طلاق پر گواہ بنانے کا حکم از علامہ کمال احمد علیمی نظامی /طلاق کے مسائل

طلاق پر گواہ بنانے کا حکم

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
حضرت براٸےکرم اس مسٸلہ کا جلد از جلد جواب عنایت فرمادیں۔
کیا فرماتے ہیں علماے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے دو لوگوں کو گواہ بنا کر کہا کہ میں نے اپنی عورت کو طلاق دی تم لوگ جا کر اسے بتادو، گواہوں نے جا کر اس کی بیوی کو بتایا کہ آپ کے شوہر نے آپ کو طلاق دی ہے ہم لوگ اس کے گواہ ہیں تو کیا اس صورت میں بیوی کو طلاق واقع ہوجائے گی یا نہیں اور اگر واقع ہوگی تو کون سی؟
برائے کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔
المستفتی . خورشید عالم قادری ضلع گیا بہار

الجواب بعون الملک الوھاب

وعليكم السلام ورحمۃ اللہ و

مذکورہ صورت میں ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی ۔ اور عدت مکمل ہونے سے پہلے شوہر کو رجعت کرنے کا حق حاصل ہے، جس کی بہتر صورت یہ ہے کہ دو گواہوں کی موجودگی میں یہ کہے کہ میں نے اپنی بیوی فلانہ سے رجعت کی یا اپنی زوجہ سے رجعت کی یا تجھ کو واپس لیا۔ یا روک لیا۔
قرآن مجید میں ہے :

الطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪-فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍؕ-وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْــٴًـا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِؕ-فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِۙ-فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖؕ-تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَاۚ-وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔

(البقرۃ :۲۲۹)

ترجمہ:
یہ طلاق دو بار تک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نکوئی(اچھے سلوک) کے ساتھ چھوڑدینا ہے اور تمہیں روا نہیں کہ جو کچھ عورتوں کو دیا اس میں سے کچھ واپس لو مگر جب دونوں کو اندیشہ ہو کہ اللہ کی حدیں قائم نہ کریں گے پھر اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں ٹھیک انہیں حدوں پر نہ رہیں گے تو ان پر کچھ گناہ نہیں اس میں جو بدلہ دے کر عورت چھٹی لے یہ اللہ کی حدیں ہیں ان سے آگے نہ بڑھو اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو وہی لوگ ظالم ہیں ۔

تفسیر البحرالمحیط میں ہے:
{اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ: طلاق دو بار تک ہے۔} یہ آیت ایک عورت کے متعلق نازل ہوئی جس نے سرکارِدوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اس کے شوہر نے کہا ہے کہ وہ اس کو طلاق دیتا رہے گا اور رجوع کرتا رہے گا اور ہر مرتبہ جب طلاق کی عدت گزرنے کے قریب ہوگی تورجوع کرلے گا اور پھر طلاق دیدے گا، اسی طرح عمر بھر اس کو قید رکھے گا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔

(البحر المحیط، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۹، ۲ / ۲۰۲)

طلاق رجعی کاحکم بیان کرتے ہوئے علامہ شامی فرماتے ہیں :
"أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له نقصان العدد، فأما زوال الملك وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لايثبت للحال بل بعد انقضاء العدة، وهذا عندنا”. (كتاب الطلاق، ج: 3، ص: 227)

رہی بات طلاق پر گواہ بنانے کی تو یہ مستحب ہے ضروری نہیں.

قرآن مجید میں ارشاد ہے :
فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (الطلاق :٢)

تفسیرالقرطبی میں ہے:
"قوله تعالى: {وأشهدوا} أمر بالإشهاد على الطلاق. وقيل: على الرجعة. والظاهر رجوعه إلى الرجعة لا إلى الطلاق. فإن راجع من غير إشهاد ففي صحة الرجعة قولان للفقهاء. وقيل: المعنى وأشهدوا عند الرجعة والفرقة جميعاً. وهذا الإشهاد مندوب إليه عند أبي حنيفة، كقوله تعالى: {وأشهدوا إذا تبايعتم} [البقرة: ٢٨٢] . وعند الشافعي واجب في الرجعة، مندوب إليه في الفرقة. وفائدة الإشهاد ألايقع بينهما التجاحد، وألايتهم في إمساكها، ولئلايموت أحدهما فيدعي الباقي ثبوت الزوجية”. (١٨ / ١٥٧، سورۃ الطلاق)

تفسیر طبری میں مذکورہ آیات کی تفسیر میں ہے :
حدثني عليّ، قال: ثنا أَبو صالح، قال: ثني معاوية، عن عليّ، عن ابن عباس، قال: إن أراد مراجعتها قبل أن تنقضي عدتها، أشهد رجلين كما قال الله ( وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ ) عند الطلاق وعند المراجعة، فإن راجعها فهي عنده على تطليقتين، وإن لم يراجعها فإذا انقضت عدتها فقد بانت منه بواحدة، وهي أملك بنفسها، ثم تتزوّج من شاءت، هو أو غيره ۔

حاصل یہ کہ مذکورہ صورت میں طلاق رجعی واقع ہوگئی، شوہر چاہے تو عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلے،طلاق پر دو لوگوں کو گواہ بنانا امر مندوب ہے.
واللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

کتبہ :کمال احمد علیمی نظامی جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی
٢جمادی الأولی ١۴۴٣ / ٧دسمبر ٢٠٢١
الجواب صحیح محمد نظام الدین قادری مصباحی خادم درس و افتاء جامعہ علیمیہ جمدا شاہی

Leave a Reply