کیا زکاة کی رقم مسجد میں لگانا جائز ہے ؟

کیا زکاة کی رقم مسجد میں لگانا جائز ہے ؟

الاستفتا
کیا زکاة کی رقم مسجد میں لگانا جائز ہے ؟ مسجد کی تعمیر وغیرہ میں لگانے کےلئے پیسوں کا انتظام ہوتے ہوئے کیا زکاة کی رقوم مسجد میں لگا سکتے ہیں ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔
المستفتی: محمد وسیم احمد قادری ، سمبل پور اڑیسہ
23/ رمضان المبارک 1441ھ بروز یکشنبہ

باسمہ تعالیٰ جل و علا

الجواب اللھم ھدایت الحق و الصواب

زکاة و صدقات کے مصارف و مستحق صحیح معنوں میں غرباء و مساکین وغیرہ ہیں ۔ اللہ جل شانہ ارشاد فرماتا ہے :” إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ۔”الخ (پ2، التوبہ:60)

بلا کسی سخت حاجت و مجبوری کہ اب بلا رقوم زکاۃ تعمیر مسجد ہو پانا نہایت مشکل و دشوار ہے کوئی چارہ کار اور راہِ آسان سواء مال زکاة استعمال کرنے کے نظر نہ آتا ہو تو ایسی صورت میں بعد حیلہ شرعی مسجد میں لگا سکتے ہیں جائز ہے حرج نہیں ۔

امامِ اہلسنت مجدد دین و ملت سیدی سرکارِ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمة و الرضوان رقم طراز ہیں :
” وحیلة التکفین بھا التصدق علی فقیر ثم ھو یکفن فیکون الثواب بھا و کذا فی تعمیر المسجد”
(فتاویٰ رضویہ شریف ، ج4، ص469)

اور اسی میں ص475 پر تحریر فرماتے ہیں :
” اگر مزکی نے زر زکاۃ اسے (مصرفِ زکاۃ ) دیا اور ماذون مطلق کیا کہ اس سے جس طور پر چاہو میری زکاۃ ادا کرو اس نے خود بنیت زکوٰۃ لے لیا اس کے بعد مسجد میں لگا دیا تو یہ بھی صحیح و جائز ہے ”

پس معلوم ہوا کہ حیلہ شرعی کے ذریعہ زکاة کی رقم مسجد میں لگانا جائز ہے لیکن جہاں اور دوسرے پیسے تعمیر مسجد و غیرہ کے لئے موجود و مہیا ہوں یا یہ کہ فی الوقت نہ ہو لیکن لوگ ہر صورت امداد و تعاون کے لئے تیار و مستعد ہوں۔ تو چاہیئے کہ زکاۃ کا پیسہ مسجد میں لگانے کےلئے شرعی حیلہ بالکل نہ ڈھونڈھیں اور بذریعہ حیلہ شرعی زکوٰۃ کی رقم مسجد میں نہ لگائیں صرف مجبوری کی صورت میں ہی لگائیں تاکہ غرباء و مساکین وغیرہ جو اس کے اصل مصارف ہیں ان تک ان کا حق پہونچ سکیں اور اس کے زیادہ ضرورت مند مثلاً مدارس اسلامیہ جہاں دینی طلبہ اپنا گھر بار چھوڑ کر قرآن وسنت کا علم حاصل کر رہے ہیں ان کی حق تلفی نہ ہو ۔

واللہ تعالیٰ و رسولہ اعلیٰ اعلم بالصواب

کتبہ✍ العبد العاصی محمد امیر حسن امجدی رضوی
الجامعة الصابریہ الرضویہ پریم نگر نگرہ جھانسی یوپی

Leave a Reply