یزید نام رکھنا کیسا ہے ؟ از مفتی محمد نظام الدین قادری
السلامُ علیکم و رحمۃ اللّٰہ
سوال نمبر 1 ) یزید نام رکھنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ بحوالہ جواب عنایت فرمائیں ۔
سوال نمبر 2) ووٹ کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ اور خاص طور پر ہمارے بہار میں جس طرح ووٹ دیتے اور لیتے ہیں اُس پر شریعت کا کیا حکم ہے ؟ نا چیز محمّد نیّر عالم لدھیانہ پنجاب۔
الجواب:
اس میں شک نہیں کہ بر صغیر ہند و پاک کے مسلمان یزید نام رکھنا ناپسند رکھتے ہیں اور شریعت طاہرہ بلا ضرورت شرعیہ اس چیز کو پسندیدہ قرار نہیں دیتی ہے جس سے مسلمان تنفر کرتے ہوں۔
جس پر انگشت نمائی ہو، انگلیاں اٹھیں۔حدیث شریف ہے: ” بشروا ولا تنفروا” ( صحیح البخاری باب ماکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم يتخولہم من المواعظ)
یزید کے پلید کارنامے کسے معلوم نہیں؟ امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
"یزید پلید علیہ مایستحقہ من العزیز المجید قطعا یقینا باجماع اہلسنت فاسق وفاجر، وجری علی الکبائر تھا، اس قدر پر ائمہ اہل سنت کا اطباق واتفاق ہے، صرف اس کی تکفیر ولعن میں اختلاف فرمایا۔ امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے اتباع وموافقین اسے کافر کہتے اور بہ تخصیصِ نام اس پر لعن کرتے ہیں۔ اور اس آیتِ کریمہ سے اس پر سند لاتے ہیں:”فہل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض وتقطعوا ارحامکم اولئک الذین لعنہم ﷲ فاصمہم واعمی ابصارھم (کیا قریب ہے کہ اگر والی ملک ہو تو زمین میں فساد کرو اور اپنے نسبی رشتہ کاٹ دو، یہ ہیں وہ لوگ جن پر اللہ تعالٰی نے لعنت فرمائی تو انھیں بہرا کردیا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں۔ ( القرآن الکریم ۴۷/ ۲۳۔ ۲۲)
شک نہیں کہ یزید نے والی ملک ہو کر زمین میں فساد پھیلایا، حرمین طیبین وخود کعبہ معظمہ وروضہ طیبہ کی سخت بے حرمتیاں کیں، مسجدِ کریم میں گھوڑے باندھے، ان کی لید اورپیشاب منبر اطہر پر پڑے، تین دن مسجد نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بے اذان ونماز رہی،مکہ ومدینہ وحجاز میں ہزاروں صحابہ تابعین بے گناہ شہید کئے، کعبہ معظمہ پر پتھر پھینکے، غلاف شریف پھاڑا اور جلایا۔ مدینہ طیبہ کی پاکدامن پارسائیں تین شبانہ روز اپنے خبیث لشکر پر حلال کردیں، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جگر پارے کو تین دن بے آب ودانہ رکھ کر مع ہمراہیوں کے تیغ ظلم سے پیاسا ذبح کیا، مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے گو دکے پالے ہوئے تنِ نازنین پر بعدِ شہادت گھوڑے دوڑائے گئے کہ تمام استخوانِ مبارک چور ہوگئے، سرانور کہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا بوسہ گاہ تھا کاٹ کر نیزہ پر چڑھایا اور منزلوں پھرایا۔ حرم محترم مخدّرات مشکوئے رسالت قید کئے گئے اور بے حرمتی کے ساتھ اس خبیث کے دربار میں لائے گئے، اس سے بڑھ کر قطعِ رحم اور زمین میں فساد کیا ہوگا،ملعون ہے وہ جو ان ملعون حرکات کو فسق وفجور نہ جانے،قرآن عظیم میں صراحۃً اس پر”لعنہم اللہ” فرمایا۔ لہذا مام احمد اور ان کے موافقین ان پر لعنت فرماتے ہیں۔
اور ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے لعن وتکفیر سے احتیاطاً سکوت فرمایا کہ ا س سے فسق وفجور متواتر ہیں کفر متواتر نہیں، اور بحالِ احتمال نسبتِ کبیرہ بھی جائز نہیں نہ کہ تکفیر اور امثال وعیدات مشروط بعدم توبہ ہیں لقولہ تعالٰی: "فسوف یلقون غیا الامن تاب"۔ اورتوبہ تادمِ غرغرہ مقبول ہے اور اس کے عدم پر جزم نہیں اور یہی احوط واسلم ہے، مگر اس کے فسق وفجور سے انکار کرنا اور امام مظلوم پر الزام رکھنا ضروریاتِ مذہبِ اہلِ سنت کے خلاف ہے اور ضلالت و بدمذہبی صاف ہے، بلکہ انصافا یہ اس قلب سے متصور نہیں جس میں محبتِ سیدِ عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا شمّہ ہو۔”
(فتاوی رضویہ ج٦ ص١٠٧ ، ١٠٨ باضافہ مابین الہلالین)
غالباْ مذکورہ بالا ناپاک کارناموں کے باعث برِّ صغیر کے مسلمان یہ نام نہیں رکھتے۔یہاں تک کہ یہاں کے وہ گمراہ اور بد مذہب لوگ جو یزید کو اپنی محفلوں میں امیر المومنین اور دیگر کلماتِ تکریم و اعزاز سے یاد کرتے ہیں وہ بھی اپنے بچوں کا نام یزید رکھنے کی ہمت وجسارت نہیں کرپاتے۔اور کسی خطہ ودیار کے عام مسلمان جس چیز سے متنفر ہوں اس سے ضرور ضرور بچنا ہی چاہیے۔اس کی نظیر یہ ہے کہ خاکروب(بھنگی) کے ہاتھ کی چیز یہاں کے لوگ کھانا لوگ ناپسند رکھتے ہیں تو اس سے بچنا پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
"اور خشک چیز (بھنگی کے)خشک ہاتھ یا کپڑے میں لینے سے ناپاک نہ ہوگی مگر بھنگی کی چھُوئی ہوئی چیز سے لوگ تنفر کرتے ہیں لہذا اُس سے بچنا چاہئے۔ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں: بشروا ولاتنفروا” ( صحیح البخاری باب ماکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم يتخولہم من المواعظ) (فتاوی رضویہ ج٢ ص٣٨ باضافہ مابین الاھلہ) واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
(٢) ووٹ دینا ناجائز وحرام نہیں ہے۔ ہاں! اگر کسی خاص صورت میں کوئی محظورِ شرعی لازم ہو تو بچنے کا حکم ہوگا۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
کتبہ: مفتی محمد نظام الدین قادری، خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔
١١/ربیع الاول شریف ١۴۴٣ھ//١٨/اکتوبر ٢٠٢١ء
اگر اعلی حضرت کو اتنا علم تھا اور آجکل کے چند بازاری مُلاّوں کے پاس بھی اتنا علم ہے تو آج تک کوئی ڈنکے کی چوٹ پر کیوں نہیں کہہ سکا کہ یزید رض ہی قاتلِ امام حسین رض ہیں۔۔
یہ تمام شیعوں (سابقہ اہلِ کوفہ) اور چند 2 نمبر مولوی حضرات کی بنائی ہوئی من گھڑت کہانیاں ہیں حضرت ۔
کتنے ہی صحابہ کرام ہیں جن کے یزید نام ہیں
کتنے تابعی ، تبا تابعی اور علماء حضرات ہیں جن کے یزید نام ہیں۔۔
امام حسین کے قتل میں صرف اور صرف کوفیوں کا ہاتھ ہے ۔جو آج تک اور قیامت تک محرم کے ماہ میں جسمانی ریمانڈ میں رہیں گے۔۔
میری آپ سے گزارش ہے کہ اگر کوئی مسند حوالہ ہے آپ کے پاس تو برائے مہربانی میرے علم میں اضافہ فرمائیں۔۔۔