اہل اسلام اپناپیسہ غلبہ دین اوراعلائے کلمۃ اللہ تعالی کے لئے خرچ کریں
آج ہماری ترجیحات یکسربدل کر رہ گئی ہیں ،ہمیں معلوم نہیں ہے کہ کس چیز پر عمل ضروری ہے اورکس چیز پر عمل نہ بھی ہواتوگزارہ ہوجائے گا۔ ہم صرف کھانے پینے کو ہی گیارہویں سمجھتے ہیں اس کے علاوہ کسی نیک کام کو ہم گیارہویں میں شمار نہیں کرتے ، درحقیقت گیارہویں شریف نام ہے ایصال ثواب کا، اور جس طرح ہر نیک کام کو ایصال کیاجاسکتاہے اسی طرح گیارہویں شریف میں بھی کیاسکتاہے ، آج کتنے علاقے ہیں جہاں بڑی بڑی گیارہویں شریف کی محافل توہوتی ہیں مگر وہاں کوئی مدرسہ نہیں ہے ، کیاالشیخ الامام عبدالقادرالجیلانی رضی اللہ عنہ کے ایصال ثواب کے لئے مدرسہ تعمیرکیاجائے تو حضور کی بارگاہ میں ثواب نہیں پہنچے گا، ہمارے علماء اہل سنت سے جب اس کے متعلق سوال کیاگیاکہ گیارہویں شریف کی رقم دینی مدارس پر خرچ کردی جائے تو اس کاثواب حضور پیران پیر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچ جائے گاتو انہوںنے کیاجواب دیا،سبحان اللہ ۔ میرے امام احمدرضاخان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ لنگرکھلانے سے ثواب دس گناتک جبکہ طالب علم کو پیسے دینے سے سات سوگناتک کی امیدہے ،(کیونکہ لنگرکھلانے میں ایک آدمی کونفع ہے اوردین کے طلبہ پرخرچ کرنے میں غلبہ دین میں کام میں تعاون ہے )اب آپ خود یہ فتوی مبارکہ پڑھیں گے توآپ کومعلوم ہوجائے گا۔
ہمارے بزرگان دین نے ان چیزوںکوکیوں اپنایاتھاکبھی ہم نے غور کیا۔
اس کے متعلق حضور بحرالعلوم فرماتے ہیں
گیارہویں اورمیلاد شریف تبلیغ دین کاذریعہ ہیں ۔
آج لوگ گیارہویں کی محفل میں جمع ہوتے ہیں بس کھاناکھایااوررخصت ہوگئے ، ہاں کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں پر الحمدللہ تعالی اب بھی لو گ ایسے موجود ہیں جو بقاعدہ محفل شریف کامکمل انتظام کرتے ہیں جہاں پر علماء کرام کو دعوت دی جاتی ہے اوربیانات کاسلسلہ ہوتاہے ۔
ایک بار میں باعمل عالم دین حضرت مفتی محمود احمدشائق صاحب حفظہ اللہ کی خدمت میں حاضرتھاتوانہوںنے فرمایا: جو چیزیں ہمارے مسلک اہل سنت وجماعت کی تقویت کاباعث تھیں آج لوگوں نے انہیں چیزوں کو ہمارے مسلک کے لئے نقصان کاسبب بنادیاہے ۔
اگر میں اس بات کو کھولوں تو بات بہت دورچلی جائے گی ، لیکن مختصراً عرض یہ ہے کہ آپ خود غورکریں مزارات اولیاء پر اعراس ہوتے تھے ،وہاں پر علماء اہل سنت کے بیانات ہوتے اوران کی وجہ سے لوگوںکے عقیدہ وعمل کی درستگی کاسامان ہوتاتھا،لوگ جب مزارات سے واپس جاتے تو دینی وروحانی دولت سے مالامال ہوکر جاتے تھے ،مگر آج خودغور کریں کہ بات کہاں پہنچی ہے ؟ انہیں مزارات عالیہ پر زمانے بھر کے گندے کام ہوتے ہیں، کتے لڑاتے ہیں ، لوگوں کی کبڈی وہاں ہی ہوتی ہے ، اوریہاں تک کہ زمانے کے بڑے مراسی وہاں بلاکر بے حیائی کاسامان کیاجاتاہے ، کاش یہ معمولات اپنے مقصد کی طرف لوٹتے جس کے لئے ان کو ہمارے بزرگوں نے شروع کیاتھا، اوراسی طرح اوربھی بہت سے کام ہیں جواصلاح طلب ہیں ، جس میں علماء کرام کو کرداراداکرنے کی سخت ضرورت ہے لیکن ایساہونامشکل لگتاہے کیونکہ ہر شخص تواپنی پگڑی بچانے کی فکر میں ہے ۔
ایک خطاب میں حضرت مفتی اعظم پاکستان محمدمنیب الرحمن ہزاروی حفظہ اللہ تعالی نے فرمایا:کہ یوکے میں گیارہویں شریف کو فرض عین کے درجے میں رکھتے ہیںخود ہی وہ چندے دیتے ہیں خودہی دیگیں پکاتے ہیں اورخود ہی کھاکر چلے جاتے ہیں ، اورفرماتے ہیں کہ یوکے میں ایک بہت بڑی مسجد شریف ہے ان کی انتظامیہ کے پاس چارملین ڈالر گیارہویں کے نام کاچندہ جمع ہے ،چونکہ پیرجاہل ہے اوروہ پیردینی امور پر پیسے کو خرچ کرنے پر تیارنہیں ہے ۔
ایک مشورے کے دوران حضرت مفتی اعظم پاکستان حفظہ اللہ تعالی سے جماعت اہل سنت کے ایک عالم دین نے کہاکہ آپ اگرفتوی دے دیں کہ ایک ماہ کی گیارہویں کے پیسے صرف اورصرف مدرسہ کو دے دیں تو صرف ایک سال میں بہت بڑاادارہ قائم ہوسکتاہے ، حضرت مفتی صاحب نے فرمایاکہ میں یہ فتوی دیتاہوں کہ آپ سارے سال کی گیارہویں شریف کے پیسے صرف اورصرف اشاعت علم پر لگائیں اوریہاںالشیخ الامام عبدالقادرالجیلانی رضی اللہ عنہکے نام سے بہت بڑاادارہ قائم کریں۔
ترجیحات کاتعین کیسے کیاجائے ؟
مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کا تعین قرآنی احکامات و تعلیمات کے مطابق کرتا ہے۔ عموماً انسان کی زندگی میں درست ترجیحات کے تعین کا اہم رول ہوتا ہے چونکہ جو قوم ناقص حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے درست ترجیحات کا تعین نہیں کرپاتی وہ ناکام و نامراد ہوجاتی ہے اور تمام وسائل ترقی مہیا رہنے کے باوجود تنزل و انحطاط کا شکار ہوجاتی ہے تو دوسری طرف جو قوم سنجیدگی سے منصوبہ بندی کرتی ہے، جامع اصلاحات کو اپناتی ہے اور درست ترجیحات کا صحیح تعین کرتی ہے تو ذہنی سکون، قلبی طمانیت، روحانی تسکین اس کا مقدر بن جاتی ہے اورمعیارِ زندگی از خود بلند ہوجاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو درست ترجیحات کا تعین کرنا انسانی زندگی کا ایک انتہائی اہم اور دشوار کن مرحلہ ہے جس کو پورا کرنے میں بعض لوگ کامیاب ہوتے ہیں اور بعض لوگ ناکام۔
درست ترجیحات کے تعین کا مدار تجربات اور علمی فہم و فراست پر ہوتا ہے جو کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے تو دوسری جانب جب ارباب علم و دانش اپنی فراست کا استعمال کرتے ہوئے درست ترجیحات کا تعین کرنے کی کوشش و سعی کرتے ہیں تو علم میں موجودابہام و خطائوں، نفسانی خواہشات، دنیا پرستی اور شیطانی وساوس اس میں مخل ہوجاتے ہیں جس کے سبب درست ترجیحات کے تعین میں انسان علم کے زیور سے آراستہ ہونے کے باوجود بری طرح ناکام ہوجاتا ہے اور بظاہر پسندیدہ چیزوں جیسے شراب و جوا خوری میں چھپے ہوئے شرور و فتن اور بظاہر ناپسندیدہ اشیاء جیسے صدقات و خیرات میں پوشیدہ فوائد و منفعت کو دیکھنے میں بھی ناکام ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ انسان برائیوں کی طرف آسانی سے مائل اور اچھائیوں سے اعراض کرتا چلا جاتاہے۔ اسی لیے انسان کو نماز اور دیگر اچھائیوں کے لیے وقت نکالنا بہت دشوار محسوس ہوتا ہے لیکن اسی انسان کے لیے لہو و لعب میں گھنٹوں ضائع کردینا بہت آسان لگتا ہے جس کی بین دلیل نوجوان نسل کا مساجد اور دینی محافل سے دوری اختیار کرنا اور واٹس اپ، فیس بک، ٹوئیٹر، انسٹاگرام کا بیجا استعمال کرتے ہوئے گھنٹوں ضائع کردینا ہے اور اس کا لازمی نتیجہ انسان کی تباہی و بربادی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ انسانی مجہولات کے مقابل انسانی علم کی حقیقت دریا کے مقابل قطرہ کی سی ہے۔ اشیاء میں مخفی خیر و شر کے حقائق سے واقف رب کائنات کا مسلمانوں پر کتنا بڑا کرم اور مہربانی ہے کہ اس نے ترجیحات کی ترتیب و تشکیل میں ہونے والی لغزشوں، کوتاہیوں اور دشواریوں سے بچانے کے لیے ہمیں قرآن مجید جیسی عظیم نعمت سے سرفراز کیا جس نے (والآخرۃ خیر و ابقی )کہہ کر تمام معاملات میں ترجیحات کی بنیاد فراہم کردی یعنی ہر اس کام کو ترجیح دی جائے جو دنیا و آخرت سنوارنے میں ممد و معاون ثابت ہو۔
اگر اس آیت مبارکہ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ قرآن مجید نے دنیا کی مذمت نہیں کی بلکہ آخرت کو دنیا سے بہتر کہا یعنی دنیا بھی اچھی چیز ہے لیکن اس سے بہتر آخرت ہے۔ چونکہ دنیا تو بے وقعت، موقتی اور فانی ہے جبکہ آخرت بہتر، دائمی اور لافانی ہے۔ اگر دنیا سراسر بری اور ممنوع چیز ہوتی تو قرآن مجید ہمیں یہ دعا تعلیم نہ فرماتا جس میں فرمایا گیا ترجمہ: اے ہمارے رب!عطا فرما ہمیں دنیا میں بھی بھلائی اور آخرت میں بھی بھلائی (سورۃ البقرۃ آیت:۲۰۱)یعنی یہ حقیقی مومن کا شیوہ ہی نہیں کہ وہ دنیوی زندگی کو مکمل طورپر فراموش کردے۔ مومن کے افکار و فہم اس قدر وسیع ہوتے ہیں کہ وہ صرف اخروی زندگی کے بارے میں فکر مند نہیں ہوتا بلکہ وہ دنیوی منافع و مقاصد کے ساتھ اخروی سعادتمندیوں کا بھی خواستگار ہوتا ہے۔ اگر مسلمان قرآن مجید کے اس ترجیحی حکم پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہوجائیں تو دنیا کی کوئی طاقت نہیں ہے جو انہیں زیر کرسکے یا شکست دے سکے۔
تاریخ اسلام شاہد ہے کہ جب تک امت مسلمہ قرآن مجید کی روشنی میں اپنے درست ترجیحات کا تعین کرتی رہی مسلم حکمرانی کا دائرہ حجاز مقدس سے نکل کر یورپ تک پہنچ چکا تھاجو بجا طور پر مسلمانوں کے عروج کا سنہری دور کہلاتا ہے۔ اور جب سے امت مسلمہ تعلیمات اسلامی کو بالائے طاق رکھ کر اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق ترجیحات کا تعین کرنے لگی تب سے مسلمانوں کے زوال کا تاریک دور شروع ہوا جو آج تک جاری و ساری ہے۔ مسلمانوں کا انفرادی سطح سے لیکر عالمی سطح تک ہر محاذ پر ناکام ہونا، مخالفین اسلام کے ظلم و تشدد کا شکار ہونا، وطن عزیز ملک پاکستان میں ہجومی تشدد کی وجہ سے ہلاک کیا جانا، بہترین زندگی گزارنے کے مواقع سے محروم کردیا جانا اس کی بین دلیل ہے۔
مسلمانوں کی اس کسپمرسی کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم نے قرآن مجید کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی کی ہے۔ قرآن مجید نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے کا حکم فرمایا لیکن ہم آخرت پر دنیا کو فوقیت دینے لگے ہیں۔ کسی کے گھر میں قرآن خوانی اور قرآن فہمی کی محفل ہوتی ہے تو ہمارے دل میں یہ جذبہ جاگزیں نہیں ہوتا کہ ہم بھی اسی طرح کی محافل کا انعقاد کریں لیکن جب معاشرے میں برائیاں پھیلتی ہیں جیسے تقریب ولیمہ میں پودینہ کے ہار پہنانا وغیرہ تو ہم بھی اس فعل قبیح میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ یہ ایک مثال ہے ورنہ ہماری زندگی کے اکثر معاملات کا یہی حال ہے۔ قرآن مجید نے بالفاظ صریح ہمیں حکم فرمایا ہے کہ ہم اعمال خیر اور نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں۔ تعلیمی ادارے، شفا خانے، عدالتیں تجارتی مراکز میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ غیر مسلم اقوام کے پاس حلال و حرام کا تصور نہیں ہے ان کے لیے دنیا ہی جنت ہے اگر وہ اس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور دنیا کی خاطر آخرت کو ترک کررہے ہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن مومن جسے قرآن مجید نے باربار نیکیوں اور حسنات سے محبت کرنے اور گناہوں اور سیئات سے پرہیز کرنے کا حکم دیا ہو اگر وہ بھی بداعمالیوں کا شکار ہوجائے تو پھر ہم میں اور غیر مسلم میں کیا فرق رہ جائے گا؟
اگر آج کا مسلمان دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے ہوئے تعلیمی اداروں، دواخانوں اور عدالتوں میں اسلامی تعلیمات کے مطابق کام کرتے ہوئے پیسہ بٹورنے سے زیادہ انسانی خدمت کو فوقیت دینے لگے تو یقینا ہمارا یہ اقدام موجودہ دور میں اسلامی تعلیمات کی عملی تصویر پیش کرنے کا سبب بنے گا اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبی ہوئی اور سسکتی ہوئی انسانیت کے زخم پر مرہم کا کام کرجائے گا اس طرح لوگ ہماری اس عملی تبدیلی کی وجہ سے اسلام میں جوق در جوق داخل ہوں گے۔ موجودہ دور کے ابتر حالات اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ مومن اپنی قدر و قیمت سمجھیں اور اپنی استعداد اور لیاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے عملی طور پر تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دیں جو وقت کی اہم اور سخت ضرورت ہے۔ اگر ہم ان تمام حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے دنیا پرستی ہی کو ترجیح دینے لگیں گے اور مفاد پرستی کی اسی غلط روش کو اختیار کرتے ہوئے خدائی احکامات اور فرامین رسالت مآبﷺکو فراموش کرتے رہیں گے تو رب کائنات ہمیں ایسے عذاب میں مبتلا کرے گا کہ ہماری دنیا بھی تباہ و تاراج ہوجائے گی اور آخرت بھی (العیاذ باللہ )۔قرآن مجید میںبارہا انسان بالخصوص مسلمانوں اور مومنوں کومتعدد مرتبہ آگ سے بچنے کا حکم فرمایا ہے لیکن ہماری تقاریب میں ہم آتش بازی کرتے ہوئے آگ سے کھیلنے کی نہ صرف جرات کرتے ہیں بلکہ خدائی فرمان کی نافرمانی بھی کرتے ہیں۔ آتشبازی میں نہ صرف آگ سے کھیلنا ہے بلکہ پیسہ کا ضیاع بھی ہے اور صوتی و فضائی آلودگی کا گناہ بھی ہے۔ گویا ہم نکاح اور ولیمہ جیسے مبارک ایام میں آتشبازی کرکے اپنی زندگیوں میں نحوست اور عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔ یہ اس لیے ہورہا ہے کہ چونکہ موجودہ دور میں والدین اپنی اولاد کی اسلامی نہج پر تربیت کرنے میں بری طرح ناکام ہورہے ہیں اسی کا خمیازہ ہے کہ مسلم معاشرہ تباہی و بربادی کے دور سے گزر رہا ہے۔ موجودہ دور میں جانور کی قیمت و اہمیت ہے لیکن مسلمان کی کوئی حیثیت و وقعت نہیں ہے۔ قرآن حکیم میں تعلیم کے ساتھ تزکیہ کا ذکر ملتا ہے جو تصفیہ قلب و باطن کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے۔ انسان کی نصف شخصیت عقل و خرد سے اور نصف شخصیت طبعی میلانات و خواہشات سے تشکیل پاتی ہے اسی لیے انسان کو جس قدر تعلیم کی ضرورت ہے اسی طرح وہ تربیت کا بھی محتاج ہے۔ لیکن صد حیف کہ قرآن مجید کو ماننے کا دعوی کرنے کے باوجود مسلم معاشرہ تربیت کی اہمیت و افادیت کو بھلا بیٹھا ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں پچھلے کچھ سالوں میں تعلیمی گراف بڑھنے کے باوجود مسلم معاشرے میں برائیاں بھی پھیلی ہیں۔
مسلم معاشرہ کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ ہم نہ صرف تعلیم کے ساتھ تربیت کو ترجیح دیں بلکہ سیاسی، معاشی، معاشرتی، اقتصادی، انفرادی، اجتماعی، اخلاقی، روحانی الغرض جملہ معاملات میں قرآنی مزاج کے مطابق ترجیحات کا تعین کریں۔ اگر ہم اب بھی خواب غفلت سے نہیں جاگیں گے تو آنے والے دن مزید ابتر ہوسکتے ہیں۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآنﷺکی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔
آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسینﷺ۔
اہل سنت کی ترجیحات کب بدلیں گی ؟
ایک غیرت مندسنی عالم دین لکھتے ہیں :
یہ ایک ایسا عنوان ہے کہ اس پر اگر لکھا جائے تو شاید زندگی ختم ہوجائے لیکن اس موضوع پر کلام مکمل نہ ہوسکے۔ لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں اس پر کچھ معروضات پیش کرتا ہوں۔
اگر ہم گزشتہ ایک یا ڈیڑھ صدی ہی کی بات کرلیں تو معاملہ بہت کھل کر سامنے آئے گا۔ آج اہل سنت و اہل اسلام جس انداز میں تقسیم و تذلیل سے دوچار ہیں وہ کسی پر مخفی نہیں۔ ہمارے داخلی انتشار و اختلاف نے ہمیں کمزور و منتشر کیا تو ہمارے اعدا ء اس سے فائدہ اٹھاکر اتنے ہی مضبوط و متحد ہوگئے۔
ہمارے اعراس اور محافل میں سالانہ بلا مبالغہ اربوں روپے لگائے جاتے ہیں، صرف راولپنڈی کی ایک سالانہ محفل نعت کروڑوں میں پڑتی ہے، مزارات پر سجاوٹ، چادروں کے تحائف، لنگر، ٹرانسپورٹ، ہدیے ، نذرانے پیر صاحبان کے فضائی ٹکٹ، ہوٹلز میں قیام، سالانہ متعدد عمرے، حرمین شریفین میں پانچ ستارہ ہوٹلز میں ان کا قیام۔ یہ سب کچھ مستقبل میں ہماری نسل اور اسلام کو ہرگز فائدہ پہنچانے والا نہیں۔
حالات چیخ چیخ کر ہم سے تقاضا کر رہے کہ ہم قرآن مقدس میں سے جہاد، حدیث شریف میں موجود سیاسی و سماجی، معاشرتی و فلاحی فرامین کو سامنے لائیں جب کہ ہماری کئی کتب کے عنوانات آج بھی ایک دوسرے کی نقاب کشائی، خنجر بر گردن فلاں وغیرہ وغیرہ ہیں۔
رفع یدین کے جواز و عدم جواز، اونچی آواز میں آمین کہنا یا نہ کہنا، طلاق، حلالہ، وتر کی رکعات، تراویح کی رکعات وغیرہ وغیرہ۔یہ عنوانات ضروری سہی لیکن اس پر بہت لکھا جا چکا، اکابر کی تحقیقات ہی کو کاپی کر کے اپنے نام کے ساتھ شائع کرنے کی بجائے نئے عنوانات پر کام کیوں نہیں ہو رہا؟ اگر آپ کو میری یہ باتیں بری ہی لگ رہی ہیں تو دوسرے نشریاتی اداروں کی مطبوعات کی فہرست کھول کر دیکھ لیجیے، پھر اس کا تقابل سنی مطبوعات سے کیجیے، یقینا آپ اپنا سر پیٹیں گے۔
ایک شاہ جی کے مرید دوسرے شاہ جی کے خلاف، ایک خانقاہ دوسری خانقاہ کے خلاف، ایک تنظیم دوسری تنظیم کے خلاف سرمایہ، وقت اور دماغ ضائع کر رہی ہے۔ کیا یہی کرنے کے کام تھے؟ جو سرمایہ آپ ان کاموں پر لگا رہے ہیں وہ اہل سنت بچوں کی تعلیم پر کیوں نہیں لگاتے؟
ہمارے پاس لاکھوں قاری ہیں لیکن یہ قاری تلاوت کرتے وقت ع اور ح کے علاوہ باقی حروف کے مخارج سے واقف نہیں، ان کا طرز تلاوت اس قدر عجیب ہوتا ہے کہ فہم رکھنے والے سامع کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے، جب کہ یہی قاری صاحب نعت سناتے وقت انتہائی سریلے ہو جاتے ہیں۔ کیا تلاوت زیادہ اہم ہے یا نعت خوانی؟ جو کام کرنے والے لوگ ہیں ان کی حوصلہ افزائی کیوں نہیں کی جاتی؟
جدید مسائل اور غیر مسلموں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کے لیے مدلل کتب و مواد کیوں پرنٹ نہیں کیا جا رہا ؟
ان سب سوالوں کا جواب یہ ہے کہ ہمارے پیروں، مشائخ اور علما کی ترجیحات غلط ہیں، ہم نے دست بوسی کروائی، نذرانے لئے، تعویذ دیے، جن نکالے، مؤکل قید کئے، جنت کے ٹکٹ بانٹے، دھمال ڈالی، رقص کیا، عمرے کے ٹکٹ دیے لیکن۔۔۔۔۔۔۔ اپنی قوم کو جامعات و مدارس نہ دیے، تعلیم نہ دی ،کسی دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کا طریقہ و سلیقہ نہیں بتایا، ہر وہ انسان جو آپ سے اختلاف رکھے اس سے ہاتھ نہیں ملانا۔ اور پھر ہم یہاں تک پہنچ گئے کہ اب ہمارے سپیکر بند، ہمارے علما فورتھ شیڈول میں، ہماری مساجد پر قبضہ۔۔
میرے معزز قارئین، آپ کو میرے سوالات و تحریر سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن آپ حقائق سے نظر چرا کر مزید ایک جرم کا ارتکاب کریں گے!
محرومِ تماشا کو پھر دیدہ بینا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دِکھلا دے
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعتِ صحرا دیایک
رسول اللہ ﷺکافرمان عالی شان ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی قَال:حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَہْبِ بْنِ عَطِیَّۃَ قَالَ:حَدَّثَنَا الْوَلِیدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْزُوقُ بْنُ أَبِی الْہُذَیْلِ قَالَ: حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ قَالَ:حَدَّثَنِی أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْأَغَرُّ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ مِمَّا یَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِہِ وَحَسَنَاتِہِ بَعْدَ مَوْتِہِ عِلْمًا عَلَّمَہُ وَنَشَرَہُ، وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَکَہُ، وَمُصْحَفًا وَرَّثَہُ، أَوْ مَسْجِدًا بَنَاہُ، أَوْ بَیْتًا لِابْنِ السَّبِیلِ بَنَاہُ، أَوْ نَہْرًا أَجْرَاہُ، أَوْ صَدَقَۃً أَخْرَجَہَا مِنْ مَالِہِ فِی صِحَّتِہِ وَحَیَاتِہِ، یَلْحَقُہُ مِنْ بَعْدِ مَوْتِہِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جو اعمال اورنیکیاں مومن کوبعد موت بھی پہنچتی رہتی ہیں ان میں سے وہ علم جسے سیکھاگیااورپھیلایاگیااورنیک اولاد جو چھوڑگیا،یاقرآن شریف جس کاکسی کو وارث بناگیا،یامسجد شریف یامسافرخانہ بناگیا، یانہرجاری کرگیا،یاخیرات جسے اپنے مال سے اپنی صحت اوراپنی زندگی میں نکال گیا۔
