ویڈیو کالنگ کے ذریعے نکاح کا حکم / نکاح کے مسائل

ویڈیو کالنگ کے ذریعے نکاح کا حکم

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
حضور مفتی صاحب قبلہ!
ویڈیو کالنگ کے ذریعہ نکاح خوانی کے متعلق شرف شریف کا کیا موقف ہے؟ اطمینان بخش جواب کی درخواست ہے ۔
جزاکم اللہ خیرا.
المستفتی عبدالرقیب ملک
سدھارتھ نگر، یوپی

الجواب: ویڈیو کالنگ کے ذریعے نکاح کا حکم

 

ویڈیو کالنگ کے ذریعہ اس طرح نکاح نہیں ہوگا کہ ایجاب ایک جگہ سے ہو اور اس منظر کو ویڈیو سے دیکھ کر دوسری جگہ سے اس کو قبول کیا جائے؛ کیوں کہ :
اولاّ نکاح کے وجودِ شرعی کے لیے ایجاب وقبول کا ایک مجلس میں ہونا ضروری ہے ۔ حالاں کہ ویڈیو کالنگ کے ذریعہ نکاح میں ایجاب کی مجلس ایک جگہ ہوتی ہے اور قبول کی مجلس دوسری جگہ ہوتی ہے ۔

علامہ محقق علاوالدین حصکفی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"من شرائط الایجاب والقبول اتحاد المجلس” (در مختار ج۴ص٧٦)

علامہ شامی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"ولو عقدا وہما یمشیان او یسیران علی الدابة لایجوز”(رد المحتارج۴ ص٧٦)

اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:

اور کوئی ایجاب مجلس سے باہر قبول پر موقوف نہیں رہ سکتا۔
کما نصوا علیہ فی عامۃ الکتب وفی النھر والدر من شرائط الایجاب والقبول اتحاد المجلس” (فتاوی رضویہ ج۵ص١١٣)

ثانیا: نکاح کے لیے دو ایسے گواہوں کا ہونا ضروری ہے جو دونوں ہی ایجاب وقبول دونوں کے گواہ ہوں . جب کہ ویڈیو کالنگ کے ذریعہ نکاح میں ایجاب اور قبول کے گواہ الگ الگ ہوتے ہیں اور یہاں ایجاب والی مجلس کا گواہ، قبول والی مجلس کا شرعی گواہ نہیں ہوتاہے ۔ یوں ہی قبول کی مجلس کا گواہ ایجاب کی مجلس کا گواہ نہیں ہوتا ہے .

کیوں کہ نکاح کی گواہی کے لیے ایجاب وقبول کرنے والوں کی بات سننے کے ساتھ ان کو دیکھنا بھی ضروری ہے جب کہ ویڈیو کالنگ والی صورت میں مجلسِ ایجاب کا گواہ ،اصل قبول کرنے والے کو نہیں دیکھتا ہے . بلکہ اس کی شبیہ یا صورت کو دیکھتا ہے۔ یوں ہی مجلسِ قبول کا گواہ، اصل ایجاب کرنے والے کو نہیں دیکھتا ہے بلکہ اس کی شبیہ یا صورت کو دیکھتا ہے ۔

بہار شریعت میں ہے:
"تحمل یعنی معاملہ کے گواہ بننے کے لیے تین شرطیں ہیں ۔

(۱) بوقتِ تحمل عاقل ہونا،

(۲) انکھیارا ہونا،

(۳) جس چیز کا گواہ بنے اُس کا مشاہدہ کرنا۔”

(بہار شریعت حصہ ١٢ص ٩۴٢نسخہ دعوت اسلامی ایپ)
اسی میں ہے:
"جو چیز دیکھنے کی ہے اُسے آنکھ سے دیکھا اور جو چیز سننے کی ہے اُسے اپنے کان سے سنا مگر جس سے سُنا اُس کو بھی آنکھ سے دیکھا ہو تو گواہی دینا جائز ہے ۔ اگرچہ پردہ کی آڑ سے دیکھا ہو کہ اس نے دیکھا اور اُس نے نہ دیکھا”(بہارشریعت حصہ ١٢ص٩٣٧ نسخہ دعوت اسلامی ایپ)
ظاہر ہےیہاں "مشاہدہ” اور "پردہ کی آڑ سے دیکھنے” سے مراد اصل بولنے والے کو دیکھنا ہے نہ کہ اس کی صورت وشبیہ کو دیکھنا ۔
ہاں، موبائل فون وغیرہ سے اس طرح نکاح ہوسکتا ہے کہ لڑکی یا لڑکا ان کے ذریعہ نکاح پڑھانے والے کو اپنے نکاح کا وکیل بنادے اور وہ وکیل ایجاب یا قبول کرلے تو نکاح ہوجائے گا۔ مثلا نکاح خواں مولوی نے لڑکی سے فون پر کہا کہ کیا تم نے مجھ (فلاں بن فلاں مولوی) کو پچاس ہزار روپیے مہر پر فلاں بن فلاں کے ساتھ اپنا نکاح کردینے کا وکیل بنایا؟

لڑکی اس کے جواب میں کہے”ہاں”۔اب وہ وکیل گواہوں کی موجودگی میں دولھا سے بطریق معروف ایجاب کرے اور دولھا منظور کرے تو نکاح ہوجائے گا۔

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
کتبہ:محمد نظام الدین قادری: خادم درس و افتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی۔بستی۔ یوپی۔

٨/رمضان المبارک ١۴۴٢//٢١/اپریل ٢٠٢١ء

Alimi Darul Ifta Jamia Alimia Jamda shahi basti

مزید پڑھہں