ٹائی لگانا عند الشرع کیسا ہے؟
اَلسَّــلَامْ عَلَیْڪُمْ وَرَحمَةُ اللہِ وَبَرَڪَاتُہْ
الـســــــوال
سوال ١- کیا فرماتے علماۓ اہلسنت و مفتیان اعظام مسٸلہ ذیل میں کہ مسلمان سنی صحیح العقیدہ کو ٹاٸی لگانا کیسا ہے? کیا وہ ٹاٸی لگا سکتا ہے یا نہیں جواب مسلک اعلیٰ حضرت کی روشنی میں عنایت فرماٸیں کرم ہوگا مہربانی ہوگی عین نوازش ہوگی۔۔
المستفتی: محمد رضا رضوی مقام ملھنیاں ضلع دھنوشا نیپال ۔
ممبر سنی مسـائل شـرعیـہ واٹس ایپ گروپ
وَعَلَیْڪُمْ اَلسَّــلَامْ وَرَحْمَةُ اللہِ وَبَرَڪَاتُہْ
الجـــــوابـــــــــــــــ بعون الملک الوہاب
کسی بھی مسلمان سنی صحیح العقیدہ کو شریعت مطہرہ میں ٹاٸی لگانے کی شرعا اجازت نہیـــــں
جیساکہ فتاویٰ مرکز تربیت افتاء میـں ہے کہ”
بغیر حاجت شرعیہ کے برغبت نفس ٹائی لگانا ناجائز وگناہ ہے. اور اعلی حضرت امام احمد رضا برکاتی رضی اللہ عنہ ربہ القوی تحریر فرماتے ہیں کہ” جو بات کفار یا بدمذہبان اشرار یا فساق فجار کا شعار ہو بغیر کسی حاجت صحیحہ شرعیہ کے برغبت نفس اس کا اختیار مطلقا ممنوع وناجائز وگناہ ہے اگر چہ وہ ایک ہی چیز ہو کہ اس سے اس وجہ خاص میــں ضرور ان سے تشبہ ہوگا اسی قدر منع کو کافی ہے‘‘اھ
( فتاویٰ رضویہ ج ۹ ص ۱۴۸ نصف آخر)
اور حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ ‘‘
ٹائی لگانا اشد حرام ہے وہ شعار کفار بد انجام ہے نہایت بدکام ہے‚ وہ کھلا رد فرمان خُداوند ذوالجلال والا کرام ہے, ٹائی نصار’ی کے یہاں ان کے عقیدہ باطلہ میـں یاد گار ہے حضرت سیدنا مسیح علیہ الصلوة والسلام کے سولی دیے جانے اور سارے نصار’ی کا فدیہ ہوجانے کی والعیاذ بااللہ ۔
( فتاویٰ مصطوفیہ, ص ۵۲۶)
لہٰذا جن انگریزی اسکولوں میـں ٹائی لگانا لازمی ہے ان میـں بچوں کو تعلیم دلانا حرام ہے ۔
اعلی حضرت امام احمد رضا برکاتی رضی اللہ عنہ ربہ القوی تحریر فرماتے ہیں کہ ‘‘
کالج ہو یا اسکول یا مدرسہ اگر اس میـں دین اسلام یا مزہب اہل سنت یا شریعت مطہرہ کے خلاف تعلیم دی جاتی‚ تلقین کی جاتی ہے تو اس کی امداد بھی حرام اور اس میـں پڑھنا پڑھوانا بھی حرام ہے ۔
( فتاویٰ رضویہ ج ۹ ص ۲۹۶ نصف آخر)
(بحوالہ فتاویٰ مرکز تربیت افتاء ج ۲ ص۵۰۳ مکتبہ فقیہ ملت اکیڈمی اوجھا گنج بستی)
سیّدی اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت، مجدد دین و ملت شاہ احمد رضا خان عَلَیہ رَحمَۃُ الرَّحمٰن ایک سوال (ایسا لباس پہننا جس سے فرق کافر مسلمان کا نہ رہے شرعاً کیا حکم رکھتاہے؟کہ جواب میں فرماتے ہیں :*
حرام ہے۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں : مَنْ تَشَبَّہَ بِقَومٍ فَھُوَ مِنْہُم (یعنی) جو کوئی کسی قوم سے مُشابَہَت اختیار کرے وہ ان ہی میں سے ہے۔
(ابوداؤد ، کتاب اللباس ، باب فی لباس الشہرۃ ، ۴/ ۶۲، حدیث : ۴۰۳۱)*
