وراثت کا ایک اہم مسئلہ / وارثین کے حق میں وصیت کرنا کیسا ہے ؟
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین دین مسئلہ ذیل میں: ہمارے ملک برطانیہ کا قانون یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کی پوری جائیداد اس کی بیوی کو مل جاتی ہے ۔ اس سے بچنے کے لئے اب یہاں لوگوں نے عام طور پر جائیداد کو رجسٹرڈ کرنا شروع کر دیا ہے ۔ ” میری وفات کے بعد میری جائیداد میرے وارثین کے درمیان شریعتِ اسلامیہ کے مطابق تقسیم کر دی جائے ۔”
اس عمل کو یہاں بل کہا جاتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ بل تو وصیت ہے اور وصیت وارث کے حق میں جائز نافذ نہیں تو پھر حل کی راہ کیا ہے؟
الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ حل شرعاً نافذ ہے کیونکہ شریعت اسلامیہ نے وارثین کے حق میں میت کے ترکہ میں جو حصہ مقرر کیے ہیں اس بل میں وہی حصے سے سارے وارثین کو دینے کی ہدایت ہے ۔ حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان الله اعطى كل ذي حق حقه ۔
بے شک اللہ تبارک و تعالی نے ہر حقدار کو اس کا حق عطا فرما دیا ۔ ( اخرجه احمد وصححه الترمذي، كذا في الدرايه)
تو یہ وصیت فی الواقع اللہ تبارک و تعالی کے عطا کیے ہوئے اسی حق کی تنفیذ کی ہدایت و تاکید ہے جو شریعت کے تقاضے کے عین مطابق ہے ۔ اس لئے یہ جائز و نافذ اور اور واجب العمل ہے ۔
وارث کے حق میں جو وصیت ناجائز ہوتی ہے وہ اللہ عزوجل کے عطا کردہ حق کے سوا کسی زائد مال کی وصیت ہوتی ہے پھر وہ بھی اس وقت ناجائز ہوتی ہے جب بعض ورثہ کو دوسرے ورثہ پر ترجیح یہ دیا گیا ہو لیکن یہاں وصیت کسی بھی وارث کے لیے اس کے حق کے سوا کسی زائد مال کی نہیں ہے ، پھر یہاں بعض کے ساتھ ترجیحی سلوک بھی نہیں ہے جس سے دوسرے وارثین کو اذیت ہو یا وہ صلہ رحمی کے خلاف ہو، فقہ اسلامی کی اہم و معتمد کتاب ہدایہ کے درج ذیل اقتباس سے اس توجیہ کی روشنی ملتی ہے:
ولا تجوز لوارثه، لقوله عليه الصلاه والسلام: ان الله اعطى كل ذي حق حقه، الا، الوصية لوارث . و لأنه يتأذي البعض بايثار البعض ، ففي تجويزه قطعيه الرحم ، ولأنه حيف بالحديث. ( الهداية, ص :641 ، ج : 4, مجلس بركات)
یہی وجہ ہے کہ اگر وارث تنہا ایک ہو تو اس کے حق میں پوری وصیت نافذ ہوتی ہے کیونکہ وہی کل کا حقدار ہے تو اس کے لئے پورے مال کی وصیت فی الواقع اس کا پورا حق اسے دینے کی ہدایت و تاکید ہے ۔ اور یہیں سے یہ امر بھی عیاں ہوگیا کہ وصیت اگر سارے وارثین کے لئے ہو اور ہر ایک کے شرعی حصے کے مطابق ہو تو یہ بھی نافذ ہے ۔ کہ یہ بھی ان کا پورا پورا شرعی حق دینے کی ہدایت و تاکید ہے ۔
اس مسئلے پر درج ذیل جزئیات سے روشنی پڑتی ہے ۔
تنویر الابصار ودرمختار میں ہے ( ولا لوارث۔۔۔۔۔الا بإجازة ورثته ) لقوله عليه الصلاه والسلام:” لا وصية لوارث ، الا أن يجيزها ورثة يعني عند وجود وارث آخر ، كما يفيده آخر الحديث(او لم يكن له وارث سواه) كما في الخيانة : حتي لو اوصي لزوجته اوصي له ولم يكن ثمة وارث آخر تصح الوصية . ابن كمال . زاد في المحبية : غلو أوصت لزوجها بالنصف كان له الكل ۔ وانما قيدوا بالزوجين لأن غيرها لايحتاج الي الوصية ، لأنه يرث الكل برد أو رحم ، وقد قدمناه في الاقرارمعزيا للشرنبلالية ۔ ( تنوير الابصار ودرمختار، المطبوع مع رد المختار ، ج : 10، ص:347,346)
"میراث سے محرومی” سے بچنے کی ایک صورت یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ جائیداد کو اپنے اوپر،اپنی بیوی اور اپنی اولاد اور نسل بعد نسل اولاد کی اولاد پر وقف کردے تو اس جائیداد سے سب کو انتفاع کا حق حاصل رہے گا ۔ اور جب تک نسل باقی ہے وہی اس سے فائدہ اٹھائے گا ۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
رجل قال: ارضي صدقة موقوفة علي نفسي يجوز هذا الوقف علي المختار كذا في خزانة المفتيين. ولوقال : ارضي موقوفة علي وعلي فلان : المختارانه يصح ، كذا في الغياثية . 1ھ
(الفتاوی الہندیہ ج: 2،ص: 371، الفصل الثانی فی الوقف علی نفسہ واولادہ )
نیز اسی میں ہے: وان قال: علي ولدي وولد ولدي ، وولد ولد ولدي ، ذكر البطن الثالث فانه، تصرف الغلة الي أولاده ابدا ما تناسلوا، ولا تصرف الي الفقراء ما بقياحد ، يكون الوقف عليهم وعلي من أسفل منهم ، الأقرب والابعد فيه سواء. 1ھ۔
( المرجع السابق ، ص :374)
البتہ وقف کے بعد واقف یا موقوف علیہم کو یہ جائیداد دوسرے کے ہاتھ بیچنے یا دوسرے کو ہبہ یا صدقہ کرنے وغیرہ کا اختیار نہ ہوگا ۔
والله تعالى اعلم بالصواب
کتبــــــــــــــہ : مفتی نظام الدین رضوی جامعہ اشرفیہ مبارک پور