(سنن ابن ماجہ: ابن ماجۃ أبو عبد اللہ محمد بن یزید القزوینی، وماجۃ اسم أبیہ یزید (۱:۸۸)
(وَنَشَرَہُ)کے تحت ملاعلی قاری کافرمان
حضرت ملاعلی قاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ
(وَنَشَرَہُ)ہُوَ أَعَمُّ مِنَ التَّعْلِیمِ، فَإِنَّہُ یَشْمَلُ التَّأْلِیفَ وَوَقْفَ الْکُتُبِ۔۔
ترجمہ :حدیث پاک میں( نشرہ) کالفظ عام ہے کہ کسی طرح کی بھی تعلیم ہو، اوریہ شامل ہے کتابیں لکھنے کو بھی اورکتابیں لکھ کر یاخریدکر وقف کرنے کو بھی ، کیونکہ یہ بھی علم کو ہی نشرکرناہے ۔
(وَرَّثَہُ) کے تحت فرماتے ہیں کہ
أَیْ: تَرَکَہُ لِلْوَرَثَۃِ وَلَوْ مِلْکًا وَفِی مَعْنَاہُ: کُتُبُ الْعُلُومِ الشَّرْعِیَّۃِ فَیَکُونُ لَہُ ثَوَابُ التَّسَبُّبِ۔
ترجمہ :حضرت ملاعلی قاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں کہ یاقرآن کریم کاکسی کو وارث بناجائے ، اس میں علم شریعت کی کتب بھی شامل ہیں ،یہ بھی اس کے لئے ثواب کاسبب ہوں گی ۔
(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح:علی بن (سلطان)محمد، أبو الحسن نور الدین الملا الہروی القاری (۱:۳۲۶)
اب ہمارے مدارس اورمساجد میں جاکردیکھیں کہ الماریاں قرآن کریم سے بھری ہوئی ہیں ،اوربالکل نئے قرآن کریم لوگ دفن کرنے کے لئے قبرستان میں چھوڑ جاتے ہیں ،مگرپھربھی ہماری عوام کوصرف قرآن کریم ہی لے کررکھنے کاثواب معلوم ہے اورباربارکہاجائے کہ علماء کرام کے پاس کتب نہیں ہیں ان کو کتب لے کردینے میں بھی اجروثواب ہے ،وہ ان کو سمجھ نہیں آتا۔
(أَوْ مَسْجِدًا بَنَاہُ)کے تحت فرماتے ہیں
(أَوْ مَسْجِدًا بَنَاہُ)وفِی مَعْنَاہُ مَدْرَسَۃُ الْعُلَمَاء ِ وَرِبَاطُ الصُّلَحَاء ِ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناملاعلی قاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکے فرمان شریف میں جہاں مسجد شریف بنانے کاحکم ہے اس میں علماء کرام کے لئے مدرسہ بنانااورصلحاء کے لئے خانقاہ بنانابھی شامل ہے ۔
(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح: علی بن (سلطان) محمد، أبو الحسن نور الدین الملا الہروی القاری (۱:۳۲۶)
حضرت سیدناملاعلی قاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے مسجد بنانے کے حکم کے تحت مدرسہ اورصلحاء کی خانقاہ کو شامل کیاہے ، اب ہمارے یہاں مساجدا تنی ہیں کہ جن کو دیکھ کرمعلوم ہوتاہے کہ یہاں مسلمان بہت نمازی ہیں ، مگرجب نماز کاوقت آئے تو اس وقت مسجدکی پہلی صف میں بھی جگہ خالی ہوتی ہے،تواس وقت دل خون کے آنسوروتاہے ۔ مسجد بنانے کاثواب توسب کو معلوم ہے مگر مدرسہ بنانے کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہوتی ،اگرہماری قوم کو مدرسہ کی بھی اہمیت معلوم ہوتی توہمارے علماء کرام کبھی بھی لوگوں کے سامنے چندہ لینے کے لئے ہاتھ نہ پھیلاتے ۔
(ومصحفاً ورثہ)کے تحت عبدالعزیزبن عبداللہ لکھتے ہیں
قولہ صلی اللہ علیہ وسلم:(ومصحفاً ورثہ)ہذا أیضاً من الصدقۃ الجاریۃ، طبع کتاباً أو مصحفاً علی نفقتہ فہو من العلم الذی ینتفع بہ.
ترجمہ :رسول اللہ ﷺکایہ فرمان شریف کہ جو شخص قرآن کریم کسی کو لے کردے جائے سے مقصود صدقہ جاریہ ہے اوراس میں کوئی شخص کوئی دینی کتاب اپنے خرچ پر طبع کرواگیایاقرآن کریم اپنے خرچ پر طبع کرواگیااوراس کی طبع کروائی ہوئی کتاب اوراس کے چھپوائے ہوئے قرآن کریم کو جولوگ پڑھتے رہیں گے اس کاثواب اس کو مرنے کے بعد بھی ملتارہے گا۔
(شرح سنن ابن ماجۃ:عبد العزیز بن عبد اللہ بن عبد الرحمن الراجحی( ۱۶: ۹)
حضرت سیدنامفتی احمدیارخان نعیمی فرماتے ہیں کہ
یہ چیزیں اسے مرنے کے بعد بھی پہنچتی رہتی ہیں ،زبان سے یاقلم سے اپنے کامل شاگرداوربہترین تصنیفات چھوڑیں جب تک مسلمان ان سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے ،اسے ثواب پہنچتارہے گا،خواہ اولاد کو نیک بناکرگیا،یااس کے مرنے کے بعد اولاد نیک ہوگئی دونوں صورتوں میں اسے ثواب ملتارہے گا،اس طرح کہ اپنے ہاتھ سے قرآن کریم لکھ کر یاخرید کرچھوڑ گیااسی حکم میں تمام دینی کتب ہیں ، مسجدیامسافرخانہ بناکرگیا،اپنی کوشش سے یاپیسے سے یا اپنے ہاتھ سے ۔
(مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح از مفتی احمدیارخان رحمۃ اللہ تعالی علیہ ( ۱: ۲۰۴)
یہ بھی صدقہ ہے
حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ حُمَیْدِ بْنِ کَاسِبٍ الْمَدَنِیُّ قَالَ: حَدَّثَنِی إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَیْمٍ، عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ طَلْحَۃَ، عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِیِّ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَفْضَلُ الصَّدَقَۃِ أَنْ یَتَعَلَّمَ الْمَرْء ُ الْمُسْلِمُ عِلْمًا ثُمَّ یُعَلِّمَہُ أَخَاہُ الْمُسْلِمَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: سب سے افضل صدقہ یہ ہے کہ کوئی شخص علم کو سیکھے اورپھراپنے مسلمان بھائی کو سکھائے ۔
(کنز العمال : علاء الدین علی بن حسام الدین ابن قاضی خان القادری الشاذلی الہندی(۶:۴۲۱)مؤسسۃ الرسالۃ
(سنن ابن ماجہ: ابن ماجۃ أبو عبد اللہ محمد بن یزید القزوینی، وماجۃ اسم أبیہ یزید (۱:۸۹)
کیاکوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی دینی تعلیم کابندوبست کردے تو اس کااجر اس کو نہ ملے گا اوریہ اس کااجر اگرحضر ت سیدناالشیخ الامام عبدالقادرالجیلانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیج دے توآپ کو اس کاثواب نہ پہنچے گا؟۔
علماء اہل سنت وجماعت کی رائے
مجاہدین کی مددکرنابھی گیارہویں شریف ہے
سوال :مخزن علوم حقانی وربانی ادام اﷲفیوضہم،تسلیم بعد تعظیم میری اہلیہ عرصہ سے ہر سال حضرت غوث الاعظم کی گیارھویں میں سوامن بریانی پکواکر نیاز دلاتی ہے اور مساکین کو تقسیم کی جاتی ہے کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ یہ رقم امسال شہداء ویتامیٰ عساکر عثمانیہ کی امداد کے لیے بھیجی جائے اور گیارہویں شریف معمولاًقدرے شیرینی یا طعام پر دلادی جائے؟
الجواب:اگر دونوں باتیں نہ ہوں تو یہی بہتر ہے کہ قدرے نیاز دے کر وُہ تمام قیمت امداد مجاہدین میں بھیج دی جائے اور اس کا ثواب بھی نذرِرُوح اقدس حضرت سیّدنا غوثِ اعظم رضی اﷲتعالیٰ عنہ کو کیا جائے۔واﷲتعالیٰ اعلم
(فتاوی رضویہ لامام احمدرضاخان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ( ۱۰: ۳۲۷)
دینی طلبہ کی خدمت کرنابھی گیارہویں شریف ہے
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک صاحب بغرض ثواب ا پنے جائز روپے سے ماہواری یا سالانہ کھانا پکواکر فاتحہ حضورپُر نور سرورِ عالمﷺ کیا کرتے ہیں اور کھانا مساکین و غیر مساکین کو کھلا دیتے ہیں یا تقسیم کردیتے ہیں ایک طالبعلم حنفی قادری سنّی سیّد کہ جس کی تعلیم دینی بوجہ نہ استطاعت ہونے کے اُس کے ولی کے غیرمکمل رہی جاتی ہو اور علومِ دینی حاصل نہ کرنے کی وجہ سے اُس طالب علم آلِ مصطفیٰ صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم کے بد عقیدہ ہوجانے کا اندیشہ ہواس صورت میں اگر وہ روپیہ جو فاتحہ میں صرف کیا جاتا ہے اگر اس طالب علم کے تعلیم دینی میں بہ نیتِ ثواب فاتحہ حضورﷺ صرف کردیا جائے تو بدل اُس فاتحہ سالانہ یا ماہواری کا ہوکر باعثِ خوشنودی سردارِ دو عالم ﷺہوگا یا نہیں اور ثواب میں کمی تو نہ ہوگی؟
الجواب:یہ اُس کا نعم البدل ہوگا اور ثواب میں کمی کیا معنی، اُس سے ستّر گُنا ثواب کی زیادہ اُمید ہے بطور مذکور کھانا پکاکر کھلانے یا بانٹنے میں ایک کے دس ہیں ۔
قال اﷲتعالیٰ {مَن جَآء َ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ عَشْرُ أَمْثَالِہَا }سورۃ الانعام:۱۶۱)
ترجمہ:اﷲتعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے جو نیکی بجالاتا ہے اس کے لئے اس کی دس مثل ہیں۔
اور طالبِ علمِ دین کی اعانت میں کم سے کم ایک کے سات سو۔
قال اﷲتعالی{مَثَلُ الَّذِینَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِی کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِائَۃُ حَبَّۃٍ وَاللَّہُ یُضَاعِفُ لِمَنْ یَشَاء ُ وَاللَّہُ وَاسِعٌ عَلِیمُ}سورۃ البقرۃ : ۲۶۱)
ترجمہ:اﷲتعالیٰ کا فرمان عالی ہے:انکی کہاوت جو اپنے مال اﷲکی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے اگائیں سات بالیاں، ہر بالی میں سودانے، اور اﷲاس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے،اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں
(وَفِی سَبِیلِ اللَّہِ وَہُوَ مُنْقَطِعُ الْغُزَاۃِ) وَقِیلَ الْحَاجُّ وَقِیلَ طَلَبَۃُ الْعِلْمِ خَصُوصاً۔
ترجمہ:فی سبیل اﷲسے مراد وُہ غازی ہیں جن کے پاس خرچہ و اسلحہ نہ ہو، بعض نے کہا حاجی،اور بعض نے کہا اس سے خصوصاً طلبہ علم مراد ہیں۔
(رد المحتار علی الدر المختار:ابن عابدین، محمد أمین بن عمر بن عبد العزیز عابدین الدمشقی الحنفی (۲:۳۴۳)
جبکہ اس میں حفظِ ہدایت ہو، صحیح حدیث ہے نبی ﷺفرماتے ہیں:
لان یھدی اﷲبک رجلا خیر لک مما طلعت علیک شمس و غربت۔
واﷲتعالیٰ اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔ تیری وجہ سے کسی ایک کا ہدایت پاجانا ہر اس شئی سے بہتر ہے جس پر طلوعِ آفتاب ہو۔
