وقف سے متعلق کچھ اہم مسائل
السلام علیکم ورحمۃاللہ تعالیٰ وبرکاتہ. کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسلئےذیل میں کہ ہمارے یہاں انجمن اسلامیہ کے زیر نگرانی قدیم اوقاف کی پراپرٹی جیسے دوکانیں مکانات کھیتی کی زمین خالی پلاٹ، اور خاص کر دوپلاٹ اردو اسکول کے نام وقف ہیں ، ان دونوں پلاٹوں پر انجمن اسلامیہ نے لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے اردو میڈیم اسکول قائم کیا تھا. کا فی عرصہ تک دونوں اسکول چلتے رہے جس سے قوم کے بچوں اور بچیوں کو کافی فائدہ ہوا. کچھ حالات ایسے بنے کہ دونوں اسکول بند ہو گئے. ٹیچروں کے دھیان نہ دینے کیوجہ سے یا انجمن کے پاس روپئے نہ ہو نے کیوجہ سے کہ ٹیچروں کو دیں۔ بہرحال اسکول بند کر دئیے گئے. اسوقت کی انتظامیہ نے ایک اسکول کے پلاٹ پر چند ہ کر کے شادی گھر کا کام شروع کردیا جو گورنمنٹ کی مدد لیکر کام مکمل ہو گیا. اور دوسرے اسکول کے پلاٹ پر آج آٹھ نو سال پہلےکمیٹی کے لوگوں نے پھر سے دو بارہ اردو میڈیم اسکول شروع کیا ہے جس میں اردو اور دینیات کے ساتھ اسکول کی پوری تعلیم دی جاتی ہے جیسے ہندی انگریزی گڑت وغیرہ. شادی ہال کی آمدنی سے اردو اسکول کے ٹیچروں کی تنخواہیں دی جاتی ہیں.
دریافت طلب امر یہ ہے کہ اردو اسکول کے لئے وقف صحیح ہے کہ نہیں. اردو اسکول بند کر کے اس پلاٹ پر شادی ہال بنانا جائز ہے یا ناجائز. شادی ہال کی آمدنی پھر سے قائم کئے ہوئے اردو اسکول پر خرچ کر نا جائز ہے یا ناجائز. شادی ہال کی آمدنی کے دوطریقے ہیں. 1 شادی ہال کا کرایہ تین چار پانچ ہزار روپے جیسی کنڈیشن ویسا کرایہ ایک شادی کا. 2 شادی ہال میں اگر شادی کرنے والا ٹینٹ ہاؤس والے سے کرسی میز اور ٹینٹ کا کام کرواتا ہے تو کمیٹی بڑے پروگرام میں ٹینٹ والے سے پانچ ہزار روپے اور چھوٹے پروگرام میں دو ڈھائی تین ہزار روپے لیتی ہے. کمیٹی کا ٹینٹ والے سے روپیہ لینا جائز ہے یا ناجائز. قدیم اوقاف میں سے کئی پراپرٹی کے متعلق شرط کا ذکر نہیں ہے کہ اس کی آمدنی کہاں خرچ کیجائے. قدیم اوقاف کی آمدنی کے مصارف کیا کیا ہیں. اور کمیٹی شادی ہال کی آمدنی کو ہر جائز کام میں خرچ کرسکتی ہے کہ نہیں. جیسے کوئی دینی پروگرام کسی غریب بچی کی شادی کسی غریب میت کے کفن اور ضرورت مندوں پر. شریعت مطہرہ کی روشنی میں تفصیلی جواب عنایت فرمائیں. نوازش ہوگی.
