طلاق کا ثبوت کس طرح ہوتا ہے؟ مفتی محمد نظام الدین قادری دارالعلوم علیمیہ

طلاق کا ثبوت کس طرح ہوتا ہے؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں۔

ہندہ نے اپنی ماں کے پاس موبائل سے بات کی مجھے بلا کر لے چلئے میرا خاوند جواب دے دیئے ہیں،اب میں کیسے رہوں گی ،نیز ہندہ نے کہا میں کھانا کیسے کھاؤ کہ وہ مجھے تین بار کہہ دیئے ہیں تم کو طلاق دے دیئے ،طلاق دے دیئے ،طلاق دے دیئے،از قبل کی بات (جواب دے دیں گے) ہندہ کی ماں نے کہا اچھا ہے کہ تم نے مزکورہ بات بتا دی یہ بات پوشیدہ کے لائق نہیں ہے سارے اہل خامہ غم و اندوہ میں ڈوبا گئے،پھر بعدہ ایک گھنٹہ ہندہ اپنے والدین سے کہی کہ غصہ میں جھوٹ بولی ہوں، شوہر سے لڑائی ہوئی اس کی وجہ سے بولی ہوں، اہل خاندان کے ایک فرد جو رشتے میں چچا ہیں ان سے بھی ہندہ بولی کہ وہ طلاق دیئے ہیں تو میں یہاں کھانا کیسے کھاؤں، ٹھیک دس پندرہ منٹ کے بعد ہندہ کہنے لگی موبائل پر کہ چاچا میں غصہ میں یہ بات کہی ہوں وہ اتنا کہے ہیں کہ یہی حال رہا تو تم کو جواب دے دوں گا ،اسی درمیان ھندہ کے شوہر سے بات ہوئی تو ہندہ کے چچا نے موبائل ہی پر ہندہ کے شوہر سے بات کئے کہ آپ ایسا لفظ کیوں بولے تو اس نے کہا نہیں ، چاچا ہم اس طرح نہیں کہے ہیں ، ہم شادی کئے ہیں جواب دینے کے لیے نہیں، اگر آپ کو یقین نہیں ہے تو ہم قرآن اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔

آیا ان مذکورہ باتوں سے ہندہ کی طلاق واقع ہوگی یا نہیں ؟ قرآن احادیث کی روشنی میں آسان لفظوں میں جواب عنایت فرمائیں ۔


الجواب:

طلاق کا ثبوت یا تو شوہر کے اقرار سے ہوتا ہے یا دو عادل مردوں کی گواہی یا ایک مرد عادل اور دو عادلہ عورتوں کی گواہی سے ہوتا ہے۔ اب صورتِ مسئولہ میں چوں کہ شوہر انکار کررہا ہے، نیز عورت طلاق کا بیان دے کر اپنے بیان سے پِھر گئی، اس لیے طلاق کا حکم نہ ہوگا، ہاں! اگر عورت اپنے بیان پر قائم رہنے کے ساتھ دو عادل مردوں یا ایک عادل مرد اور دو عادلہ عورتوں کو گواہ کے طور پر پیش کرتی تو ضرور طلاق کا ثبوت ہوجاتا۔

امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا رحمہ اللہ القوی تحریر فرماتے ہیں:

"اگر دو مرد یا ایک مرد دو عورتیں نمازی پرہیز گار ثقہ عادل قابل شرع گواہی شرعی دیں گے تو تین طلاقیں ثابت ہوجائیں گی” (فتاوی رضویہ ج۵ص٦٦۴)

لیکن اگر واقعی ہندہ کے شوہر نے تین طلاقیں دی ہوں اور ہندہ کو معلوم ہو مگر گواہ نہ ہوں تو اس پر لازم ہے کہ بہانہ بازی کی بجائے کسی بھی ممکن طریقہ سے اس سے نجات حاصل کرے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اس کو اپنے اوپر قابو نہ دے اور اگر شوہر جبر کرے تو ہندہ پر مواخذہ نہیں۔

اعلی حضرت علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:

"اور اگر عورت جانتی ہے کہ وہ تین طلاقیں دے چکا ہے تو جس طرح ممکن ہو اس سے بھاگے، نجات حاصل کرے، اپنا مہر وغیرہ چھوڑنے کے بدلے اس سے طلاق مل سکے تو یُوں لے، نہ ممکن ہو تو عذاب اس پر رہے گا، جب تک یہ خود اس کے پاس جانے کی رغبت نہ کرے گی۔” (فتاوی رضویہ ج۵ص٦٦۴)

نیز تحریر فرماتے ہیں:

"صرف ایک مرد اورایک عورت کی گواہی سے طلاق ثابت نہیں ہو سکتی ، دو مرد عادل یا ایک مرد و دو عورتیں ثقہ درکار ہیں۔درمختار میں ہے :نصابھا لغیرہ من الحقوق کنکاح وطلاق رجلان اورجل وامرأتان۔(ملتقطاً)

مگر یہ ثبوت وعدم ثبوت قاضی ودیگر خلائق کے نزدیک ہے۔ واقع میں اگر عورت سچی ہے اس کے سامنے اسے تین طلاق دی ہیں تو عورت پر فرض ہے کہ جس طرح جانے اس سے جدا ہوجائے، پھر اگر جدا نہ ہوسکے تو وبال مرد پر ہے یہ الزام سے بری رہے گی جب تک اس کے پاس رہے ہاتھ لگانے پر سچے دل سے ناراض ہو اور اپنی حدِّ قدرت تک اس سے بچنے میں ہمیشہ کوشش کرتی رہے” (فتاوی رضویہ ج٧ص٣٠٠)

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی یوپی۔١٧/ذی الحجہ ١۴۴٢ھ//٢٨/جولائی ٢٠٢١ء

Leave a Reply

%d bloggers like this: