پختہ حافظ کا انتظام ہونے کے باوجود ایسے حافظ کو تراویح کے لیے مقرر کرنا جسے قرآن پاک یاد نہ ہو کیسا ہے؟ اور اسکی اقتدا میں پڑھی گئی نمازوں کا کیا حکم ہے؟
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں یہ کہ ایک مرکزی جامع مسجد میں نماز تراویح میں قرآن پاک سنانے کے لیے کچھ لوگوں نے ایک پختہ حافظ صاحب کا انتظام کیا مگر وہاں کے خطیب و امام صاحب نے کچھ لوگوں کے کہنے پر دوسرے حافظ کا انتظام کرلیا جن کو قرآن پاک پختہ یاد نہ تھا بیچ بیچ میں کچھ مقتدیوں کو شک ہوا کہ یہ درست نہیں پڑھ رہے ہیں لیکن انہوں نے شک کی بنیاد پر کچھ نہ کہا ہاں پھر جب سورہ یاسین پر پہنچے عموما لوگوں کو سورہ یاسین یاد ہوتی ہے حافظ صاحب سورہ یاسین بھی نہ پڑھ پائے دوسرے دن اچانک ایک حافظ صاحب چندہ کے سلسلے میں کہیں دوسری جگہ سے اسی مسجد میں آ گئے جب تراویح پڑھانے والے حافظ صاحب کو پتہ چلا کہ یہ بھی حافظ ہیں انہوں نے دورکعت میں پارہ پڑھا اور تیسری رکعت کے لیےکھڑے ہوئے تو حافظ صاحب نے فرمایا کہ آج میری طبیعت ٹھیک نہیں اس لیے سورۃ سے پڑھیں گےایسے باقی رکعت پوری کرے مگر مقتدیوں کو شک یقین میں بدل گیا تیسرے دن امام صاحب نے پھر پارہ شروع کیا اور مقتدیوں نے ریکارڈنگ کرلیں پوری بیس رکعت تراویح کی بعدہ انہوں نے کچھ حفاظ سے رابطہ کرکے وہ ریکارڈنگ انہیں سنائی تو پتہ چلا کہ کبھی 25 کبھی 14 کبھی 18 وغیرہ وغیرہ اور کچھ الفاظ ایسے تھے کہیں بھی موجود نہیں بعدہ ان مقتدیوں نے اسی مسجد کے خطیب و امام صاحب سے رابطہ کیا کہ معاملہ یہ ہے کہ جب ریکارڈنگ مع حوالہ بتائی مگر خطیب صاحب اور ان کے ہمراہ کچھ دوسرے لوگوں نے حافظ صاحب کی حمایت کی اسی دن مقتدیوں نے کہا کہ تراویح پڑھیں سورت سےمگر نہ حافظ صاحب مانے اور نہ ہی خطیب صاحب،برابر حافظ صاحب کی حمایت میں رہے اور ایک بار پھر حافظ صاحب نے چھبیسواں پارہ شروع کیا پہلی رکعت پوری کی دوسری میں حافظ صاحب نے آیت پڑھی مگر آگے نہ بڑھ پائے کچھ دیر خاموش رہے پھر ایک آیت پڑھی پھر تین بار تسبیح پڑھنے کے برابر یا اس سے کچھ زیادہ خاموش رہے پھر سورت سے شروع کیا نماز کے بعد مسجد میں کافی شور شرابا ہوا یعنی کہ آداب مسجد کے خلاف مگر چند لوگ اور خطیب صاحب حافظ صاحب کی حمایت میں ڈٹے رہے اور خطیب صاحب اور چند لوگ اور حافظ صاحب کے استاد صاحب نے ایک دوسرے حافظ صاحب کا انتظام کیا اور کہا کہ آخر کے پانچ پارے یہ پڑھائیں گے لوگوں نے شور کیا کہ ہمارے پچھلے25 پاروں کا کیا ہوگا اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا وہ پچھلی نمازیں ہوئی یا نہیں اور یہ کہ خطیب صاحب اور حافظ صاحب اور حافظ صاحب کے استاد ودیگر حمایتی جن کو معلوم تھا کہ یہ غلط پڑھ رہے ہیں یا بعد میں معلوم ہونے پر ان کی حمایت کرتے رہے اور لوگوں کی نمازیں خراب کی ان کے بارے میں کیا حکم ہے، اور مزکورہ دوسری رکعت میں تین بار یا اس سے کچھ زیادہ تسبیح پڑھنے کے برابر خاموش رہے اور سجدہ سہو بھی نہ کیا اس نماز کا کیا حکم ہے اور حافظ صاحب خطیب صاحب اور حافظ صاحب کے استاد اور دیگر جو حافظ صاحب کے حمایتی ہیں ان کے بارے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
منجانب:- جملہ مصلیان جامع مسجد بھینچھ
الجواب بعون الهادى الی الحق والصواب
رمضان المبارك میں نماز تراویح میں ایک بار ختم قرآن سنت مؤکدہ ہے اور دو بار فضیلت اور تین بار افضل،مکمل قرآن عظیم سننے میں مقتدیوں کے لیے اجر عظیم ہے اسی اجر عظیم کی خاطر بہت سے لوگ ختم قرآن سننے کے خواہشمند ہوتے ہیں،اس لیے قرآن پاک سنانے کے لیے ایسے حافظ کا انتظام کرنا چاہیے جسے پختہ یاد ہو اور صحیح وصاف پڑھتا ہو کہ سننے والوں کو محسوس ہو کہ قرآن پاک سن رہے ہیں جس حافظ کو پختہ یاد نہ ہو اسے ہرگز سنانے کی جرأت نہ کرنا چاہیے-صورت مستفسرہ میں پختہ حافظ کا انتظام ہوتے ہوئے بھی خطیب صاحب کا قرآن پاک سنانے کے لیے ایسے حافظ کو مقرر کرنا جس کا حال صورت مسؤلہ میں بیان کیا گیا ہے سراسرغلط ہے اور ایسی حالت میں حافظ کا سنانے کی جرأت کرنا ہرگز درست نہ تھا کیونکہ اس میں مقتدیوں سے جھوٹ بول کر اور دھوکہ دے کر انہیں اجر عظیم سے محروم کرنا ہے۔حافظ صاحب کا حال جب مقتدیوں پر آشکار ہوگیا اس کے باوجود خطیب صاحب اور حافظ صاحب کے استاد اور دیگر لوگوں کا انکی حمایت کرنا اور اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرنا لائق مذمت ہے انکو چاہیے کہ اپنی غلطی کا اعتراف کرکے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں توبہ صادقہ کریں اور آئندہ ایسی قبیح حرکت سے بچنے کا پختہ عہد کریں-
حدیث شریف میں ہے "من غش فليس منا والمكر والخداع فى النار”( سلسله احاديث صحيحه/البيوع والكسب والزهد/حدیث: ۱۱۷۳ )
ایک اور مقام نبی کریم رؤف الرحيم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے”عن أبي امامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يطبع المؤمن على الخلال كلها الا الخيانة والكذب”( مسند الامام أحمد بن حنبل، رقم الحديث: ۲۲۱۷۰)
علامہ عبد الرؤف مناوی قدس سرہ السامی رقمطراز ہیں”کسی چیز کی (اصلی) حالت کو پوشیدہ رکھنا دھوکہ ہے”(فیض القدیر ج ۶ ص ۲۴۰)
ارشاد باری تعالی ہے ” وتعاونوا علی البر والتقوی، ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان، واتقوا اللہ ،ان اللہ شدید العقاب "(سورہ مائدہ آیت نمبر :۲)ترجمہ: "اور نیکی اور پرہیز گاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے”(کنز الایمان)
جہاں تک نمازوں کے خراب ہونے یا نہ ہونے کی بات ہے تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ حافظ صاحب قرآن پاک سے جو کچھ پڑھتے تھے اگر درست پڑھتے تھے کہ جس سے معنی فاسد نہیں ہوتے تھے تو وہ نمازیں درست ہونگی لیکن اگر ایسا پڑھتے تھے جس سے معنی فاسد ہوجاتے تھے تو وہ نمازیں نہ ہوئیں، لیکن تراویح کی نماز چونکہ سنت ہے عشاء کا وقت ختم ہونے سے پہلے پڑھنی ہوگی وقت ختم ہونے کے بعد قضا لازم نہ ہوگی-اور قرآن پاک درست پڑھنے کی صورت میں حافظ صاحب جہاں تین تسبیح کے برابر یا اس سے زیادہ خاموش رہے اور سجدہ سہو بھی نہ کیا وقت کے اندر یعنی عشاء کا وقت ختم ہونے سے پہلے ان کا اعادہ(دہرانا)واجب تھا وقت گزرنے کے بعد نہیں-
بہار شریعت میں ہے” اس میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اگر ایسی غلطی ہوئی جس سے معنی بگڑ جائیں تو نماز فاسد ہوگئی ورنہ نہیں”(ج۱، ح۳ ، ص ۵۵۴ /مکتبۃ المدینہ دعوت اسلامی )
فتاوی عالمگیری میں ہے”وإذا تذكروا أنه فسد عليهم شفع من الليلة الماضية فأرادوا القضاء بنية التراويح يكره”(ج ۱ ص ۱۱۷)
درمختارمیں ہے :’’ اذا شغله الشک فتفکر قدر اداء رکن ولم یشتغل حالة الشک بقراءۃ، وجب علیہ سجود السہو‘‘۔(درمختار مع رد المحتار، باب سجود السہو،ج:۲، ص:۹۴، دار الفکر، بیروت )
ردالمحتار میں ہے:’’التفکر الموجب للسھو مالزم منه تاخیر الواجب اوالرکن عن محله بان قطع الاشتغال بالرکن أوالواجب قدر اداء رکن و ھوالأصح،ملخصا”(رد المحتار، باب سجود السہو،ج:۲، ص:۹۴، دار الفکر، بیروت)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:’’سکوت اتنی دیر کیا کہ تین بار سبحان ﷲ کہہ لیتا تو یہ سکوت اگر بربنائے تفکر تھا کہ سوچتا رہا کہ کیا پڑھوں، تو سجدہ سہو واجب ہے اگر نہ کیا تو اعادہ نماز کا واجب ہے ، اور اگر وہ سکوت عمداً بلاوجہ تھا جب بھی اعادہ واجب ‘‘۔ (فتاوی رضویہ ج ۳ ص ۶۳۷، رضااکیڈمی، ممبئی)
حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:’’ قرأت وغیرہ کسی موقع پر سوچنے لگا کہ بقدر ایک رکن یعنی تین بار سبحان اللہ کہنے کے وقفہ ہوا سجدۂ سہو واجب ہے‘‘۔ (بہارشریعت ح ۴ ج ۱، ص ۳۱۶ فرید بک ڈپو دہلی)
صورت مسؤلہ میں مقتدیوں کی نماز خراب ہونے کا سارا وبال حافظ پر اور ان پر ہے جن کو پہلے سے معلوم تھا کہ غلط پڑھ رہے ہیں پھر بھی حمایت کرتے رہے اور ان پر بھی جن کو پہلے تو حافظ صاحب کا حال معلوم نہ تھا لیکن جب معلوم ہوا پھر بھی حمایت کی-واللہ تعالی اعلم۔
کتبہ:- محمد ارشاد رضا علیمی غفرلہ خادم دار العلوم نظامیہ نیروجال راجوری جموں وکشمیر-مقیم حال اجمیر معلی زادھا اللہ تعالی فضلا وشرفا
الجواب صحيح :محمد نظام الدین قادری خادم درس وافتا جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی