تعویذات کا قرآن و حدیث کی روشنی میں ثبوت مطلوب ہے؟
سائل : جمیل قادری کراچی
بسمہ تعالیٰ
الجواب بعون الملک الوھّاب
اہلِ سُنّت کے نزدیک آیاتِ قرآنیہ، اسماءِ الٰہیہ اور دعائیہ کلمات کے تعویذات پہننا جائز ہے، اور بعض حدیثوں میں جو تعویذات ممانعت آئی ہے، اس سے مراد وہ تعویذات ہیں جو ناجائز الفاظ (شرکیہ الفاظ) پر مشتمل ہوں، کیونکہ اس قسم کے تعویذات زمانۂ جاہلیت میں کیے جاتے تھے۔
چنانچہ حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنھما اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہ وَاٰلہٖ وَ سَلَّم نے فرمایا :
"اذا فزع احدکم فی النوم فلیقل : اَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِن غَضَبِہ وَعِقَابِہ وَشَرِّ عِبَادِہ، وَمِن ھَمَزَاتِ الشَّیاطِینِ وَاَن یَّحْضُرُوْنِ، فانھا لن تضرہ
یعنی جب تم میں سے کوئی شخص نیند میں ڈر جائے تو وہ یہ دعا پڑھے : "اَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِن غَضَبِہ وَعِقَابِہ وَشَرِّ عِبَادِہ، وَمِن ھَمَزَاتِ الشَّیاطِینِ وَاَن یَّحْضُرُوْنِ” تو شیاطین اسے نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
"فکان عبداللہ بن عمرو، یلقنھا من بلغ من ولدہ، ومن لم یبلغ منھم کتبھا فی صک ثم علقھا فی عنقہ”
یعنی حضرت سیّدنا عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تعالٰی عَنہ اپنے بالغ بچوں کو اس دعا کی تلقین فرماتے اور جو نابالغ بچے ہوتے ان کے لیے یہ دعا کاغذ پر لکھتے پھر اس کو ان گلے میں لٹکا دیتے۔
امام ابو عیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
"ھذا حدیث حسن غریب”
یعنی یہ حدیث حسن غریب ہے۔
(سنن ترمذی، کتاب الدعوات، 72- باب ما جاء فی عقد التسبیح بالید، 96- باب (م : 93، ت : ۔۔۔) صفحہ 808، رقم الحدیث : 3528، دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)
(وہابیوں کے مولوی البانی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔)
مُحَقِّق عَلَی الاِطلاق شیخ عبد الحق محدث دہلوی عَلَیہ رَحمَۃُ اللّٰہ علیہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
”اس حدیث سے گردن میں تعویذات لٹکانے کا جواز معلوم ہوتا ہے، اس باب میں علماء کا اختلاف ہے، مختار یہ ہے کہ سیپیوں اور اس کی مثل چیزوں کا لٹکانا حرام یا مکروہ ہے لیکن اگر تعویذات میں قراٰنِ مجید یا اللّٰہ تعالیٰ کے اسماء لکھے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔”
(اشعۃ اللمعات، کتاب اسماء اللّٰہ تعالی، باب الاستعاذۃ، جلد 2 صفحہ 307)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں :
"التمائم ما علق قبل نزول البلاء، و ما علق بعدہ فلیس بتمیمۃ”
یعنی تعویذات وہ ہیں جو بلا نازل ہونے سے پہلے پہنے جائیں، جو بعد میں پہنے جائیں تو وہ تعویذات نہیں ہیں۔
ھذا حدیث صحیح الاسناد علی شرط الشیخین و لم یخرجاہ (التعلیق : من تلخیص الذھبی) صحیح۔
یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح الاسناد ہے اور انہوں نے اس حدیث کو روایت نہیں کیا۔ امام ذہبی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