واﷲتعالیٰ اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
(الجامع الصغیر مع فیض القدیر( ۵:۲۵۹) دارالمعرفۃبیروت
(فتاوی رضویہ از امام احمدرضاخان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ( ۱۰:۳۰۵)
اب غورکریں سیدی امام اہل سنت امام احمدرضاخان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کیافرماتے ہیں کہ گیارہویں کالنگرشریف بناکر لوگوں کے کھلانے کاثواب دس گنا ہے جبکہ حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کی گیارہویں شریف کے پیسوں سے دینی طلبہ کی خدمت کرنے سے سات سو گناتک ثواب کی امید ہے ۔
جو ہر ہر بات پر نیکیوں کاحساب لگاتے ہیں کہ فلاں نیک کام کرنے سے اتناثواب ملتاہے ان کو یہ سمجھ کیوں نہیں آتی کہ زیادہ ثواب کہاں ہے ؟
حضور صدرالشریعہ مولاناامجد علی اعظمی کانظریہ
سوال :اکثرلوگ اپنی آمدنی کاکچھ حصہ گیارہویں شریف کے نام کاجمع کرتے ہیں ، یعنی اگرایک روپیہ خرچ کیاتو ایک پیسہ یادوعلی ھذاالقیاس گیارہویں شریف کے نام پر جمع کرتے ہیں ، اورربیع الثانی شریف میں فاتحہ کرتے ہیں ، اگراس رقم سے کوئی دوسراکارخیر انجام دے دیاجائے ،مثلاکسی بھوکے غریب کو کھاناکھلادیاجائے ،یاکسی غریب رشتہ دار کو کپڑاپہنادیاجائے ،یاکسی غریب عزیز ہمسائے کی لڑکی کی شادی میں براتیوں کو کھانادے دیاجائے یالڑکی کو کپڑاپہنادیاجائے ، آیاکہ یہ کارخیر اس گیارہویں شریف کے نام کی رقم سے انجام دیناجائز ہیں یانہیں ؟زید نے کہاکہ میں یہ جانور مرغ یابکری وغیرہ بیچ کر اس رقم سے فا تحہ کروں گا، اس کو مذکورہ بالاباتوں کااختیارہے یانہیں ؟ وہ بجائے فاتحہ کے کوئی دوسراکام انجام دے سکتاہے یانہیں ؟
الجواب :گیارہویں شریف کی نیاز ایصال ثواب کے لئے ہے ، اوریہ کام بھی ثواب کے ہیں ، اوران کاموں میں صرف کرے اوراس کاثواب حضرت سیدناغوث اعظم رضی اللہ عنہ کو نذرکرے اوربہتریہ ہے کہ حسب دستور فاتحہ بھی پڑھے،کہ قرآن کریم اوردرود شریف پڑھنے کاثواب بھی ملے ،اس کو بھی حضرت سیدناغوث اعظم رضی اللہ عنہ کی نذرکرے ، مرغ یابکری کی قیمت بھی ان امور خیر میں صرف کرکے ثواب پہنچائے۔
(فتاوی امجدیہ از مولاناامجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ( ۱: ۳۴۳)
گیارہویں شریف کامقصدکیاہے ؟
دوسرافتوی
یہاں پر ہر ماہ مسلمانوں کی گیارہویں شریف پر بطور نیاز کھاناپکتاہے ، اورنیاز کاہر دکان پر مقررہ چندہ تسلیم کیاگیاہے ، اورکھانے میں تمام اہل تجارت ہندی مسلمان جمع ہوتے ہیں ، ہندوستان کی طرح اس ملک میں (افریقہ) مساکین اورفقراء نہیں ہیں ، اگراس کھانے کو موقوف کرکے اکٹھاکیاجائے توسالانہ ایک معقول رقم بن جاتی ہے ، اس رقم کو دوسرے ضروری اسلامی کاموں میںلاسکتے ہیں یانہیں ؟ جو یہاں کی ملکی حالت کے پیش نظرلازمی ہیں، جو اس ملک کے اصلی افریقی مسلمان ہیں اورنماز روزہ بھی اکثراداکرتے ہیں ، لیکن تعلیم سے بالکل ناواقف ہیں ، اوراس ملک کے عیسائی بڑے زورشور سے اپنے مذہب کی تبلیغ واشاعت کرتے ہیں ، جنگلات میں جگہ جگہ عیسائی کنیساقائم کردئیے ہیں اورجنگلی افریقیوں کو عیسائی مذہب میں داخل کرتے ہیں ، حالانکہ اسلام بھی اپنی خوبیوں کی وجہ سے آہستہ آہستہ پھیلتارہاہے ،لیکن ہمارے غریب مسلم افریقیوں کے لئے مذہبی تعلیم کاکوئی ذریعہ نہیں ہے ،نہ وہ مذہبی فرائض مکمل طور پرسمجھتے ہیں اورنہ ہی اداکرتے ہیں ، اب ان لوگوں کی تعلیم وتربیت اورتبلیغ واشاعت اسلام کے لئے ایک مدرسہ کی اشد ضرورت محسوس ہورہی ہے ،اورفی الحال ہندی بیوپاری عمارت مدرسہ اورمعلم اورمدرس کاخرچ برداشت کرنے کے لئے تیارنہیں ہیں،کیونکہ تجارت کاحال بہت خراب ہے ،ایسی صورت میں گیارہویں کاکھاناموقوف کرکے اس کی رقم مذکورہ کارخیر میں خرچ کرناجائز ہے یانہیں ؟
اوراسی طرح زید نے غوث پاک رضی اللہ عنہ کی نیاز مانی ہواورکھاناکھلانے کی نیت بھی کی توکیازید بغیر کھاناپکائے قیمت نیاز اداکرسکتاہے ،اس کااستعمال تعلیم واشاعت میں ہوسکتاہے اورموسومہ فنڈ میںقیمت دینے پر مقبولیت حاصل ہوگی یانہیں ؟
الجواب :گیارہویں شریف کی نیاز ایصال ثواب کے لئے ہے کہ شیرینی یاکھانے پر سورت فاتحہ یاقل شریف پڑھ کراوردرود شریف پڑھ کرسب کاثواب حضورغوث اعظم رضی اللہ عنہ کے حضور نذرکرتے ہیں ۔ یہ نذرکچھ کھانے اورشیرینی کے ساتھ ہی خاص نہیں کہ اس کے سواہونہ سکے ، بلکہ وہ رقم کسی دوسرے کارخیر میں صرف کی جائے اوراس کاثواب نذرکیاجائے تویہ بھی جائز ہے ، کہ مذہب اہل سنت میں ہر عمل خیر کاثواب احیاء واموات کو پہنچایاجاسکتاہے ،اس کی وجہ سے اپنے ثواب میں کوئی کمی نہیں آتی ،بلکہ اورزیادتی ہوجاتی ہے ۔
اورجب کہ مدرسہ کی ضرورت ہے اوراس کے لئے سرمایہ فراہم نہیں ہوسکتاتورقم مدرسہ میں صرف کی جائے ، اوراس ثواب کو حضور سیدناالشیخ الامام عبدالقادرالجیلانی رضی اللہ عنہ کے حضور نذرکریں ،یونہی فقراء اورمساکین کے علاج یامسلمان میت لاوارث کی تجہیز وتکفین میں صرف کرسکتے ہیں یاتبلیغ واشاعت اسلام میں اس رقم سے امداد کرسکتے ہیں اورجب یہ کام حضور سیدناالشیخ الامام عبدالقادرالجیلانی رضی اللہ عنہ کے ایصال ثواب کے لئے کیاتو گیارہویں کامقصد حاصل ہوگیا،اوردیتے وقت درود شریف اورفاتحہ وقل شریف وغیرہ پڑھ کرحسب دستورایصال ثواب کرلیں توزیادہ بہتر ہے ،اس رقم سے جو کارخیرکیاجائے اسے حضور سیدناالامام الجیلانی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کردیاجائے ،مثلامدرسہ قادریہ یانذرقادری تاکہ لوگوں کو معلوم بھی ہوکہ یہ شئی حضور سیدناالشیخ الجیلانی رضی اللہ عنہ کے ایصال ثواب کے لئے ہے اورعلاوہ اس رقم کثیر کے جواس نام سے جمع ہوتی ہے اگرحسب استطاعت دوچارآنہ یاکم وبیش کی حسب دستورفاتحہ ہوجایاکرے تونہایت ہی انسب ( زیادہ مناسب) ہے کیونکہ اس میں وہابیت کی بیخ کنی بھی ہے اورعوام یہ نہ سمجھیں کہ گیارہویں بندہوگئی اوربڑی رقم امور مذکورہ بالامیں صرف ہو۔
(فتاوی امجدیہ از مولاناامجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ( ۱: ۳۴۵)ملتقطا)
حضور شرف ملت عبدالحکیم شرف قادری فرماتے ہیں
کیایہ المیہ نہیں ہے کہ ہم صرف سیدناالشیخ الامام عبدالقادرالجیلانی رضی اللہ عنہ کی کرامات بیان کرتے ہیں ،ہم نے ان کی شخصیت پر کرامات کااتنادبیز غلاف چڑھارکھاہے کہ ہمیں آپ کی عبادت وریاضت ،اتباع شریعت ،حق گوئی اوربے باکی ،دینی وروحانی اورعلمی خدمات کی طرف توجہ کرنے اوربیان کرنے کاموقع ہی نہیں ملتا، ہم نے صرف تبرکات کے کھانے اورکھلانے کی طرف توجہ مبذول کررکھی ہے ،ہمیں غوث پاک رضی اللہ عنہ کے مزارکاایک ٹکڑامل جائے تو ہم اسے کافی سمجھنے لگ جاتے ہیں ،ہم کیوں نہیں سوچتے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے علماء کرام تیارکئے ، اوراولیاء اورمصلحین کی جماعتیں تیارکیں ، اورآپ رضی اللہ عنہ نے مجاہدین تیارکئے ، جبکہ آج ہم جہاد کانام لینے سے گھبراتے ہیں ۔
(ماہنامہ العاقب اپریل ۲۰۱۰)مطبوعہ لاہور
خواجہ قمرالدین سیالوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کاعمل
حضرت خواجہ قمرالدین سیالوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں :میری کوشش ہوتی ہے کہ گیارہویں شریف کانذرانہ حضورغوث پاک رضی اللہ عنہ کی اولادمیںسے کسی فرزندکودوں ۔اسی ضمن میں خواجہ صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ آستانہ پاک اور دارالعلوم کے طلبہ میں سے سادات کرام کو گیارہ گیارہ یااکیس اکیس روپے بطور نذرگیارہویں شریف دیاکرتے تھے ۔
(قمر ِ منور ص۳۲۶)مطبوعہ سیال شریف خانقاہ پنجاب پاکستان )
کیاگیارہویں صرف کھانے کانام ہے ؟
جناب قبلہ پیر سید خورشید شاہ صاحب حفظہ اللہ تعالی سے جب فقیرکی ملاقات ہوئی توآپ نے فرمایا: کراچی میںایک مولاناصاحب نے دوتین ہفتے اعلان کیاکہ کتب کی ضرورت ہے اہل خیر حضرات تعاون کریں ،توکسی نے ایک روپیہ نہیں دیا،کچھ دنوں کے بعد اعلان کیاگیاکہ گیارہویں شریف کے لئے چندہ دیں تو چالیس ہزارروپیہ جمع ہوگیا۔
حضور سیدناخواجہ عالم رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں
بھوکے اوردرویش کو کھاناکھلاناثواب کاکام ہے، مروجہ ختموں کاکھانابالعموم رئوساء اوربڑے لوگوں کے لئے تیارکیاجاتاہے ، محض ختم کاکھانارکھنے سے ثواب کی روح پیدانہیں ہوتی ، مستحقین اگرمیسرآجائیں تو ضروران کو کھاناکھلائیں ،جب گنجائش ہوتوایصال ثواب کے لئے کھاناکھلائیں ، اللہ تعالی اجرعطافرمائے گا، بہتریہ ہے کہ تیجا،دسواں اورچالیسواں وغیرہ تقریبات پر اٹھنے والے اخراجات کاتخمینہ لگائیں اورتاریخ مقررکرکے قرآن خوانی کروائیں ،جن میں طلبہ اورعلماء کرام شامل ہوں ،پھرعلماء اورطلبہ اورمساکین جومیسرآسکیں ان کو اچھاکھاناکھلائیں ،باقی رقم کسی مسجد شریف یاکسی مدرسہ یاکسی کارخیر میں ثواب کی نیت سے دے دیں ۔ ہمارے نزدیک یہی بہتر اورشائستہ طریقہ ہے ۔
(ارمغان طریقت از مفتی محمدعلیم الدین نقشبندی : ۴۸) مطبوعہ خانقاہ سلطانیہ جہلم پاکستان )
مفتی علیم الدین نقشبندی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں کہ
گیارہویں شریف کی نیاز اکثرپکاکرتقسیم کی جاتی ہے ،حضرت سیدناخواجہ عالم محمدصادق صاحب نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے تھے کہ اس سے بہترہے کہ یہ رقم کسی مسجد شریف یاکسی مکتب پر صرف کی جائے ، یادینی مدارس کے طلبہ کی تعلیمی ضروریات پر خرچ کی جائے ، اس طرح یہ صدقہ جاریہ ایصال ثواب کاذریعہ ہوجائے گا۔
( ذکر صادق از مفتی محمدعلیم الدین نقشبندی : ۶۸) مطبوعہ خانقاہ سلطانیہ جہلم پاکستان