تعمیر مسجد کے نام پر لئے گئے چندہ کو صرف کرنے کا اہم مسئلہ
کیا فرما تے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہمارے ہاں غوثیہ جامع مسجد تھنہ منڈی ابھی زیر تعمیر ہے۔ مسجد کی پہلی منزل تقریبا مکمل ہو چکی ہے اور دوسری منزل کی چھت پڑ کر چاردیواری کا کام بھی ہو چکا ہے۔ تیسری منزل بنانا بھی ہمارے پلان میں تھی جس کے لئے ہم نے گذشتہ رمضان المبارک سے پہلے دو رمضانوں میں لوگوں سے تیسری منزل کے سرئیے کے لئے کچھ رقم بھی جمع کی لیکن وہ رقم اتنی نہ تھی کہ جس سے تیسری چھت کا پورا سریا خریدا جاسکتا۔
ارادہ یہ تھا کہ اس سال رمضان المبارک یعنی 1441 ہجری میں مزید رقم جمع کی جائے گی تاکہ تیسری چھت کا کام شروع کیا جا سکے لیکن رمضان المبارک کے شروع ہونے سے قبل ہی کرونا وائرس( وبائی بیماری ) نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔جس کی وجہ سے جہاں پوری دنیا کے حالات متاثر ہوئے وہیں جامع مساجد کی اجتماعیت پر بھی اثر پڑا بلکہ مساجد کی آمدنی سب سے زیادہ متائثر ہوئی۔جگہ جگہ لوگوں نے جمعے قائم کر لئے، جامع مساجد میں لوگوں کی تعداد کافی حد تک کم ہو گئی۔غوثیہ جامع مسجد تھنہ منڈی بھی ان حالات کی وجہ سے کافی متاثر ہوئی۔ جس وجہ( عوام کی کثرت کی وجہ ) سے تیسری منزل کی تعمیر ناگزیر تھی اس کی امید بھی اب دور دور تک نظر نہیں آرہی ھے۔
ان حالات کے پیش نظر غوثیہ جامع مسجد تھنہ منڈی کی انتظامیہ نے یہ فیصلہ لیاکہ ابھی ہمیں تیسری منزل بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو پیسہ تیسری منزل کے سریئے کے لئے جمع کیا ہوا ہے وہ دوسری منزل کے پلاسٹر وغیرہ میں خرچ کیا جائے تاکہ دوسری منزل مکمل ہو جائے۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ جن لوگوں سے ہم نے سریئے کے نام سے رقم لی ہوئی ہے وہ رقم عندالشرع مسجد کے پلاسٹر وغیرہ میں خرچ کر سکتے ہیں یا نہیں۔یاد رہے کہ جن جن لوگوں سے سریئے کے لئے رقم جمع کی ہوئی ہے ان تمام سے فردا فردا اجازت لینا ناممکن ہے ۔ ایسی صورت میں شرعی رہنمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔
المستفتیان: انتظامیہ کمیٹی بذریعہ محمد نصیر الدین نقشبندی خادم غوثیہ جامع مسجد تھنہ منڈی
14 محرم الحرم 1442 ہجری مطابق 3 ستمبر 2020 عیسوی
باسمه تعالى وتقدس الجواب بعون الملك الوهاب:
عام طور پر مسجد وغیرہ کا چندہ وصول کرنے کے لیے کچھ تعمیری کام دکھا کر شوق بیدار کرنا ہوتا ہے-اور چندہ دہندگان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ میری دی ہوئی رقم تعمیر میں خرچ ہو باقی یہ کہ اس رقم سے مسجد کا فلاں حصہ ہی تعمیر ہو اس سے ان کی کوئی غرض نہیں ہوتی اس لیے صورت مسؤلہ میں ظاہر یہ یے کہ چندہ دہندگان کا مقصد تیسری منزل کے چھت کے لئے سریہ کے نام پر دی ہوئی رقم کا مسجد میں خرچ کرنا ہے، اس لیے مسجد کی دوسری منزل کو مکمل کرنے کے لئے مذکورہ رقم کو پلاسٹر وغیرہ میں خرچ کرنا چند دینے والوں کے مقصد کے خلاف نہیں ہے، اور جب یہ چندہ دہندگان کے مقصد کے مطابق ہے تو مذکورہ کاموں ميں اس رقم کا خرچ کرنا بھی جائز ہوگا ۔
البتہ آئندہ چندہ وصول کرنے میں اس کا لحاظ رکھیں کہ یہ اعلان کردیا کریں کہ چندہ دہندگان اس نیت سے چندہ دیں کہ مسجد کے ذمہ دارین چندہ کی رقم اپنی صوابدید پر مسجد کے جس تعمیری کام کے لیے چاہیں صرف کرسکتے ہیں اس سے بڑی آسانی ہوگی ،اور اگر چندہ دینے والوں نے جمع شدہ رقم کا خرچ کرنا متولی کی رائے پر رکھا ہو تو ایسی صورت میں متولی کو اختیا ر ہے کہ وہ اپنی رائے سے جہاں مناسب سمجھے خرچ کرسکتا ہے ۔
حضور صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں "جب عطیہ و چندہ پر آمدنی کا دارو مدار ہے تو دینے والے جس مقصد کے لیے چندہ دیں یا کوئی اہل خیر جس مقصد کے متعلق اپنی جائداد وقف کرے اسی مقصد میں وہ رقم یا آمدنی صرف کی جاسکتی ہے دوسرے میں صرف کرنا جائز نہیں مثلا اگر مدرسہ کے لئے ہو تو مدرسہ پر صرف کی جائے اور مسجد کے لیے ہو تو مسجد پر اور قبرستان کی حد بندی کے لیے ہو تو اس پر اور اگر دینے والے نے اس کا صرف کرنا متولیوں کی رائے پر رکھا ہو تو یہ اپنی رائے سے جس میں مناسب سمجھیں صرف کر سکتے ہیں”(فتاوی امجدیہ ج۳ ص۴۲)
هذا ما ظهر لی والله تعالى اعلم
کتبـــــــــــــــہ محمد ارشاد رضا علیمی غفرلہ،
پلانگڑ،تھنہ منڈی،راجوری،جموں وکشمیر۔ ۱۸/محرم الحرام ۱۴۴۲ھ
الجواب صحيح
محمد نظام الدین قادری خادم دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی