وطن پرستی درحقیقت بت پرستی ہے
اسلام کا ظہور بت پرستی کے خلاف ایک احتجاج کی حیثیت رکھتا ہے۔ وطن پرستی بھی بت پرستی کی ایک نازک صورت ہے۔ مختلف قوموں کے وطنی ترانے میرے اس دعوے کا ثبوت ہیں کہ وطن پرستی ایک مادی شے کی پرستش سے عبارت ہے۔ اسلام کسی صورت میں بت پرستی کو گوارا نہیں کرسکتا۔ بت پرستی کی تمام اقسام کے خلاف احتجاج کرنا ہمارا ابدی نصب العین ہے۔
اقبال رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں
ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کاکفن ہے
یہ بت کہ تراشیدہ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کاشانہ دینِ نبوی ہے
نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے
بازو تر اتوحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
خالی ہے صداقت سے سے است تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
اسلام جس چیز کو مٹانے کے لیے آیا تھا، اسے مسلمانوں کی سیاسی تنظیم کا بنیادی اصول قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی جائے پیدائش مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ میں قیام اور وصال، غالباً اسی حقیقت کی طرف ایک مخفی اشارہ ہے۔
ہے ترکِ وطن سنتِ محبوبِ الٰہی دے تُو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی
وطنیت، بانگِ دراعلامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی ( ۱۷۴)
حب الوطنی فطرت ہے اور وطن پرستی عصبیت اورشرک۔ وطن سے محبت ایک فطری چیز ہے۔حضورتاجدارختم نبوتﷺجب مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے لگے تو مکہ مکرمہ کی جانب دیکھ کر فرمایا کہ اے مکہ! مجھے تُجھ سے بہت محبت ہے مگر تیرے باسی مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔ یہ حُب الوطنی کی ایک مثال ہے۔وطن پرستی یہ ہے کہ وطن کے لیے اپنی دانست میں جو صحیح ہو، وہ کیا جائے چاہے وہ حرام ہواور اللہ تعالی کے قوانین کے خلاف ہو،یہ سوچ دراصل قوم پرستی یا وطن پرستی ہے، حب الوطنی نہیں، اس لیے اپنی محبت کا معیار صرف اور صرف اللہ تعالی کے بتائے ہوئے اصولوں کو مدنظر رکھ کر ہونا چاہیے ،وطن عزیز کو اللہ تعالی کے نام اور اس کے احکام کے نفاذ کے لیے حاصل کیا گیا تھا، اس لیے اس سے محبت اور اس کی حفاظت ہمارا اولین فرض ہے مگراس تصور کو بھی ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ معیار حق اللہ رب العالمین کا حکم ہے۔ علامہ محمد اقبال وطن پرستی کے بجائے مسلم قومیت کے حامی تھے۔ ان کا تصور قومیت اسلامی معتقدات پر مشتمل ہے۔وہ کہتے ہیں
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذب باہم جو نہیں، محفل ِ انجم بھی نہیں
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسولِ ہاشمی
علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی نے (مارچ۱۹۳۸ء) میں ایک مضمون لکھا جس میں وطنیت کے مسئلہ پر تفصیل کے ساتھ بحث کی۔ اور بتایا کہ وہ کس قسم کی وطنیت کے مخالف ہیں،اس مضمون میں وطنیت کے سیاسی تصور سے بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں،میں نظریہ وطنیت کی تردید اس زمانہ سے کر رہا ہوں جبکہ دنیائے اسلام اور ہندوستان میں اس نظریہ کا کچھ ایسا چرچا بھی نہ تھا۔مجھ کو یورپین مصنفوں کی تحریروں سے ابتداء ہی سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی تھی کہ یورپ کی دلی اغراض اس امر کی متقاضی ہیں کہ اسلام کی وحدت دینی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی حربہ نہیں کہ اسلامی ممالک میں نیرنگی نظریہ وطنیت کی اشاعت کی جائے۔ چنانچہ ان لوگوں کی یہ تدبیر جنگ عظیم میں کامیاب ہوگئی۔ آگے چل کر لکھتے ہیں: اگر بعض علماء مسلمان اس فریب میں مبتلا ہیں کہ دین اور وطن اس تصور کے ساتھ یکجا رہ سکتے ہیں تو میں مسلمانوں کو ہر وقت انتباہ کرتا ہوں کہ اس راہ سے آخری مرحلہ اول تو لادینی ہوگی اور اگر لادینی نہیں تو اسلام کو محض ایک اخلاقی نظریہ سمجھ کر اس کے اجتماعی نظام سے لاپرواہی۔
ان اقتباسات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال وطنیت کے اس مغربی تصور کے مخالف ہیں اور یہ مخالفت اس وجہ سے ہے کہ نظریہ براہ راست اسلامی عقائد و تصورات سے متصادم ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کا تصور قومیت ہی اصل میں پاکستان کی بنیاد ہے۔وہ ایسے خطہ کے حامی تھے جس میں مسلمان اکثریتی علاقے مل کر ایک ملک بنائیں۔
اس تمہید کا مقصد یہ تھا کہ ہم نئی نسل کے ذہن میں اس ملک کے حصول کا اصل مقصد بیان کریں اور اُسے وطن پرستی سے نکال کر امت مسلمہ کے تصور کی طرف لائیں اور بتائیں کہ حُب الوطنی فطرت ہے مگر کسی ایسی بنیاد پر اپنے ملک یا قوم کے حق اور محبت میں مبتلا ہونا کہ جو اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے احکام سے ٹکرائے، وہ غلط ہے۔ یہ ملک لاکھوں لوگوں کی قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہوا، وہ قربانیاں ہمارے آبائو اجداد نے صرف اور صرف پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الاّ اللہ کی بنیاد پر دی تھیں، یہ نعرہ انھیں اس بات کا یقین دلاتا تھا کہ اگر اس راہ میں کٹ گئے تو یہ قربانی اللہ کے ہاں مقبول ہو گی۔اس کے علاوہ کسی اور بنیاد پر آزادی کی بات کی جاتی تو شاید اتنی بڑی تعداد میں لوگ قربانیاں دیتے نہ خطے کے مسلمان یکجا ہوتے۔ اقوام عالم میں پاکستان کی انفرادیت اسی بنیاد پر ہے کہ اس کا قیام خالصتاً نظریاتی بنیاد اور اسلامی قومیت کی بنیاد پر عمل میں آیا۔
یہ ذہن میں رہے کہ مسلمان محب وطن ہوتا ہے لیکن وطن پرست ہرگز نہیں ہوتا
یہ وہ نقطہ ہے جہاں پر وطن پرست یعنی نشنلسٹ اور اسلام آپس میں ٹکرا جاتے ہیں۔۔۔
پس جب تک یہ محبت ایک انس تک ہے تو شائد کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہ ہو، لیکن جب ہم اس بنیاد پر اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے کاٹ دیں، پاکستان کو صرف ہمارا ملک، اس فوج کو صرف ہماری فوج، اس کے وسائل کو صرف ہمارے وسائل اور اس کی بنیاد پر مسلمانوں میں فرق کریں (ہم پاکستانی ایسے ہیں اور یہ افغانی ایسے ہیں یا عرب ایسے ہیں وغیرہ) تو یہ عصبیت کہلاتی ہے، جو کہ حرام ہے۔
یاد رہے یہ وطن سے محبت ہمیں عصبیت کی طرف نہ لے جائے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ارشاد فرمایا: جس نے عصبیت کی دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں۔
عصبیت سے مراد یہی ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے اپنی قوم اپنی ذات اپنے علاقے کی وجہ سے دشمنی روا رکھے جب کہ ہمارے لئے حکم یہ ہے کہ ہماری دوستی بھی انصاف اور اللہ تعالی کے قائم کردہ اصول کے لحاظ سے ہونی چاہئے اور دشمنی بھی اسی لحاظ سے،اگر اس کے علاوہ ہے اور بلا وجہ آپ اپنے ملک اپنی قوم یا اپنے علاقے کی حمایت میں کھڑے ہیں جبکہ آپکو پتہ بھی ہے کہ آپکی قوم یا آپ کے علاقے والے غلط ہیں اور ناانصافی کر رہے ہیں تو یقینی طور پر آپ عصبیت ہی کا شکار ہورہے ہیں۔
ایک مسلمان اپنے وطن سے بے حد محبت کرتا ہے اور اسکی راہ میں جان دینے کے لیے بھی تیار ہوجاتا ہے، بشرطیکہ وہ راہ جس کے لئے وہ جان دے رہا ہے خداتعالی اور اس کے حبیب کریم ﷺکے دین سے نہ ٹکراتی ہو۔
یہ ایسے ہی ہے کہ ایک مسلمان اپنے والد سے تو بہت محبت کرتا ہے اپنی ماں کے سامنے اف تک نہیں کہتا اپنی اولاد کے لئے تو جان بھی دے دیتا ہے لیکن جب ماں باپ یا اولاد ہی کفر کی تعلیم دیں یا کفر کی طرف سے تلوار اٹھا لیں تو ایک مسلمان اپنی اس محبت کی خاطر اللہ تبارک و تعالی کو ناراض نہیں کر سکتا پھر وہ وہی کرتا ہے جو ایک صحابی رضی اللہ تعالی نے اپنے غیر مسلم بھائی کے بارے کہا تھا کہ جب وہ قیدی بن کر مسلمانوں کے قبضے میں آیا تو فرمایا اس کے ہاتھ کس کے باندھو اسکی ماں بہت امیر ہے اسکو چھڑوانے کے لئے کافی جزیہ دے دے گی تو بھائی نے کہا یہ تم کیا کہہ رہے ہو ہم دونوں بھائی ہیں مجھے تم چھڑوانے کی بجائے مزید پھنسا رہے ہو تو اس صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نہیں یہ میرے بھائی ہیں جو تمہیں باندھ رہے ہیں۔پھر وہ وہی کرتا جو حضرت سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے غیر مسلم بیٹے (بعد میں مسلمان ہوگئے تھے)سے کہا تھا کہ اگر تم جنگ میں میرے سامنے آجاتے تو تمہارے پرخچے اڑا دیتا۔ہمارے لئے صحیح صرف وہ ہونا چاہئے جو اللہ تعالی اور حضورتاجدارختم نبوتﷺکے دین متین کے مطابق صحیح ہے اور غلط وہ ہونا چاہئے جو اللہ اور اس کے رسول کریم ﷺ کے دین متین کے مطابق غلط ہے۔
اے اللہ! پاکستان کو محبت امن اور اسلام کا گہوارا بنا دے اور اسلام کا قلعہ بنا دے اور امت مسلمہ کی امیدوں کا مرکز بنا دے۔