کسی کی زبان سے بے اختیاری میں اللہ پاک کی ذات کو گالی نکل جائے تو کیا حکم ہے ؟

اگر کسی شادی شدہ انسان کی زبان سے بے اختیاری میں اللہ پاک کی ذات کو گالی نکل جائے تو کیا حکم ہے ؟

سائل : خلیل الرحمٰن بہاولنگر

الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اگر بے اختیاری سے (یعنی غلطی سے) شادی شدہ شخص کی زبان سے اللہ پاک کی ذات کے لئے معاذاللہ گالی نکل گئی، یعنی کہنا کچھ اور چاہتا تھا لیکن زبان سے گالی نکل گئی تو اس سے کافر نہیں ہوگا مگر اس پر لازم ہے کہ اس سے رجوع اور نفرت کا اظہار کرے اور توبہ و اِسْتِغْفار کرے تاکہ سننے والوں کو معلوم ہوجائے کہ غلطی سے اس کی زبان سے گالی نکلی ہے اور اگر اُس نے اِس گالی سے رجوع اور نفرت کا اظہار نہ کیا بلکہ اس پر اڑا رہا تو پھر کافر ہوجائے گا کیونکہ ایسی صورت میں یہ کلمہ کفر کی تائید (حمایت) کرنے والا ہو گیا ہے۔
چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے :
"الخاطئ إذا أجرى على لسانه كلمة الكفر خطأً بأن كان يريد أن يتكلم بما ليس بكفر فجرى على لسانه كلمة الكفر خطأً لم يكن ذلك كفرًا عند الكل، كذا في فتاوى قاضي خان ۔ "
یعنی وہ خاطی جس نے اپنی زبان پر کلمہ کفر جاری کر دیا بطورِ خطا کے اس طور پر کہ اس کلمے کے ساتھ کلام کرنا چاہتا تھا جو کفر نہیں تھا مگر بطورِ خطا کے زبان پر کلمہ کفر جاری کردیا تو یہ تمام کے نزدیک کفر نہیں ہے، ایسے ہی فتاوی قاضی خان میں ہے۔
(فتاوى عالمگیری جلد 2 صفحہ 276)
فتاوی تتارخانیہ میں ہے:
"و ما كان خطأ من الألفاظ، لاتوجب الكفر، فقائله مؤمن علی حاله، و لايؤمر بتجديد النكاح، و لكن يؤمر بالإستغفار و الرجوع عن ذلك”
یعنی اور جو (کفریہ) الفاظ غلطی سے صادر ہوں تو کفر کو ثابت نہیں کریں گے پس ان کا قائل اپنی (سابقہ) حالت پر مؤمن ہوگا اور اور لیکن استغفار اور اس سے رجوع کا حکم دیا جائے گا۔

(فتاوی تتارخانیہ، كتاب أحكام المرتدين، الفصل الأول، جلد 7 صفحہ 284 زكريا)

عمدۃ المحققین علامہ محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین دمشقی شامی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"و من تكلم بها مخطئاً أو مكرهاً لايكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامداً عالماً كفر عند الكل، و من تكلم بها اختياراً جاهلاً بأنها كفر ففيه اختلاف”
یعنی جس نے غلطی یا مجبور ہو کر کلمہ کفر کے ساتھ تکَلُّم کیا تو تمام کے نزدیک اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی، اور جس نے جان بوجھ کر کلمہ کفر کے ساتھ تکلم کیا یہ جانتے ہوئے کہ یہ کلمہ کفر ہے تو تمام کے نزدیک اس کی تکفیر کی جائے گی، اور جس نے اختیار سے کلمہ کفر کے ساتھ تکلم کیا یہ نہ جانتے ہوئے کہ یہ کلمہ کفر ہے تو اس میں اختلاف ہے ۔

(ردالمحتار علی الدالمختار، کتاب الجھاد، باب المرتد، مطلب : مایشک انہ ردۃ لا یحکم بھا، جلد 6، صفحہ 346 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے تھے :
"کہنا کچھ چاہتا تھا اور زبان سے کفر کی بات نکل گئی تو کافر نہ ہوا یعنی جبکہ اس امر سے اظہار نفرت کرے کہ سننے والوں کو بھی معلوم ہو جائے کہ غلطی سے یہ لفظ نکلا ہے اور اگر بات کی پَچْ کی (یعنی اگر کی ہوئی بات پر اڑا رہا) تو اب کافر ہو گیا کہ کفر کی تائید کرتا ہے ۔”
(بہارِ شریعت جلد دوم حصہ نہم صفحہ 174 مکتبۃ المدینہ کراچی)

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی الله عليه وآلہ وسلم

کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی

Leave a Reply