بقدرکفایت نہ ہوسکے تو بوجہ مجبوری بقدر ضرورت یہ اجازت ہے کہ زکوٰۃ کی رقم کاحیلہ شرعیہ کرکے مصرف خیر مثلاًمدرسہ میں صرف کیاجائے ۔
جوچیزیں اُموردنیاسے ہیں جیسے اسکول اورکتب خانہ برائے تجارت ،وہ بذات خودقربات سے نہیں اور ان میںصرف کرنے کے لیے حیلۂ شرعیہ کی بھی اجازت نہیں ۔
مگر سوال میں یہ صراحت ہے کہ زکوٰۃ کے ساتھ صدقہ نافلہ وغیرہ کی رقم بھی عمارت کی خریداری میں شامل ہے ۔ لہٰذاغیرمعین طورپرعمارت کا کچھ حصہ صدقات نافلہ کے مقابل ہوگا ۔ اس حصے میں اسکول اورمکتبہ براے تجارت قائم کرنے کی اجازت ہے ۔ فعل مسلم کی تصحیح کے لیے یہا ں عمارت کے کچھ حصے کوزکوٰۃ کے مقابل اورکچھ کوصدقہ نافلہ کے مقابل مانا گیاہے ۔ او ر اس طرح کی تقسیم خودشریعت نے بہت سے اُمورمیں روا رکھی ہے ۔ ہا ں اسکول اورمکتبہ میں زکوٰۃ کی رقم صرف کرنا جائز نہ ہوگا،نہ اس کے لیے حیلے کی اجازت ۔
واللہ تعالیٰ اعلم ۔
مکتب کے لیے زکوۃ وصدقات دینا
صورت مسئولہ:
ایک گائوں میں ایک چھوٹا سامکتب ہے،اس میں گاوں کے بچے آتے ہیں اور امام صاحب سے کتابیں پڑھ کراپنے اپنے گھرچلے جاتے ہیں ۔ اب دریافت طلب امریہ ہے کہ ایسے مکتب میں چرم قربانی ،عشریااس کی قیمت اورزکوٰۃ وصدقات دیناجائزہے یانہیں؟ اگرجواب نفی میں ہے توکیاکوئی ایسی صورت ہے جوجوازکوبتائے ۔
المستفتی:محمدعرف اچھے میاں،مقصودپور،پوسٹ اورائی ،مظفرپور،بہار
حکم شرعی:
دینی مکتب کے اخراجات مسلمان مقامی اوربیرونی چندے سے پورے کرسکتے ہیںخاص کرجب کہ مکتب چھوٹاہواوراس کے اخراجات کم ہوں ۔ زکوٰۃ اورعشرصدقات واجبہ سے ہیں ،ان کے مصرف فقرا و مساکین ہیں اس لیے بلاضرورت شرعی مکتب میں ان رقوم کواستعمال نہ کریں ۔
ہاں چرم قربانی دینی مکتب میں صرف کرسکتے ہیں کہ اس کا مصرف ہر کار ثواب ہے ۔ یوں ہی صدقات نافلہ بھی اس میں صرف کر سکتے ہیں مگر صدقات واجبہ جیسے زکوٰۃ اورعشروغیرہ ہرگزہرگزمکتب میں صرف نہ کریں ۔ ہاں اگرچندہ بقدرکفایت نہ ہوسکے توبوجہ ضرورت شرعی زکوٰۃ وعشروغیرہ کی رقم بقدرضرورت حیلہ شرعیہ کرکے لگاسکتے ہیں ۔
واللہ تعالیٰ اعلم ۔