طلاق اور عدت گزر جانے کے بعد عورت دوسرا نکاح کرسکتی ہے /طلاق کے مسائل

طلاق اور عدت گزر جانے کے بعد عورت دوسرا نکاح کرسکتی ہے

شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے کہ میاں بیوی میں نااتفاقی رہتی تھی،تو ایک دن عورت نے فون پر کہا شوہر سے جو ملک سے باہر تھا کہ مجھے تم سے طلاق چاہیئے نہیں رہنا ہے مجھے تمہارے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ، مکمل سوال نیچے پی ڈی ایف فائل میں ملاحظہ فرمائیں۔

سائل: محمد سلمان عطاری


الجواب:

پہلی مرتبہ کی گفتگو میں چار الفاظ ہیں۔ان میں” جاو” دو بار، "میں نے تم کو چھوڑ دیا” ایک بار اور پھر "جاو” ایک بار کہا گیا ہے۔ ان الفاظ کا حکم یہ ہے کہ اگر شوہر نے پہلے دو مرتبہ "جاو” کہنے سے طلاق کی نیت کی ہو تو ایک طلاق بائن پڑی، کیوں کہ یہ کلمہ ان کنایاتِ طلاق میں سے ہے جن سے طلاق پڑنے کے لیے بہر حال نیت درکار ہے،لہذا نیت ہونے پر طلاقِ بائن پڑے گی، اور طلاقِ بائن کے بعد کنایہ کے لفظ سے طلاقِ بائن نہیں پڑتی،اس لیے اگرچہ دونوں دفعہ کہنے سے نیت طلاق ہو ایک طلاق بائن ہوگی۔پھر "میں نے تمھیں چھوڑ دیا” کہنے سے دوسری طلاقِ بائن پڑ گئی۔کیوں کہ "چھوڑنے” کا لفظ صریح ہے،جس سے طلاقِ رجعی ہوتی ہے، اور بائن کے بعد صریح سے بھی طلاقِ بائن پڑتی ہے۔

اب اس کے بعد پھر "جاو” کہنے سے طلاق واقع نہ ہوگی،کیوں کہ بائن طلاق کے بعد کنایہ کے الفاظ سے بائن طلاق نہیں ہوتی۔

اور اگر کسی مرتبہ”جاو” کہنے سے طلاق کی نیت نہیں تو صرف ایک طلاقِ رجعی ہوگی۔

حاصل یہ ہے کہ اگر کسی بھی "جاو” کہنے سے یا دو "جاو” یا تینوں "جاو” کہنے سے شوہر نے طلاق کی نیت کی ہو تو اس پہلی گفتگو سے دو طلاقِ بائن واقع ہوں گی۔اور اگر کسی بھی "جاو” کہنے سے شوہر نے طلاق کی نیت نہ کی ہو تو ایک طلاق رجعی ہوگی۔

اب پھر دونوں کے ملنے سے پہلے اگر عدت گزر گئی ہو اور شوہر نے عدت سے پہلے رجعت نہ کی ہو، جیسا کہ سائل نے پوچھنے کے بعد یہی بتایا، تو خواہ شوہر کی گفتگو سےدو طلاقِ بائن ہوچکی ہوں یا ایک طلاق رجعی ہوئی ہو ان دونوں کا نکاحِ جدید کے بغیر میاں بیوی کی طرح رہنا حرام تھا۔اور اس صورت میں بعد کے باہمی جھگڑوں میں شوہر نے جو الفاظ استعمال کیے ان سے بحث کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ جب طلاق ہوجانے اور عدت گزر جانے کے بعد وہ بیوی ہی نہ رہی تو اس کو طلاق دینا فضول ہے۔اس صورت میں بغیر دوبارہ نکاح کیے وہ دونوں ایک زمانہ تک جو میاں بیوی کی طرح رہے دونوں سخت گنہگار ہوئے۔توبہ واستغفار لازم ہے۔

ہاں! اگر اب دوبارہ میاں بیوی کی طرح رہنا چاھیں تو نیا نکاح کرکے رہ سکتے ہیں ۔لیکن اگر دو طلاق پڑچکی ہو تو اب کبھی ایک طلاق دینے سے اور اگر ایک طلاق پڑی ہو تو اب کبھی دو طلاق دینے سے وہ عورت ایسی حرام ہوجائے گی کہ دوسرے شوہرسے نکاح و وطی اور پھر اس کی موت یا طلاق دیے بغیر شوہر اول کے لیے حلال نہ ہوگی۔

واضح رہے کہ اب دوبارہ نکاح کرنے میں عورت کی رضا مندی ضروری ہے،عورت اگر رضا مند نہیں ہے تو اس سابق شوہر سے اس کا نکاح نہیں ہوسکتا

عورت کو یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ دوسری جگہ جس سے چاہے نکاح کرلے۔

اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:

"لان(جا) وان کان یحتمل ردا و غایة تقدم الطلاق ان الحال صال حال المذاکرۃ لکن مایحتمل الردینوی فیہ مطلقا”(فتاوی رضویہ ج۵ ص٦٧٩)

اور تحریر فرماتے ہیں:

عورت کو چھوڑ دینا عرفاً طلاق میں صریح ہے” (ایضا ص٧٢٨)

نیز تحریر فرماتے ہیں:

"فان الصریح یلحق البائن والرجعی، والرجعی اذا جامعہ البائن جعلہ بائنا لامتناع الرجعة”(فتاوی رضویہ ج۵ص٧۴٢)

متعدد کتبِ فقہ میں صراحت ہے:”البائن لا یلحق البائن”۔

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کتبہ: محمد نظام الدین قادری، خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی یوپی۔١٠/ذی الحجہ ١۴۴٢ھ//٢١/جولائی ٢٠٢١ء

Leave a Reply