یکساں سول کوڈ قانون اسلام کا مخالف
محمد رضا مرکزی
خادم التدریس والافتاء
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں
یہ تین الفاظ کا مرکب ہے… آج کل کچھ زیادہ ہی موضوع بحث بنا ہوا ہے… کچھ سمجھنے سے پہلے ان الفاظ پر غور کرنا ہوگا کہ اس کا آسان مطلب کیا ہوتا ہے… یکساں.. معنی برابر، سول…. ملکی، کوڈ… قانون…. یعنی برابر ملکی قانون… ملک میں رہنے والے ہر فرد کے لیے ایک قانون بنا کسی مذہبی رعایت کے ….. لیکن دنیا حقیقت جانتی ہے کہ یہ قانون صرف اور صرف مسلمانوں کے خلاف ہی لایا جا رہا ہے….. اور مذاہب کے لوگ کچھ بھی کر لیں بر سراقتدار لوگوں کو کچھ نہیں ہوتا… پر اگر کوئی مسلمان کچھ کر لے چایے وہ قانون اسلام کے عین مطابق ہو تو سب چیخ پڑتے ہیں…. بس اسی لیے یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی تیاری زور وشور سے چل رہی ہے… اور اس کا ثبوت بھوپال میں ہمارے وزیراعظم نے اس کوڈ کی وکالت کر کہ دے دیا…..
یکساں سول کوڈ‘ قوانین کا ایک مجموعہ ہے جو شادی، وراثت اور گود لینے جیسے معاملات سے نمٹنے والے مختلف مذاہب کے ذاتی قوانین کا متبادل ہوگا۔
ہندوستان میں ’’یونیفارم سول کوڈ‘‘ کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کو اپنی مذہبی ہدایات کے خلاف نکاح و طلاق جیسے معاملات انجام دینا ہوں گے، وصیت اور وراثت کے معاملہ میں بھی انھیں مذہبی قانون کے بجائے دوسرے قوانین پر عمل کرنا ہوگا، اسی طرح دوسرے مذہب اور رسم و رواج کے پابند لوگوں کو بھی اپنا مذہب چھوڑنا ہوگا، اپنے رواج کو مٹانا ہوگا اور نئے قانون کا پابند ہونا پڑے گا۔ اس طرح ’’یونیفارم سول کوڈ‘‘ واضح طورپر ’’مسلم پرسنل لا‘‘ سے مختلف ایک قانون ہے۔ جس کے نفاذ کے بعد ’’مسلم پرسنل لا‘‘ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
ہمیں غور کرنا ہو گا…. اس بات پر کہ آخر ایسے قوانین کی ضرورت کیوں آ جارہی ہے….راقم الحروف کا تعلق دارالافتاء سے ہے ہر دن طلاق اور وراثت کے مسائل سامنے آتے ہی رہتے ہیں… کچھ مانتے ہیں کچھ نہیں مانتے… نہ ماننے والے کورٹ کچہری کا رخ کر کہ دین و قانون دین کو بد نام کرنے کا سبب بن جاتے ہیں… عورت کی الگ بات، مرد کی الگ بات، طلاق کی کثرت، اولاد کس کو دی جائے بعد طلاق، پھر ان میں وراثت کا معاملہ، ان سب معاملات کو اگر ہم نے بحسن وخوبی ایک عالم دین ومفتی شرع متین سے سمجھ کر سلجھا لیا ہوتا اور کفار کی کچہریوں کا رخ نہیں کیا ہوتا تو ان قوانین کے نفاذ کرنے کی نوبت نہ آتی… ان گنت برائیاں تو ہمارے اندر موجود ہیں ….. صبر سکون و اطمینان سے گھریلو معاملات کو حل کرنے کی بجائے لڑائی جھگڑا، کورٹ کچہری وکیل اور سب غیر مسلموں کو فیس دے دے کر مقرر کر کر کہ خود سے مسلمان اپنا مذاق بنا رہے ہیں… اور ان سب جگہوں پر ہزاروں لاکھوں روپیہ صرف بھی ہو رہے ہیں اور مفتی وعالم بنا کسی پیسے کے یہ کام کرکہ دنیا وآخرت میں کامیابی اور دین وایمان کی حفاظت کا ضامن بن رہا ہے….آپ کے ایمان کو بچانے کا ذریعہ بن رہا ہے… اس کی رہنمائی ہی اصل دین ہے.. وہ راہ صراط کا آپ کو مسافر بنانا چاہ رہا ہے… پر ہماری عوام کا کیا کہنا… وہ علماء کے سامنے صاف کفریہ جملے بک دیتی ہیں… شریعت وریت کو میں نہیں مانتا…. مولانا یہ تمہاری شریعت ہے.. تمہارے پاس رکھو یہ میری شریعت ہے..(یہ جملے شہر کے کچھ پنچ لوگوں نے راقم کے سامنے خود کہا تھا.. استغفراللہ)….. اگر شریعت کا کھلا مذاق اڑایا جائے گا تو رب کی طرف سے عذاب بشکل یکساں سول کوڈ مسلط ہو جائے گا…. ففروا الی اللہ.. تو اے مسلمانوں اللہ و رسول و قانون اسلام کی طرف پلٹو….
اس قانون میں جو چیزیں شامل کی گئی ہیں… دینک بھاسکر کی تفصیلات کے مطابق کچھ یہ ہیں.. جو اسلام سے متصادم ہیں..
تعدد ازواج کی ممانعت(حرام طریقے سے جو چاہیں وہ کریں گرل فرینڈ کے نام پر زنا کے نام پر ) حلالہ اور عدت کا معاملہ ختم، طلاق کا حق زوجین کو، جائیداد میں مساوی حقوق(لذکر مثل حظ الانثیین کے خلاف) ہم دو ہمارے دو پر عمل، بچے دو ہی اچھے….. اور بھی بہت سے قوانین موجود ہیں…
مسلمانوں سے چند گزارشات
١.. اپنے اپنے محلے میں اسلامی عدلیہ کا انتظام کریں…. نہیں ہو سکتا تو امام مسجد سے رجوع کریں…
٢.. اپنے مسائل نکاح وطلاق وراثت وصیت، لادعوی وگود لیا بچہ وغیرہ سب دارالافتاء سے حل کرنے کی کوشش کریں…
٣.. ہر محلے کے سنجیدہ افراد پنچ حضرات لوگوں کو یہ سمجھانے کی بھر پور کوشش کریں کہ سارے مسائل علماء و مفتیان کرام سے ہی حل کرائیں …
٤.. قرآن وحدیث یعنی قانون اسلام… مسلم پرسنل لا ہی ہماری نجات کا ذریعہ ہے… اسی پر عمل کرنے کے لئے آئمہ مساجد وخطیبان جمعہ مختصر اہمیت بتائیں تا کہ لوگوں کا مزید دارالافتاء کی طرف رجحان ہو..
٥..شہر شہر، علاقہ علاقہ دارالاقضاء کا قیام عمل میں لایا جائے اور اہم شرعی فیصلے وہاں قرآن وحدیث کی روشنی میں دئیے جائیں ….. طلاق ثلاثہ کا معاملہ ہو یا دیگر مسائل سب علمائے حق سے صلاح و مشورہ کے بعد ہی حل ہو….