بلکہ اس میں بہت صورتیں کفر ہیں جیسے زُنَّار باندھنا بلکہ شَرْحُ الدُّرَر لِلْعَلَّامَۃِ عَبْدِالغَنِی النَّابُلُسِی بِن اِسمٰعِیل رَحِمَہُمَا اللّٰہ تَعَالٰی میں ہے : لُبسُ زِی الاِفرَنجِ کُفرٌ عَلَی الصَّحِیحِ یعنی صحیح مذہب یہ ہے کہ فرنگیوں کی وضع پہننا کفر ہے۔ فتاوی خلاصہ میں ہے : اِمْرَاَۃٌ شَدَّت عَلَی وَسطِھَا حَبلاً وَقَالَت ھٰذَا زُنَّارٌ تَکفُرُ کسی عورت نے اپنی کمر میں رسی باندھی اور کہا یہ جنیو ہے کافرہ ہو گئی۔
(فتاویٰ رضویہ ، ۲۲/ ۱۹۳ مکتبہ دعوت اسلامی)
اور آگے سیدی اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلسنّت ، مجدد دین و ملت شاہ احمد رضا خان عَلَیہ رَحمَۃُ الرَّحمٰن انگرکھے کے متعلق فرماتے ہیں : ’’یہ بھی ایک جدید پیداوار ہے لیکن اس کے باوجود یہ اپنے اندر ممانعتِ شرعی نہیں رکھتا مگر جب کہ اس کے پردے کا چاک دائیں طرف ہو تو پھر ہندؤوں کی مُشابَہَت کی وجہ سے حرام ہے۔ ‘‘
(فتاوی رضویہ ، ۲۲/ ۱۹۱ مکتبہ دعوت اسلامی)
اور حضور مفئ اعظم ہند قدس سرہ العزیز یہ فرماتے تھے کہ ٹائی قرآن حکیم کا ردہے۔ قرآن حکیم فرماتا ہے۔”وماقتلوہ وماصلبوہ و لکن شبہ لھم(الی قولہ) وماقتلوہ” یقیناً: یعنی یہودیوں نے حضور عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کو قتل نہ کیا نہ انہیں سولی دی بلکہ ان کے لئے انکی شبہ کا دوسرا بنادیا گیا,(الی قولہ) اور یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کو پقینا قتل نہیں کیا
(پارہ 5 سورۂ نسا آیت نمبر 156)
اس کے بر خلاف عیسائیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ یہودیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو پھانسی دی اور سولی پر لٹکایا”لہذا عیسائی اس کی یاد میں صلیب کا نشان جسے ،،کراس،، کہتے ہیں اور گلے میں ٹائی(پھندہ) باندھتے ہیں,,حضرت اقدس (مفتی اعظم ہند قدس سرہ) کی خدمت میں رہنے والوں کا بارہا کا مشاہدہ تھا کہ کسی کو ٹائی پہنے دیکھتے سخت برہمی کا اظہار کرتے اور ٹائی اتروا دیتے تھے اور ٹائی کو عیسائیوں کا شعار بتاتے تھےحضرت اقدس کا یہ فتویٰ چند وجوہ سے مؤید ہے. .
تفصیل کے لیے اس میں دیکھیں_
( "ٹائی کا مسئلہ” تصنیف_نبیرہ اعلیٰ حضرت جانشین حضور مفتی اعظم ہندتاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی حافظ و قاری الحاج الشاه محمّد اختر رضا خان قادری ازہری علیہِ الرحمہ”)
لہذا فقہائے کرام کی مذکورہ عبارات سے یہ بات بخوبی معلوم ہوگئی کہ جو چیزیں فی نفسہٖ ناجائز ہوں یا کفار و مشرکین یا کسی بدعتی فرقے کی علامت ہوں ان کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ، بلکہ فعلِ حرام اور بعض صورتوں میں کفر ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
اسیر حضور تاج الشریعـــہ
محــمد نـورجـمال رضـوی, معینـی اتر دیناج پـور ویسٹ بنــگال الہنــــــد
مؤرخہ:(۶) شوال المکرم، ۲٤٤١ھ بروز؛ بدھ