وہابی امام کے پیچھے نماز اور کھڑے ہوکر اقامت سننے کا حکم
سوال نمبر (1) وہابی امام کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں؟
سوال نمبر (2) جو امام تکبیر کھڑے ہوکر سنے اور مقتدی بیٹھ کر تو ایسی صورت میں اس امام کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں؟
سوال نمبر (3) اگر مقتدی اور امام کھڑے ہوکر تکبیر سنتے ہیں کیا نماز ہوگی؟
سوال نمبر (4) جو امام سلام نہ پڑھے اس کے پیچھے نماز ہوگی یانہیں؟
سوال نمبر(5) حی علی الصلاح یا حی علی الفلاح پر جب ہم کھڑے ہوتے ہیں تو حجاج کرام کا کہنا کہ مدینہ شریف میں ایسا نہیں ہے تو کیوں نہیں کھڑے ہوکر تکبیر سنتے؟
سوال نمبر (6) جمعہ کی نماز کے لیے تکبیر کھڑے ہوکر سننا کیسا ہے؟
سوال نمبر (7) مسجد ایک ہے کچھ امام کے ساتھ ہیں کچھ امام کے خلاف تو ایسی صورت میں اس امام کے بارے میں کیا حکم ہے؟
الجواب:
جواب سوال (١) وہابی امام کے پیچھے نماز نہیں ہوگی کیوں کہ یہ بہت ہی بنیادی اور واضح مسئلہ ہے کہ امام کا مسلمان ہونا ضروری ہے ۔ جبکہ وہابیہ زمانہ پر حکم کفر ہے ۔ امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
"غیر مقلد وہابی دیوبندی سب اسلام سے خارج ہیں ۔ اور ان کے پیچھے نماز باطل محض ۔
والتفصیل فی حسام الحرمین والنھی الاکید وغیرھما”(فتاوی رضویہ ج ٣قدیم ص٦٦)
اور تحریر فرماتے ہیں:
"وہابی کے پیچھے کوئی نماز فرض خواہ نفل کسی کی نہیں ہوسکتی، نہ اس کے پڑھے سے نماز جنازہ ادا ہو ۔”
(فتاوی رضویہ ج٣ص٢٦۵)
ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں:
"اور وہابیہ زمانہ اب بدعت وضلالت سے ترقی کرکے معراج کفر تک پہنچ چکے ہیں بہر حال ان کے پیچھے نماز ناجائز اور انھیں امام بنانا حرام”۔
(فتاوی رضویہ ج٣ص٢٢٣)
نیز تحریر فرماتے ہیں:
"ان دیار میں وہابی اُن لوگوں کو کہتے ہیں جو اسمٰعیل دہلوی کے پیرو اور اس کی کتاب”تقویۃ الایمان”کے معتقد ہیں ۔ یہ لوگ مثل شیعہ خارجی معتزلہ وغیرہم اہلسنت وجماعت کے مخالف مذہب ہیں ۔ ان میں سے جس شخص کی بدعت حدِ کفر تک نہ ہو یہ اُس وقت تھا اب کبرائے وہابیہ نے کھلے کھلے ضروریاتِ دین کا انکار کیا اور تمام وہابیہ اُس میں اُن کے موافق یا کم از کم اُن کے حامی یا اُنھیں مسلمان جاننے والے ہیں اور یہ سب صریح کفر ہیں ۔
تو اب وہابیہ میں کوئی ایسا نہ رہا جس کی بدعت کفر سے گری ہوئی ہو خواہ غیر مقلد ہو یا بظاہر مقلّد ۔
نسأل اﷲ العفو والعافیة”(فتاوی رضویہ ج ٣ ص١٦٩ ، ١٧٠)واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
جو امام تکبیر کھڑے ہوکر سنے اور مقتدی بیٹھ کر تو ایسی صورت میں اس امام کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں؟
جواب(٢) اگر امام بد عقیدہ اور فاسق نہیں ہے تو محض اتنی بات میں کوئی مواخذہ نہیں، کہ امام کھڑے ہوکر تکبیر سنے اور اس صورت میں نماز ہوجائے گی ۔ ہاں! اگر امام وہابی ہے تب تو اس کے پیچھے نماز باطل ہے، جیسا کہ جواب نمبر ایک میں گزرا ۔ اوراگر وہ مقتدیوں کو بھی شروع سے ہی تکبیر کھڑے ہوکر سننے کو کہتا ہے تو ضرور قابل مواخذہ ہے ۔ کیوں کہ مقتدیوں کا شروع تکبیر کے وقت کھڑا ہونا مکروہ ہے ۔
اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
"امام کے لئے اس میں کوئی خاص حکم نہیں مقتدیوں کو حکم ہے کہ تکبیر بیٹھ کر سُنیں ۔ حی علی الفلاح پر کھڑے ہوں، کھڑے کھڑے تکبیر سُننا مکروہ ہے یہاں تک کہ علمگیری میں فرمایا کہ اگر کوئی شخص ایسے وقت میں مسجد میں آئے کہ تکبیر ہورہی ہو فوراً بیٹھ جائے اورحی علی الفلاح پر کھڑا ہو
” (فتاوی رضویہ ج ٢ص۴٢٠)
لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ امام کے لیے کھڑے ہوکر تکبیر سننا متعین ہے ۔
اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
"حی علی الفلاح پر کھڑے ہوں، جس نے کہا امام فورا کھڑا ہوجائے غلط کہا ۔ حوالہ وہ دے”(فتاوی رضویہ ج٢ص ۴١٩)۔
حاصل یہ ہے کہ مقتدی کو شروع تکبیر کے وقت کھڑے رہنا مکروہ ہے امام کے لیے مکروہ نہیں”
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم ۔
اگر مقتدی اور امام کھڑے ہوکر تکبیر سنتے ہیں کیا نماز ہوگی؟
جواب (٣)
اس کا جواب، جواب نمبر (٢) سے واضح ہے۔ یعنی: مقتدیوں کا شروع تکبیر کے وقت کھڑا ہونا مکروہ ہے ۔ لیکن نماز بہر حال ہوجائے گی، جب کہ امام جامع شرائط امامت ہو ۔
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم ۔
جو امام سلام نہ پڑھے اس کے پیچھے نماز ہوگی یانہیں؟
جواب نمبر(4)
اس بارے میں خود اسی سے پوچھا جائے اگر یہ کہے کہ اذان سے پہلے اور اس کے بعد اور نماز کے بعد سلام اس لیے نہیں پڑھتا کہ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو شرع نے لازم کردی ہو تو کوئی سخت حکم نہیں اور اگر بر بنائے وہابیت ہو تو اس کا جواب، نمبر (١) میں بیان ہوچکا کہ وہابیہ کے پیچھے نماز باطل ہے ۔
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم ۔
حی علی الصلاح یا حی علی الفلاح پر جب ہم کھڑے ہوتے ہیں تو حجاج کرام کا کہنا کہ مدینہ شریف میں ایسا نہیں ہے تو کیوں نہیں کھڑے ہوکر تکبیر سنتے؟
جواب نمبر (5)
مدینہ طیبہ میں اس وقت نجدیوں کا تسلط ہے اور ان کا فعل حجت نہیں ہے ۔ اس لیے حاجیوں کا اعتراض بیجا ہے ۔
واللہ تعالی اعلم ۔
جمعہ کی نماز کے لیے تکبیر کھڑے ہوکر سننا کیسا ہے؟
جواب(6)
مقتدیوں کے لیے یہی حکم ہے کہ جمعہ کے خطبہ کے بعد تکبیر بیٹھ کر سنیں اور ” حی علی الصلاة” پر کھڑے ہوں۔ لیکن امام کے لیے کوئی پابندی نہیں ہے ۔
امام اہل سنت اعلی حضرت علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"اور اگر وہ تکبیر ہوتے میں چلا تو اُسے بیٹھنے کی بھی حاجت نہیں مصلّے پر جائے اور حی علی الفلاح یا ختم تکبیر پر تکبیر تحریمہ کہے ۔ یوں ہی بعد خطبہ اُسے اختیار ہے کہیں منقول نہیں کہ خطبہ فرماکر تکبیر ہونے تک جلوس فرماتے یہ حکم قوم کے لئے ہے” (فتاوی رضویہ ج٢ ص۴١٩)
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔. . .
مسجد ایک ہے کچھ امام کے ساتھ ہیں کچھ امام کے خلاف تو ایسی صورت میں اس امام کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب(7)
اگر امام جامع شرائط امامت ہے یعنی:سنی،صحیح العقیدہ،صحیح القراءة،صحیح الطہارة، غیر فاسق معلن نیزایسی کمی سے محفوظ ہےجو لوگوں کے لیے باعث نفرت اور وجہ قلت ہو تو بعض مقتدیوں کا اس امام کے خلاف ہونا قابل اعتبار نہیں ۔
اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں :
"ہر سنی ،صحیح العقیدہ، صحیح القراءة، صحیح الطہارة، غیر فاسق معلن،جس میں کوئ ایسی بات نہ ہو کہ لوگوں کے لیے باعث نفرت اور جماعت کے لیے وجہ قلت ہو اس کے پیچھے نماز بلا کراہت جائز ہے”
(فتاوی رضویہ ج٣ ص ٢۴۵)
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم ۔
کتبہ:محمد نظام الدین قادری: خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی۔یوپی۔
٦/رمضان المبارک ١۴۴٢ھ//١٩/اپریل ٢٠٢١ء