مستحق زکاة مقروض کا قرض معاف کردینے سے زکاة ادا ہوگی یا نہیں؟
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے بکر کو قرض دیا تھا بکر قرض کا اعتراف کرتے ہوئے قرض واپس کرنے کو کہتا ہے ۔ لیکن وہ اس وقت محتاج مستحق زکاة ہے تو اگر زید زکاة کی نیت سے بکر کا قرض معاف کردے تو کیا قرض کی معاف کی ہوئی پوری رقم زکاة میں شمار ہوگی ۔
والسلام۔
المستفتی اعجاز القمر علیمی کرلا۔
Alimi Darul Ifta Jamia Alimia Jamda Shahi Basti
الجواب: قرض معاف کردینے سے زکاة ادا ہوگی
صورت مسئولہ میں زید اگر اپنے مقروض محتاج بکر کا قرض بہ نیت زکاة معاف کردے تو جتنا قرض بکر کے ذمہ ہے صرف اتنے کی زکاة ساقط ہوگی ۔
مان لیجیے زید کا بکر پر چالیس ہزار قرض تھا اور اس نے سب رقم بہ نیت زکاة معاف کردی تو اب زید پر جو اس قرض کی ایک ہزار زکاة لازم تھی وہ ساقط ہوجائے گی ۔ لیکن اگر زید یہ چاہے کہ معاف کردہ مکمل چالیس ہزار روپیہ زکاة کے طور پر ادا ہو تاکہ اس کے پاس جو اور زکاة کی رقم ہے اس کی زکاة بھی ادا ہوجائےتو اس کے لیے یہ طریقہ اختیار کرنا ہوگا کہ اپنے پاس سے چالیس ہزار بہ نیت زکاة بکر کو دے اور جب وہ اس پر قبضہ کرلے تو اپنے قرض میں واپس لے لے اور اگر وہ نہ دے تواس صورت میں شرعا اس کو اپنا قرض چھیننے کی بھی اجازت ہے ۔
علامہ محقق علاو الدین حصکفی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"وَاعْلَمْ أَنَّ أَدَاءَ الدَّيْنِ عَنْ الدَّيْنِ وَالْعَيْنِ عَنْ الْعَيْنِ، وَعَنْ الدَّيْنِ يَجُوزُ وَأَدَاءُ الدَّيْنِ عَنْ الْعَيْنِ، وَعَنْ دَيْنٍ سَيُقْبَضُ
"لَا يَجُوزُ. وَحِيلَةُ الْجَوَازِ أَنْ يُعْطِيَ مَدْيُونَهُ الْفَقِيرَ زَكَاتَهُ ثُمَّ يَأْخُذَهَا عَنْ دَيْنِهِ، وَلَوْ امْتَنَعَ الْمَدْيُونُ مَدَّ يَدَهُ وَأَخَذَهَا لِكَوْنِهِ ظَفِرَ بِجِنْسِ حَقِّهِ، فَإِنْ مَانَعَهُ رَفَعَهُ لِلْقَاضِي (درمختارج٣ص ١٩٠، ١٩١)
صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
” فقیر پر اُس کا قرض تھا اور کل معاف کر دیا تو زکاۃ ساقط ہوگئی اور جُز معاف کیا تو اس جز کی ساقط ہوگئی ۔ اور اگر اس صورت میں یہ نیّت کی کہ پورا زکاۃ میں ہو جائے تو نہ ہوگی”(بہار شریعت حصہ ۵ص٨٨٩)
اور تحریر فرماتے ہیں:
"فقیر پر قرض ہے اس قرض کو اپنے مال کی زکاۃ میں دینا چاہتا ہے یعنی یہ چاہتا ہے کہ معاف کر دے اور وہ میرے مال کی زکاۃ ہو جائے یہ نہیں ہوسکتا، البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اُسے زکاۃ کا مال دے اور اپنے آتے ہوئے میں لے لے، اگر وہ دینے سے انکار کرے تو ہاتھ پکڑ کرچھین سکتا ہے اور یوں بھی نہ ملے تو قاضی کے پاس مقدمہ پیش کرے کہ اُس کے پاس ہے اور میرا نہیں دیتا۔”(بہار شریعت حصہ ۵ ص٨٩٠) ۔
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
کتبہ:محمد نظام الدین قادری: خادم درس و افتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی۔بستی۔ یوپی۔
٨/رمضان المبارک ١۴۴٢//٢٠/اپریل ٢٠٢١ء
Alimi Darul Ifta Jamia Alimia Jamda Shahi Basti