کسی وارث کی غیر موجودگی میں دیگر وارثوں کے باہم جائیداد تقسیم کرنے کا حکم

کسی وارث کی غیر موجودگی میں دیگر وارثوں کے باہم جائیداد تقسیم کرنے کا حکم

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ میں کہ:
والدین کا انتقال ہوا ایک مکان، ایک دکان اور ١٨/ایکڑ کھیت چھوڑ گیے ۔ ورثہ میں چار لڑکے اور تین لڑکیاں چھوڑ گیے۔ چند سال بعد خاندان کے چند افراد کی موجودگی میں گھر اور دکان کی غیر شرعی تقسیم اس طرح ہوئی کہ بہنوں کو کچھ بھی حصہ نہیں دیا گیا۔ دو بھائیوں نے مکان میں آدھا ادھا حصہ لے لیا اور ایک بھائی نے دکان لے لی۔ دکان کی قیمت زیادہ تھی اس لیے اپنے بڑے بھائی کو(جس کو مکان نہیں ملا تھا) پچہتر ہزار روپیے، اور جن کو مکان ملا تھا ان کو مزید پچیس پچیس ہزار دیے۔ اس طرح تقسیم عمل میں آئی۔اس فیصلہ کو دس سال سے زائد وقت گزر گیا ہے اب وہ بھائی جس نے دکان لی تھی اپنی بہنوں کو حصہ دے کر شرعی مواخذہ سے محفوظ ہونا چاہتا ہے۔ اپنی طرح سے بہنوں کا حصہ ادا کرنا چاہتا ہے اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ وہ دکان ومکان کی آج کی قیمت کا اعتبار کرے گا یا اس وقت کی قیمت کا اعتبار کرے گا؟

المستفتی: غلام یزدانی (رائچور، کرناٹک)

الجواب: اللہم ہدایة الحق والصواب

وراثت کے مال میں تمام شرعی وارثوں کی ملکیت مشترکہ طور پر ثابت ہوتی ہے اور جب تک شرعی طور پر صحیح اور نافذ تقسیم نہ ہوجائے اس وقت تک مال موروث کے کسی معین جز یا حصہ میں کسی خاص وارث کی تنہا ملکیت ثابت نہیں ہوتی ہے، بلکہ ہر چھوٹے سے چھوٹے ذرہ یا ٹکڑے میں مشترکہ طور پر سب مالک ہوتے ہیں۔اب یہاں یہ امر تنقیح طلب ہے کہ کس طرح کی تقسیم پورے طور پر صحیح اور نافذ ہوتی ہے جس کے ذریعہ وارثین کی ملکیت شیوع اور اشتراک کی بجائے کسی خاص جز یا معین حصہ میں ثابت ہوجاتی ہے تو کتبِ فقہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی دو صورتیں فقہائے کرام نے ذکر کی ہیں:

(١)پہلی صورت: اسلامی حاکم کی طرف سے مقرّر تقسیم کرنے والے کی وہ تقسیم، جس کا دو یا چند وارثین مطالبہ کریں اور مُورِث کی موت نیز مع الحصر اس مورث کے وارثین کی تعداد ثابت بھی کردیں۔ اس صورت میں اگر کوئی وارث یا اس کا وکیل یا نابالغ وارث کا وصی حاضر نہ ہو تو اس کا کوئی قائم مقام بناکر اُس قائم مقام کی موجودگی میں تقسیم کردی جاتی ہے۔حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:

” مسئلہ ١۴:جائداد غیر منقولہ کے متعلق (کچھ لوگ) یہ کہتے ہیں کہ یہ ہم کو وراثت میں ملی ہے، تو تقسیم اُس وقت کی جائے گی جب لوگ یہ ثابت کر دیں کہ مورِث مرگیا اور اُس کے ورثہ ہم ہی ہیں، ہمارے سوا کوئی دوسرا وارث نہیں ہے۔ یوں ہی اگر کسی جائداد غیر منقولہ کی نسبت چند شخص یہ کہتے ہیں کہ ہمارے قبضہ میں ہے اور تقسیم کرانا چاہتے ہیں تو تقسیم نہیں کی جائے گی جب تک یہ ثابت نہ کردیں کہ وہ جائداد اُنھیں کی ہے۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ان کے قبضہ میں ہونا بطور عاریت و اِجارہ ہو۔ (در مختار)

مسئلہ ۱۵: شرکاء نے مورِث کی موت اور ورثہ کی تعداد کو ثابت کر دیا مگر ان وارثوں میں کوئی نابالغ بھی ہے یا کوئی وارث موجود نہیں ہے غائب ہے تو کسی شخص کو اس نابالغ یا غائب کے قائم مقام کیا جائے گا جو نابالغ کے لیے وصی اور غائب کی طرف سے وکیل ہوگا اس کی موجودگی میں تقسیم ہوگی۔ (درمختار)

مسئلہ ١٦: ایک وارث تنہا حاضر ہوتا ہے اور موتِ مُورِث کو ثابت کرنا چاہتا ہے تو اس کے کہنے پر تقسیم نہیں ہوسکتی جب تک کم از کم دو شخص نہ ہوں اگرچہ ان میں ایک نابالغ ہو یا موصی لہ ہو۔”(بہار شریعت حصہ ١۵ ص٢٦٧)

(٢) دوسری صورت: تمام ورثہ کا باہمی رضامندی سے تقسیم کرلینا۔ حضور صدر الشریعہ علامہ مفتی محمد امجد علی رحمہ اللہ القوی تحریر فرماتے ہیں:

"شرکا نے باہم رضامندی کے ساتھ خود ہی تقسیم کرلی یہ تقسیم صحیح و لازم ہے۔ ہاں اگر ان میں کوئی نابالغ یامجنون ہے جس کا کوئی قائم مقام نہ ہو یا کوئی شریک غائب ہے اور اس کا کوئی وکیل بھی نہیں ہے جس کی موجودگی میں تقسیم ہو تو یہ اُس وقت لازم ہوگی کہ قاضی اسے جائز کر دے یا وہ غائب حاضر ہو کر یا نابالغ بالغ ہو کر یا اُس کا ولی اس تقسیم کو جائز کر یہ تمام اَحکام اُس وقت ہیں کہ میراث میں ان کی شرکت ہو۔”(بہار شریعت ح١۵ ص٢٦٦ )
اب صورتِ مسئولہ میں یہ واضح ہے کہ خاندان کے بعض افراد کے ذریعہ کی گئی مذکورہ بالا تقسیم صحیح اور نافذ نہیں ہے، کیوں کہ یہ تقسیم شرعی طور پر وراثت کی حقدار بیٹیوں کی موجودگی اور رضامندی کے بغیر ہوئی ہے۔اس لیے میت کی چھوڑی ہوئی پراپرٹی دکان مکان کھیت وغیرہ میں شرعی طور پر ابھی بھی مشترکہ طور پر بیٹیوں کی ملکیت ثابت ہے۔ اس لیے اگر اتنے ہی وارث ہیں جتنے سوال میں مذکور ہیں تو دکان مکان اور کھیت وغیرہ ہر چیز کے گیارہ گیارہ حصے کیے جائیں گے جن میں دو دو حصہ ہر لڑکے کو اور ایک ایک حصہ ہر لڑکی کو ملے گا۔حضرت علامہ علاو الدین حصکفی رحمہ اللہ القوی تحریر فرماتے ہیں:
"(دُورٌ مُشْتَرَكَةٌ ، أَوْ دَارٌ وَضيعَةٌ ، أَوْ دَارٌ وَحَانُوتٌ قُسِمَ كُلٌّ وَحْدَهَا) مُنْفَرِدَةً مُطْلَقًا وَلَوْ مُتَلَازِقَةً أَوْ فِي مَحَلَّتَيْنِ أَوْ مِصْرَيْنِ” (در مختار: کتاب القسمة)

ہم یہاں امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے مجموعہ فتاوی سے اسی سوال سے کافی حد تک ملتا جلتا ایک سوال اور اس کا جواب نقل کرتے ہیں جس سے صورتِ مسئولہ کا حکم بالکل واضح ہوجائے گا۔اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے درج ذیل سوال کیا گیا:

"مسمی اکبر نے انتقال کیا،چار پسر: دوست محمد، حفیظ اللہ، کریم اللہ، رحمت اللہ، دو دختر: جواں، موتی وارث ہوئے، کریم اللہ نے وفات پائی ، اس کا بیٹا ننھو ہے۔ رحمت اللہ فوت ہوا، اس کی بیٹیاں اعجوبہ ومحمدی ہیں، دوست محمد، حفیظ اللہ، ننھو نے جائداد متروکہ مشترکہ کی تقسیم کے لئے زید کوپنچ مقر رکیا، مگر جوان موتٰی عجوبہ، محمدی اس پنچایت میں اصلا شامل نہ تھیں، پنچ نے تمام جائداد متروکہ جس میں ان سب کے حصص شرعیہ تھے، صرف انھیں تین وارثوں پر جنھوں نے اسے پنچ کیا تھا تقسیم کردی، اور پنچایت نامہ میں لکھ دیا کہ”حصہ شرعی دختران اکبر اور دختران رحمت اللہ کے ہر سہ فریق بقدر رسدی ذمہ دار ودیندار رہیں گے”، وہ چاروں عورتیں اس تقسیم پر راضی نہیں، اس صورت میں یہ پنچایت صحیح ونافذ ہے یانہیں؟ اور پنچ نے جو تقسیم کی وہ بحال رہے گی یا توڑ دی جائے گی؟

تو اعلی حضرت علیہ الرحمہ اس سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
یہ پنچایت محض مہمل اور تقسیم بیہودہ ومختل ہے۔ پنچ کو باقی وارثوں کے حصص میں تصرف کا کس نے اختیار دیا تھا؟ حُکم پنچ کا صرف انھیں تک ہوتاہے جو اسے پنچ کریں، باقی کسی پر کچھ ولایت نہیں رکھتا، ہدایہ میں ہے : "حکمہ لایلزمہ لعدم التحکیم منہ”
تقسیم کے معنی یہ ہیں کہ حصے جدا جدا ہوجائیں، یہاں جدائی نہ ہوئی کہ چاروں عورتوں کے حصے سب میں مختلط ہیں، تو یہ تقسیم شرعاً تقسیم نہیں ۔ ہدایہ میں ہے : "باستحقاق بعض شائع ظہر شریک ثالث لہما والقسمۃ بدون رضاہ باطلۃ”
اسی میں ہے :باستحقاق جزء شائع ینعدم معنی القسمۃ وھو الافراز”
علماء فرماتے ہیں ،اگر چند ورثہ قاضی کے یہاں رجوع لائیں کہ مورث نے انتقال کیا اور یہ ترکہ چھوڑا ہم میں تقسیم ہوجائے، اور گواہی دیں کہ ہمارے سوا کوئی وارث نہیں، قاضی تقسیم کردے، پھر اور وارث ظاہر ہو جو کل متروکہ میں سے کسی حصہ شائعہ مثل سدس یا ثمن وغیرہ کا مستحق ہو، تو بالاجماع وہ تقسیم توڑدی جائیگی،ہدایہ میں ہے :لو استحق نصیب شائع فی الکل تفسح بالاتفاق”

اسی میں ہے : "لانہ لوبقیت القسمۃ لتضرّر الثالث بتفرق نصیبہ فی النصیبین”
جبکہ قاضی کی تقسیم جس کی ولایت عموم رکھتی ہے۔ اور وہ بھی اس طرح کہ اس نے دانستہ کسی وارث کو ضرر نہ پہنچایا تھا، بعد ظہورِ وارثِ دیگر کے یقینا فسخ کی جاتی ہے تو پنچ کی تقسیم، جس کی ولایت فقط اس کے پنچ کرنے والوں پر ہے اور وہ بھی یوں کہ اس نے دیدہ دانستہ اور وارثوں کے ہوتے ہوئے ترکہ صرف تین پر بانٹ دیا، اور باقیوں کو حصہ رسد ہر ایک کے حصہ میں ٹکڑا ٹکڑا لینے کا مستحق ٹھہرایا، کیونکر قابل تسلیم ہوسکتی ہے پس صورتِ مستفسرہ میں واجب ہے کہ وہ پنچایت رد کی جائے اور وہ ناروا تقسیم توڑ دی جائے، اور از سر نو سب وارثوں پر تقسیم شرعی عمل میں آئے۔”

(فتاوی رضویہ قدیم ج٨ ص٢٩٦ ، ٢٩٧)

اب چوں کہ تقسیم کرنے والوں کا فیصلہ عبث اور غیر نافذ ہے، اس لیے از سرِ نو دوبارہ شرعی تقسیم میں اگر کہیں قیمت لگانے کی حاجت ہو تو موجودہ مالیت اور قیمت ہی کا اعتبار ہوگا پہلی تقسیم کے وقت کی قیمت کا اعتبار نہ ہوگا۔ تمام وارثین پر لازم ہے کہ پرانی تقسیم کو کالعدم مان از سرنو شرعی تقسیم کریں ورنہ بہنوں کا حق غصب کرنے کے باعث حق العباد میں گرفتار اور سخت گنہگار ہوں گے۔واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کتبہ: مفتی محمد نظام الدین قادری: خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی۔
١١/ربیع الآخر ١۴۴٣ھ// ١٧/نومبر٢٠٢١ء

Leave a Reply