وہابی دیوبندی کے پیچھے نماز جنازہ پڑھنے کا حکم از علامہ کمال احمد علیمی نظامی
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
عنوان :کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ہمارے گاؤں مڑھا میں ایک شخص کا انتقال ہوا اور وہاں پھر تمام لوگ جمع ہوئے اور جب جنازہ تیار ہوگیا تو اچانک ایک گستاخ رسول نماز جنازہ پڑھانے کھڑا ہو گیا وہاں سنی عالم دین موجود تھے وہ لوگ سب نے نماز جنازہ نہیں پڑھی سارے لوگ واپس آ گئے لیکن کچھ سنی لوگوں نے اس کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی اور نماز جنازہ میں چار تکبیر ہوتی ہیں لیکن اس نے تین تکبیر کہی اور میت کو اٹھا کر دفن کر دیا گیا.
سوال طلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے نماز جنازہ اس گستاخ رسول کے پیچھے پڑھی قرآن و حدیث کی روشنی میں ان لوگوں کے لیے کیا حکم ہے برائے کرم وضاحت فرمائیں
حافظ محمد ممتاز بریلی شریف فرید پور محلہ مردان مسجد خواجہ غریب نواز
الجواب بعون اللہ الوھاب:
جن لوگوں نے گستاخ رسول کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی ہے وہ دو حال سے خالی نہیں، یا تو اس گستاخ رسول کو صاحب ایمان، لائق امامت سمجھ کر پڑھی یا اس کو مرتد سمجھتے ہوئے کسی مجبوری یا مصلحت کے تحت پڑھی، صورت اولی میں ان پر توبہ، تجدید ایمان، تجدید نکاح اور تجدید بیعت(اگر نکاح اور بیعت والے ہوں) لازم ہے کہ گستاخ رسول باجماع امت مرتد ہے، اس کو جو مسلمان جانے وہ بھی مرتد :
من شك فی کفرہ وعذابہ فقد کفر۔(درمختار کتاب الجہاد باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۵۶)
دوسری صورت میں وہ سخت گنہ گار ہے کم از کم اس پر توبہ لازم ہے :
فتاوی رضویہ میں ہے:
"دیو بندیہ کی نسبت علماے کرام حرمین شریفین نے بالاتفاق فرمایا کہ وہ مرتد ہیں ۔اور شفاے قاضی عیاض و بزازیہ و مجمع الانہر و در مختار وغیرہا کے حوالے سے فرمایا : من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر ( یعنی جس نے اس کے کفر وعذاب میں شک کیا وہ بھی کافر ہو گیا)
جو ان کے اقوال پر مطلع ہوکر ان کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر اور ان کی حالت کفر وضلال اور ان کے کفری و ملعون اقوال طشت از بام ہوگئے ہر شخص کہ نرا جنگلی نہ ہو ان کی حالت سے آگاہ ہے پھر انہیں عالم دین جانے ضرور متہم ہے اور اس کے پیچھے نماز باطل محض۔ (فتاوی رضویہ ج: ۶ رسالہ "النھی الاکید عن الصلاة وراء عدی التقلید” باب الامامة ص ۶۲۱، مطبوعہ رضا فاونڈیشن)
فتاوی فقیہ ملت میں ہے:
زید اگر یہ جانتے ہوئے کہ وہابیوں دیوبندیوں نے جانِ ایمان ﷺ کی توہین کی ہے اس کے باوجود ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہے تو وہ مسلمان نہیں کہ ان کے پیچھے نماز پڑھا تو انھیں مسلمان سمجھا،جب کہ حضورﷺ کی توہین کرنے والے کو مسلمان سمجھنا کفر ہے۔اور ایسے ہی اگر ان کو مسلمان سمجھتے ہوئے ان سے میل جول اور ان کی شادی وغیرہ میں شریک ہوتا ہے تو مسلمان نہیں، اور اگر زید ان کو مسلمان نہیں سمجھتا بس یہ جانتا ہے کہ یہ لوگ بد عقیدہ ہیں اور ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہے تو سخت گناہ گار ہے، اس کی نمازیں جو ان کے پیچھے پڑھی باطل ہیں۔اھ
( فتاوی فقیہ ملت،جلد اول،ص:47)
چوں کہ گستاخ رسول کی امامت کے سبب جنازہ کی نماز نہ ہوئی اور میت کو دفن بھی کردیا گیا اس صورت میں موسم اور زمین وغیرہ کی حالت دیکھتے ہوئے جب تک لاش کے خراب ہونے کا غالب گمان نہ ہو اس کی قبر کے سامنے نماز جنازہ پڑھی جائے۔لیکن جب لاش خراب ہونے کا ظن غالب ہونے لگے تو نمازِ جنازہ کی اجازت نہیں۔صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"میّت کو بغیر نماز پڑھے دفن کر دیا اور مٹی بھی دے دی گئی تو اب اس کی قبر پر نماز پڑھیں ، جب تک پھٹنے کا گمان نہ ہو اور مٹی نہ دی گئی ہو تو نکالیں اور نماز پڑھ کر دفن کریں اور قبر پر نماز پڑھنے میں دنوں کی کوئی تعداد مقرر نہیں کہ کتنے دن تک پڑھی جائے کہ یہ موسم اور زمین اور میّت کے جسم و مرض کے اختلاف سے مختلف ہے، گرمی میں جلد پھٹے گا اور جاڑے میں بدیر ۔ تر یا شور زمین میں جلد، خشک اور غیر شور میں بدیر۔ فربہ جسم جلد، لاغر دیر میں۔” (بہار شریعت حصہ۴ص٨۴٠)
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ :کمال احمد علیمی نظامی دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی
٢٩ صفر ١٤٤٣/ ٧اکتوبر، ٢٠٢١
الجواب صحیح محمد نظام الدین قادری مصباحی خادم درس و افتاء جامعہ علیمیہ جمدا شاہی