(المستدرک علی الصحیحین، کتاب الطب، کتاب الرقی و التمائم، جلد 4، صفحہ 463، دارالکتب العلمیہ بیروت، السنن الکبریٰ، ابواب کسب الحجام، باب التمائم، جلد 9، صفحہ 589، دارالکتب العلمیہ بیروت)
یحییٰ بن سعید رحمۃ اللہ علیہ سے دم اور تعویذ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :
"کان سعید بن المسیب یامر بتعلیق القرآن و قال : لاباس بہ”
یعنی سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ حکم دیتے تھے کہ قرآنِ پاک کا تعویذ بناؤ، اور فرماتے کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔
(السنن الکبریٰ، ابواب کسب الحجام، باب التمائم، جلد 9، صفحہ 590، دارالکتب العلمیہ بیروت)
وہابیوں کا امام ابنِ تیمیہ لکھتا ہے :
"و یجوز ان یکتب للمصاب و غیرہ من المرضی شیئا من کتاب اللہ و ذکرہ بالمداد المباح و یغسل و یسقی کما نص علی ذلک احمد و غیرہ”
یعنی جائز ہے کہ مصیبت زدہ اور دوسرے مریضوں کے لئے کتاب اللہ اور اس کے ذکر میں سے کچھ مباح روشنائی کے ساتھ تعویذ لکھا جائے، اسے دھویا جائے اور پلایا جائے جیسا کہ اس پر امام احمد اور دیگر علماء نے اس کی تصریح کی ہے۔
علی نے کہا :
"یکتب فی کاغذۃ فیعلق علی عضد المراۃ”
یہ تعویذ کاغذ میں لکھا جائے پھر عورت کے بازو میں باندھا جائے۔
(مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ، فصل فی جواز ان یکتب للمصاب الخ، جلد 19، صفحہ 64، مجمع الملک مدینہ منورہ)
فتویٰ عالمگیری میں ہے :
"الاسترقاء بالقرآن نحو أن يقرأ علی المرض و الملدوغ أو يکتب فی ورق و يعلق أو يکتب فی طست فيغسل و يسقی المريض فأباحه عطاء و مجاهد و أبو قلابة ۔ فقد ثبت ذلک فی المشاهير من غير اِنکار و الذی رعف فلا يرقأ دمه فأراد أن يکتب بدمه علٰی جبهته شيْاً من القرآن يجوز و کذا لو کتب علی جلد ميتة اذا کان فيه شفاء ولا باس بتعليق التعويذ و لٰکن يترعه عند الخلاء و القربان”
یعنی قرآن کریم سے دم (جھاڑ پھونک) کرنا یوں کہ مریض اور (سانپ، بچھو وغیرہ سے) ڈسے پر قرآن پڑھے یا کاغذ پر لکھ کر گلے وغیرہ میں لٹکائے یا پلیٹ پر لکھ کر اور اس تحریر کو دھو کر بیمار کو پلائے اسے عطاء، مجاہد اور ابو قلابہ نے جائز قرار دیا ہے، مشہور ائمہ میں یہ عمل بغیر انکار ثابت ہے۔ اور جس کی نکسیر نہ رُکتی ہو اور وہ اپنے اُسی خون سے اپنی پیشانی پر قرآن کریم کی کوئی آیت لکھنا چاہے تو یہ جائز ہے۔ یونہی مردار کے (رنگے ہوئے) چمڑہ پر لکھنا جب اس میں شفاء (کی امید) ہو جائز ہے۔ اور گلے میں تعویذ لٹکانے میں حرج نہیں، ہاں بیت الخلاء یا بیوی سے قربت کے وقت اتار دے۔
(فتاوی عالمگیری، جلد 5 صفحہ 356 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
علامہ محمد بن علی المعروف علاء الدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"فرع : في المجتبى : التميمة المكروهة ما كان بغير العربية”
یعنی مجتبیٰ میں ہے کہ مکروہ تعویذ وہ ہے جو عربی کے بغیر ہو۔
