طلاق کے بعد بچوں کی پرورش کون کرے؟ از مفتی محمد رضا مرکزی

طلاق کے بعد بچوں کی پرورش کون کر ے؟

سائل : محمد عرفان مالیگاؤں

الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

سات سال کی عمر تک ماں کے لیے بیٹوں کو اپنی پرورش میں رکھنے کا حق حاصل ہے ۔ بشرطیکہ ماں نے غیر خاندان میں شادی نہ کی ہو ۔ اگر غیر خاندان میں شادی کر لی، تو نانی کو حقِ پرورش حاصل ہوگا اگر نانی زندہ ہو ۔ اور اگر نانی زندہ نہیں ، تو پھر دادی کوحقِ پرورش حاصل ہوگا ۔ سات سال کی عمر کے بعد باپ کو لینے کا حق حاصل ہو گا ۔

باپ کے مقابلہ میں ماں کومقدم کرنے کا سبب یہ ہے کہ ماں کو ہی بچے کی پرورش اور رضاعت کا حق حاصل ہے ۔ اس لیے کہ وہ بچے کی تربیت کرنا زيادہ جانتی ہے ۔ اوراسے اس پر قدرت بھی زيادہ حاصل ہوتی ہے ۔ اوراسی طرح اس معاملے میں صبرکرنے کی بھی گنجائش ہوتی ہے جوکہ مرد کے پاس نہیں ۔

اوراسی طرح ماں کے پاس تربیت کے لیے وقت بھی زیادہ ہوتا ہے جو کہ مرد کے پاس نہيں ۔ اس لیے بچے کی مصلحت کومد نظر رکھتے ہوۓ ماں کو پرورش اورتربیت کے لیے مقدم کیا گیا ہے ۔

مزید وضاحت

طلاق کے بعد بچوں کی پرورش کا حق والدہ کا ہے ۔ وہ بچے کو اس وقت تک اپنے پاس رکھ سکتی ہے جب تک اسے کھانے، پینے، پہننے اور دیگر ضروریات میں ماں کی ضرورت پڑے ۔ اور اس کی مدت لڑکے کے لئے سات برس اور لڑکی کے لئے نو برس یعنی بالغ ہونے تک شرعاً مقرر کی گئی ہے ۔ لیکن اگر خدا نخواستہ والدہ مرتدہ ہوجائے یا بدچلن ہو یا پاگل ہوجائے یا بچی کے غیرمحرم کے ساتھ نکاح کرلے اور بچے کی حفاظت نہ کرسکے تو والدہ کا حق پرورش باطل ہوجاتا ہے ۔ اور یہ حق اس کی نانی، پڑنانی پھر دادی، پڑ دادی ۔ پھر خالہ وغیرہا کے لئے ثابت ہوجاتا ہے ۔

البتہ ہر صورت میں بچوں کے نان و نفقہ کا ذمہ دار والد ہوتا ہے، خواہ بچے ددھیال میں رہیں یا ننہیال میں۔ اور مذکورہ مدت کے بعد والد کو اس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے پاس رکھے ۔

عن عبد اللہ بن عمرو أن امرأۃ قالت : یا رسول اللہ ﷺ ! إن ابني ہذا کان بطني لہ وعاء ، ویدیی لہ سقاء ، وحجری لہ حواء ، وإن أباہ طلقنی ، وأراد أن ینزعہ منی ، فقال لہا رسول اللہ ﷺ : ’’ أنت أحق بہ ما لم تنکحی ۔ (السنن لأبی داود : ۳۱۰، کتاب الطلاق ، باب من أحق بالولد)

الفتاوى الهندية (1/ 541):

"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي ۔ وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجةً بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة ۔ والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين ۔

وقال القدوري: حتى يأكل وحده، ويشرب وحده، ويستنجي وحده. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد – رحمه الله تعالى -: إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح. هكذا في التبيين ۔ وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب، ثم أبو الأب، وإن علا” ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی علیہ وسلم

کتبـــــــــہ : مفتی محمدرضا مرکزی
     خادم التدریس والافتا
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں

Leave a Reply