کیا زکوٰۃ کے پیسوں سے مدرسہ، مسجد یا امام کی رہائش گاہ بنائی جا سکتی ہے ؟

کیا زکوٰۃ کے پیسوں سے مدرسہ، مسجد یا امام کی رہائش گاہ بنائی جا سکتی ہے ؟

سائل : نصیر احمد گجرات

بسمہ تعالیٰ

الجواب بعون الملک الوھّاب

اللھم ھدایۃ الحق و الصواب

زکوٰۃ کے پیسوں سے مدرسہ، مسجد اور امام مسجد کی رہائش گاہ کو تعمیر کرنا جائز نہیں ہے اور نہ اس طرح زکوٰۃ ادا ہوگی ۔ کیونکہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے زکوٰۃ کے حقدار (شرعی فقیر) کو اس کا مالک بنانا شرط ہے ، تو اگر زکوٰۃ کے پیسے مذکورہ چیزوں کی تعمیرات پر خرچ کیے جائیں گے تو ادائیگی زکوٰۃ کی شرط نہ پائے جانے کی وجہ سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی ۔

البتہ اگر مدرسہ، مسجد اور امام مسجد کی رہائش گاہ کی تعمیر کی بہت زیادہ ضرورت ہو اور لوگ اس کی تعمیر میں دلچسپی نہ لے رہے ہوں یا لوگوں کے پاس انہیں تعمیر کرنے کے اتنے وسائل ہی نہ ہوں تو ضرورتاً زکوٰۃ کے پیسوں کا حیلہ کر کے انہیں مدرسہ، مسجد اور امام مسجد کی رہائش گاہ کی تعمیرات پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔

حیلہ یوں ہوگا کہ پہلے زکوٰۃ کے حقدار کو زکوٰۃ کے پیسے دیدیے جائیں پھر وہ قبضہ کرنے کے بعد اپنی رضا و خوشی سے وہ پیسے مدرسہ، مسجد اور امام مسجد کی رہائش گاہ کی تعمیر کے لئے دیدے ۔

چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد و كذا القناطر و السقايات و إصلاح الطرقات و كري الأنهار و الحج و الجهاد و كل ما لا تمليك فيه”

یعنی اور جائز نہیں ہے کہ زکوٰۃ (کے پیسے) سے مسجد، پُل، سقایہ، بنوانا، سڑکیں درست کروانا، نہریں کھدوانا، حج اور جہاد میں خرچ کرنا اور اس اس جگہ خرچ کرنا جہاں تملیک نہ پائی جاتی ہو۔

(فتاوی عالمگیری، کتاب الزکاۃ، الباب السابع فی المصارف، جلد 1، صفحہ 188، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

مجمع الانھر میں ہے :

"و لاتدفع الزکاۃ لبناء مسجد لان التملیک شرط فیھا و لم یوجد”

یعنی مسجد کی تعمیر کے لئے زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی کیونکہ زکوٰۃ (کی ادائیگی) میں تملیک شرط ہے اور وہ (یہاں) نہیں پائی جارہی۔

(مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر، جلد 1، صفحہ 328، دارالکتب العلمیہ بیروت)

سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"پھر دینے میں تملیک شرط ہے، جہاں یہ نہیں جیسے محتاجوں کو بطورِ اباحت اپنے دستر خوان پر بٹھا کر کھلا دینا یا میّت کے کفن دفن میں لگانا یا مسجد، کنواں، خانقاہ، مدرسہ، پُل، سرائے وغیرہ بنوانا ان سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی ۔”

(فتاویٰ رضویہ، جلد 10، صفحہ 110، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

صدرالشریعہ مفتی محمد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"زکاۃ کا روپیہ مُردہ کی تجہیز و تکفین (کفن و دفن) یا مسجد کی تعمیر میں نہیں صرف کر سکتے کہ تملیک فقیر نہیں پائی گئی اور ان امور میں صرف کرنا چاہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ فقیر کو مالک کر دیں اور وہ صرف کرے اور ثواب دونوں کو ہوگا بلکہ حدیث میں آیا، ’’اگر سو ہاتھوں میں صدقہ گزرا تو سب کو ویسا ہی ثواب ملے گا جیسا دینے والے کے لیے اور اس کے اجر میں کچھ کمی نہ ہوگی ۔‘‘

(بہارشریعت، جلد 1، حصہ 5، صفحہ 890، مکتبۃ المدینہ کراچی)

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم

کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی

Leave a Reply