تحصیل والی آبادی میں جمعہ کا حکم از علامہ کمال احمد علیمی نظامی

تحصیل والی آبادی میں جمعہ کا حکم

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ۔۔۔

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیانِ شرع متین مسٔلہ ذیل میں کہ ایک موضع جو ابھی ماضی قریب میں نگر پالیکا کے اندر شامل ہوا ہے اور اس نگر پالیکا میں تحصیل بھی قائم ہے جہاں پہ تحصیلداراپنا فریضہ انجام دیتا رہتا ہے نیز وہاں پہ تقریبا دو سو سے زائد دکانوں پر مشتمل ایک مارکیٹ بھی ہے جس میں ضروریاتِ ایامِ حاضرہ کے اشیاء دستیاب ہیں مزید بر آں اس میں ایک سرکاری ھاسپٹل بھی ہے

اب طلب امر یہ ہے کہ اس نگر پالیکا کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنا فرض ہے کہ نہیں؟ اگر فرض ہے تو اب اس مسجد میں نماز جمعہ کے ساتھ ظہر کی نماز باجماعت پڑھنا کیسا ہے ؟

قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلّل ومفصّل جواب عنایت فرماکر عند اللّٰه ماجور ہوں ۔۔۔-⁦-)⁩نوٹ مذکورہ نگر پالیکا بھانپور بابو ضلع بستی⁦ ہے⁦-(⁩

المستفتی

غلام محی الدین علیمی نوری مقام منکورا پوسٹ مجھوا بیکنٹھ ضلع بستی یوپی

الجواب باسم الھادی الی الحق والصواب

مذکورہ آبادی میں جمعہ کی نماز فرض ہے،کیوں کہ بھان پور تحصیل ہے جس کے تحت متعدد گاؤں گنے جاتے ہیں،اور ایسی آبادی پر مصر یعنی شہرکی تعریف صادق آتی ہے.

فتاوی رضویہ شریف میں ہے :

صحیح تعریف شہر کی یہ ہےکہ وہ آبادی جس میں متعدد کوچے ہوں دوامی بازارہوں ، نہ وہ جسے پیٹھ کہتے ہیں ، اور وہ پر گنہ ہے کہ اس کے متعلق دیہات گنے جاتے ہوں او ر اُس میں کوئی حاکم مقدمات رعایا فیصل کرنے پر مقرر ہو جس کی حشمت وشوکت اس قابل ہو کہ مظلوم کا انصاف ظالم سے لے سکے۔ جہاں یہ تعریف صادق ہو وہی شہر ہے اور وہیں جمعہ جائز ہے۔ ہمارے ائمہ ثلثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے یہی ظاہر الروایہ ہےکما فی الھدایۃ والخانیۃ والظھیریۃ والخلاصۃ والعنایۃ والدرالمختار والھندیۃ وغیرھا۔

اور یہی مذہب ہمارے امام اعظم کے استاذ اور حضرت عبداﷲ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے شاگرد خاص حضرت امام عطاء بن ابی رباح رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا ہے( ج ٨ ص ٩٣)

بہار شریعت میں ہے :

مصر وہ جگہ ہے جس میں متعدد کُوچے اور بازار ہوں اور وہ ضلع یا پرگنہ [یعنی ضلع کا حصہ ] ہو کہ اس کے متعلق دیہات گنے جاتے ہوں اور وہاں کوئی حاکم ہو کہ اپنے دبدبہ و سَطوَت کے سبب مظلوم کا انصاف ظالم سے لے سکے یعنی انصاف پر قدرت کافی ہے، اگرچہ ناانصافی کرتا اور بدلہ نہ لیتا ہو اور مصر کے آس پاس کی جگہ جو مصر کی مصلحتوں کے ليے ہو اسے ”فنائے مصر” کہتے ہیں۔ جیسے قبرستان، گھوڑ دوڑ کا میدان، فوج کے رہنے کی جگہ، کچہریاں، اسٹیشن کہ یہ چیزیں شہر سے باہر ہوں تو فنائے مصر ميں ان کا شمار ہے اور وہاں جمعہ جائز۔ (غنیہ وغیرہا) لہٰذا جمعہ يا شہر میں پڑھا جائے یا قصبہ میں یا ان کی فنا میں اور گاؤں میں جائز نہیں۔ (غنیہ)

(حصہ چہارم، ص ٧٦٢)

اور جہاں جمعہ فرض ہے وہاں ظہر نہیں ہے، جیسا کہ تفسیرات احمدیہ میں ہے:

لایجوز الجمع بين الفرضیتین عند اھل الاسلام (التفسيرات الاحمدیہ ص ٧٠٧)

فتاوی مفتی اعظم ہند میں ہے:

جمعہ فرض ہے تو ظہر فرض نہیں، جہاں ظہر فرض ہے وہاں جمعہ فرض نہیں(ج ٣ص ١٢١)

لہذا جب مذکورہ موضع میں جمعہ فرض ہے تو ظہر کی نماز نہیں پڑھی جائے گی نہ باجماعت اور نہ ہی بغیر جماعت۔ ہاں خواص تنہا تنہا ظہر احتیاطی پڑھ سکتے ہیں۔لیکن عوام کو ظہرِ احتیاطی کی اجازت نہیں۔ وللتفصیل یراجع الی العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ ج٣۔

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ : کمال احمد علیمی نظامی جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی

٢٠ صفر ١٤٤٣/ ٢٨ ستمبر ٢٠٢١

الجواب صحیح محمد نظام الدین قادری خادم درس و افتاء جامعہ علیمیہ جمدا شاہی

Leave a Reply