وہابیہ کی نماز جنازہ پڑھانے کا حکم از مفتی کمال احمد علیمی

وہابیہ کی نماز جنازہ پڑھانے کا حکم

السلام علیکم ورحمتہ اللہ برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ

زید نے جس عورت سے شادی کی وہ وہابی کے گھر کی اور اسی عقیدے کی کی تھی اور اسی عقیدے کے ساتھ اسکا انتقال ہوا امام صاحب نے جو کہ سنی ہیں انھوں نے اس عورت کی جنازے کی نماز پڑھائ ۔ امام صاحب کا اس عورت کی جنازے کی نماز پڑھانا کیسا ہے ۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں

المستفتی : قاری قمرالدین احمد نظامی علیمی اسلام پورہ بستی

الجواب بعون اللہ الوھاب

وعليكم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ

اگر امام صاحب نے اس وہابیہ کی نماز جنازہ لاعلمی میں پڑھا دی تو وہ معذور ہیں، پھر بھی اگر کسی وجہ سے میت کے وہابی بدعقیدہ ہونے کے بارے میں کسی طرح شک گزرا ہو تو
پڑھانے سے پہلے تحقیق کرنا ان پر لازم تھا، اور اگر جان بوجھ کر کہ یہ عورت وہابی عقیدے کی تھی نماز جنازہ پڑھائی تو دو حال سے خالی نہیں مسلمہ سمجھ کر کسی دنیوی طمع یا کسی اور غرض سے پڑھایا تو خود دائرہ اسلام سے خارج، اس پر توبہ تجدید ایمان ونکاح لازم ہے، اور اگر کافرہ مرتدہ سمجھ کر پڑھائی تو بہت سخت گناہ کیا، اس پر توبہ لازم ہے ۔

قرآن مجید میں ارشاد ہے :
وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ (التوبہ:٨٤)
مزید ارشاد ہے :
وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (الانعام:٦٨)

حدیث شریف میں ہے :
عن ابی ھریرة قال : قال رسول ﷺ ان مرضوا فلا تعودھم وان ماتوافلا تشھدوھم و ان لقیتوھم فلا تسلمو علیھم ولا تجالسوھم ولا تشاربوھم ولا تواکلوھم ولا تناکحوھم ولا تصلوا علیھم ولا تصلوا معھم ۔ 

(انوار الحديث ص ٩٠)

فتاوی رضویہ میں رافضی کی نماز جنازہ پڑھانے والے امام کا حکم بیان کرتے ہوئے امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
"صورت مذکورہ میں وہ امام سخت اشد کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوا، اس نے حکم قرآن عظیم کا خلاف کیا، قال اللہ تعالیٰ: ولاتصل علی احد منھم مات ابدا ۔  یہ سب اس صورت میں ہے کہ اس نے کسی دنیوی طمع میں ایسا کیا ہو اور اگر دینی طور سے اسے کار ثواب اور رافضی تبرائی کو مستحق غسل ونماز جان کر یہ حرکات مردودہ کیں تو وہ مسلمان ہی نہ رہا اور اگر عورت رکھتا ہو اس کے نکاح سے نکل گئی کہ آج کل رافضی تبرائی عموماً مرتدین ہیں. (فتاوی رضویہ جلد چہارم ص ٥٧)

فتاوی بحرالعلوم میں ہے :
"اگر کسی نے لا علمی میں کسی دیوبندی کی نماز جنازہ پڑھ دی یا اس کی امامت کی تو معذور ہے، لیکن یہ جان بوجھ کر کہ یہ شخص عقائد کفریہ رکھتا تھا یا علماے دیوبند کے کفر پر مطلع ہو کر ان کو اپنا امام ومقتدی مانتا تھا تو ایسے شخص کو نماز پڑھنے اور پڑھانے میں کوئی عذر نہیں، ایسے شخص کو مسلمان سمجھ کر اس کی نماز پڑھی تو خود دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا، توبہ، تجديد ایمان اور تجديد نکاح ضروری ہے، اور اگر کافر سمجھ کر نماز پڑھی تو حرام کیا اور گناہ گار ہوا”.(ج ٢ ص ٥٢)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ :علامہ مفتی کمال احمد علیمی نظامی دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی
٩ ربیع الثانی ١٤٤٣/ ١٥نومبر ٢٠٢١
الجواب صحیح
علامہ مفتی محمد نظام الدین قادری مصباحی خادم درس و افتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی

Leave a Reply

%d bloggers like this: