زکوٰۃ فطرہ کی رقم مسجد میں لگانے کا حکم

زکوٰۃ فطرہ کی رقم مسجد میں لگانے کا حکم

حضرت مفتی صاحب قبلہ

السلام عليكم و رحمۃاللہ وبرکاتہ

آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ زکوۃ وفطرہ کی رقم بلا ضرورت حیلہ شرعی کرکے مسجد ومدرسے میں خرچ کی جاسکتی ہے، خصوصاً اس صورت میں کہ مسجد ومدرسہ میں کام بھر کا پیسہ بیلنس میں رکھا تو کیا ایسی صورت میں حیلہ شرعی کرکے اس پیسے کو مسجد کے لیے رکھ سکتے ہیں؟

المستفتی

سعید احمد علیمی نظامی

شاہ پور ڈومریا گنج


الجواب :

         کارِ خیر کے لیے حیلہ شرعیہ کرنا جائز ہے، لیکن مقاصدِ شرع کا لحاظ بھی ضروری ہے، اس لیے اگر مسجد ومدرسہ کو بروقت یا کسی منصوبہ کے لیے مستقبل میں رقم کی ضرورت نہیں ہے تو زکاة اور فطرہ کی رقم کا حیلہ شرعیہ کرکے اس کے لیے محفوظ رکھنا مقاصدِ شرع سے دور جانا ہے، جس سے احتراز چاہیے، ہماری نظر اس طرف ہونی چاہیے کہ شرع نے زکاة وصدقاتِ واجبہ کو محتاجوں کی حاجت روائی کے لیے بنایا ہے، اس لیے وہی صورت اپنائی جانی چاہیے جس سے واقعتاً محتاجوں کی حاجت پوری ہو اور مسجد وغیرہ کی تعمیر ومرمت کے لیے اگر ضرورت درپیش نہ ہو تو حیلہ شرعیہ سے بچنا بہتر ہے۔ اعلی حضرت علیہ الرحمہ اپنے مالِ زکاة کا حیلہ کرکے خود استعمال کرنے کی قباحت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

      "اور یہ تو پہلے بیان میں آچکا کہ اغنیاء کثیر المال شکر نعمت بجا لائیں ۔ ہزاروں روپے فضول خواہش یا دنیوی آسائش یا ظاہر آرائش میں اُٹھانے والے مصارف خیر میں ان حیلوں کی آڑ نہ لیں۔ متوسط الحال بھی ایسی ہی ضرورتوں کی غرض سے خالص خدا ہی کے کام صرف کرنے کے لیے ان طریقوں پر اقدام کریں، نہ یہ کہ معاذ ﷲاُن کے ذریعہ سے ادا ئے زکوٰۃ کانام کرکے روپیہ اپنے خُرد بُرد میں لائیں کہ یہ امر مقاصدِ شرع کے بالکل خلاف اور اس میں ایجابِ زکوٰۃ کی حکمتوں کا یکسر ابطال ہے”

(فتاوی رضویہ ج۴ ص٣٩٦ )

اس اقتباس سے واضح ہے کہ ایسے طریقے اختیار کرنے سے احتراز مطلوب ہے جو مقصودِ شرع سے دور کرے۔

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس و افتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔

٣/ذو القعدہ ١۴۴٢ھ//١۵/جون٢٠٢١ھ

صدقہٓ جاریہ کی نیت سے اپنے دوست و احباب کو بھی شئر کریں

2 thoughts on “زکوٰۃ فطرہ کی رقم مسجد میں لگانے کا حکم”

Leave a Reply