کیا عشر شرعی حیلہ کے بعد مسجد میں لگ سکتا ہے یا نہیں ؟
سوال : کیا عشر شرعی حیلہ کے بعد مسجد میں لگ سکتا ہے یا نہیں ؟ نیز یہ بھی بتادیں کہ شرعی حیلہ کیا ہوتا ہے ؟
(بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسجد میں عشر کسی صورت نہیں لگ سکتا خواہ شرعی حیلہ ہو یا نہ ہو۔)
سائل : قاری عابد حسین امام مسجد چک نمبر 57db جنڈانوالہ تحصیل کلور کوٹ ضلع بھکر
بسمہ تعالیٰ
الجواب بعون الملک الوھّاب
اللھم ھدایۃ الحق و الصواب
عشر مسجد میں خرچ نہیں کیا جا سکتا اور نہ اس طرح عشر ادا ہوگا کیونکہ عشر کی ادائیگی کے لئے زکوٰۃ کے حقدار (شرعی فقیر) کو اس کا مالک بنانا شرط ہے تو اگر عشر کو مسجد میں خرچ کیا جائے گا تو ادائیگی عشر کی شرط نہ پائے جانے کی وجہ سے عشر ادا نہ ہوگا۔
البتہ اگر مسجد کو بہت زیادہ ضرورت ہو اور لوگ مسجد میں دلچسپی نہ لے رہے ہوں یا لوگوں کے پاس مسجد کے لئے اتنے وسائل ہی نہ ہوں تو ضرورتاً عشر کے پیسوں کا حیلہ کر کے انہیں مسجد میں خرچ کیا جا سکتا ہے۔
حیلہ یوں ہوگا کہ پہلے زکوٰۃ کے حقدار کو عشر یا اس کے پیسے دیدیے جائیں پھر وہ قبضہ کرنے کے بعد اپنی رضا و خوشی سے وہ مسجد کے لئے دیدے۔
چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے :
"ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد و كذا القناطر و السقايات و إصلاح الطرقات و كري الأنهار و الحج و الجهاد و كل ما لا تمليك فيه”
یعنی اور جائز نہیں ہے کہ زکوٰۃ (کے پیسے) سے مسجد، پُل، سقایہ، بنوانا، سڑکیں درست کروانا، نہریں کھدوانا، حج اور جہاد میں خرچ کرنا اور اس اس جگہ خرچ کرنا جہاں تملیک نہ پائی جاتی ہو۔
(فتاوی عالمگیری، کتاب الزکاۃ، الباب السابع فی المصارف، جلد 1، صفحہ 188، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
مجمع الانھر میں ہے :
"و لاتدفع الزکاۃ لبناء مسجد لان التملیک شرط فیھا و لم یوجد”
یعنی مسجد کی تعمیر کے لئے زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی کیونکہ زکوٰۃ (کی ادائیگی) میں تملیک شرط ہے اور وہ (یہاں) نہیں پائی جا رہی۔
(مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر، جلد 1، صفحہ 328، دارالکتب العلمیہ بیروت)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"پھر دینے میں تملیک شرط ہے، جہاں یہ نہیں جیسے محتاجوں کو بطورِ اباحت اپنے دستر خوان پر بٹھا کر کھلا دینا یا میّت کے کفن دفن میں لگانا یا مسجد، کنواں، خانقاہ، مدرسہ، پُل، سرائے وغیرہ بنوانا ان سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔”
(فتاویٰ رضویہ، جلد 10، صفحہ 110، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
صدرالشریعہ مفتی محمد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"زکاۃ کا روپیہ مُردہ کی تجہیز و تکفین (کفن و دفن) یا مسجد کی تعمیر میں نہیں صرف کر سکتے کہ تملیک فقیر نہیں پائی گئی اور ان امور میں صرف کرنا چاہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ فقیر کو مالک کر دیں اور وہ صرف کرے اور ثواب دونوں کو ہوگا بلکہ حدیث میں آیا، ’’اگر سو ہاتھوں میں صدقہ گزرا تو سب کو ویسا ہی ثواب ملے گا جیسا دینے والے کے لیے اور اس کے اجر میں کچھ کمی نہ ہوگی۔‘‘
(بہارشریعت، جلد 1، حصہ 5، صفحہ 890، مکتبۃ المدینہ کراچی)
نوٹ :
بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ مسجد میں عشر کسی صورت نہیں لگ سکتا خواہ شرعی حیلہ ہو یا نہ ہو تو یہ بغیر علم فتویٰ دینے کے مترادف (برابر) ہے اور جو بغیر علم کے فتویٰ دیتا ہے اس پر زمین و آسمان کے فرشتے لعنت کرتے ہیں، لہذا ایسوں کو توبہ کرنی چاہیے اور آئندہ شرعی مسائل میں اپنی رائے سے بولنے کے بجائے علماء اہلسنت سے رجوع کرنا چاہئے۔
چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے :
"فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ”
ترجمہ : تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو، اگر تمہیں علم نہیں۔
(پارہ 14، سورۃ النحل: 43)
تفسیر صراط الجنان میں ہے :
"اس آیت کے الفاظ کے عموم سے یہ معلوم ہوا کہ جس مسئلے کا علم نہ ہو اس کے بارے میں علماء کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔
حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم َنے (ایک شخص کی وفات کا سبب سن کر) ارشاد فرمایا :
’’جب (رخصت کے بارے) انہیں معلوم نہ تھا تو انہوں نے پوچھا کیوں نہیں کیونکہ جہالت کی بیماری کی شفاء دریافت کرنا ہے۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الطہارۃ، باب فی المجروح یتیمّم، جلد 1، صفحہ 154، رقم الحدیث : 336، دار احیاء التراث العربی بیروت)
اور حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہی روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :
’’عالم کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اپنے علم پر خاموش رہے اور جاہل کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اپنی جہالت پر خاموش رہے۔
اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
’’فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘
(یعنی اے لوگو! اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھو۔)
لہٰذا مومن کو دیکھ لینا چاہئے کہ اس کا عمل ہدایت کے مطابق ہے یا اس کے خلاف ہے۔”
(تفسیر در منثور، سورۃ النحل، تحت الآیۃ : 43، جلد 5، صفحہ 133، دارالفکر بیروت)
اور حدیثِ پاک میں ہے :
”من افتی بغیر علم لعنتہ ملٰئکۃ السماء والارض۔ رواہ ابن عساکر عن امیر المؤمنین علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ“
یعنی جو بغیر علم کے فتوی دے، اس پر آسمان و زمین کے فرشتے لعنت کرتے ہیں۔ اسے ابن عساکر نے امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے۔
(کنز العمال، جلد 10، صفحہ 193، رقم الحدیث : 29018، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت)
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم
کتبہ : مفتی ابواسیدعبید رضا مدنی