المستفتی محمد زاہد رضا بہرائچ شریف یوپی
الجواب:
اردو اسکول کے لیے جو دو پلاٹ وقف کیے گیے ہیں، ان سے ظاہر یہ ہے کہ واقف کی مراد یہ ہے کہ اردو زبان میں دینی مذہبی تعلیم دی جائے، یا غریب مسلمان بچوں کو اردو تعلیم دی جائے، کیوں کہ جہاں تک ممکن ہو مسلمان کے قول وفعل کو بامعنی اور صحیح قرار دیا جائے گا، فقہ کا ایک ضابطہ ہے: "اعمال الکلام اولی من اھمالہ متی امکن،،
(الاشباہ والنظائر)
اور خود سائل کے الفاظ سے بھی اشارہ ملتا ہے کہ اسکول میں دینیات کی تعلیم جاری ہوئی، جیسا کہ سوال میں مذکور ہے کہ "قوم کے بچوں اور بچیوں کو کافی فائدہ ہوا” اور سوال کی ایک دوسری عبارت یہ ہے کہ ” اردو اور دینیات کے ساتھ اسکول کی پوری تعلیم دی جاتی ہے” اور دینی تعلیم قربت ہے،خواہ کسی بھی زبان میں ہو،یوں ہی غریب مسلمانوں کے بچوں کی تعلیمی امداد بھی قربت ہے۔ لہذا قربت ہونے کی وجہ سے یہ وقف صحیح ہوا۔
اور جب وقف صحیح ہو تو جس کام اور جس غرض کے لیے وقف کیا گیا ہو اس کو تبدیل کرنے کا حق نگراں وغیرہ کسی کو نہیں ہوتا۔ بلکہ خود وقف کرنے والے کو بھی نہیں ہوتا ہے، اس لیے اگر واقف نے وقتِ وقف یہ کہا ہو کہ ان پلاٹوں کی بعض زمین پر مدرسہ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے شادی ہال تعمیر کرلیا جائے تو یہ تعمیر صحیح ہے ورنہ نہیں۔ امام اہلِ سنت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
"اس میں (یعنی: وقف میں) دوشرطیں مطلقاً لازم ہیں:ایک یہ کہ وہ کام جس کےلئے یہ وقف ابتداءً ہوا یا آخر میں اس کے لئے قرار پائے گا، واقف کے نزدیک کارِ ثواب ہو، وہ اس ثواب کی نیت کرے یا نہ کرے، یہ اس کا فعل ہے، کام مذہبی حیثیت سے ثواب کا ہونا چاہئے، جیسے غرباء کی امداد، اگرچہ دواوغیرہ سے ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ کام خود ہمارے مذہبِ اسلام کی روسے کارِ ثواب ہو اگرچہ وقف کرنے والا مسلمان نہ ہو۔ (۱) اسی لئے اگر اغنیاء کے چائے پانی کے لئے ہوٹل بناکر وقف کیا وقف نہ ہوگا، کہ یہ کوئی ثواب کا کام نہیں۔(۲)کافر نے مسجد کے لئے وقف کیا، وقف نہ ہوگا ، کہ یہ اس کے خیال میں کارِثواب نہیں۔(۳)کافر نے ایک مندریا شوالے کے لئے وقف کیا وقف نہ ہوگا، کہ یہ واقع میں کارِ ثواب نہیں۔(۴)کافر نے ایک شوالے پر وقف کیا اس شرط پرکہ جب تک یہ باقی ہے وقف کی آمدنی اس میں خرچ ہو، اور جب شوالہ ٹوٹ کر ویران ہوجائے تو اس کے بعد یہ آمدنی محتاجوں پر صرف ہوا کرے، وقف صحیح ہوجائے گا، کہ اس کا آخر ایک ایسے کام کےلئے رکھا ، جو کارِ ثواب ہے،یعنی امدا د مساکین، اور آج ہی سے اس کی ساری آمدنی امداد مساکین میں صرف ہوگی، شوالہ کو ایک پیسہ نہ دیا جائے گا، اور اس قسم کے بکثرت مسائل معتمدہ میں مذکور ہیں”
(فتاوی رضویہ ج٦ ص ٣٣٨)
نیز تحریر فرماتے ہیں:
"عامہ(عہ۱) شرائط معتبرہ(عہ۲) کا اختیار شرعِ مطہر نے واقف کو صرف انشائے وقف کے وقت دیا ہے،مثلاً جسے چاہے اس کا مصرف بنائے، جسے چاہے اس سے جدا رکھے، جسے جتنا چاہے دینا بتائے، جس وقت یا حالت یا صفت کے ساتھ چاہے مقیدکردے، جو ترتیب چاہے مقرر کرے، جب تک اس انشاء میں ہے مختار ہے، وقف تمام ہوتے ہی وہ تمام شروط مثلِ وقف لازم ہوجاتی ہیں ،کہ جس طرح وقف سے پھرنے یا اس کے بدلنے کا اسے اختیار نہیں رہتا یونہی ان میں سے کسی شرط سے رجوع یا اس کی تبدیل یا اس میں کمی بیشی نہیں کرسکتا، ہاں اگر انشاء ہی کے وقت شرط لگادی تھی کہ مجھے ان تمام شروط یا خاص فلاں شرط میں تبدیل کا اختیار ہوگا تو جس شرط کے لئے بالتصریح یہ شرط کرلی تھی، اسی کو بدل سکے گا۔ پھر اسے بھی ایک ہی بار بدل سکتا ہے،جب تبدیل ہولی اب دوبارہ تغیرکا اختیار نہ ہوگا کہ اسی قدر شرط کا مفادتھا، وہ پورا ہوگیا اب دوبارہ تبدیل شرط شے زائد ہے لہذامقبول نہ ہوگی۔
البتہ اگر کسی شرط پر انشائے وقف میں یہ شرط لگادی کہ میں اسے جب کبھی چاہوں ہر بار بدل سکوں گا تو اس شرط کی نسبت اختیار مستمر رہے گا کہ اب اس کا استمرار ہی مقتضائے شرط ہے۔
غرض واقف خود اس کا قطعی پابند ہوتا ہے جو ان شرائط میں وقف کرتے وقت زبان یا قلم سے نکال چکا، اس سے باہر ان میں کوئی تصرف نہیں کرسکتا،،
(فتاوی رضویہ ج٦ص٣۴٢)
اور جب تمامیتِ وقف کے بعد وقف میں تبدیلی کا اختیار واقف کو نہیں تو متولی یا نگراں کو یہ اختیار کیسے ہوسکتاہے؟
اس تفصیل کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
(١) ظاہر یہ ہے کہ اردو اسکول کے لیے وقف صحیح ہے، اور اس میں دینی تعلیم کو مرکزی اہمیت دی جائے اور تحصیل علومِ دین اور تبلیغ وارشاد میں معاون دوسرے علوم کی بھی اجازت ہونی چاہیے۔
ھذا ما ظھر لی والعلم بالحق عند اللہ العلیم الخبیر وھو سبحانہ وتعالی اعلم۔
(٢) اگر واقف کی طرف سے وقتِ وقف شادی ہال کی تعمیر کی اجازت ثابت ہو تو وہ تعمیر درست ہے ورنہ نہیں۔ واللہ تعالی اعلم۔
(٣) اگر وہ شادی ہال واقف کی منشا کے خلاف تعمیر ہوا ہو تو اس کی تعمیر ہی درست نہیں، اور اس کو کرایہ پر دینا بھی درست نہیں۔
ہاں! وقف کے متولیوں کے ذریعہ وقفی زمین میں کوئی تعمیر ہو تو وہ عام حالات میں وقف کی پراپرٹی ہوتی ہے۔اس لیے اگر ہال میں تعلیم ہوسکے تو اس کو تعلیم میں استعمال کرنا چاہیے۔صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"وقفی زمین میں متولی نے مکان بنایا چاہے وقف کے روپے سے بنایا یا اپنے روپے سے بنایا مگر وقف کے لیے بنایا یاکچھ نیت نہیں کی اِن صورتوں میں وہ وقف کا مکان ہے اور اگر اپنے روپے سے بنایا اور اپنے ہی لیے بنایا اور اس پر گواہ بھی کرلیا تو خود اس کا ہے”
(بہار شریعت ح١٠ ص ۵٨٨)
یہاں یہ بے بنیاد شبہہ نہیں ہونا چاہیے کہ شادی ہال کے ذریعہ اسکول کے لیے آمدنی کیوں نہیں کی جاسکتی؟ کیوں کہ وقفی زمین کا استعمال اسی غرض اور کام کے لیے ہونا چاہیے جس غرض اور کام کے لیے وہ زمین وقف کی گئی ہے، ورنہ بڑے بڑے شہروں میں قبرستان کی وقفی زمین کو کرایہ پر دے کر یا تجارتی مراکز بناکر خوب کمائی کی جاسکتی ہے،لیکن چوں کہ وہ زمین مسلمان مردوں کے دفن کے لیے وقف ہے، اس لیے اس کو دوسرے کام میں نہیں لایا جاسکتا، اسی طرح اس کو بھی سمجھنا چاہیے۔
اور اب تک جو ٹینٹ والوں سے وہ زائد رقم وصول کی گئی تو اگر ٹینٹ کا مالک غیر مسلم ہو اور اس کی رضامندی سے بغیر غدر وبدعہدی کے وہ رقم لی گئی ہو تو اس کی گنجائش ہے اور اگر مالک مسلم ہے اور ٹینٹ کے سامان کی حفاظت اور دیکھ ریکھ کی اجرت کے طور پر وہ رقم لی گئی ہو یا ہال والوں نے ٹینٹ والے سے کم کرایہ پر لے کر شادی والے کو زیادہ کرایہ پر دیا ہو تب بھی ٹینٹ والے سے اس رقم کے لینے کی گنجائش ہے اور اگر بلاوجہ کسی ٹینٹ کے مسلمان مالک سے کمیشن لیا ہو تو اس کی اجازت نہیں ہوگی۔امامِ اہلِ سنت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
"حربی کا مال مسلمان پر صرف اس صورت میں حرام ہوتا ہے جب وہ دھوکے سے لے، چنانچہ جب اس نے دھوکہ کے بغیر لیا چاہے جس طریقے سے لیا ہو تو اس کےلئے حلال ہے بشرطیکہ اس حربی کی رضامندی سے لیا ہو بخلاف حربی مستأمن کے دارالاسلام میں کیونکہ اس کا مال امان کی وجہ سے ممنوع ہوگیا لہٰذا ا سکو اگر جائز طریقے کے علاوہ لیا ہو تو دھوکہ ہوگا” (فتاوی رضویہ ج١٧ص٦۵ دعوت اسلامی ایپ)
علامہ محقق علاو الدین حصکفی رحمہ اللہ القوی تحریر فرماتے ہیں:
” (تَصِحُّ) (إجَارَةُ حَانُوتٍ) أَيْ دُكَّانٍ وَدَارٍ بِلَا بَيَانِ مَا يُعْمَلُ فِيهَا) لِصَرْفِهِ لِلْمُتَعَارَفِ (وَ) بِلَا بَيَانِ (مَنْ يَسْكُنُهَا) فَلَهُ أَنْ يُسْكِنَهَا غَيْرَهُ بِإِجَارَةٍ وَغَيْرِهَا(درمختار کتاب الاجارة، باب ما یجوز من الاجارة۔۔۔)
صدرالشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"دکان یا مکان کو کرایہ پر لیا اُس میں خود بھی رہ سکتا ہے دوسرے کوبھی رکھ سکتا ہے مفت بھی دوسرے کو رکھ سکتا ہے کرایہ پر بھی، اگرچہ مالک مکان یادکان نے کہہ دیا ہوکہ تم اس میں تنہا رہنا۔ کپڑا پہننے کے لیے کرایہ پرلیا تو دوسرے کو نہیں پہنا سکتا اسی طرح ہر وہ کام کہ استعمال کرنے والے کے اختلاف سے مختلف ہوتا ہے وہ دوسرے کے لیے نہیں ہوسکتا” (بہارِ شریعت ح ١۴ ص ١٢٣)واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
(۴) ایسے قدیم اوقاف کی پراپرٹی جن کی آمدنی کے مصارف کا ذکر نہیں ہے ان کی آمدنی سابق متولیوں کے ذریعہ قائم قدیم عمل درآمد اور تعامل کے مطابق خرچ کی جائے۔ اور اگر وقف کی پراپرٹی شکستہ ہونے کی وجہ سے مرمت کی محتاج ہوگئی ہو تو اس کی آمدنی مرمت میں خرچ کی جاسکتی ہے، اگرچہ واقف نے مرمت میں خرچ کرنے کے لیے نہ کہا ہو۔اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
"وقف میں شرائط واقف کا اتباع واجب ہے،اشباہ والنظائر میں ہے:شرط الواقف کنص الشارع فی وجوب العمل بہ۔ اگران مواقع میں صرف کرنا شرطِ واقف سے جدا ہے جیسا کہ ظاہر یہی ہے تو یہ صرف محض ناجائز ہے، اور اگر واقف نے ہی ان مواقع میں صرف کی اجازت دی ہے جو ان میں مصرف خیر ہو اس میں صرف کرنا جائز ہے . اور اگر شرائط معلوم نہ ہوں تو متولیوں کے عملدرآمد قدیم پرنظر ہوگی کما فی الخیریۃ وغیرہا”
(فتاوی رضویہ ج٦ ص٣٧٧)
اور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
” وقف کی آمدنی کا سب میں بڑامصرف یہ ہے کہ وہ وقف کی عمارت پر صرف کی جائے ،اسکے لیے یہ بھی ضرور نہیں کہ واقف نے اس پر صرف کرنی کی شرط کی ہو ۔ یعنی شرائطِ وقف میں اسکو نہ بھی ذکر کیا ہو جب بھی صرف کریں گے کہ اسکی مرمت نہ کی تو وقف ہی جاتا رہے . گا عمارت پر صرف کرنے سے یہ مراد ہے کہ اُسکو خراب نہ ہونے دیں اُس میں اضافہ کرنا عمارت میں داخل نہیں ".
(بہار شریعت ح١٠ ص۵۴۴)
واللہ تعالی وسبحانہ اعلم۔
کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس وافتاء دارالعلوم جمدا شاہی، بستی۔
٢٦/شوال المکرم ١۴۴٢ھ//٨/جون ٢٠٢١ء