اگر میرا فلاں سامان نہیں دو گی تو تمہیں طلاق دے دوں گا ۔ طلاق ہوگی یا نہیں ؟
طلاق سے متعلق ایک اہم مسئلہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان دین مسئلہ ذیل کے بارے میں
کہ زید اور ہندہ کے درمیان آپسی رنجش تھی کہ اسی درمیان ہندہ نے زید کا موبائل چھپا دیا ۔ زید بہت پریشان تھا ،اپنے پورے روم میں تلاش کیا نہیں ملا ہندہ سے پوچھا کیا آپ نے لیا ہے ۔ ہندہ نے انکار کر دیا ، پھر زید نے کہا خدا کی قسم کھا کر کہو کہ موبائل نہیں لی ہوں ۔ ہندہ نے قسم بھی کھا لی پھر زید نے کہا اگر میرا موبائل نہیں دو گی تو ہم تمہیں طلاق دے دیں گے
پھر تھوڑی دیر بعد ہندہ نے موبائل واپس کیا
نیز ہندہ کا کہنا ہے کہ زید نے کہا (یعنی اس کے شوہر) اگر تم میرا موبائل لی ہو تو تمہیں طلاق
زید کا قول اگر تم میرا موبائل نہیں دو گی تو ہم تمہیں طلاق دے دیں گے
ہندہ کا قول کہ زید نے کہا ہے
اگر تم میرا موبائل لی ہو تو تمہیں طلاق
کیا ایسی صورت میں طلاق واقع ہو گی تو کون سی ہوگی
اور اگر اب زید اور ہندہ ساتھ میں رہنا چاہیں تو پھر کیا صورت ہوگی
نوٹ جب یہ واقعہ ہوا تو وہاں پر زید اور ہندہ کے علاؤہ کوئ نہیں تھا
مع حوالہ جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی
طفیل احمد
امیٹھی
الجواب بعون الملک الوھاب
اس سے پہلے اسی معاملے سے متعلق استفتا آیا تھا جس میں بیوی کے اس قول کا ذکر نہیں تھاکہ”زید نے کہا ہے اگر تم میرا موبائل لی ہو تو تمہیں طلاق” اس لیے استفتا کے مطابق جواب دے دیا گیا تھا، اب قول مذکور کے مطابق جواب دیا جا رہا ہے ۔
صورت مسئولہ میں شوہر کا قول "اگر تم میرا موبائل نہیں دوگی تو ہم تمہیں طلاق دے دیں گے”وعدہ طلاق ہے جس سے طلاق واقع نہ ہوگی اگرچہ وہ موبائل نہ بھی دیتی ۔ اب جو سوال کیا جا رہا ہے اس کی رو سے عورت ایسے الفاظ ذکر کررہی ہے جس سے شرعاً طلاق واقع ہونے کا حکم ہوگا۔لیکن شوہر ایسے الفاظ کا ذکر کرریا ہے جس سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔
اس لیے اگر بیوی کے پاس اپنے دعوے پردو قابلِ قبول شرعی گواہ ہوں تو اسی کا قول معتبر ہوگا اور ایک طلاق رجعی ہوجائے گی، لیکن سوال سے ظاہر ہے کہ جب یہ واقعہ ہوا تو وہاں پر زید اور ہندہ کے علاؤہ کوئ نہیں تھا تو اس کے حق میں گواہی کی کوئی صورت نہیں، لہذا شوہر سے اس کے مذکورہ قول پر قاضی کے سامنے حلف لیا جائے گا، اگر قسم کھالے تو اسی کا قول معتبر ہوگا اور اگر قاضی کے یہاں حلف سے انکار کرے تو فیصلہ بیوی کے حق میں دیا جائے گا۔ اور ایک طلاق کا ثبوت ہوجائے گا۔ عدت کے اندر اسے رجعت کرنے کا اور عدت گزرنے کے بعد از سرِ نو نکاح کی گنجائش ہوگی۔
ذیل میں حضرت علامہ مفتی محمد نظام الدین قادری صاحب صدر دارالافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی کا ایک فتویٰ پیش ہے جس سے مذکورہ سوال کا جواب کافی حد تک واضح ہوجائے گا ۔
مسئلہ نمبر ١٤٤
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ بعد سلام سوال عرض ہے۔کہ ایک عورت جسکے آدمی نے فون پر طلاق دیا تھا جس کے مطابق تین طلاق ثابت ہو گئی تھی حقیقت میں۔لیکن آدمی اپنی بات سے پھر گیا اور اس نے کہا کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔لیکن عورت حلف اٹھا رہی تھی۔۔آدمی اور عورت کے گھر والے کوئی اس کی بات نہیں مان رہے تھے۔۔تو وہ عورت 6-5 مہینے انتظار کری کہ کچھ ہوگا پھر اس کا آدمی عرب سے آیا تو عورت نے کہا کہ جب تک کسی مفتی صاحب کے پاس چلکر اس کے بارے میں پوچھوگے نہیں میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گی۔آدمی اور عورت کے گھر والوں نے کہا کہ کسی مولانا مولوی کے پاس نہیں جانا تم کو اسی طرح رہنا پڑیگا۔۔پھر اس کا آدمی اس کے ساتھ زبردستی کر رہا تھا کئی دن تک ایسا چلا اس نے ہر طرح سے کوشش کی لیکن بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آئی تو۔وہ گھر سے بھاگ گئی۔۔
