تفضیلی شیعوں کے متعلق بعض احکام
السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ
سوال : ایک عالم کہتا ھے کہ میں تفضیلی سنی ھوں اور جب اس سے اس جملے کی مراد پوچھی جاتی ھے تو کہتا ھےکہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو تمام صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین سے افضل مانتا ھوں.
واضح رھے کہ یہ عالم بقیہ عقائد میں بریلوی مسلک کا پابند ھے.
ایسے عالم کی اقتداء ، سلام وکلام اور دعوت وغیرہ کا شرعی حکم قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان فرما دیں نوازش ھوگی. فقط والسلام
المستفتی : صلاح الدین قادری دارالعلوم غوثیہ رضویہ قصبہ سیدپور رودولی شریف ضلع ایودھیا
الجوابــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اگر شخص مذکور صرف تفضیلی ہے، یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو شیخین یعنی حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے افضل مانتا ہے تو وہ گمراہ اور تفضیلی شیعہ گروہ سے ہے۔ اور ایسے لوگوں کی اقتدا میں نماز مکروہِ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی یعنی اس کو دوبارہ پڑھنا واجب ہوگا، ہاں! اگر نمازِ جمعہ اور عیدین کے لیے کوئی غیر تفضیلی سنی امام نہ مل سکے تو بمجبوری جمعہ اور عیدین اس کے پیچھے پڑھ لیں گے۔ ایسوں سے سلام و کلام اور ان کی دعوت سے اجتناب کا حکم ہے ۔ایسوں کی نمازِ جنازہ میں شریک ہونے اور ان کو ایصالِ ثواب سے ضرور ضرور بچنا چاہیے۔لیکن تفضیلی شیعہ کافر نہیں اس لیےان کے ہاتھ کا ذبیحہ حلال ہے۔ایسے لوگ اگر سنیوں کی مسجد میں سنی عوام کو بہکائیں اور اپنے مذہب کی طرف بلائیں تو ان کو مسجد میں آنے سے روکا بھی جائے گا۔
امام اہل سنت مجدد دین وملت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
"تمام اہل ِسنت کا عقیدہ اجماعیہ ہے کہ صدیق اکبر وفاروقِ اعظم رضی ﷲ تعالٰی عنہما مولیٰ علی کرم ﷲ تعالٰی وجہہ الکریم سے افضل ہیں، ائمہ دین کی تصریح ہے جو مولیٰ علی کو اُن پر فضیلت دے مبتدع بدمذہب ہے، اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔
فتاویٰ خلاصہ وفتح القدیر و بحرالرائق وفتاویٰ عالمگیریہ وغیرہا کتب کثیرہ میں ہے:ان فضل علیا علیھما فمبتدع۔”
(فتاوی رضویہ ج٣ص٢٦٦)
اور تحریر فرماتے ہیں:
"اور جس کی گمراہی حدِ کفر تک نہ پہنچی ہو جیسے تفضیلیہ: مولٰی علی کوشیخین سے افضل بتاتے ہیں رضی ﷲ تعالٰی عنہم یا تفسیقیہ: کہ بعض صحابہ کرام مثل امیر معاویہ وعمرو بن عاص وابوموسٰی اشعری و مغیرہ بن شعبہ رضی ﷲ تعالٰی عنہم کو بُرا کہتے ہیں ان کے پیچھے نماز بکراہت شدیدہ تحریمیہ مکروہ ہے کہ انھیں امام بنانا حرام ان کے پیچھے نماز پڑھنی گناہ اور جتنی پڑھی ہوں سب کا پھیرنا واجب۔”
(فتاوی رضویہ ج٣ص٢٦٩)
نیز تحریر فرماتے ہیں:
"واضح ہو کہ بدعتِ سیئہ دو قسم ہے: عملی اور اعتقادی ، عملی جیسے عَلم، تعزیے اور قبروں کو سجدہ، اور اعتقادی جیسے تفضیلیہ وخوارج وجبریہ وقدریہ وغیرہ ، یہ لوگ اہلِ بدعت ہیں ان کی صحبت سے بچنا چاہیے، غرضیکہ جن باتوں پر صحابہ و تابعین و ائمہ مجتہدین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کا اجماع ہوچکا ہے ان کے خلاف عقیدہ رکھنا یہی بدعت ہے ۔ پھر ان میں جن کی بدعتِ حد کفر کو نہ پہنچی ہو جیسے تفضیلیہ ، اس کے پیچھے نماز مکروہِ تحریمی ہے ورنہ باطل محض”
اورتحریر فرماتے ہیں:
"ہاں اگر کہیں ایسا بد مذہب ہو جس پر حکم کفر نہیں جیسے تفضیلیہ، اور سنی کی امامت نہ مل سکے تو اس کے پیچھے جمعہ و عیدین پڑھ لے”
(فتاوی رضویہ ج٣ ص٧۴٣)
ایک دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں:
اور اگر صرف تفضیلیہ ہے تو اُس کے جنازے کی نماز بھی نہ چاہئے، متعدد حدیثوں میں بدمذہبوں کی نسبت ارشاد ہوا:ان ماتوا فلا تشہدوھم وُہ مریں تو ان کے جنازہ پر نہ جائیں۔ولاتصلوا علیہم،انکے جنازے کی نمازنہ پڑھو۔ نماز پڑھنے والوں کو توبہ استغفار کرنی چاہئے۔”
(فتاوی رضویہ ج۴ ص۵٣)
نیز تحریر فرماتے ہیں:
کافر خواہ مشرک ہو یا غیر مشرک، جیسے آج کل کے عام رافضی کہ منکرانِ ضروریات دین ہیں، اسے ہرگز کسی طرح کسی فعل خیر کا ثواب نہیں پہنچ سکتا،قال ﷲ تعالٰی: "ومالھم فی الاٰخرۃ من خلاق”۔اور انھیں ایصال ثواب کرنا معاذ اﷲ خود راہ کفر کی طرف جانا ہے کہ نصوص قطعیہ کو باطل ٹھہرانا ہے۔ رافضی تبرائی کا فقہائے کرام کے نزدیک یہی حکم ہے۔
ہاں جو تبرائی نہیں جیسے تفضیلی، انھیں ثواب پہنچ سکتاہے اور پہنچانا بھی حرام نہیں جبکہ ان سے دینی محبت یا ان کی بدعت کو سہل وآسان سمجھنے کی بنا پر نہ ہو، ورنہ انکم اذامثلھم یہ بھی انھیں میں شمار ہوگا۔”۔
(فتاوی رضویہ ج۴ص١٩٦)
نیز تحریر فرماتے ہیں:
"آج کل کے رافضی تبرائی علی العموم کافر مرتد ہیں، شاید ان میں گنتی کے ایسے نکلیں جو اسلام سے کچھ حصہ رکھتے ہوں، ان کا عام عقیدہ یہ ہے کہ یہ قرآن شریف جو بحمد اللہ تعالٰی ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے یہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد پورا نہ رہا، اس میں سے کچھ پارے یا سورتیں یا آیتیں صحابہ کرام اور اہلسنت نے معاذاللہ کم کردیں، اور یہ بھی ان کے چھوٹے بڑے سب مانتے ہیں کہ حضرت مولا علی ودیگر ائمہ اطہار کرم اللہ تعالٰی وجوہہم اگلے انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام سے افضل تھے، یہ دونوں عقیدے خالص کفر ہیں جو شخص قرآن مجید سے ایک حرف، ایک نقطہ کی نسبت ادنٰی احتمال کے طور پر کہے کہ شاید کسی نے گھٹا دیا یا بڑھادیا یابدل دیا ہو وہ کافر ہے اور قرآن عظیم کا منکر۔ یونہی جو کسی غیرِ نبی کو کسی نبی سے افضل بتائے وہ بھی کافر۔اور جبکہ ان اشقیاء نے باوصف ادعائے اسلام عقائد کفر اختیار کئے تو مرتد ہوئے،فتاوٰی عالمگیری میں ہے: "ھؤلاء القوم خارجون عن ملۃ الاسلام و احکامہم احکام المرتدین۔”
اور مرتد کے ہاتھ کا ذبیحہ نراحرام ومردار سوئر کی مانند ہے اگرچہ اس نے لاکھ تکبیریں پڑھ کر ذبح کیا ہو،درمختارمیں ہے: "لاتحل ذبیحۃ غیر کتابی من وثنی ومجوسی و مرتد۔”
