ٹخنوں کے نیچے لنگی یا پاجامہ لٹکانا کیسا ہے
سوال یہ ہے کہ ٹخنوں کے نیچے لنگی یا پاجامہ لٹکانا کیسا ہے نیز ایسی صورت میں نماز ھوگی یا نہیں حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔سائل :- عابد رضا نظامی مہراجگنجوی ،
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بتوفیق الملک الوھاب
صورت مسؤلہ میں اگر بطور تکبر یا بطور فیشن نیچے ہے تو نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے ورنہ مکروہ تنزیہی اور یہ بھی تب جب کہ کپڑا پاشنہ یعنی ایڑی کی جانب نیچے ہو لیکن اگر پیچھے ٹخنوں سے اوپر ہو مگر آگے انگلیوں کی طرف نیچے پیر پر ہو تو کوئی کراہت نہیں ۔
فتاوی عالمگیری” میں ہے
إسبال الرجل إزارہ أسفل من الکعبین إن لم یکن للخیلاء ففيه کراھة تنزیه کذا فی الغرائب
(فتاویٰ عالمگیری ج ٥ کتاب الکراھیۃ الباب التاسع ص ٤١١/دار الکتب العلمیہ)
صدرالشريعہ بدر الطريقہ مفتى محمد امجد على اعظمى عليہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں مرد کو ایسا پاجامہ پہننا جس کے پائنچے کے اگلے حصے پشت قدم پر رہتے ہوں مکروہ ہے کپڑوں میں اسبال یعنی اتنا نیچا کرتا، جبہ، پاجامہ، تہبند، پہننا کہ ٹخنے چھپ جائیں ممنوع ہے یہ کپڑے آدھی پنڈلی سے لے کر ٹخنے تک ہوں یعنی ٹخنے نہ چھپنے پائیں
( بہار شریعت ج ٣ ح ص ٤١٧/مجلس المدینۃ العلمیہ)
فتاویٰ فقیہ ملت میں ہے پائنچہ یا پینٹ سے ٹخنہ چھپا رہے اس کی دو صورتیں ہیں اگر تکبر کی وجہ سے ہو تو نماز مکروہ تحریمی ہوگی ورنہ تنزیہی
(فتاویٰ فقیہ ملت ج ١ ص ١٧٨)
(ایسا ہی فتاویٰ رضویہ قدیم ج ٣ ص٤٤٨ میں ہے)
شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں۔
ٹخنے سے نیچے اگر پائجامہ یا تہبند تکبراً ہے تو حرام وگناہ ہے اور اس کا مرتکب فاسق معلن ، اس سے نماز مکروہ تحریمی ہوتی ہے جس کا دہرانا واجب ہے۔
اور اگر بطور فیشن ہے تو بھی یہی حکم ہے کہ یہ فساق کی وضع ہےاور فساق کی وضع اختیار کرنا حرام۔ اور آج کل ٹخنے سے نیچے پائجامہ رکھنے والے اسی قسم کے ہیں خواہ وہ عالم کہلائیں یا حافظ یا امام۔ اللہ تعالی مسلمانوں کی حفاظت فرمائے ۔اور اگر یہ صورت ہے کہ وہ پائجامہ یا تہبند باندھتا ہے ٹخنوں کے اوپر ، لیکن پھر وہ از خود سرک کر بلا قصد واختیار نیچے ہو جاتا ہے تو معاف ہے (فتاوی جامعہ اشرفیہ، ج٥، ص٧٠١)
اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں ازار کا گٹوں سے نیچے رکھنا اگر برائے تکبر ہو حرام ہے اور اس صورت میں نماز مکروہ تحریمی ورنہ صرف مکروہ تنزیہی، اور نماز میں بھی اس کی غایت اولی (فتاوی رضویہ، ج٧، ص٣٨٨، مسئلہ ١٠١٩)
نیز فرماتے ہیں۔
بالجملہ اسبال اگر براہ عجب و تکبر ہے حرام ورنہ مکروہ اور خلاف اولٰی، نہ حرام مستحق وعید، اور یہ بھی اسی صورت میں ہے کہ پائچے جانب پاشنہ نیچے ہوں، اور اگر اس طرف کعبین سے بلند ہیں گو پنجہ کی جانب پشت پا پر ہوں ہر گز کچھ مضائقہ نہیں۔ اس طرح کا لٹکانا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بلکہ خود حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ثابت ہے
(ایضا، ج٢٢، ص١٦٧، مسئلہ ٢٨)
واللہ تعالیٰ ورسولہ اعلم باالصواب ،
کتبہ:مفتی منظورالقادری