فون پر طلاق کے الفاظ کہے اور بھر خط کے ذریعے سے بھی پیغام بھیجا تو طلاق کا کیا حکم ہے ؟
کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان شرع عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ میں نے اپنی بیوی سمینہ کوثر کو فون پر طلاق دی اور یہ الفاظ کہے میں تجھے طلاق دیتا ہوں اس نے میری بات نہیں سنی جس کی وجہ سے میں نے طلاق کے الفاظ کو دہراتے ہوئے کہا طلاق طلاق میں اللہ پاک کی قسم کھا کر یہ بات کہتا ہوں کہ میرا ارادہ صرف ایک طلاق کا تھا بعد والے الفاظ کو دہرانا صرف اس کو سنانے کے لیے تھا۔ اس کے بعد میں نے ایک طلاق نامہ لکھوایا جس میں پہلی ہی طلاق کی خبر ان الفاظ میں دی میں اپنی بیوی کو طلاق دیکر فارغ کرتا ہوں اب وہ میری بیوی نہ رہی میری طرف سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہے۔ لہذا شریعت مطہرہ کی روشنی میں بتائیں کہ پوچھی گئی صورت میں کونسی طلاق واقع ہوگی اور ہمارے لیے اب کیا حکم ہے۔ بینوا توجروا
سائل:۔ وحید عباس ولد حاجی محمد اسحاق ساکن سرولہ منجہ کوٹ
باسمه تعالى وتقدس الجواب بعون الملك الوهاب:۔
صورت مسؤلہ میں سائل نے جب قسم کھاکر یہ بات کہی کہ میں نے بیوی کو صرف ایک طلاق دینے کے ارادے سے یہ الفاظ کہے کہ تجھے میری طرف سے طلاق۔ اور پھر اس کے نہ سننے (یا پوچھنے) پر باقی الفاظ اس کو سنانے کے لیے دہرائے تو اس سے ایک طلاق واقع ہوئی لیکن جب اس نے اس کے بعد طلاق نامہ میں یہ لکھوایا "میں اپنی بیوی کو طلاق دیکر فارغ کرتا ہوں” اس کا یہ کلام طلاق سابق کی خبر بننے کا احتمال نہیں رکھتا، کیوں کہ اس کلام میں فون پر طلاق کا کوئی ذکر نہیں ہے لہذا اس سے دوسری طلاق واقع ہوگئی اور اس کے بعد اس نے کنایہ کے الفاظ(اب وہ میری بیوی نہ رہی میری طرف سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہے)استعمال کیے ہیں تو چوں کہ سابق میں مذکور طلاق کے سبب مذاکرۂ طلاق متحقق ہے اس کی وجہ سے تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی، فان البائن یلحق الصریح کما ہو مصرح فی الکتب۔ اب جب طلاقیں تین تک پہنچ گئیں تو آپ کے لیے بیوی بغیر حلالہ کے حلال نہیں۔
فتاوی ہندیہ میں ہے: "و لو قال عنيت بالثاني الإخبار عن الأول لم يصدق في القضاء و يصدق فيما بينه و بين الله تعالى و لو قال لامرأته أنت طالق فقال له رجل ما قلت فقال طلقتها أو قال قلت هي طالق فهي واحدة في القضاء كذا في البدائع اھ” اور اگر کہا کہ دوسری سے میرا مقصود پہلی کی خبر دینا تھا تو قضاء اس کی تصدیق نہ ہوگی مگر فیما بينه وبين الله تعالى درست ہوسکتا ہے اور اگر اپنی عورت سے کہا کہ تو طالقہ ہے پس اس سے کسی نے پوچھا کہ تو نے کیا کہا پس اس نے کہا کہ میں نے اس کو طلاق دے دی یا کہا کہ میں نے یہ کہا کہ وہ طلاق والی ہے تو قضاء بھی ایک ہی طلاق پڑے گی یہ بدائع میں ہے۔(فتاوی عالمگیری ج ۱ ص ۳۹۰/کتاب الطلاق/باب فی ایقاع الطلاق/دار الکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)
فتاوی رضویہ میں ہے "اگر اس وقت ایک بار طلاق دی تھی اور باقی بار اوروں کے پوچھنے پر کہا اور وہ قسم کھا کر کہہ دے کہ میں نے ان دفعوں میں طلاق دینے کا ارادہ نہ کیا تھا بلکہ اس کے پوچھنے پر خبر دی تھی تو صرف ایک طلاق ہوئی اگر رجعی تھی رجعت کرسکتا ہے جب تک عدت نہ گزرے ورنہ دوبارہ اس سے نکاح کرلے”(فتاوی رضویہ مترجم، ج ۱۲ ص ۳۶۸ تا ۳۶۹) نیز فتاوی رضویہ میں ہے” جب طلاقیں تین تک پہنچ جائیں پھر وہ عورت اس کے لیے بے حلالہ حلال نہیں ہوسکتی قال الله تعالی فان طلقھا فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره "(ج ۵ ص ۶۳۴)
فتاوی امجدیہ میں ہے ” حلالہ کی صورت یہ ہے کہ اس طلاق کی عدت گزرنے کے بعد عورت دوسرے سے نکاح صحیح کرے پھر وہ دوسرا شوہر اس سے وطی کرنے کے بعد طلاق دیدے یا مرجائے پھر اس طلاق یا موت کی عدت گزر جانے کے بعد شوہر اول سے نکاح جائز ہوگا۔ حلالہ کے لیے دوسرے شوہر کا وطی یعنی دخول کرنا ضروری ہے بغیر اس کے شوہر اول کے لیے حلال نہیں ہوسکتی”(ج ۲ ص ۲۷۶)والله تعالى أعلم بالصواب
کتبہ:۔ محمد ارشاد رضا علیمیؔ غفرلہ خادم دار العلوم رضویہ اشرفیہ ایتی راجوری
۲۸/ربیع الاول ۱۴۴۴۶ھ مطابق ۳/اکتوبر ۲۰۲۴ء
الجواب صحیح :محمد نظام الدین قادری خادم درس وافتا دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی
BWER empowers businesses in Iraq with cutting-edge weighbridge systems, ensuring accurate load management, enhanced safety, and compliance with industry standards.