طلاق کے بعد اگر شوہر طلاق دینے کا انکار کربیٹھے تو کیا حکم ہے؟
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بعد سلام سوال عرض ہے۔کہ ایک عورت جس کے آدمی نے فون پر طلاق دیا تھا جس کے مطابق تین طلاق ثابت ہو گئی تھی حقیقت میں۔ لیکن آدمی اپنی بات سے پھر گیا اور اس نے کہا کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا ۔ لیکن عورت حلف اٹھا رہی تھی ۔ آدمی اور عورت کے گھر والے کوئی اس کی بات نہیں مان رہے تھے ۔ تو وہ عورت 6-5 مہینے انتظار کری کہ کچھ ہوگا پھر اس کا آدمی عرب سے آیا تو عورت نے کہا کہ جب تک کسی مفتی صاحب کے پاس چل کر اس کے بارے میں پوچھوگے نہیں میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گی ۔ آدمی اور عورت کے گھر والوں نے کہا کہ کسی مولانا مولوی کے پاس نہیں جانا تم کو اسی طرح رہنا پڑیگا ۔ پھر اس کا آدمی اس کے ساتھ زبردستی کر رہا تھا کئی دن تک ایسا چلا اس نے ہر طرح سے کوشش کی لیکن بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آئی ۔ تو وہ گھر سے بھاگ گئی ۔ اور کسی دوسرے سے نکاح کرکے رہنے لگی۔
پھر ان لوگوں نے پولیس کے ذریعے پتہ لگا لیا تو وہ بچنے کے لئےگھر آ گئی لیکن اس نے نہیں بتایا کہ میں نے کسی سے نکاح کیا ہے ۔ اس کے بعد ان لوگوں نے اس کے ساتھ زبردستی کرکے اس کا بیان بدلوادیا اور اور آدمی اور عورت نے ایسا بیان دیا جس سے دو طلاق ثابت ہوئی ۔ اور پھر کسی مدرسے میں جاکے نکاح پڑھا لیا ۔ لیکن عورت نے کسی کو نہیں بتایا کہ میں نے نکاح کسی اور سے کیا ہے ۔ اور جس سے نکاح کی ہے۔وہ بھی اپنی عزت اور جان بچانے کی وجہ سے کسی کو نہیں بتایا ۔ تو اس صورت میں جو گھر سے نکل کر دوسرے سے نکاح کی کیا وہ نکاح ہوا اور اگر ہوا تو جو دباؤ میں آکر دوسرا نکاح کی اس کا کیا ہوا ۔ عورت نے ڈر اور دباؤ میں آکر ایسا کیا ۔کیونکہ اس کے بھائی لوگ بدمعاش ہیں ۔
حضور سوال زیادہ طویل ہو گیا اس کے لئے معذرت ۔۔جواب ارشاد فرما دیں۔
سلمان عطاری جگدیش پور امیٹھی۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
الجوابــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ثبوتِ طلاق کے لیے ضروری ہے کہ یا تو شوہر اقرار کرے یا طلاق دینے پر شرعی گواہی موجود ہو ۔ اس لیے اگر شوہر تین طلاق کا اقرار نہیں کر رہا ہے اور عورت کے پاس گواہ بھی نہیں ہیں تو عورت کے قسم کھانے سے تین طلاق کا ثبوت نہ ہوسکےگا ۔ کیوں کہ عورت طلاق کا دعوی کرنے والی ہے اور شوہر منکر ہے ۔ لہذا اسلامی قانون"البینة علی المدعی والیمین علی من انکر” کے مطابق اگر عورت کے پاس گواہ نہیں تو شوہر کو قسم دی جائے گی ۔ اگر حلف شرعی سے بیان دے دیگا طلاق کا ثبوت نہ ہوگا ۔ اور اگر حاکمِ شرعی کے یہاں قسم کھانے سے انکار کرے گا تو عورت کا دعوی ثابت ہوجائے گا ۔ لیکن واضح رہے کہ شوہر کے قسم کھانے سے انکار کی صورت میں طلاق کا ثبوت اسی وقت ہوگا جب یہ انکار حاکمِ شرعی کے پاس ہو۔ورنہ نہیں ۔
امام اہل سنت مجدد دین وملت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
"بحالتِ اختلاف، طلاق کا ثبوت گواہوں سے ہوگا اور دو گواہ عادل شرعی شہادت بروجہِ شرعی اداکریں ۔ کہ اس شخص نے اپنی زوجہ کو طلاق دی طلاق ثابت ہوجائے گی ۔ پھر اگر شوہر نفی کے گواہ دے گا یا اس بات کے کہ مطلّقہ بعد طلاق اس سے بولی کچھ اصلاً مسموع نہ ہوگا، ہاں اگر عورت گواہ بروجہ شرعی نہ دے سکے تو شوہر پر حلف رکھا جائے گا اگر حلف سے کہہ دے گا کہ اُس نے طلاق نہ دی طلاق ثابت نہ ہوگی اور اگر حاکمِ شرعی کے سامنے حلف سے انکار کرے گا تو طلاق ثابت مانی جائے گی ۔” (فتاوی رضویہ ج۵ ص٦٦٩)
حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
ان کے علاوہ دیگر معاملات میں دو مرد یا ایک مرد اور دوعورتوں کی گواہی معتبر ہے جس حق کی شہادت دی گئی ہو وہ مال ہو یا غیر مال مثلاً ، طلاق، عتاق، وکالت کہ یہ مال نہیں۔”
(بہار شریعت ح١٢ص٩۴١)
اب جب کہ شوہر نے دو طلاق دینے کا اقرار کرلیا ہے تو اگر بعد طلاق شوہر کی واپسی اور زبردستی تعلقات قائم کرنے سے پہلے عورت کی عدت گزر گئی رہی ہو یعنی طلاق کے بعد تین دفعہ حیض سے پاکی ہوگئی ہو تو عورت نے جو دوسرا نکاح کیا اگر وہ کفو میں نکاح ہوا ہو تو دوسرا نکاح صحیح ہے۔اور جب تک وہ دوسرا شوہر طلاق نہ دے دے اور اس کے بعد عدت نہ گزر جائے وہ پہلے شوہر سے نکاح نہیں کرسکتی۔اور اگر طلاق کے بعد عدت گزرنے سے پہلے ہی شوہر نے عورت کے ساتھ زبردستی تعلقات قائم کیے یا زبانی رجعت کرلی ہو تو عورت کا دوسرا نکاح باطل ہے۔یوں ہی اگر غیر کفو میں ولی کی اجازت کے بغیر کیا ہو تو نکاح صحیح نہیں۔
لیکن اگر عورت کو یقین ہو کہ شوہر نے فون پر اس کو صرف دو نہیں تین طلاقیں دی ہیں تو اگر شوہر کسی طرح طلاق یا خلع پر راضی ہو تو طلاق لے لے یا خلع کرلے اور اگر شوہر کسی طرح طلاق یا خلع پر راضی نہ ہو تو جہاں تک ممکن ہو اس کو اپنے اوپر قابو نہ دے اور پھر اگر شوہر زبردستی کرے تو معذور ہے بشرطے کہ وہ راضی نہ ہو۔امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
"اگرواقع میں تین طلاقیں دی ہیں عند ﷲ عورت اُس پر حرام ہوگئی، بے حلالہ اس کے نکاح میں نہیں آسکتی۔قال ﷲتعالٰی :فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ۔اور اس کا انکار ﷲعزّوجل کے یہاں کچھ نفع نہ دے گا ان گواہوں پر فرض ہے کہ گواہی دیں اگر اُن میں دومرد یا ایک مرد دو عورتیں ثقہ عادل شرعی ہوں طلاق ثابت ہوجائے گی اور اس کا انکار دُنیا میں بھی نہ سُنا جائے گا اور اگر ان میں ایسے گواہ نہ ہوں اور عورت کے سامنے طلاق نہ دی ہو تو عورت اس سے حلف لے اگر وہ حلف لے کہ میں نے طلاق نہ دی تو عورت اپنے آپ کو اس کی زوجہ سمجھے اگر اُس نے حلف جُھوٹا کیا تووبال اس پرہے اور اگر خود زوجہ کے سامنے اُسے تین طلاقیں دیں اور منکر ہوگیا اور گواہ عادل نہیں تو عورت جس طرح جانے اس سے رہائی لے اگر چہ اپنا مہر چھوڑکر، یا اور مال دے کر، اور اگر وُہ یُوں بھی نہ چھوڑے تو جس طرح بَن پڑے اس کے پاس سے بھاگے اور اُسے اپنے اُوپر قابو نہ دے۔ اور اگر یہ بھی نہ ممکن ہو تو کبھی اپنی خواہش سے اس کے ساتھ زن وشو کا برتاؤ نہ کرے، نہ اس کے مجبور کرنے پر اس سے راضی ہو، پھر وبال اس پر ہے، لایکلّف ﷲنفسا الا وسعھا”
(فتاوی رضویہ ج۵ص٦۵۴)واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس و افتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔یوپی
١٢/جمادی الاولی ١۴۴٣ھ//١٧/دسمبر٢٠٢١ء