طوافِ کعبہ کیوں کیا جاتاہے؟ از مفتی محمد نظام الدین قادری علیمیہ

(1) طوافِ کعبہ کیوں کیا جاتاہے؟

(2)اور اپنی زندگی میں ساری جائیداد ایک بیٹے کے نام کرنے کا حکم ہے ؟

 

السلام علیکم و رحمۃ الله و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسلہ میں کہ کعبہ معظمہ کا طواف کیوں کیا جاتا ہے؟

نیز زید یہ کہہ رہا ہے کہ میرے چار بچے ہیں جن میں سے صرف ایک کو میں بحیثیت باپ اپنی ساری جایدات دے سکتا ہوں کیا؟

تشفی بخش جواب عنایت فرماکر عند الله ماجور ہوں۔

فقط والسلام

السوال من: محمد ارمان علیمی گونڈہ


الجواب(١):

خانہ کعبہ کا طواف اس لیے کیا جاتا ہے کہ ہمارے خالق ومالک اور سارے جہان کے پروردگار کا حکم ہے، ارشادِ ربانی ہے: "وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ” (سورہ حج:٢٩)

اور اس عمل میں حکمت یہ ہے کہ بندہ اپنی بندگی اور انکسار کا اس طرح اظہار کرتا ہے کہ اُس مقدس گھر کے ارد گرد گھوم گھوم کر جس کو اللہ جل شانہ نے اہنے گھر ہونے کا اعزاز بخشا ہے یہ کہنا چاہتا ہے کہ میں اسی چوکھٹ پر پڑا رہنا چاہتا ہوں اور اس در کو چھوڑ کر کہیں اور جانا اسے گوارا نہیں۔ ملک العلماء ابوبکر بن مسعود کاسانی قدس سرہ النورانی تحریر فرماتے ہیں:

"وبالطواف حول البیت یلازم المکان المنسوب الی ربہ بمنزلة عبد معتکف علی باب مولاہ لائذ بجنابہ”(بدائع الصنائع للکاسانی ج٢ ص ١٨٩)

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

(٢) اگر آدمی "مرض الموت” کی حالت میں نہ ہو اور اپنی زندگی میں اپنی ساری جائیداد اپنے کسی بیٹے یا کسی دوسرے وارث کو دے کر اس پر قبضہ کرادے تو وہ لڑکا یا وارث ساری جائیداد کا مالک ہوجائے گا، لیکن دوسرے لڑکوں یا وارثوں کو محروم کرنے کی نیت سے ایسا کرنا گناہ ہے۔ ہاں! اگر دوسرے لڑکے اوباش فاسق وفاجر ہوں جن کے بارے میں گمانِ غالب ہو کہ وہ ترکہ کو معصیتوں میں اڑا ڈالیں گے تو ان کو محروم کرنے کی نیت سے بھی صالح لڑکے کو دینے میں حرج نہیں ہے۔ امامِ اہلِ سنت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:

"جبکہ وارث آوارہ بدوضع نہ ہو جس سے مظنون ہوکہ مال جو اس کے لئے رہے گا معاصی الہیہ میں اُڑائے گا تو اسے محروم کرنے کی نیت سے کوئی کارروائی کرنی عند ﷲ قابل مواخذہ ہے،حدیث میں ہے: من فرّٙ من میراث وارثہ قطع ﷲ میراثہ من الجنۃ یوم القیامۃ۔جواپنے وارث کے میراث پانے سے بھاگے ﷲ تعالٰی روزقیامت اس کی میراث جنت سے قطع فرمادے گا رواہ ابن ماجۃ عن انس رضی ﷲ تعالٰی عنہ

۔اورکوئی خفیف شیئ باقی رکھنا کافی نہ ہوگا جبکہ نیت اس فساد کی ہو۔فانما الاعمال بالنیات وانما لکل امری مانوٰی ۔مگرنیت کاثبوت چاہئے ورنہ صدیق اکبر وامام حسن مجتبٰی وام المومنین صدیقہ وغیرہم ائمہ دین رضی ﷲ تعالٰی عنہم نے بارہا اپنے کل مال تصدق فرمادئیے ہیں اپنے کھانے پہننے کوبھی کچھ نہ چھوڑا،کما صحت بذٰلک الاحادیث” (فتاوی رضویہ ج١٠ ص ٣٧٨)

اور اگر "مرض الموت” کی حالت میں اپنے کسی بیٹے یا کسی دوسرے وارث کو پوری جائیداد یا اس کا کچھ حصہ دیا تو چوں کہ یہ دینا حقیقةً ہبہ اور حکماً وصیت کے درجہ میں ہے اس لیے اگر حیات میں قبضہ نہ کرادیاہو تو آدمی کے مرجانے سے یہ "ہبہ” (دینا) باطل ہوجائے گا اور اگر اپنی زندگی میں قبضہ صحیحہ کرادیا ہو تو مرنے کے بعد دیگر وارثوں کی اجازت پر موقوف ہوتا ہے، اگر سب نے جائزکردیا (بشرطے کہ ان میں کوئی نابالغ یا پاگل نہ ہو)تو ساری جائیداد کا مالک ہوجائے گا ورنہ اپنے حصہ کی مقدار جائیداد کا مالک ہوگا۔ اور اگر بعض وارثوں نے جائز کیا اور بعض نے نہیں کیا تو اپنے حصہ کے ساتھ اجازت دینے والے کے حصہ کا بھی مالک ہوگا۔

اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:

” ہبہ اگرچہ مرض الموت میں ہو حقیقۃً ہبہ ہے ، تمام شرائطِ ہبہ درکارہوں گے بلاقبضہ تمام نہ ہوگا، مشاع ناجائزہوگا۔ واہب اگرقبلِ قبضہ کاملہ موہوب لہ انتقال کرجائے ہبہ باطل ہوجائے گا۔ غرض وہ بہمہ وجوہ ہبہ ہے اوراسی کے احکام رکھتاہے مرض الموت میں ہونے کاصرف اتنا اثر ہے کہ وارث کے لئے مطلقاً اوراجنبی کے واسطے ثلث باقی بعد ادائے دیون سے زیادہ میں بے اجازتِ دیگرورثہ نافذ نہ ہوگا ۔ اجازتِ وارث عاقل بالغ نافذ التصرف کی بعدِ وفاتِ مورث درکارہے، اس کی حیات میں اجازت دینی نہ دینی بیکارہے۔ پس اگرمورث مثلاً: اپنے پسرکو اپنے مرض الموت میں کوئی شیئ ہبہ کرے اورقبضہ بھی پورا کرادے، اوراس کے انتقال کے بعد دیگر ورثہ اسے نہ مانیں وہ یکسر باطل ہوجائے گا اوربعض مانیں اوربعض نہ مانیں تو اس نہ ماننے والے کے حصے کے لائق باطل قرارپائے گا۔(فتاوی رضویہ ج ١٠ ص ١٦٧ )

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس و افتاء دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔ یوپی۔

٢٢/ذو القعدہ ١۴۴٢ھ//٣/جون ٢٠٢١ء

Leave a Reply