عمدۃ المحققین علامہ محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین شامی دمشقی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"قوله: (التميمة المكروهة) أقول : الذي رأيته في المجتبى : التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن، و قيل : هي الخرزة التي تعلقها الجاهلية اهـ۔۔ و في المغرب: و بعضهم يتوهم أن المعاذات هي التمائم، و ليس كذلك إنما التميمة الخرزة، و لا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى۔۔۔ قالوا : إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو، و لعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، و أما ما كان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس به اهـ۔۔اختلف فی الاستشفاء بالقرآن بان يقرأ علی المريض أو الملدوغ الفاتحة، أو يکتب فی ورق و يعلّق عليه أو فی طست و يغسل و يسقٰی۔ و عن النبی صلی الله عليه وآله وسلم أنه کان يعوذ نفسه۔۔۔ و علی الجواز عمل الناس اليوم، و به و ردت الآثار، و لا بأس بأن يشدّ الجنب و الحائض التعاويذ علی العضد اذا کانت ملفوفة”
یعنی علامہ علاء الدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ کا قول : "التمیمۃ المکروھۃ” میں (علامہ شامی) کہتا ہوں کہ : میں نے "مجتبیٰ” میں دیکھا ہے کہ مکروہ تعویذ وہ ہے جو قرآن کے علاوہ ہو، اور کہا گیا ہے کہ یہ گھونگھے (سیپیاں) ہیں جو اہلِ جاہلیت لٹکاتے تھے۔ اور "مغرب” میں ہے کہ بعض نے یہ وہم کیا کہ تعویذات ہی تمائم ہیں حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے، تمیمہ تو گھونگھے (سیپیاں) ہیں اور ان تعویذات (سے شفاء حاصل کرنے) میں کوئی حرج نہیں جن میں قرآن یا اللہ تعالیٰ کے اسماء (نام) لکھے ہوں۔
علماء کرام فرماتے ہیں : تعویذ اس وقت مکروہ ہے جب وہ عربی زبان کے علاوہ ہو اور پتہ نہ چلے کہ یہ کیا ہے (یعنی مطلب معلوم نہ ہو)، اور (مطلب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے) ممکن ہے کہ اس میں جادو یا کفر یا اس کے علاوہ کوئی خلافِ شرع چیز وغیرہ شامل ہو جائے، اور بہرحال جو تعویذ قرآنِ پاک سے ہو یا کسی دعا کے ساتھ ہو تو اس میں حرج نہیں ہے۔
قرآن کے ذریعہ شفاء حاصل کرنے میں اختلاف ہے۔ مثلاً بیمار یا (سانپ، بچھو وغیرہ سے) ڈسے ہوئے پر فاتحہ پڑھنا یا کسی کاغذ میں لکھ کر اس کے گلے وغیرہ پر لٹکا دیا جائے یا پلیٹ پر لکھ کر اور اس لکھے کو دھو کر اسے پلا دیا جائے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ اپنے اوپر دم کیا کرتے تھے، اور آجکل لوگوں کا جواز پر ہی عمل ہے اور اسی کی تائید میں آثار (روایات) وارد ہیں۔ اور جُنبی اور حیض والی عورت کے لیے حرج نہیں ہے کہ تعویذ بازُو پر باندھیں جبکہ وہ تعویذ لفافے میں بند ہو۔
(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الحظر و الإباحۃ، فصل في اللبس، جلد 9، صفحہ 600 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ :
اکثر علماء یا مولوی صاحب کسی حاجتمند کو خالصا ﷲ کوئی تعویذ یا نقش دے دیتے ہیں اور اس سے بفضلہ تعالیٰ نفع ہو جاتا ہے تو اس پر اعتقاد واجب ہے یا نہیں ؟
ایک صاحب فرماتے ہیں کہ تعویذات وغیرہ کا ثبوت کہیں قرآن شریف یاحدیث شریف سے نہیں ہے، وﷲ تعالی اعلم یہ کہاں تک صحیح ہے ؟
اس لئے حضور کو تکلیف دی گئی کہ حضور تحریر فرمائیں کہ آیا اس شخص کے مطابق عمل کیا جائے یا نہیں ؟
تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً تحریر فرمایا :
"تعویذات بیشک احادیث اور ائمہ قدیم و حدیث سے ثابت، اور اس کی تفصیل ہمارے فتاوی افریقہ میں ہے، تعویذات اسماءِ الہی و کلامِ الہی و ذکرِ الہی سے ہوتے ہیں، ان میں اثر نہ ماننے کا جواب وہی بہتر ہے جو حضرت شیخ ابو سعید الخیر قدس سرہ العزیز نے ایک ملحد کو دیا جس نے تعویذات کے اثر میں کلام کیا، حضرت قدس سرہ نے فرمایا : تو عجیب گدھا ہے۔ وہ دنیوی بڑا مغرور تھا یہ لفظ سنتے ہی اس کا چہرہ سرخ ہوگیا اور گردن کی رگیں پھول گئیں اور بدن غلیظ سے کانپنے لگا اور حضرت سے اس فرمانے کا شاکی ہوا، فرمایا میں نے تمہارے سوال کا جواب دیا ہے گدھے کے نام کا اثر تم نے مشاہدہ کر لیا کہ تمہارے اتنے بڑے جسم کی کیا حالت کر دی لیکن مولی عزوجل کے نام پاک میں اثر سے منکر ہو۔”
(فتاوی رضویہ جلد 24 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
سیدی اعلیٰ حضرت رَحمَۃ
ُ اللہ علیہ "فتاویٰ افریقہ” میں تحریر فرماتے ہیں :
"جائز تعویذ کہ قراٰن کریم یا اسمائے الٰہیّہ (یعنی اللّٰہ تعالیٰ کے ناموں) یا دیگر اذکار و دَعوات (دُعاؤں) سے ہو اس میں اصلاً حرج نہیں بلکہ مستحب ہے۔
رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ تَعالٰی عَلیہ واٰلہٖ وَ سلَّم نے ایسے ہی مقام میں فرمایا کہ:
مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُم اَنْ یَّنْفَعَ اَخَاہُ فَلْیَنْفَعْہٗ
یعنی تم میں جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو نفع پہنچا سکے (تو اسے نفع) پہنچائے۔”
(فتاویٰ افریقہ صفحہ 168 شبیر برادرز لاہور)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"گلے میں تعویذ لٹکانا جائز ہے، جبکہ وہ تعویذ جائز ہو یعنی آیاتِ قرآنیہ یا اسماء الٰہیہ (اللہ پاک کے ناموں) یا ادعیہ (دعاؤں) سے تعویذ کیا جائے اور بعض حدیثوں میں جو ممانعت آئی ہے، اس سے مراد وہ تعویذات ہیں جو ناجائز الفاظ پر مشتمل ہوں، جو زمانۂ جاہلیت میں کیے جاتے تھے، اسی طرح تعویذات اور آیات و احادیث و ادعیہ کو رکابی میں لکھ کر مریض کو بہ نیت شفا پلانا بھی جائز ہے۔ جنب و حائض و نفسا بھی تعویذات کو گلے میں پہن سکتے ہیں، بازو پر باندھ سکتے ہیں جبکہ غلاف میں ہوں۔”
(بہارشریعت جلد 3 حصہ 16 صفحہ 652 مکتبۃ المدینہ کراچی)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"اگر آیات قرآنیہ یا ماثورہ دعاؤں سے اسی محبت کا تعویذ کیا جاوے تو بالکل جائز ہے، حضرات صحابہ کرام نے دعاء ماثورہ کے تعویذات باندھے ہیں۔”
(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد 6 صفحہ قادری پبلیشر )
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبــــــہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی