طلاق نامہ اس طرح لکھا گیا تو طلاق ہوگی یا نہیں ؟ طلاق کی ایک صورت
سوال: کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام ومفتیان شرع متین مسٸلہ ذیل کے بارے میں کہ جاوید احمد خان اور اس کی اہلیہ عافیہ دختر عبد القیوم کا تنازع عرصہ دراز سے جاری رہا پھر نوبت یہاں تک آٸی کہ کوٹ میں وکیل سے فیصلہ تحریر کرنے کو کہا کہ فارغ خطی لکھو وکیل نے یوں لکھا ہم دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں اور دونوں کو اختیار ہے کہ اپنے اپنے اعتبار سے زندگی بسر کریں اور جاوید احمد کے جو دو بچے ہیں وہ جاوید کے پاس رہیں گے اس کے بعد دونوں نے تحریر پر دستخط کیے پھر چند گھنٹوں بعد جاوید احمد کہتا ہے کہ میں اپنی اہلیہ کو گھر لاٶں گا یہ خبر جب وکیل کو ہوٸی تو اس نے تحریر پھاڑ ڈالی. اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا اس طرح طلاق واقع ہوٸی یا نہیں اگر ہوٸی تو کون سی طلاق واقع ہوٸی اور رجعت کی کیا صورت ہے بینو وتواجرو۔
منجانب:۔ جاوید احمد خان ولد بشیر احمد خان ساکنہ شاداب کریوہ شوپیان بتاریخ 4/ 11/ 2023
باسمه تعالى وتقدس الجواب بعون الملك الوهاب:۔
صورت مسئولہ میں جاوید احمد نے وکیل سے فارغ خطی لکھنے کو کہا اس نے یوں لکھا”ہم دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں اور دونوں کو اختیار ہے کہ اپنے اپنے اعتبار سے زندگی بسر کریں.تواب اگر وہ وکیل شوہر کے کہنے کے مطابق فارغ خطی کا لفظ یا طلاق کا لفظ استعمال کرتے ہوئے یہ لکھتا کہ میں (فلاں بن فلاں)نے اپنی بیوی فلانہ بنت فلان کو فارغ خطی دیا یا طلاق دی تو ایک طلاقِ رجعی واقع ہوتی۔کیوں کہ فارغ خطی صریح لفظ طلاق کے درجہ میں ہے۔اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں:
” فارخطی ہمارے یہاں کے عرف میں طلاق کے لیے صریح لفظ ہے۔
بہار شریعت میں ہے: ” اردو میں یہ لفظ کہ میں نے تجھے چھوڑا صریح ہے اس سے ایک رجعی ہوگی، کچھ نیت ہو یا نہ ہو۔ یوہیں یہ لفظ کہ میں نے فارغ خطی یا فارخطی یا فارکھتی دی، صریح ہے "(ج ٢ ح ٨/ مكتبة المدينة دعوت اسلامی) فتاوی رضویہ میں ہے "اگر فارغخطی دینا وہاں کے محاورہ میں طلاق کے الفاظ صریحہ سے سمجھا جاتا ہے جیساکہ یہاں کی بعض اقوام میں ہے کہ عورت کی نسبت اس کے کہنے سے طلاق ہی مفہوم ہوتی ہے جب تو دو طلاق رجعی ہوئیں کہ عدت کے اندر رجعت کرسکتا ہے”(ج ۵ ص ١٢٤)
لیکن صورت مسؤلہ میں جب جاوید احمد کے وکیل نے یہ لکھا:
"ہم دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں”
اور اس تحریر پر جاوید احمد اور اس کی بیوی نے رضامندی کا دستخط کیا تو دستخط کرنے کے باعث یہ تحریر گویا خود ان دونوں نے لکھی اب یہاں عورت کا یہ لکھنا یا رضامندی دینا کہ میں تم سے الگ ہوتی ہوں، نظرِ شرع میں کسی طرح طلاق نہیں کیوں کہ طلاق کا اختیار شوہر کو ہے۔ ہاں! شوہر جاوید احمد کا اس تحریر پر دستخط کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنی بیوی سے یہ کہا کہ میں تجھ سے الگ ہوتا ہوں اور یہ لفظ ان کنایاتِ طلاق سے ہے جس سے اگر طلاق کی نیت ہو تو طلاق پڑجاتی ہے یوں ہی مذاکرہ طلاق کے وقت بغیر نیت کے بھی طلاق پڑجاتی ہے اب یہاں جب جاوید نے فارغ خطی لکھنے کو کہا تو یہ مذاکرہ طلاق قرار پائے گا اور اس طرح اس تحریر پر دستخط کرتے وقت اگر طلاق کی نیت نہ ہو تب بھی ایک طلاق بائن پڑجائے گی۔ درمختار میں ہے: ، "فَارَقْتُكِ لَا يَحْتَمِلُ السَّبَّ وَالرَّدَّ”(در مختار، باب الکنایات)
فتاوی رضویہ میں الفاظ طلاق کے بیان میں ہے:
(۸۶) میں نے تجھے جُدا کردیا، میں نے تجھ سے جُدائی کی، (۸۷) تو خودمختار ہے،(۸۸) توآزاد ہے،
فی الھندیۃ ولوقال فی حال مذاکرۃ الطلاق باینتک او ابنتک او ابنت منک اوانت سائبۃ اوانت حرۃ یقع الطلاق وان قال لم انو الطلاق لایصدق قضاء”
(فتاوی رضویہ ج۵)
لہذا اب اگر وہ دونوں ساتھ رہنا چاہیں توحکم یہ ہے کہ دوران عدت یا عدت کے بعد باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرکے ساتھ رہ سکتے ہیں بشرطیکہ اس سے پہلے بیوی کو دو طلاق نہ دے چکا ہو ورنہ بغیر حلالہ کے اس کے لیے حلال نہیں۔ ہذا ما ظہر لی والله تعالیٰ أعلم بالصواب
کتبہ:۔ محمد ارشاد رضا علیمی غفرلہ دار العلوم رضویہ اشرفیہ ایتی راجوری جموں وکشمیر
٢۵/ربیع الثانی ١٤٤٥ھ مطابق ٩/نومبر ٢٠٢٣ء
الجواب صحیح :محمد نظام الدین قادری خادم درس وافتا دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی