طلاق کو معلق کرنے کا ایک اہم مسئلہ

طلاق کو معلق کرنے کا ایک اہم مسئلہ

ایک شخص جو اپنے بہنوئی کی کی بہن کا شوہر بھی ہے اس نے آٹھ سال قبل اپنی بیوی کو دو طلاقیں دیکر رجوع کر لیا تھا اور پھر جب اس کے بہنوئی نے اولاد نہ ہونے کے باعث دوسری شادی کرنے کا ارادہ کیا تو اس شخص نے اسی موقع پر تیسری طلاق کو ان الفاظ کے ساتھ معلق کردیا کہ جب میرا بہنوئی دوسرا نکاح کرے گا تو میری طرف سے میری بیوی کو طلاق ہوگی چاہے وہ چوری کرے یا اجازت لے کر کرے ۔

تو از روئے شرع شریف، اس کے بہنوئی کے نکاح کرنے کی کوئی ایسی صورت ہے کہ جس میں نکاح بھی ہوجائے اور طلاق بھی نہ ہو یا بہرصورت طلاق ہوجائے گی ؟

سائل : عبداللہ

بسمہ تعالیٰ

الجواب بعون الملک الوھّاب

اللھم ھدایۃ الحق و الصواب

مذکورہ شخص کا بہنوئی جب بھی کسی دوسری عورت سے نکاح کرے گا تو نکاح کرتے ہی اس شخص کی بیوی پر تیسری طلاق واقع ہو جائے گی اور پھر حلالہ شرعیہ کے بغیر ان کا میاں بیوی کی طرح ایک ساتھ رہنا ناجائز و حرام ہوگا ۔

البتہ اس صورت میں بھی اگر یہ چاہیں کہ اس کے بہنوئی کا نکاح بھی ہو جائے اور طلاق بھی نہ پڑے تو اس کی صورت یہ ہے کہ فضولی (یعنی جسے اس کے بہنوئی نے نکاح کا وکیل نہ کیا ہو) بغیر اس کے کہے کسی عورت سے اس کا دوسرا نکاح کر دے اور جب اس کے بہنوئی کو خبر پہنچے تو وہ زبان سے دوسرے نکاح کو نافذ نہ کرے بلکہ کوئی ایسا فعل کرے جس سے اجازت ہو جائے مثلاً مہر کا کچھ حصہ یا کل دوسری عورت کے پاس بھیج دے یا اُس کے ساتھ جماع کرے یا شہوت کے ساتھ اسے ہاتھ لگائے یا بوسہ لے یا لوگ مبارکباد دیں تو خاموش رہے اور انکار نہ کرے تو اِس صورت میں اس کے بہنوئی کا دوسرا نکاح بھی ہو جائے گا اور اس شخص کی بیوی پر طلاق بھی نہیں پڑے گی ۔

نوٹ :

اور اگر اس کے بہنوئی کے کہے بغیر کوئی اس کا دوسرا نکاح نہ کرے اور اسے کہنے کی ضرورت پڑے تو وہ کسی کو اپنے دوسرے نکاح کا حکم نہ دے بلکہ نکاح کا تذکرہ ان الفاظ سے کرے کہ کاش کوئی میرا نکاح کر دے یا کاش کہ تو میرا نکاح کر دے، اب اگر کوئی اس کا نکاح کر دے گا تو یہ نکاحِ فضولی ہوگا اور اس کی اجازت پر موقوف ہوگا اور اجازت کا وہی طریقہ کار اختیار کرے گا جو اوپر بیان ہوا ۔

چنانچہ علامہ خیرالدین رملی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"(سئل) فی رجل قال کل امرآۃ اتزوجھا فھی طالق ثم قال بمجلس لرجل لیتک تزوجنی فلانۃ ھل اذا تزوجہ یحنث ام لا (اجاب) لایحنث لانہ لم یتزوج بل زوج والمزوج فضولی بلاشک و الحال ھذہ واذا اجاز بالفعل لا بالقول لایحنث والاجازۃ بالفعل کان یبعث الیھا شیئا من المھر وان قل او یقبلھا او یلمسھا بشھوۃ قولا واحدا و بلاشھوۃ فی قول او ھناء الناس فسکت او اخد فی تجھیزھا کما نص علیہ فی المحیط فذلک کلہ اجازۃ بالفعل فلایحنث”

یعنی سوال کیا گیا ایک ایسے مرد کے بارے میں کہ جس نے کہا : "ہر وہ عورت کہ جس سے میں نکاح کروں تو وہ طلاق والی ہے.” پھر اس نے مجلس میں ایک مرد سے کہا کہ کاش آپ میرا نکاح فلانی عورت کے ساتھ کروا دیں تو کیا جب وہ اس کا نکاح کروائے گا تو وہ حانث ہوگا یا نہیں (یعنی اس کی بیوی پر طلاق پڑے گی یا نہیں ؟) تو جواب دیا : وہ حانث نہیں ہوگا (یعنی اس کی بیوی پر طلاق نہیں پڑے گی) اس لیے کہ اس نے نکاح نہیں کیا بلکہ اس کا نکاح کیا گیا اور نکاح کروانے والا بغیر کسی شک کے فضولی ہے اور یہ حال اس وقت ہے جب وہ شخص بالفعل اس نکاح کو نافذ کرے نہ کہ بالقول، بالفعل نکاح کو نافذ کرنا یہ ہے کہ وہ عورت کی جانب مہر میں سے کچھ مال بھیج دے اگرچہ وہ تھوڑا ہو یا وہ اس کا بوسہ لے لے یا اس کو چھولے ایک قول کے مطابق شہوت کے ساتھ اور ایک (دوسرے) قول کے مطابق اور بغیر شہوت کے (بھی ایسا کرنے سے نکاح نافذ ہوجائے گا) یا لوگ اس کو مبارکباد دیں تو وہ خاموش رہے یا وہ عورت کے جہیز میں سے کچھ لے جیسا کہ محیط میں اس پر تصریح فرمائی ہے اور پس یہ تمام اجازت بالفعل ہے پس وہ حانث نہیں ہوگا ۔

(الفتاوی الخیریۃ، کتاب النکاح، فصل في نکاح الفضولی، الجزء الأول، صفحہ 27، بالمطبعۃ الکبری المیریۃ ببولاق مصر المحمیۃ)

عمدۃ المحققین علامہ محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین شامی دمشقی حنفی رحمۃ اللہ علیہ "البحرالرائق” کے حاشیہ پر تحریر فرماتے ہیں :

"وکذا الحیلۃ فی حق من حلف کل امرآۃ تدخل فی نکاحی فھی طالق ثلاثا ان الفضولی یزوجہ امرآۃ ثم ھو یجیز بالفعل فلایحنث وان دخلت فی نکاحہ لان دخولھا فیہ لایکون الا بالتزویج فیکون ذکر الحکم ذکر سببہ المختص بہ فکانہ قال ان تزوجتھا و بتزویج الفضولی لایصیر ھو متزوجا”

یعنی اور ایسے ہی حیلہ ہے اس شخص کے حق میں کہ جس نے قسم کھائی کہ ہر وہ عورت جو میرے نکاح میں داخل ہو تو وہ تین طلاق والی ہے تو فضولی کسی عورت کے ساتھ اس کا نکاح کر دے پھر وہ شخص بالفعل اس نکاح کو نافذ کر لے تو وہ حانث نہیں ہوگا (یعنی اس کی عورت کو طلاق نہیں ہوگی) اگرچہ عورت اس کے نکاح میں داخل ہوگئی ہے، اس لیے کہ عورت کا نکاح میں داخل ہونا (اس فضولی کے) نکاح

کروانے کی وجہ سے ہے، پس حکم کو ذکر کرنا، اس کے مختص بہ سبب کو ذکر کرنا ہے، پس گویا کہ اس نے کہا : "اگر میں اس سے نکاح کروں۔” اور فضولی کے نکاح کروانے کے ساتھ وہ نکاح کرنے والا نہیں ہوگا۔

(البحرالرائق معہ الحواشی المسماۃ منحۃ الخالق علی البحرالرائق، کتاب الطلاق، باب التعلیق، جلد 4، صفحہ 11 دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)

اسی "فتاویٰ شامی” میں بھی عمدۃ المحققین علامہ محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین شامی دمشقی حنفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"اذا قال : کل امراۃ اتزوجھا طالق، والحیلۃ فیہ ما فی البحر من انہ یزوجہ فضولی، ویجیز بالفعل”

جب اس نے کہا : ہر وہ عورت جس سے میں نجاح کروں تو وہ طلاق والی ہے۔ اور اس میں حیلہ وہ ہے جو کہ بحر میں ہے یعنی فضولی اس کا نکاح کروا دے اور وہ شخص (اس فضولی کے نکاح کو) بالفعل نافذ کر دے۔

(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الطلاق، باب التعلیق، مطلب : التعلیق المرادبہ المجازاۃ دون الشرط، جلد 4، صفحہ 583، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"کسی عورت سے کہا اگر تجھ سے نکاح کروں یا جب، یا جس وقت تجھ سے نکاح کروں تو تجھے طلاق ہے تو نکاح ہوتے ہی طلاق ہو جائے گی۔ یوہیں اگر خاص عورت کو معین نہ کیا بلکہ کہا اگر یا جب یا جس وقت میں نکاح کروں تو اُسے طلاق ہے تو نکاح کرتے ہی طلاق ہوجائیگی مگر اسکے بعد دوسری عورت سے نکاح کریگا تو اُسے طلاق نہ ہوگی ۔

ہاں اگر کہا جب کبھی میں کسی عورت سے نکاح کروں اُسے طلاق ہے تو جب کبھی نکاح کریگا طلاق ہو جائیگی۔ ان صورتوں میں اگر چاہے کہ نکاح ہو جائے اور طلاق نہ پڑے تو اسکی صورت یہ ہے کہ فضولی (یعنی جسے اس نے نکاح کا وکیل نہ کیا ہو) بغیر اس کے حکم کے اُس عورت یا کسی عورت سے نکاح کردے اور جب اسے خبر پہنچے تو زبان سے نکاح کو نافذ نہ کرے بلکہ کوئی ایسا فعل کرے جس سے اجازت ہوجائے مثلاً مہر کا کچھ حصہ یا کل اُس کے پاس بھیج دے یا اُس کے ساتھ جماع کرے یا شہوت کے ساتھ ہاتھ لگائے یا بوسہ لے یا لوگ مبارکباد دیں تو خاموش رہے انکار نہ کرے تو اِس صورت میں نکاح ہو جائے گا اور طلاق نہ پڑیگی اور اگر کوئی خود نہیں کر دیتا اسے کہنے کی ضرورت پڑے تو کسی کو حکم نہ دے بلکہ تذکرہ کرے کہ کاش کوئی میرا نکاح کردے یا کاش تو میرا نکاح کر دے یاکیا اچھا ہوتا کہ میرا نکاح ہو جاتا اب اگر کوئی نکاح کردیگا تو نکاح فضولی ہوگا اور اس کے بعد وہی طریقہ برتے جو اوپر مذکور ہوا۔

(بہارشریعت، جلد 2، صفحہ 122، 123 مکتبۃ المدینہ کراچی)

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم

کتبہ : ابواسیدعبیدرضامدنی

Leave a Reply