اسی طرح جس مذہب کا عقیدہ حد کفر تک پہنچا ہو ، جسے نیچیری کہ وجودِ ملائکہ ووجودِ جن وجودِ شیطان وجودِ آسمان وصحتِ معجزات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام وحشر ونشر وجنت و نار بطور عقائد اسلام وغیرہا بہت ضروریات دینیہ سے منکر ہیں۔ یونہی وہ وہابی کہ حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مثل سات یا چھ یا دو یا ایک خاتم النبیین کسی طبقہ زمین میں کبھی موجود مانے یا ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد کسی اور کو نبوت ملنی جائز جانے اور اسے آیۃ "وخاتم النبیین” کے مخالف نہ سمجھے، یا نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی توہین شان اقدس کے لئے حضور کو بڑا بھائی ، اپنے آپ کو چھوٹا بھائی کہے، یا حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نسبت یہ ناپاک کلمہ لکھے کہ مرکر مٹی میں مل گئے۔ وعلی ہذا القیاس جو بدمذہب ضروریاتِ دینِ اسلام میں سے کسی عقیدہ کا منکر ہو یا اس میں شرک کرے یا تاویلیں گھڑے، باجماع تمام علمائے اسلام وہ سب کے سب کافر ومرتد ہیں اگرچہ لوگوں کے سامنے کلمہ، نماز ،قرآن پڑھتے، روزہ رکھتے، اپنے آپ کو سچا پکا مسلمان جتاتے ہوں کہ جب وہ ضروریاتِ اسلام کے منکر ہوئے تو انھوں نے خدا ورسول وقرآن کو صاف صاف جھٹلایا، پھریہ جھوٹے طور پر کلمہ وغیرہ کیا نفع دے سکتاہے۔ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی منافق لوگ کلمہ ونماز پڑھتے اور اپنے آپ کو قسمیں کھاکھاکر مسلمان بتاتے تھے اور اللہ تعالٰی نے ان کی ایک نہ سنی اور صاف فرمایا "وﷲ یشہد ان المنفقین لکذبون”
غرض ایسے لوگوں کے کفر میں ہر گز شک نہ کیا جائے کہ جو ان کے عقیدہ پر مطلع ہوکر پھر سمجھ بوجھ کر ان کے کفر میں شک کرے وہ خود کافر ہوجاتاہے۔
درمختارمیں ہے:من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر اھ واما ارتدادہم فہو الصحیح الثابت المنصوص علیہ کما اوضحناہ بتوفیق اﷲ تعالٰی فی السیر من فتاوٰینا وفی رسالتنا ”المقالۃ المسفرۃ عن احکام البدعۃ المکفرۃ”
اس قسم کے ہر بدمذہب کا ذبیحہ مردار وحرام، ان کے ساتھ نکاح حرام وباطل و محض زنا، ان کے ساتھ کھانا پینا بیٹھنا اٹھنا، ملنا جلنا، کوئی برتاؤ مسلمان کا ساکرنا ہر گز ہرگز کسی طرح جائز نہیں۔
ہاں جو بد مذہب دینِ اسلام کی ضروری باتوں سے کسی بات میں شک نہ کرتا ہو، صرف ان سے نیچے درجہ کے عقیدوں میں مخالف ہو، جیسے رافضیوں میں تفضیلی ، یا وہابیوں میں اسحاقی وغیرہم وہ اگر چہ گمراہ ہے کافر نہیں اس کے ہاتھ کاذبیحہ حلال ہے”
(فتاوی رضویہ ج٨ص٣٢٩)
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
"اور اگر بد مذہب گمراہ مثلاًوہابی یا رافضی یا غیر مقلد یا نیچری یا تفضیلی وغیرہا ہے اور مسجد میں آکر نمازیوں کو بہکاتا ہے اپنے مذہب ناپاک کی طرف بلاتا ہے تو اسے منع کرنا اور مسجد میں نہ آنے دینا ضرور واجب ہے۔فقد نص فی العینی ثم المختار وغیرھما من معتمدات الاسفار باخراج کل موذ و لوبلسانہ۔”
(فتاوی رضویہ ج٣ص۵٨٢)
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس و افتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، ۔یوپی۔
٣٠/جمادی الاولی١۴۴٣ھ//۴/دسمبر٢٠٢٢ء
شیخین کیلئے صرف خلافت ظاہری مراد لینا اور باطنی سے مولیٰ علی کو مراد لینا ،یہ عقیدہ رکھنے والا شخص کیا تفضیلی نہیں ہے ،پورے وضاحت کے ارشاد فرمائیں