اور کسی دوسرے سے نکاح کرکے رہنے لگی۔پھر ان لوگوں نے پولیس کے ذریعے پتہ لگا لیا تو وہ بچنے کے لئےگھر آ گئی لیکن اس نے نہیں بتایا کہ میں نے کسی سے نکاح کیا ہے۔ اس کے بعد ان لوگوں نے اس کے ساتھ زبردستی کرکے اس کا بیان بدلوادیا اور اور آدمی اور عورت نے ایسا بیان دیا جس سے دو طلاق ثابت ہوئی۔ اور پھر کسی مدرسے میں جاکے نکاح پڑھا لیا ۔لیکن عورت نے کسی کو نہیں بتایا کہ میں نے نکاح کسی اور سے کیا ہے۔۔اور جس سے نکاح کی ہے۔وہ بھی اپنی عزت اور جان بچانے کی وجہ سے کسی کو نہیں بتایا۔۔تو اس صورت میں جو گھر سے نکل کر دوسرے سے نکاح کی کیا وہ نکاح ہوا اور اگر ہوا تو جو دباؤ میں آکر دوسرا نکاح کی اس کا کیا ہوا۔عورت نے ڈر اور دباؤ میں آکر ایسا کیا ۔کیونکہ اس کے بھائی لوگ بدمعاش ہیں۔۔
حضور سوال زیادہ طویل ہو گیا اس کے لئے معذرت ۔۔جواب ارشاد فرما دیں۔
سلمان عطاری جگدیش پور امیٹھی۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
الجوابــــــــــــــــــــــــــــ
ثبوتِ طلاق کے لیے ضروری ہے کہ یا تو شوہر اقرار کرے یا طلاق دینے پر شرعی گواہی موجود ہو۔ اس لیے اگر شوہر تین طلاق کا اقرار نہیں کر رہا ہے اور عورت کے پاس گواہ بھی نہیں ہیں تو عورت کے قسم کھانے سے تین طلاق کا ثبوت نہ ہوسکےگا۔کیوں کہ عورت طلاق کا دعوی کرنے والی ہے اور شوہر منکر ہے لہذا اسلامی قانون”البینة علی المدعی والیمین علی من انکر” کے مطابق اگر عورت کے پاس گواہ نہیں تو شوہر کو قسم دی جائے گی اگر حلف شرعی سے بیان دے دیگا طلاق کا ثبوت نہ ہوگا اور اگر حاکمِ شرعی کے یہاں قسم کھانے سے انکار کرے گا تو عورت کا دعوی ثابت ہوجائے گا۔ لیکن واضح رہے کہ شوہر کے قسم کھانے سے انکار کی صورت میں طلاق کا ثبوت اسی وقت ہوگا جب یہ انکار حاکمِ شرعی کے پاس ہو۔ورنہ نہیں۔
امام اہل سنت مجدد دین وملت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
"بحالتِ اختلاف، طلاق کا ثبوت گواہوں سے ہوگا اور دو گواہ عادل شرعی شہادت بروجہِ شرعی اداکریں کہ اس شخص نے اپنی زوجہ کو طلاق دی طلاق ثابت ہوجائے گی، پھر اگر شوہر نفی کے گواہ دے گا یا اس بات کے کہ مطلّقہ بعد طلاق اس سے بولی کچھ اصلاً مسموع نہ ہوگا، ہاں اگر عورت گواہ بروجہ شرعی نہ دے سکے تو شوہر پر حلف رکھا جائے گا اگر حلف سے کہہ دے گا کہ اُس نے طلاق نہ دی طلاق ثابت نہ ہوگی اور اگر حاکمِ شرعی کے سامنے حلف سے انکار کرے گا تو طلاق ثابت مانی جائے گی۔” (فتاوی رضویہ ج۵ ص٦٦٩)
حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
ان کے علاوہ دیگر معاملات میں دو مرد یا ایک مرد اور دوعورتوں کی گواہی معتبر ہے جس حق کی شہادت دی گئی ہو وہ مال ہو یا غیر مال مثلاً ، طلاق، عتاق، وکالت کہ یہ مال نہیں۔”
(بہار شریعت ح١٢ص٩۴١)
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس و افتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔یوپی
١٢/جمادی الاولی ١۴۴٣ھ//١٧/دسمبر٢٠٢١ء”
مذکورہ فتویٰ سے صورت مسئولہ کا جواب واضح ہے کہ بیوی اپنے دعوے پر گواہ پیش کرے ورنہ قسم کے ساتھ شوہر کے حق میں فیصلہ دیا جائے گا ۔
حاصل یہ کہ اگر شوہر اپنے قول پر قسم کھالے تو طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگر نہ کھائے تو پھر بیوی کے قول کے مطابق ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی.
واللہ اعلم بالصواب
کتبــــــــــــــــــــــہ : کمال احمد علیمی نظامی جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی
٢٢ جمادی الأولی ١٤٤٣ /٢٧ دسمبر ٢٠٢١
الجواب صحیح محمد نظام الدین قادری مصباحی خادم درس و افتاء جامعہ علیمیہ جمدا شاہی