تفسیر سورہ بقرہ آیت ۱۳۸ ۔ اللہ تعالی کارنگ کونساہے ؟یہودنصاری کے رنگ سے تم نے بچناہے!

اللہ تعالی کارنگ کونساہے ؟یہودنصاری کے رنگ سے تم نے بچناہے!

{صِبْغَۃَ اللہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ صِبْغَۃً وَّنَحْنُ لَہ عٰبِدُوْنَ}(۱۳۸)
ترجمہ کنزالایمان :ہم نے اللہ کی رَیْنی لی اور اللہ سے بہتر کس کی رَیْنی؟اور ہم اسی کو پوجتے ہیں ۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اورہم نے اللہ تعالی کارنگ اختیارکیا اوراللہ تعالی کے رنگ سے کس کارنگ اچھاہے ؟اورہم اسی کی بندگی کرتے ہیں۔
یہودونصاری کو یہاں توجہ دلائی جارہی ہے کہ مذہب کے نام پر یہ ظاہری کاروائیاں مذہبی تکلف کے علاوہ کچھ نہیں ہے ، حقیقی تبدیلی جس کے نتیجے میں ایک بہترانسان وجود میں آتاہے وہ صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ رنگین پانی کارنگ نہ چڑھایاجائے بلکہ اللہ تعالی کے رنگ میں دل ودماغ کو رنگاجائے ، ظاہری شخصیت سے لے کر باطنی اورمعنوی شخصیت تک صرف اللہ تعالی کارنگ ہی چھلکناچاہئے یہی وہ رنگ ہے جس سے بڑھ کر کوئی رنگ نہیں ہے ، یہ رنگ اصل میں عبدیت کارنگ ہے ، اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا{ونحْنُ لَہ عٰبِدُوْنَ} اورہم اسی کی بندگی کرتے ہیں، بندہ کاحقیقی رنگ بندگی ہے اوربندگی کاتقاضاسب کچھ اللہ تعالی کی اطاعت میں دے دیناہے اوردل کو اس کی محبت سے آبادکرنااوراپنی پوری شخصیت کو اس طرح اس کے دین میں ڈھال دیناہے کہ ہر دیکھنے والی نگاہ اس کی بندگی میں اللہ تعالی کی کبریائی اوراس کی حاکمیت کی چھاپ دیکھے ، اس کی ذات اللہ تعالی کے دین کی امین ، اس کی صلاحیتیں اللہ تعالی کی رضاکی پاسبان ، اس کااقتداراس کی حاکمیت ، اس کی روح اس کے عشق سے سرشار، اس کی عقل اس کے دین کے نور سے روشن اوراس کے راستے میں مرمٹنااس کی بندگی کی معراج ہو، یہ اللہ تعالی کادین اوراس کارنگ جسے اختیارکرنے سے وہ زندگی نصیب ہوتی ہے جسے اختیارکرنے کی یہودونصاری کودعوت دی جارہی ہے ۔

صبغہ کامعنی ہے رنگ کرنااورصباغ رنگ ساز کوکہتے ہیں ،جس طرح عام چیزوں کی زینت اورخوبصورتی کی خاطررنگ سازمختلف قسم کے رنگ چڑھاتے ہیں ، اسی طرح مذہب اوردین کابھی ایک پختہ اورپائیداررنگ ہوتاہے ، علماء کرام نے مختلف اعمال کے مختلف رنگ بیان کئے ہیں ، توحیدکارنگ ، اتباع شریعت کارنگ، تصوف کارنگ ، علم دین کارنگ ، تلاوت قرآن کریم اورحج وعمرہ کارنگ ۔ دراصل یہ رنگ ان مختلف اعمال میں انہماک اورپختگی کاروحانی اورمعنوی رنگ ہوتاہے ۔
اللہ تعالی نے یہودونصاری کے تمام رنگوں کو کالعدم قراردے کر توحیدورسالت اورایمان والے رنگوں کوسب عارضی رنگوں پر غالب کردیاجو مذہبی ودینی رنگ اللہ تعالی اپنے بندوں پرچڑھائے گاوہ اتناپختہ اورپائیداررہے گاکہ قیامت کے ہولناک دن میں بھی وہ رنگ چمکتاہواہوگا۔

اللہ تعالی کارنگ توصرف اورصرف اسلام ہے

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ہُوَ أَنَّ النَّصَارَی کَانُوا إِذَا وُلِدَ لَہُمْ وَلَدٌ فَأَتَی عَلَیْہِ سَبْعَۃُ أَیَّامٍ غَمَسُوہُ فِی مَاء ٍ لَہُمْ یُقَالُ لَہُ مَاء ُ الْمَعْمُودِیَّۃِ، فَصَبَغُوہُ بِذَلِکَ لیطہروہ بِہِ مَکَانَ الْخِتَانِ، لِأَنَّ الْخِتَانَ تَطْہِیرٌ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِکَ قَالُوا: الْآنَ صَارَ نَصْرَانِیًّا حَقًّا، فَرَدَّ اللَّہُ تَعَالَی ذَلِکَ عَلَیْہِمْ بِأَنْ قَالَ:صِبْغَۃَ اللَّہِ أَیْ صِبْغَۃُ اللَّہِ أَحْسَنُ صِبْغَۃٍ وَہِیَ الْإِسْلَامُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ نصاری کے ہاں جب کوئی بچہ پیداہوتاتو اس پر سات دن گزرنے کے بعد وہ اسے پانی میں داخل کرتے جسے وہ معمودیہ کاپانی کہتے تھے ، وہ اس پانی میں بچے کو رنگتے تھے ، تاکہ اس کے ساتھ اس کے ختنہ کی جگہ کو پاک کرلیں ۔کیونکہ ختنہ کرناتطہیرہے ، جب وہ ایساکرلیتے تھے توکہتے کہ اب یہ پکانصرانی ہوگیاہے۔ اللہ تعالی نے ان کے اس عمل پر ان کاردفرمایا۔ اللہ تعالی نے ارشادفرمایا:اللہ تعالی کارنگ بہتررنگ ہے اوروہ اسلام ہے۔
(مدارک التنزیل وحقائق التأویل:أبو البرکات عبد اللہ بن أحمد بن محمود حافظ الدین النسفی (ا:۱۳۴)

حضرت سیدناقتادہ کاقول

عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ:إِنَّ الْیَہُودَ تَصْبُغُ أَبْنَاء َہُمْ یَہُودًا، وَإِنَّ النَّصَارَی تَصْبُغُ أَبْنَاء َہُمْ نَصَارَی، وَإِنَّ صِبْغَۃَ اللَّہِ الْإِسْلَام۔ُ
ترجمہ:حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہودی اپنے بچوں کو یہودارنگ کرتے تھے اورنصاری اپنے بیٹوں کو نصاری رنگ کیاکرتے تھے اوراللہ تعالی کارنگ اسلام ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۱۴۴)

یہودونصاری کے رنگ میں رنگنے کے متعلق وعیدیںاوراحکامات

افسوس کہ دعویٰ تو ہے اسلام کا ؛ مگر لباس، طعام ، معاشرت ، تمدن ، زبان اور طرزِ زندگی سب کا سب اسلام کے دشمنوں جیسا! جب حال یہ ہے تو اسلام کے دعوے ہی کی کیا ضرورت ہے؟اسلام کو ایسے مسلمانوں کی نہ کوئی حاجت ہے اور نہ ہی کوئی پرواہ کہ جو اس کے دشمنوں کی مشابہت کو اپنے لیے موجب ِ عزت اور باعث ِ فخر سمجھتے ہوں۔

بااعتبارفقہ تشبہ کے مراتب

جاننا چاہیے کہ تشبہ بالکفارکے وہ کون سے مراتب ہیں ، جن سے تشبہ کے جواز ، عدمِ جواز، حرمت و کراہت ، استحسان و عدمِ استحسان اور امکان و عدمِ امکان کی تفصیلات واضح ہو کر سامنے آ سکیں۔چناں چہ انسان سے صادرہونے والے افعال و اعمال کی دو ہی قسمیں ہو سکتی ہیں اضطراری امور اور اختیاری امور۔ ذیل میں ہر دو قسموں پر تفصیلی بحث نقل کی جاتی ہے۔

اضطراری امور میں تشبہ اختیار کرنے کا حکم

اضطراری امور سے مراد وہ امور ہیں جن کے ایجاد و عدمِ ایجاد میں انسانی اختیارات کو کوئی دخل نہیں ہوتا، مثلاً انسان کی خلقی اوضاع و اطواراور جبلّی اقتضاء ات، یعنی اس کے اعضاء ِ بدن ، چہرہ مہرہ، پھر اس کے ذاتی عوارض، مثلاً بھوک پیاس لگنا، اس اندرونی داعیہ کی بناء پر کھانے پینے پر مجبور ہونا، اپنے بدن کو ڈھانپنا وغیرہ ایسے امور ہیں جو اضطراری ہیں اور وہ نہ بھی چاہے ، تب بھی یہ جذبات اس کے دل پر ہجوم کرتے رہتے ہیں۔تو ظاہرہے کہ شریعت ایسے امور میں انسان کو خطاب نہیں کرتی، یہ امور کفار و غیر کفار میں مشترک ہیں، یہ نہیں کہا جائے گا کہ منع تشبہ کی وجہ سے اس اشتراک کو ختم کیا جائے، یعنی شریعت ان امور میں یہ نہیں کہتی کہ چوں کہ کفار کھانا کھاتے ہیں تو ان کی مشابہت کو ترک کرتے ہوئے تم کھانا نہ کھائو یا چوں کہ وہ کفار لباس پہنتے ہیں تم ان کی مشابہت سے بچنے کے لیے لباس نہ پہنو،یا چوں کہ ان کے ہاتھ، پیر ، ناک ، کان ہیں تم ان کی مخالفت میں اپنے یہ اعضاء کاٹ ڈالو؛ بلکہ شریعت اس بات کا حکم دیتی ہے کہ تم کھانا تو ضرور کھائو لیکن تم کھانے کے طریقے کو ترکِ تشبہ کے ذریعے ممتاز ضرور بنائوکیوں کہ یہ تمہارا اختیاری فعل ہے ، اضطراری نہیں۔ اسی طرح شریعت یہ نہیں کہتی کہ ترکِ تشبہ کے جوش میں تم لباس پہننا ہی ترک کردو؛ لیکن یہ ضرور کہتی ہے کہ تم لباس کی وضع قطع کو غیر اقوام کے لباس سے ممتاز اور نمایاں رکھو کہ یہ ضرور تمہارے حدود و اختیا ر میں ہے۔شریعت کبھی یہ نہیں کہے گی کہ اپنے اعضاء ِ بدن کاٹ ڈالو کہ یہ تمہارے اعضاء ِ جوارح غیر مسلم اقوام کی طرح ہیں؛ اس لیے بوجہ مشابہت یہ نہیں ہونے چاہیئں، ہاں یہ ضرور کہے گی کہ ٹھیک ہے کہ ان کا وجود میں آنا تمہارے اختیار یا ایجاد سے نہیں ہوا لیکن تمہارے ان اعضاء کی تزیین اور بنائو سنگھار کا غیر اقوام سے ممتاز اور نمایاں ہونا تو تمہارے اختیار کا ہی فعل ہے، وہ چھوٹنے نہ پائے۔
اموراختیاریہ میں تشبہ کاحکم
اس کے بعد انسان سے صادرہونے والے افعال اختیاری طور پرصادرہوتے ہیں ، ان اختیاری امور کی دو قسمیں ہیں مذہبی امور اور معاشرتی و عادی امور۔

امورمذہبی میں تشبہ کاشرعی حکم

مذہبی امور سے مراد وہ امور و اعمال ہیں جن کا تعلق دین و مذہب سے ہو یعنی اُن افعال و اعمال کو عبادت کے طور پر اختیار کیا جاتا ہو اسی طرح مساجد میں عبادت یعنی نمازادا کرنے کیلئے بلاعذرشرعی کرسیوں کااستعمال بھی جائز نہیں ہے کہ یہ عیسائیوں کا طریقہ عمل ہے اُن کی پوجاپاٹ کے مراکز چرچ میں کرسیاں رکھی ہوتی ہیں اور بینچوں، کرسیوں وغیرہ پر بیٹھ کر وہ اپنی پوجا پاٹ ، وغیرہ کرتے ہیں، نیز نصاریٰ کی طرح سینے پرصلیب لٹکانا، ہندوئوں کی طرح زنار باندھنایا پیشانی پر قشقہ لگانا، یا سکھوں کی طرح ہاتھ میں لوہے کا کڑاپہننا و غیرہ سب حرام ہیں ، تو اس قسم کے مذہبی امور میں غیر اقوام کی مشابہت اختیار کرنا بالکل ناجائز اورحرام ہے۔

امورعادیہ اورمعاشرتی میں تشبہ کاشرعی حکم

معاشرتی و عادی امور بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ، ایک وہ امور جو قبیح بالذات ہیں، یعنی وہ امور جن سے شریعت نے براہِ راست منع کیا ہے کہ ان افعال کو نہ کیا جائے؛ دوسرے وہ امور جو مباح بالذات ہیں، یعنی وہ امور جن سے شریعت نے براہِ راست تو منع نہیں کیا؛ لیکن دیگر خارجی امور کی وجہ سے وہ ممنوع قرار دیے جاتے ہیں۔

قبیح بالذات امور میں تشبہ کا حکم

قبیح بالذات امور میں غیر مسلم اقوام کی مشابہت اختیار کرنا بھی حرام ہے، جیسے ریشمی لباس استعمال کرنا، یا کسی قوم کی ایسی حرکت کی نقل اتارنا جن میں ان کے معبودانِ باطلہ کی تعظیم ہوتی ہو، جیسے بتوں کے آگے جھکنا وغیرہ، ان افعال میں تشبہ کی حرمت اس وجہ سے ہے کہ یہ امور قبیح بالذات ہیں، شریعت کی طرف سے ان کی ممانعت صاف طور پر آئی ہے۔

مباح بالذات امور میں تشبہ کا حکم

اگر وہ امور اپنی ذات کے اعتبار سے قبیح نہ ہوں؛ بلکہ مباح ہوں تو ان کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک وہ امور کسی غیر قوم کا شعار یعنی علامتی و شناختی نشان ہوں، دوسرے وہ افعال جو کسی غیر قوم کا شعار نہ ہوں، ہر دو کی تفصیل ذیل میں لکھی جاتی ہے

غیر اقوام کے شعار میں مشابہت کا حکم

اگر وہ مباح بالذات امور غیر مسلم اقوام کے شعار یعنی علامتی و شناختی نشان میں سے ہوں تو ان امور میں غیر اقوام کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے، مثلاً غیر مسلم اقوام کا وہ لباس جو صرف انہی کی طرف منسوب ہو اور انہی کی نسبت سے مشہور ہو اور اس مخصوص لباس کو استعمال کرنے والا انہی میں سے سمجھا جاتا ہو، جیسے بدھی اور قشقہ۔
مطلقاً غیروں کے افعال میں مشابہت کا حکم
اور اگر وہ مباح بالذات امور غیر مسلم اقوام کے شعار میں سے نہیں ہیں ، تو پھر ان افعال کی دو قسمیں ہیں کہ ان افعال کا بدل مسلمانوں کے پاس موجود ہے یا ان کا بدل مسلمانوں کے پاس موجود نہیں ہے، ان دونوں قسموں میں مشابہت کا حکم ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

ذی بدل اشیاء میں غیروں کی مشابہت کا حکم

اگر ان مباح بالذات امور میں مسلمانوں کے پاس امتیازی طورپر ایسے طور طریقے موجود ہوں جو کفار کے طور طریقوں کے مشابہہ نہ ہوں تو ایسے امور میں غیروں کی مشابہت مکروہ ہے، کیوں کہ اسلامی غیرت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم ان اقوام کی ان اشیاء کا استعمال بھی ترک کر دیں جن کا بدل ہمارے پاس موجود ہو، ورنہ یہ مسلم اقوام کے لیے عزت کے خلاف ایک چیزہو گی اور بلا ضرورت خوامخواہ دوسروں کا محتاج و دستِ نگر بننا پڑے گا۔
یہ حدیث شریف ملاحظہ فرمائیں
عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ کَانَتْ بِیَدِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَوْسٌ عَرَبِیَّۃٌ فَرَأَی رَجُلًا بِیَدِہِ قَوْسٌ فَارِسِیَّۃٌ فَقَالَ مَا ہَذِہِ أَلْقِہَا وَعَلَیْکُمْ بِہَذِہِ وَأَشْبَاہِہَا وَرِمَاحِ الْقَنَا فَإِنَّہُمَا یَزِیدُ اللَّہُ لَکُمْ بِہِمَا فِی الدِّینِ وَیُمَکِّنُ لَکُمْ فِی الْبِلَادِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺکے ہاتھ میں عربی کمان تھی۔ آپﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ میں فارسی کمان دیکھی تو فرمایا:یہ کیا ہے؟ اسے پھینک دو۔ تم اس طرح کی (عربی)کمانیں اور نیزے استعمال کیا کرو، اللہ تعالی ان کے ذریعے سے دین میں تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہیں ملکوں میں اقتدار عطا فرمائے گا۔
(سنن ابن ماجہ:ابن ماجۃ أبو عبد اللہ محمد بن یزید القزوینی، وماجۃ اسم أبیہ یزید (۲:۹۳۹)
فارسی کمان کا بدل عربی کمان موجود تھا؛ اس لیے رسول اللہ ﷺنے غیرت دلا کر روک دیا تاکہ غیر اقوام کے ساتھ ہر ممکن امتیاز پیدا ہو سکے اور چھوٹے سے چھوٹے اشتراک کا بھی انقطاع ہو جائے۔

غیر ذی بدل اشیاء میں غیروں کی مشابہت کا حکم اور اگر غیر اقوام کی اشیاء ایسی ہوں کہ ان کا کوئی بدل مسلم اقوام کے پاس موجود نہ ہو ، جیسے آج یورپ کی نئی نئی ایجادات، جدید اسلحہ، تہذیب و تمدن کے نئے نئے سامان، تو اس کی پھر دوصورتیں ہیں یا تو ان کا استعمال تشبہ کی نیت سے کیا جائے گا یا تشبہ کی نیت سے نہیں کیا جائے گا، پہلی صورت میں استعمال جائز نہیں ہوگا؛ کیوں کہ تشبہ بالکفار کومقصود بنا لینا، ان کی طرف میلان و رغبت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتااور کفار کی طرف میلان یقینا اسلام کی چیز نہیں ہے بلکہ اسلام سے نکال دینے والی چیز ہے۔نیز!غیر مسلموں کی تقلید کسی مسلم کو بامِ عروج پر نہیں پہنچا سکتی، جیسا کہ ظلمت کی تقلید نور کی چمک میں، مرض کی تقلید صحت میں، اور کسی ضد کی تقلید دوسری ضد میں کوئی اضافہ و قوت پیدا نہیں کرسکتی، ہاں!اگر ان چیزوں میں تشبہ کی نیت نہ ہو؛ بلکہ اتفاقی طور پر یا ضرورت کے طور پراستعمال میں آرہی ہوں، تو ضرورت کی حد تک ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔
پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم مسلمان اپنی تہذیب اور اپنی اَقدار کو باقی رکھتے ہوئے ہر غیر مسلم قوم کے طور طریقوں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔

یہ بھی ذہن میں رہے کہ شعار کی بحث صرف ان امورمیں چلے گی، جن کے بارے میں صاحبِ شرع سے کوئی ممانعت کا حکم موجود نہ ہو ، ورنہ ہر ممنوع ِ شرعی سے احتراز کرنا ضرور ی ہو گا، خواہ وہ کسی قوم کا شعار ہو یا نہ ہو، اس کے بعد جن چیزوں کی ممانعت موجود نہ ہو ، اگر وہ دوسروں کا شعار ہوں تو ان سے بھی مسلمانوں کو اجتناب کرنا ضروری ہو گا، اگر وہ نہ رُکیں اور ان کا تعامل بھی دوسروں کی طرح عام ہو جائے یہاں تک کہ اس زمانے کے مسلمان صلحاء بھی ان کو اختیار کر لیں تو پھر ممانعت کی سختی باقی نہ رہے گی۔

تشبہ سے متعلق اکابر علماء کے فتاویٰ

لباس کی کن کن صورتوں میں تشبہ بالغیر ہے، اس کے بارے میں ہمارے علما ء اسلام نے وقتاً فوقتاً امتِ مسلمہ کی رہنمائی کی ہے، واضح رہے کہ لباس میں مشابہت اگر وہ لباس غیروں کا مخصوص لباس نہ ہو تو اسکا تعلق ہر ہر علاقے کے مزاج اور عرف کے ساتھ ہوتا ہے، ایک ہی چیز ایک شہر و علاقے میں عرف کی وجہ سے ناجائز ٹھہرتی ہے تو وہی چیز دوسرے علاقے میں عرف نہ ہونے کیوجہ سے جائزہوتی؛ اس لیے اس معاملے میں اپنے علاقے کے ماہر و تجربہ کار مفتیانِ عظام سے رابطہ کر کے صورتِ حقیقی سے باخبر رہنا ضروری ہو گا۔

تمام ادیان و مذاہبِ عالَم میں صرف دینِ اسلام کو ہی جامع، کامل و اکمل ہونے کا شرف حاصل ہے، دنیا کے کسی خطے میں رہنے والا، کوئی بھی انسان ہو ، کسی بھی زبان کا ہو، کسی بھی نسل کا ہو، اگر وہ اپنی زندگی کے کسی بھی شعبے کے بارے میں راہنمائی لینا چاہتا ہو ،تواس کے لیے اسلام میں راہنمائی کا سامان موجود ہے،اگر کوئی انسان اسلام میں داخل ہو کر اسلام کی راہنمائی کے مطابق اپنی زندگی کو ترتیب دیتاہے تو ایسے شخص کو دنیا و آخرت کی کامیا بی کا مژدہ سنایا گیا ہے، اور اس کے برعکس کوئی مسلمان اپنی زندگی کے معمولات کے سرانجام دینے میں اسلامی احکامات کی طرف دیکھنے کے بجائے اسلام دشمن لوگوں کی طرف دیکھتا ہے، دیکھ کر ان کے طور طریقوں کو اختیا ر کرتا ہے، یہ عبادات کے طور طریقے ہوں یا رہن سہن کے، معاشرتی رسومات و روائج میں ہوں یا شکل و صورت میں ہوں یا پھرلبا س میں ، کھانے پینے میں ہوں یا سونے جاگنے میں ، معاملات میں ہوں یا معاشرت میں، اَخلاق میں ہوں یا کسی بھی طریقے میں ہوں تو اس امر کو اسلام میں سخت ناپسند کیا گیا ہے، ایسے شخص کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے، سرکار دوعالمﷺنے صاف فیصلہ سنا دیا ہے کہ جو شخص دنیا میں کسی کی مشابہت اختیار کرے گا، کل قیامت میں اس کاحشر اسی شخص کے ساتھ ہو گا؛اس لیے بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی کے کسی بھی موڑ پر ،کسی بھی کام میں غیر مسلموں کا طریقہ یا مشابہت اختیار نہ کریں، ہمارے ایمان کا اوّلین تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہم اپنے اللہ کے محبوب ﷺ کی صورت اور سیرت سے محبت کرتے رہیں، آپ ﷺکی مبارک سنتوں کو اپنی زندگی میں ہرجگہ اپناکر، بالخصوص قرآن و سُنت کے احکامات و فرمودات اور تعلیمات و ہدایات کی تعمیل، اطاعت و اتباع اسی طریقے سے کریں جو طریقہ ہمیں رسول اللہ ﷺنے سکھایا اور بتایا اور جس طریقے سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے عمل کیا ہے ہمیں اپنی عملی زندگی رسول اللہﷺکے اُسوۃُ حسنہ کے مطابق گزارنی چاہیئے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہوں اور اس خوفناک دن کی رسوائیوں سے بچ سکیں جس کو یومُ القیامۃ کہا جاتا ہے۔
شریعت مطہرہ مسلم وغیر مسلم کے درمیان ایک خاص قسم کا امتیاز چاہتی ہے کہ مسلم اپنی وضع قطع،رہن سہن اور چال ڈھال، ناموں اور اعمال و افعال میں غیر مسلم پر غالب اوراس سے ممتاز ہو،اس امتیاز کے لیے ظاہری علامت ، عبادات و اعمالِ صالحہ و مقدس اشیاء و مقامات کے قرآن و سنت میں مقرر کردہ اصطلاحی نام، داڑھی اور لباس وغیرہ مقرر کی گئی کہ لباس ظاہری اور خارجی علامت ہے۔اور خود انسانی جسم میں داڑھی اور ختنہ کو فارق قراردیا گیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے موقع بہ موقع اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو غیرمسلموں سے مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ذیل میں ان میں سے کچھ احکامات ذکر کیے جاتے ہیں۔

اللہ رب العزت کی طرف سے بواسطہ رسول اللہ ﷺاُمت محمدیہ ﷺ کو غیرمسلمین کفارویہود اور نصاریٰ سے دور رکھنے کی متعدد مقامات پر تلقین کی گئی، مثلاً
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَکُمْ ہُزُوًا وَّ لَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ اَوْلِیَآء َ وَاتَّقُوا اللہَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ }(سورۃ المائدۃ :۵۶)
ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنالیا ہووہ جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے اور کافر ان میںسے کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو اگر ایمان رکھتے ہو ۔
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا }(سورۃ آل عمران : ۱۵۶)
ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو ان کافروںکی طرح نہ ہونا ۔

جس نے جس قوم کی مشابہت اختیارکی؟

مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍأَیْ مَنْ شَبَّہَ نَفْسَہُ بِالْکُفَّارِ مَثَلًا فِی اللِّبَاسِ وَغَیْرِہِ، أَوْ بِالْفُسَّاقِ أَوِ الْفُجَّارِ أَوْ بِأَہْلِ التَّصَوُّفِ وَالصُّلَحَاء ِ الْأَبْرَارِ(فَہُوَ مِنْہُمْ):أَیْ فِی الْإِثْمِ وَالْخَیْرِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامُلا علی القاری الحنفی رحمہ اللہ تعالی {مَنْ تَشَبَّہ} کی شرح میں لکھتے ہیں کہ جو شخص کفار کی، فساق کی، فجار کی یاپھر نیک و صلحاء کی، لباس وغیرہ میں ہو یا کسی اور صورت میں مشابہت اختیار کرے وہ گناہ اور خیر میں ان کے ہی ساتھ ہوگا۔
(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح:علی بن محمد، أبو الحسن نور الدین الملا الہروی القاری (۷:۲۷۸۲)
یہودونصاری کے رنگ اختیارکرنے کی خرابیاں
واضح رہے کہ غیروں کی وضع قطع اور ان جیسا لباس اختیار کرنے میں بہت سے مفاسد ہیں۔۔۔
(۱)پہلا نتیجہ تو یہ ہوگا کہ مسلمان اور کافر میں ظاہراً کوئی امتیاز نہیں رہے گا، حقیقت یہ ہے کہ تشبہ بالکفار کفر کی دہلیز اور اس کا دروازہ ہے۔
(۲)غیروں کی مشابہت اختیار کرنا غیرت کے بھی خلاف ہے۔
(۳)کافروں کا لباس اختیار کرنا درحقیقت ان کی سیادت اور برتری کو تسلیم کرنا ہے۔
(۴)اور یہ اپنی کمتری اور غلامی کا اقرار اور اعلان ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا، کیوں کہ اسلام غالب ہوتا ہے، تابع اور مغلوب نہیں ہوتا۔
(۵)نیز اس تشبہ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ رفتہ رفتہ کافروں سے مشابہت کا دل میں میلان اور داعیہ پیدا ہوگا جو صراحۃً ممنوع ہے۔
(۶)اگر کوئی مسلمان کافر کی مشابہت اختیار کرے تو وہ اس بات کو عیاں کرتا ہے کہ کافر کی شکل وصورت مسلمان سے افضل ہے، اور اس بنا پر اللہ کی شریعت اور اسکی مشیئت پر اعتراض آتا ہے۔
چنانچہ جو خاتون مرد کی مشابہت اختیار کرتی ہے گویا کہ وہ اللہ تعالی کی خلقت پر اعتراض کرتی ہے، اور اسے تخلیقِ الہی پسند نہیں ہے۔
(۷)کسی کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا نفسیاتی طور پر کمزور ہونے کی دلیل ہے، جس سے لگتا ہے کہ یہ شخص اندر سے شکست خوردہ ہے، جبکہ شریعت کبھی بھی مسلمانوں سے اس بات کو قبول نہیں کرے گی کہ وہ اپنی شکست خوردہ حالت کا اعلان کرتے پھریں، چاہے حقیقت میں وہ شکست خوردہ ہی کیوں نہ ہوں۔
اس لئے کہ شکست تسلیم کر لینا مزید کمزوری کا باعث بنتا ہے، جس کے باعث فاتح مزید طاقتور بن جاتا ہے، اور یہ کمزور کے طاقتور بننے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔
اسی لئے کسی بھی قوم کے عقل مند حضرات کبھی بھی اپنے معاشروں کو دشمنوں کے پیچھے لگ کر انکی مشابہت اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتے، بلکہ وہ اپنی پہچان اور شخصیت باقی رکھتے ہوئے اپنی میراث ، لباس، اور رسوم و رواج کی حفاظت کرتے ہیں، چاہے دشمنوں کے رسم و رواج ان سے افضل ہی کیوں نہ ہوں؛ یہ سب کچھ اس لئے کہ وہ معاشرتی اور نفسیاتی اقدار کو جانتے ہیں۔
(۷)ظاہری منظر میں کسی کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے سے دل میں اس کیلئے محبت کے اسباب پیدا ہوتے ہے، اسی لئے انسان اُسی کی مشابہت اختیار کرتا ہے جس سے محبت بھی کرے، جبکہ مسلمانوں کو کفار سے تمام وسائل کے ذریعے اعلانِ براء ت کا حکم ہے۔
(۸)ظاہری طور پر کفار کی مشابہت سے انسان اس سے بھی خطرناک مرحلے کی طرف بڑھتا ہے اور وہ ہے کہ اندر سے بھی انسان اِنہی کفار جیسا بن جاتا ہے، چنانچہ اِنہی جیسے اعتقادات رکھتا ہے، اور انکے افکار و نظریات کو صحیح سمجھنے لگتا ہے، اس لئے کہ انسان کی ظاہری اور باطنی حالت میں شدید تعلق پایا جاتا ہے، اور یہ دونوں ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں۔
(۹)جب اسلامی وضع کو چھوڑ کر دوسری قوم کی وضع اختیار کرے گا تو قوم میں اس کی کوئی عزت باقی نہیں رہے گی، اور جب قوم ہی نے اس کی عزت نہ کی تو غیروں کو کیا پڑی ہے کہ وہ اس کی عزت کریں، غیر بھی اُسی کی عزت کرتے ہیں جس کی قوم میں عزت ہو۔دوسری قوم کا لباس اختیار کرنا اپنی قوم سے لا تعلقی کی علامت ہے۔

 

یہودونصاری کے رنگ سے بچنے اوراحترازکرنے کاحکم

نصاری کارنگ:کرسمس کی حقیقت

یہودونصاری کے بے دین ہونے کابیان

{قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَہْوَآء َ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا کَثِیْرًا وَّ ضَلُّوْا عَنْ سَوَآء ِ السَّبِیْلِ }
ترجمہ کنزالایمان :تم فرماؤ اے کتاب والو! اپنے دین میں ناحق زیادتی نہ کرو اور ایسے لوگوں کی خواہش پر نہ چلوجو پہلے گمراہ ہوچکے اور بہتوں کو گمراہ کیا اور سیدھی راہ سے بہک گئے ۔(سورۃ المائدہ :۷۷)

حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کی تاریخ ولادت

کرسمس (مسیح اور کیتھولک رسم)جو ہر سال ۲۵دسمبر کو منائی جاتی ہے، پوری عیسائی مذہبی لٹریچر اور اناجیل عہدنامہ جدید اور بائبل میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں، نہ۲۵دسمبر حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش کا دن ہے۔
پروفیسر ہربرٹ ڈبلیو آرم سٹرانگ نے لکھاہے کہ یہ عیسائیت میں باقی بدعات کی طرح ایک بدعت ہے، جو قدیم مشرک اقوام کی طرف سے رومن کلیسا میں در آیا ہے۔
(۵۲۵عیسوی میں سیتھیا کے راہب( (Dionysiusجو ایک پادری ہونے کے ساتھ ایک ماہر کلینڈر نگار بھی تھا، اس نے اپنے اندازے کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کی تاریخ ولادت۲۵دسمبر مقرر کی۔ (Britannica,Christmas)
اس نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ۲۵دسمبر واقعی عیسیٰ علیہ السلام کی تاریخ پیدائش ہے، اس لئے عیسائی فرقہ آرتھوڈوکس جو گریگوری کلینڈر کو معتبر مانتا ہے، وہ کرسمس ۷جنوری کو مناتے ہیں۔ بعض خطے ایسے بھی ہیں جہاں۶جنوری اور بعض جگہ ۱۸جنوری کو کرسمس منایا جاتا ہے۔ بائبل کے مشہور مفسر آدم کلارک( a Ad،Clarke)نے لکھاہے کہ مسیح کی پیدائش ستمبر یا اکتوبرکے دنوں میں ہونے کی بالواسطہ تائید اس حقیقت سے بھی ملتی ہے کہ نومبر سے فروری تک چرواہے رات کے وقت کھیتوں میں اپنے ریوڑ کی نگہبانی نہیں کرتے بلکہ ان مہینوں میں رات کے وقت وہ انہیں حفاظتی باڑوں میں لے جاتے ہیں، جنہیں بھیڑوں کا حفاظتی باڑہ کہتے ہیں، اس لئے ۲۵ دسمبر کا حضرت مسیح کی پیدائش سے کوئی مناسبت نہیں ہوسکتی۔

لوقا کی انجیل کی عبار ت ہے
جب وہ وہاں ٹھہرے ہوئے تھے تو بچے کو جنم دینے کا وقت آپہنچا۔ بیٹا پیدا ہوا۔ یہ حضرت سیدتنامریم (رضی اللہ عنہا)کا پہلا بچہ تھا۔ اس نے اسے کپڑوں میں لپیٹ کر ایک چرنی میں لٹا دیا، کیونکہ انہیں سرائے میں رہنے کی جگہ نہیں ملی تھی۔ (لوقا: عیسیٰ کی پیدائش(۲:۲۰)
دو ہزار سال پہلے تو چھوڑیں، آج بھی فلسطین کے علاقے میں ۲۵دسمبر کی رات کسی کیلئے میدان میں گزارنا دشوار ہے، تو ایک زچہ بچے کی پیدائش کی پہلی رات سرائے کے باہر اور بچے کو اپنے سینے سے چمٹا کے رکھنے کے بجائے کپڑے میں لپیٹ کر چارے کی ٹوکری میں کیسے رکھ سکتی تھیں؟
لگتا ہے ولادتِ مسیح (حضرت سیدناعیسی علیہ السلام )کے حوالے سے دسمبر میں یہ تہوار سورج کے پجاری مشرکوں اور مصر کے فرعونوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ (دیکھیں: بریٹانیکا اور کیتھولک انسائیکلوپیڈیا)
Natal Day کے عنوان سے کیتھولک انسائیکلوپیڈیا میں ہے:
مقدس صحائف میں یوم پیدائش کے موقع پر کسی عظیم دعوت کا انعقاد کرنے یا اسے بحیثیت تہوار منانے کا کوئی ایک بھی حوالہ موجود نہیںہے۔

مسلمانوں کیلئے کرسمس میں شرکت کی شرعی حیثیت

کسی بھی مسلمان کیلئے کرسمس ڈے منانا اور کرسمس کے حوالے سے کیک کاٹنا، ان کے کرسمس پروگراموں میں شرکت کرنا، ان کو کرسمس کی مبارکباد دینا اور میری کرسمس( (Merry Christmasکہنا وغیرہ قطعی طور پر حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، جس سے علی الاعلان توبہ کرنا واجب ہے، صرف خفیہ توبہ سے کام نہیں چلے گا۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جس نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ اسی قوم سے شمار ہوگا۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر(۴:۴۴)

یہاں مشابہت سے مراد ان کی قومی ،مذہبی علامات میں مشابہت ہے، جیسے کوئی صلیب لٹکائے، کرسمس منائے، چھ کونوں والا ستارہ لگائے، کڑا کرپان، زنار یا چوٹی رکھے، بتوں کے سامنے پَرنام کرے تو وہ ان میں ہی شمار ہوگا۔ مسلمان تاجروں کیلئے بھی غیر مسلموں کی مذہبی مصنوعات کی تیاری اور فروخت حرام اور گناہِ کبیرہ ہے۔
اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے
{وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوٰنِ وَاتَّقُوا اللہَ اِنَّ اللہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ}(سورۃ المائدۃ :۲)
اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ کا عذاب سخت ہے ۔
کفارکی عید میں شرکت کرنے والامرگیاتو۔۔۔
عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرو، قَالَ: مَنْ بَنَی بِبِلَادِ الْأَعَاجِمِ وَصَنَعَ نَیْرُوزَہُمْ وَمِہْرَجَانَہُمْ وَتَشَبَّہَ بِہِمْ حَتَّی یَمُوتَ وَہُوَ کَذَلِکَ حُشِرَ مَعَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ جس شخص نے جس قوم کی مشابہت اختیارکی اوروہ ویسے ہی مرگیاتو قیامت کے دن اس کاحشربھی انہیں کے ساتھ ہوگا۔
(السنن الکبری: أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۹:۳۹۲)
اعداء اللہ کی عید میں شمولیت منع ہے
سَمِعَ سَعِیدَ بْنَ سَلَمَۃَ، سَمِعَ أَبَاہُ، سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ:اجْتَنِبُوا أَعْدَاء َ اللہِ فِی عِیدِہِمْ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم اللہ تعالی کے دشمنوں کی عیدوں میں شامل ہونے سے پرہیز کرو ۔
(السنن الکبری: أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۹:۳۹۲)
مشرکین کے عبادت خانے میں نہ جائو
عَنْ عَطَاء ِ بْنِ دِینَارٍ، قَالَ:قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ: لَا تَعَلَّمُوا رَطَانَۃَ الْأَعَاجِمِ وَلَا تَدْخُلُوا عَلَی الْمُشْرِکِینَ فِی کَنَائِسِہِمْ یَوْمَ عِیدِہِمْ ,فَإِنَّ السَّخْطَۃَ تَنْزِلُ عَلَیْہِمْ ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعطابن دیناررضی اللہ عنہ حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ تم عجمیوں کی بولی نہ سیکھواورمشرکین کے عبادت خانوں میں نہ جائوکیونکہ ان پر اللہ تعالی کاغضب نازل ہوتاہے،
(السنن الکبری: أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۹:۳۹۲)
جو کرسمس ڈے مناتے اور اس کا کیک کاٹتے ہیں یا دیوالی مناتے ہیں اور بتوں پر دودھ انڈیلتے ہیں، وہ اسلام سے تو ہیں ہی جاہل، دنیا سے بھی جاہل ہیں، وہ اسلام کے خلاف مغرب کی تہذیبی جنگ میں کافروں کے مددگار بنتے ہوئے یہ جاہلانہ رسوم سرانجام دیتے ہیں۔ نیز وہ اپنے اس مشرکانہ عمل سے مغرب اور امریکہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم اسلام کے اپنے خودساختہ نظریہ کے داعی ہیں، جو رینڈ کارپوریشن کے معیار پر درست اور امریکہ ومغرب کے لئے قابلِ قبول ہے۔ نیز ان کا یہ مشرکانہ وناجائز عمل اسلامی تہذیب وثقافت اور اسلام کے بحیثیتِ نظامِ زندگی سے بے وفائی وبے زاری کا اعلان ہے اور چونکہ عیسائیت سمٹتے سمٹتے صرف اتوار کی عبادت اور کرسمس تک سکڑ گئی ہے، لہٰذا جو مسلمان کرسمس مناتے اور اس خوشی میں کیک کاٹتے ہوئے عیسائیوں کے ساتھ ان کی اس عید میں شرکت کرتے ہیں تو درحقیقت آدھی عیسائیت پر عملاً راضی ہو جاتے ہیں، اسی طرح وہ پوری عیسائیت میں مسلمانوں کو رنگنے کیلئے راستہ ہموار کرتے ہیں۔
یہ ان مسلمانوں کی جہالت کی انتہاء ہے کہ عیسائی دنیا تو عیسائیت کو خیرباد کہتے ہوئے اسلام کی طرف آرہی ہے، ان کے چرچ بکتے ہیں، مسلمان چرچوں کو خرید کر مسجدیں بنا رہے ہیں، ان کے چرچوں میں اتوار کے دن برائے نام ہی چند بوڑھے حاضری دیتے ہیں جبکہ مسجدوں میں گنجائش سے زیادہ مسلمان نماز پڑھنے آتے ہیں، کیوبا جو ایک عیسائی ملک ہے وہاں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا ہے۔
عیسائی پوپ اور پادریوں کے پاس ترکی میں برآمد شدہ انجیل کے مندرجات کا کوئی جواب نہیں، جس میں اسلام کی حقانیت اور رسول اللہﷺ کی نبوت کی واضح الفاظ میں تصریح ہے، عیسائی دنیا ابھی تک اس بات کا جواب نہیں دے سکی ہے کہ پوپ بینیڈکٹ اور اس کے ۴۰کارڈینیل ترکی میں موجود انجیل کا مطالعہ کرنے کے بعد کہاں غائب ہوگئے ہیں اور عیسائی انہیں سامنے لانے سے کیوں ڈرتے ہیں؟
نیز عیسائی دنیا سے ہم یہ پوچھتے ہیںکہ سیکولر لابی تو کہتی ہے کہ امریکہ کا سیکولرازم مذہب کی آزادی پر یقین رکھتا ہے اور سیاست کو مذہب سے اور مذہب کو سیاست سے الگ کرنے پر یقین رکھتا ہے تو سوال یہ ہے کہ پھر مسلمانوں کو حصولِ اقتدار کی خاطر کرسمس منانے پر کیوں مجبور کیا جاتا ہے؟ امریکہ پاکستان میں اقتدار دلانے کیلئے کرسمس منانے کی شرط کیوں لگاتا ہے، جبکہ ان کا دعویٰ سیکولرازم کا ہے؟

اسی طرح ہم کرسمس اور دیگر مشرکانہ عیدیں منانے والوں سے پوچھتے ہیںکہ اگر سیکولرازم کے علمبرداروں نے تمہیں ان حرکتوں پر مجبور نہیں کیا تو کیا تم خود اسلام اور ایمان سے بدگمان ہوگئے ہو اور کلمہ پڑھنے پر تمہیں کوئی پچھتاوا ہے یا اسلام کے کسی حکم میں تمہیں کوئی شک ہے؟ اگر بات یہ ہے کہ تم اسلام اور ایمان سے جاہل ہو تو اس کے علمبردار کیسے بنے بیٹھے ہو اور اگر اسلام وایمان میں تمہیں شک ہے تو آخر کونسی چیز تمہارے عیسائیت یا ہندومت اپنانے میں رکاوٹ ہے سوائے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے؟

کچھ لوگ کرسمس اور دیوالی منانے کو رواداری قرار دیتے ہوئے اس کو سندِ جواز دینے اور خود کو وسیع القلب اور ہر مذہب اور عقیدے کے لوگوں کیلئے قابلِ قبول بنانے کی ناکام وناپاک کوشش کرتے ہیں، ایسے لوگوں سے ہم بجا طور پر پوچھتے ہیں کہ اس طرح کی رواداری تم نے قرآن کی کس آیت اور رسول اکرمﷺ کی سیرت وسنت اور حدیث کی کس بات سے سیکھی ہے؟ اور کیا تم سال میں صرف ایک دفعہ کرسمس کا کیک کاٹ کر رواداری کا ثبوت دو گے یا آنے والے دنوں میں ہر وقت صلیب گلے میں لٹکا کر پوری زندگی میں روادا رہو گے؟ سال میں ایک دن کی رواداری کو کوئی جاہل ہی رواداری شمار کرے گا۔ ساتھ ہی یہ سوال بھی بجا طور پر پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس قسم کی رواداری صرف مسلمانوں (یا مسلمان کہلانے والوں)پر ہی لازم ہے یا عیسائیوں اور ہندئووں سے بھی اس کی توقع کی جاسکتی ہے؟
کیا تم کسی ایسے ہندو کی یا عیسائی کی مثال پیش کرسکو گے جس نے مسلمانوں کے ساتھ کبھی بقرِ عید کے دن گائے یا بکرے کی قربانی کی ہو؟ اگر جواب نفی میں ہے تو کیا اپنے اس عمل کو رواداری کا نام دے کر تمہیں ذرا بھی شرم نہیں آتی کہ ذہنی غلامی اور ایمان و ضمیر کے سودے کو رواداری کا نام دیتے ہو؟

نصاری کارنگ :ٹائی

ٹائی لگانے میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ عیسائی ا س سے اپنا عقیدہ صلیب عیسیٰ علیہ السلام یعنی :حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب کیے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو کہ نص قرآنی کے خلاف ہے، لہٰذا تشبہ بالکفار کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کی مذہبی یادگار اور مذہبی شعار ہونے کی وجہ سے بھی پہننا جائز نہیں۔
حضورمفتی اعظم ہندمولانامفتی مصطفی رضاخان رحمہ اللہ تعالی سے ٹائی پہننے کے متعلق سوال ہواتوآپ نے اس کے جواب میں فرمایاکہ ٹائی لگاناا شدحرام ہے ، وہ شعارکفاربدانجام ہے ، نہایت بدکام ہے وہ کھلارد فرمان خداوندذوالجلال ہے ۔ ٹائی نصاری کے یہاں ان کے عقیدہ باطلہ میں یادگارہے ، حضرت سیدنامسیح علیہ السلام کے سولی دیئے جانے اورسارے نصاری کافدیہ ہونے کی والعیاذ باللہ ہر نصرانی یوں ٹائی اپنے گلے میں ڈالے رہاہے ہرٹوپ میں ۔ نشان صلیب رکھتاہے جسے کراس مارک کہتے ہیں ، ٹائی کی طرح کراس مارک بھی قرآن کریم کارد ہے ۔ العیاذباللہ تعالی کہ قرآن کریم فرماتاہے کہ
وَّقَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللہِ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَہُمْ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا}{بَلْ رَّفَعَہُ اللہُ اِلَیْہِ وَکَانَ اللہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا }(سورۃ النساء :۱۵۶،۱۵۷)
اور اُن کے اس کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسٰی بن مریم اللہ کے رسول کو شہید کیا اور ہے یہ کہ انہوں نے نہ اُسے قتل کیا اور نہ اُسے سولی دی بلکہ ان کے لئے اُس کی شبیہ کا ایک بنادیا گیا اور وہ جو اس کے بارے میں اختلاف کررہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہہ میں پڑے ہوئے ہیں انہیں اس کی کچھ بھی خبر نہیں مگر یہی گمان کی پیروی اور بے شک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا ۔بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھالیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے ۔
مگرجہال اس حقیقت سے ناواقف ہیں ، وہ اسے محض ایک وضع جانتے ہیں اس لئے انہیں اس کے لگانے پر کافرنہ کہاجائے گاکفریہ قول یافعل اوربات ہے اورمرتکب کوکافرٹھہرانااوربات ہے۔
(فتاوی مفتی اعظم ہنداز مولانامفتی مصطفی رضاخان :۵۲۶)
الشیخ ناصر الفہدکاٹائی کے حرام ہونے پرفتوی

فتوی الشیخ ناصر الفہد فی لبس {ربطۃ العنق }(حکم ربطۃ العنق)ٹائی کا شرعی حکم

س:أسأل حول حکم لبس ربطۃ العنق مع التوضیح ولکم الأجر إنشاء اللہ۔
ٹائی کے بارے میرا سوال ہے کہ اس کا کیا حکم ہے ؟
ج:لایجوز لبسہا لأنہا تشبہ بالکفار وفی الحدیث الصحیح (من تشبہ بقوم فہو منہم)وفی حدیث عبد اللہ بن عمرو بن العاص فی الصحیح لما رأی علیہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثوبین معصفرین قال لہ (إن ہذہ من ثیاب الکفار فلا تلبسہا)، فعلل النہی عن لبسہا بأنہا من ثیاب الکفار، وفی حدیث أبی أمامۃ مرفوعا (تسرولوا واتزروا خالفوا أہل الکتاب) ، فمخالفتہم فی اللبس مطلب للشارع۔
وفی البخاری عن عمر بن الخطاب أنہ کتب للمسلمین فی خراسان (إیاکم والتنعم وزی أہل الشرک)والأحادیث فی ذلک کثیرۃ ۔
جواب : ٹائی پہننا جائز نہیں ،کیونکہ اس میں کفار کی مشابہت پائی جاتی ہے اور صحیح حدیث میں وارد ہے کہ (جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی ،وہ انہی میں شمار ہوگا )اور عبد اللہ بن عمرو سے مروی صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺنے انہیں عصفر سے رنگے کپڑے پہنے دیکھا تو فرمایا :یہ کفار کا لباس ہیں ، اس لئے تم یہ نہ پہنو !
یہاں نبی کریم ﷺنے منع کی علت یہ بتائی کہ یہ کفار پہنتے ہیں ، تو واضح ہے کہ کفار کی مخالفت کرنا شرعاً مطلوب ہے ،حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجاہدین کو خط لکھ کر حکم دیا ،عیش وعشرت سے اجتناب کرو ۔اور مشرکین کی چال ڈھال مت اپناو ۔
ولا عبرۃ بانتشار لبس الکفار بین المسلمین لیقال بأنہ لم یعد خاصا بہم فلا یکون تشبہا بہم لأربعۃ أمور :
لباس کفار کا مسلم معاشرے میں پھیلنا ،اس بات کا جواز نہیں بن سکتا کہ اب یہ کفار کے ساتھ خاص نہیں ،اور ان کی مشابہت نہیں۔اس مشابہت کی چار وجہیں موجود ہیں:
أولا: إنہ ما انتشر بین المسلمین إلا عن طریق الکفار ، ولو سألت أی مسلم یلبس لبسہم کیف کان لبس جدہ لقال إنہ لبس المسلمین لا لبس الکفار ، ولہذا یسمون ہذا -لبسا إفرنجیا وبدلۃ إفرنجیۃ ونحو ذلک.
اولاً : یہ لباس کفار کے ذریعے ہی مسلمین میں رائج ہوا ،آپ کسی بھی مسلم سے پوچھیں گے ،کہ اس کے بزرگوں کا لباس کیا تھا تو وہ یہی کہے گا اس کے بزرگ اہل اسلام کا لباس زیب تن کیا کرتے تھے ،کفار کا نہیں ۔اسی لئے وہ اسے انگریزی اور فرنگی لباس کہتے ہیں ۔
ثانیا :إننا لو قلنا بہذا لعطلنا أحادیث النہی عن التشبہ بالکفار فی لبسہم وأصبحت ملغاۃ وہذا ظاہر جدا لأن الناس الآن أصبحوا کلہم إلا من رحم اللہ یلبسون لبسۃ الأوربیین.
ثانیاً:اور اگر ہم یہ کہیں کہ اب یہ کفار کے ساتھ خاص نہیں ،اور ان کی مشابہت نہیں ۔تو کفار کی مشابہت سے روکنے والی احادیث معطل اور لغو ہو جائیں گی ۔یعنی بیکار اور بے معنی ۔۔کیونکہ اب اکثر اہل اسلام یورپی لباس ہی پہنتے ہیں ۔
ثالثا :أن مخالفۃ المسلمین للکفار فی لبسہم وہیئتہم مطلب للشارع کما یعرفہ من ینظر النصوص الواردۃ فی الباب، فإن المشابہۃ فی الظاہر تورد مشاکلۃ فی الباطن کما ذکر شیخ الإسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی، والمسلم یتمیز عن الکفار بہیئتہ لہذا کان الخلفاء الراشدون ومن بعدہم یلزمون أہل الذمۃ بأن یتمیزوا ولا یتشبہوا بالمسلمین فی لباسہم.
ثالثاً:نکتہ یہ کہ لباس اور ظاہری حلیہ میں کفار کی مخالفت کرنا شرعاً مطلوب ہے ،جیسا کہ نصوص شریعت کا اس باب میں مطالعہ کرنے کرنے والے جانتے ہیں۔
کیونکہ ظاہر کی مشابہت ۔باطن کی مشابہت کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔جیساکہ ابن تیمیہ نے بیان کیااور ایک مسلم کو کافر کے حلیئے اور وضع میں بھی کافر سے متمیز اور جدا ہونا چاہیئے ،اسی لئے خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اور انکے جانشین اس بات کا اہتمام رکھتے تھے کہ اہل ذمہ حلیئے اور وضع میں مسلمانوں سے جدا رہیں ،اور اہل اسلام کے مشابہ نہ ہوں ۔
رابعا : أن أہل الحق والخیر والعلم والسنۃ فی ہذا الزمن علی اختلاف بلدانہم لا یلبسون لباس الکفار بل یلبسون لبس المسلمین والعبرۃ بہم لا بالفساق.
چوتھی وجہ اس کے عدم جواز کی یہ ہے کہ مختلف ملکوں میں بسنے والے اہل حق اور اہل علم اور صالحین اس زمانے میں بھی ،کفار کا لباس نہیں پہنتے ،اور یہ حقیقت تو معلوم ہی ہے ،کہ اعمال کے جواز وعدم جواز میں اعتبار اہل حق کا ہوتا ہے نہ کہ فاسقوں ، فاجروں کا ۔۔
واللہ تعالی أعلم

کیاحضورتاجدارختم نبوتﷺکالباس قومی اوروطنی تھا؟

آج کے لبرل وبے دین طبقہ کے سرکردہ لوگ عوام کو گمراہ کرنے کیلئے یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ لباس کے پہننے میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکی طرف کوئی قیود وغیرہ نہیں لگائی گئیں کیونکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺبھی وہی لباس پہناکرتے تھے جوحضورتاجدارختم نبوتﷺکی قوم کے لوگ پہناکرتے تھے، اس لئے آپ کے لئے یہ جائز ہے کہ آپ جس طرح کے چاہیں کپڑے پہنیں نعوذ باللہ من ذلک۔

حضورتاجدارختم نبوتﷺکالباس شریف کفارمکہ یاوطن کی اتباع کی وجہ سے نہ تھابلکہ اللہ تعالی کی طرف سے آنے والی وحی کی اتباع کی وجہ سے تھا، عرب میں قدیم سے حلہ یعنی چادراورتہہ بندکادستورچلاآرہاتھا، جوکہ حضرت سیدنااسماعیل علیہ السلام کالباس شریف تھا۔

نعوذ باللہ من ذلک ، ایساکبھی بھی نہیں ہوسکتاکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺلباس یامعاشرہ میں قوم کے مقلد اورتابع بن کررہیں ،بلکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکالباس شریف اللہ تعالی کی وحی اوراس کے حکم شریف سے تھا۔ معاش ومعاد کاکوئی شعبہ ایسانہیں ہے کہ جس کے متعلق اللہ تعالی کے حبیب کریم ﷺکے پاس اللہ تعالی کاکوئی حکم نہ ہو۔ اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام عام لوگوں کے رسم ورواج کی پیروی کرنے نہیں آتے بلکہ ساری قوم کو اس لباس اوراس رہن سہن کی دعوت دینے کے لئے تشریف لاتے ہیں جس کاحکم اللہ تعالی نے دیاہوتاہے ۔ اوریہی وجہ ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے کافروں کے ساتھ تشبہ سے منع فرمایاہے اوران کی مخالفت کرنے کاحکم دیاہے اورجس لباس سے تکبروفخراوراسراف اورآسائش کی بوآئے اس کی ممانعت فرمائی ہے اوراس لباس کو منع فرمایاہے جو دشمنان خداسے مشابہت کاسبب بنے ، مشرکین ریشم اوردیباج کالباس پہناکرتے تھے رسول اللہ ﷺنے اس کے استعمال سے منع فرمایااوراہل اسلام کے مردوں پر اسے حرام قراردیا، اورمشرکین اپنی ازار کو بطورتکبرلٹکاکرچلتے تھے آپ ﷺنے اس سے منع فرمایااوراسے ناجائز قراردیا، زرین مغرق لباس کے استعمال کو ممنوع قراردیاکہ تکبر، تنعم اوراسراف کاشائبہ بھی نہ رہے ۔
لبرل طبقے کے ایک اشکال کاجواب

لبرل طبقہ یہ کہتاہواسنائی دیتاہے کہ رسول اللہ ﷺاگربالفرض لندن یاجرمن میں تشریف فرماہوتے تو رسول اللہ ﷺنے وہیں کے مقامی لوگوں کالباس استعمال فرماناتھا اورخودکو انہیں کے رسم ورواج کے تابع کرناتھا۔ (نعوذ باللہ من ذلک)
اگربفرض وتقدیررسول اللہ ﷺجرمن یالندن میں مبعوث ہوتے تو پھربھی کریم آقاﷺ کالباس اورآپ ﷺکی وضع قطع وہی ہونی تھی جواللہ تعالی کی طرف سے حکم ہوناتھااورسب کے سب معاملات وحی الہی کے تابع ہونے تھے ، اگرحضورتاجدارختم نبوتﷺ وہاں تشریف فرماہوتے تو ان کی اصلاح بھی اسی طرح فرماتے جس طرح اہل مکہ یااہل عرب کی فرمائی ، ان کی شہوت پرستی کو خداپرستی سے اوران کی بے پردگی کو حجاب سے اوران کی بے حیائی کو حیاء سے اوربے شرمی کو شرم سے بدل ڈالتے ، لھذاکسی بھی جاہل اوراجہل الناس شخص کایہ دعوی کرناکہ اگررسول اللہ ﷺلندن یاجرمنی میں تشریف فرماہوتے تو مغربی رسم ورواج کے تابع ہوتے تویہ ایک مرعوبانہ ، محکمومانہ ، غلامانہ اوراحمقانہ ذہنیت سے ہی ایسی بات نکل سکتی ہے کہ جس کے دل ودماغ پر انگریزفکرکی غلاظت کے دبیز غلاف چڑھے ہوئے ہوں ، جس کی حقیقت ایک مجذوب کی بڑسے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے ۔ یہ ذہن میں رہے کہ اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام اللہ تعالی کی وحی کے تابع ہوتے ہیں ۔ اورمعاذاللہ ثم معاذ اللہ اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قوم اوراپنے وطن کے تابع نہیں ہوتے بلکہ اپنی قوم کو اپنی اتباع کی دعوت دیتے ہیں اوراللہ تعالی کی مخلوق کو رب تعالی کے رنگ میں رنگنے کے لئے ہی تووہ تشریف لاتے ہیں ۔ یہی معنی ہیں آیت مبارکہ کے کہ اللہ تعالی کے رنگ سے زیادہ اچھارنگ کس کاہوسکتاہے ؟۔
پہلی دلیل
عَنْ أَسْمَاء َ بِنْتِ یَزِیدَ، قَالَتْ: کَانَتْ یَدُ کُمِّ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی الرُّسْغِ۔
ترجمہ :حضرت سیدتنااسماء بنت یزیدرضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی مبارک قمیص کی آستین پہنچوں تک ہوتی تھی ۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق الأزدی السَِّجِسْتانی (۴:۴۳)
اگررسول اللہ ﷺکالباس قومی، وطنی تھاتو پھریہ مائی صاحبہ کبھی بھی یہ بیان نہ کرتیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی آستین مبارک پہنچوں تک ہوتی تھی کیونکہ جب سب کالباس ایک جیساہوتو پھراس کو بیان کرنے کی حاجت نہیں ہوتی کیونکہ سب کاایک جیساہے ۔
دوسری دلیل
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیارکی وہ اسی قوم سے شمار ہوگا۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر(۴:۴۴)

اس حدیث شریف کوامام ابودائود رحمہ اللہ تعالی نے کتاب اللباس میں نقل کیاہے ، اس سے یہی ثابت ہوتاہے کہ جو محبوب کریم ﷺیہ فرمارہے ہیں کہ کوئی بھی شخص اپنے لباس میں بھی کفار کے ساتھ مشابہت اختیارنہ کرے وہ حبیب کریم ﷺخوداپنے علاقہ کے مشرکین کے ساتھ اپنے لباس کو مشابہ کیسے کرسکتے ہیں اورکس طرح اپنالباس اپنی قوم یااپنے وطن کے لوگوں والابناسکتے ہیں جب کہ یہ معلوم بھی ہوکہ یہ سارے کے سارے مشرک ہیں۔
تو اس حدیث کو مطلق تشبیہ پر محمول کیا جاسکتا ہے، جو کہ کفر کا موجِب ہے، اور کم از کم اس تشبیہ کے کچھ اجزاء کے حرام ہونے کا تقاضا کرتا ہے، یا اسکا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح کی مشابہت ہوگی اسی طرح کا حکم ہوگا، کفریہ کام میں مشابہت ہوگی تو کفر، گناہ کے کام میں مشابہت ہوگی تو گناہ، اور اگر ان کفار کے کسی خاص کام میں مشابہت ہوئی تو اسکا بھی حکم اُسی کام کے مطابق لگے گا، بہر حال اس حدیث کا تقاضا یہ ہے کہ کفار کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا حرام ہے۔
تیسری دلیل
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ:مَرَّ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ عَلَیْہِ ثَوْبَانِ أَحْمَرَانِ فَسَلَّمَ، فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْہِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے پاس سے ایک شخص گزراجس کے اوپردوسرخ رنگ کے کپڑے تھے ، اس نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی خدمت میں سلام عرض کیاتو آپﷺ نے اس کو جواب نہیں دیا۔
(المعجم الأوسط:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۲:۹۱)
اس سے معلوم ہواکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکالباس مبارک قومی یاوطنی نہ تھابلکہ اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ وحی کے تابع ہوتاتھا، اسی لئے تو حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اس شخص کو سلام کاجوا ب نہ دیاکیونکہ وہ یہ لباس اپنی قوم کے پہننے کی وجہ سے پہنے ہوئے تھا۔
چوتھی دلیل
عَنْ أَبِی جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ رُکَانَۃَ، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّ رُکَانَۃَ صَارَعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَرَعَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ رُکَانَۃُ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ فَرْقَ مَا بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْمُشْرِکِینَ العَمَائِمُ عَلَی القَلاَنِسِ.
ترجمہ :حضرت سیدناابوجعفربن محمدبن علی بن رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد ماجد سے روایت کی ہے کہ حضرت سیدنارکانہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ کشتی کی تورسول اللہ ﷺنے انہیں بچھاڑ دیاتھا، حضرت سیدنارکانہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سناہمارے اورمشرکین کے درمیان فرق یہ ہے کہ ہم ٹوپی کے اوپرعمامہ باندھتے ہیں جب کہ مشرکین ٹوپی کے بغیرہی پگڑی باندھتے ہیں۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۳:۳۰۰)
امام الطیبی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں
أی الفارق بیننا أنا نعتم علی القلانس وہو یکتفون بالعمائم ذکرہ الطیبی فالمسلمون یلبسون القلنسوۃ وفوقہا العمامۃ فأما لبس القلنسوۃ وحدہا فزی المشرکین وأما لبسہا علی غیر قلنسوۃ فہو غیر لائق۔
ترجمہ :یعنی ہم میں اورمشرکین میں یہی فرق ہے کہ ہم ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں اوروہ صرف عمامہ پر ہی کفایت کرتے ہیں ، پس اہل اسلام ٹوپی پر عمامے باندھتے ہیں ، صرف ٹوپی پہننایہ مشرکین کی عادت ہے اورصرف عمامہ باندھنابغیرٹوپی کے یہ لائق نہیں ہے ۔
(فیض القدیر شرح الجامع الصغیر:زین الدین محمد المدعو بعبد الرؤوف (۴:۴۲۹)
انبیاء کرام علیہم السلام کالباس ہی رسول اللہ ﷺکا لباس تھا
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ، قَالَ:کَانَتِ الْأَنْبِیَاء ُ یَرْکَبُونَ الْحُمُرَ وَیُلْبَسُونَ الصُّوفَ وَیَحْتَلِبُونَ الشَّاۃَ وَکَانَ لِرَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِمَارٌ اسْمُہُ عُفَیْرٌ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام دراز گوش پر سواری فرمایاکرتے تھے اورصوف کالباس پہناکرتے اوربکریوں کادودھ دوہاکرتے تھے اوررسول اللہ ﷺکی سواری ایک درازگوش تھی جس کانام عفیرتھا۔
(مسند أبی داود الطیالسی:أبو داود سلیمان بن داود بن الجارود الطیالسی البصری (۲:۲۵۹)
انبیاء کرام علیہم السلام کاپسندیدہ لباس
، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ، عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ:کَانَ الْأَنْبِیَاء ُ یَسْتَحِبُّونَ أَنْ یَلْبَسُوا الصُّوفَ وَیَحْلِبُوا الشَّاۃَ وَیَرْکَبُوا الْحِمَارَ ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوعبیدہ رضی اللہ عنہ حضرت سیدناعبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام یہ پسندکرتے تھے کہ وہ صوف کالباس پہنیں اوربکریوں کادودھ خود دوہاکریں اوردرازگوش پر سواری کریں ۔
(شعب الإیمان: أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۸:۳۳۴)
رسول اللہ ﷺکالباس انبیاء کرام علیہم السلام والالباس ہے
ذکرہ ابن العربی قال:والعمامۃ سنۃ المرسلین وعادۃ الأنبیاء والسادۃ وقد صح عن المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔
ترجمہ :حضرت سیدناابن العربی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اورعمامہ شریف انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت اورانبیاء کرام علیہم السلام کی عادت جاریہ ہے اوراکابرکایہی طریقہ رہاہے اوریہی رسول اللہ ﷺسے صحیح روایات سے ثابت ہے۔
(فیض القدیر شرح الجامع الصغیر:زین الدین محمد المدعو بعبد الرؤوف (۴:۴۲۹)
حضرت سیدناامام ابن العربی رحمہ اللہ تعالی کے کلام سے واضح ہواکہ رسول اللہ ﷺکالباس انبیاء کرام علیہم السلام والاتھانہ کہ آپ ﷺمکے کے کفارکے طرز پر پہنتے تھے ۔
امام ابن الحاج رحمہ اللہ تعالی کے قول سے استدلال
وَقَدْ کَانَتْ سِیرَتُہُ فِی مَلْبَسِہِ کَسَائِرِ سِیَرِہِ عَلَی وَجْہٍ أَتَمَّ، وَنَفْعُہُ لِلنَّاسِ أَعَمُّ۔
ترجمہ :امام ابن الحاج المکی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ لباس کے معاملہ میں رسول اللہ ْﷺکی سیرت باقی معاملات میں سیرت کی طرح اتم ہے اورلوگوں کو اس کانفع اعم ہے ۔
(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح:علی بن (سلطان)محمد، أبو الحسن نور الدین الملا الہروی القاری (۷:۲۷۷۸)
امام الجزری رحمہ اللہ تعالی کے کلام سے استدلال
وَقَدْ قَالَ الْجَزَرِیُّ فِی تَصْحِیحِ الْمَصَابِیحِ قَدْ تَتَبَّعْتُ الْکُتُبَ وَتَطَلَّبْتُ مِنَ السِّیَرِ وَالتَّوَارِیخِ لِأَقِفَ عَلَی قَدْرِ عِمَامَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أَقِفْ عَلَی شَیْء ٍ، حَتَّی أَخْبَرَنِی مَنْ أَثِقُ بِہِ أَنَّہُ وَقَفَ عَلَی شَیْء ٍ مِنْ کَلَامِ النَّوَوِیِّ، ذَکَرَ فِیہِ أَنَّہُ کَانَ لَہُ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِمَامَۃٌ قَصِیرَۃٌ، وَعِمَامَۃٌ طَوِیلَۃٌ، وَأَنَّ الْقَصِیرَۃَ کَانَتْ سَبْعَۃَ أَذْرُعٍ، وَالطَّوِیلَۃَ اثْنَی عَشَرَ ذِرَاعًا۔
ترجمہ :امام الجزری رحمہ اللہ تعالی نے ’’تصحیح المصابیح‘‘ میں نقل کیاہے کہ میں نے بہت سی کتب میں تلاش کیاہے اورتاریخ وسیرکی کتب کو بھی بہت دیکھاہے کہ رسول اللہ ﷺکے عمامہ مبارکہ کی مقدارمعلوم کرسکوں، لیکن میں اس سلسلے میں کسی چیز پر مطلع نہیں ہوسکا۔ یہاں تک کہ مجھے ایک شخص نے خبردی جومیرے نزدیک معتبرآدمی ہے ، کہ وہ امام النووی رحمہ اللہ تعالی کے کلام پر مطلع ہواہے ، اس میں مذکورہے کہ رسول اللہ ﷺکاایک عمامہ چھوٹاتھااورایک عمامہ بڑاتھا، چھوٹاعمامہ سات ذراع کاجبکہ بڑاعمامہ بارہ ذراع کاتھا۔ البتہ امام ابن الحاج رحمہ اللہ تعالی کے کلام جو انہوں نے المدخل میں نقل کیاہے سے ظاہرہ ہوتاہے کہ رسول اللہ ﷺکاعمامہ شریف مطلقاً سات ذراع کاتھا۔ قصروطویل کی کوئی قید ذکرنہیں کی گئی ۔
(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح:علی بن (سلطان)محمد، أبو الحسن نور الدین الملا الہروی القاری (۷:۲۷۷۸)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کالباس رسول اللہ ﷺوالاتھا
عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ، عَنْ عَلِیٍّ قَالَ: کَانَ سِیمَا أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ الصُّوفَ الْأَبْیَضَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناحارثہ بن مضرب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدرکے دن رسول اللہ ﷺکے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کالباس سفیدصوف کاتھا۔
(شعب الإیمان:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۸:۲۳۶)
اگراس دن سب کے لباس ایک جیسے تھے توحضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کبھی بھی بیان نہ کرتے ، اس سے معلوم ہواکہ رسول اللہ ﷺکے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے باقی معاملات کی طرح لباس میںبھی رسول اللہ ﷺکے لباس کی پیروی کرتے تھے ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بٹن لگانے میں بھی اتباع کیاکرتے تھے
قَالَ ابْنُ نُفَیْلٍ: ابْنُ قُشَیْرٍ أَبُو مَہَلٍ الْجُعْفِیُّ حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ قُرَّۃَ، حَدَّثَنِی أَبِی، قَالَ: أَتَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی رَہْطٍ مِنْ مُزَیْنَۃَ، فَبَایَعْنَاہُ، وَإِنَّ قَمِیصَہُ لَمُطْلَقُ الْأَزْرَارِ، قَالَ: فَبَایَعْتُہُ ثُمَّ أَدْخَلْتُ یَدَیَّ فِی جَیْبِ قَمِیصِہِ، فَمَسِسْتُ الْخَاتَمَ قَالَ عُرْوَۃُ: فَمَا رَأَیْتُ مُعَاوِیَۃَ وَلَا ابْنَہُ قَطُّ، إِلَّا مُطْلِقَیْ أَزْرَارِہِمَا فِی شِتَاء ٍ وَلَا حَرٍّ، وَلَا یُزَرِّرَانِ أَزْرَارَہُمَا أَبَدًا۔
ترجمہ:ابن قشیرابومحل جعنی رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنامعاویہ بن قرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ ان کے والد ماجدرضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں مزینہ کے وفد کے ساتھ رسول اللہ ﷺکی بارگاہ عالیہ میں حاضرہوا، پس ہم نے رسول اللہ ﷺکے دست اقدس پر بیعت کی اورآپ ﷺکے کرتہ مبارک کاگریبان کھلاہواتھا، پس میں نے بھی بیعت کی اوراپناہاتھ رسول اللہ ﷺکی قمیص مبارک میں داخل کرکے مہرنبوت سے مس کیا۔ حضرت سیدنامعاویہ بن قرۃ اوران کے بیٹے کو جب بھی دیکھاتوان کے گریبان کھلے ہی ہوتے تھے ۔ خواہ سردی کاموسم ہوتایاگرمی کا۔دونوں حضرات اپنے گریبانوں پر کبھی بٹن نہیں لگایاکرتے تھے۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر بن شداد بن عمرو الأزدی السَِّجِسْتانی (۴:۴۴)
حضرت سیدناموسی علیہ السلام کالباس شریف
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:کَانَ عَلَی مُوسَی یَوْمَ کَلَّمَہُ رَبُّہُ کِسَاء ُ صُوفٍ، وَجُبَّۃُ صُوفٍ، وَکُمَّۃُ صُوفٍ، وَسَرَاوِیلُ صُوفٍ، وَکَانَتْ نَعْلاَہُ مِنْ جِلْدِ حِمَارٍ مَیِّتٍ.
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ بن مسعو درضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جس دن حضرت سیدناموسی علیہ السلام اللہ تعالی کے ساتھ ہم کلام ہوئے اس دن ان کاکمبل صوف کاتھااورٹوپی بھی صوف کی تھی اورجبہ بھی صوف کاتھا، اورپاجامہ بھی صوف کاتھا، اورنعلین درازگوش کی کھال کے تھے۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۳:۷۶)
رسول اللہ ﷺکالباس قوم کی پیروی میں نہ تھا
أَمَّا بَعْدُ فَاتَّزِرُوا وَارْتَدُوا وَانْتَعِلُوا وَأَلْقُوا الْخِفَافَ وَالسَّرَاوِیلَاتِ وَعَلَیْکُمْ بِلِبَاسِ أَبِیکُمْ إِسْمَاعِیلَ وَإِیَّاکُمْ وَالتَّنَعُّمَ وَزِیَّ الْعَجَمِ ۔
ترجمہ : حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے آزربائجان کے عربوں کو حلہ(ازار اور چادر)پہننے کی یہ کہہ کر ترغیب دی کہ وہ تمہارے باپ حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کا لباس ہے۔
(فتح الباری شرح صحیح البخاری:أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی(۱۰:۲۸۶)
اس سے واضح ہوا کہ نبی کریم ﷺکا لباس اور آپﷺ کی وضع قطع قومیت اور وطنیت کے تابع نہیں تھی، بلکہ وحی ربّانی اور الہامِ یزدانی کے اتباع سے تھی، عرب میں قدیم زمانے سے چادر اور تہہ بند کا دستور چلا آرہا تھا، جو درحقیقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کا لباس تھا۔
رسول اللہ ﷺنے لباس کے متعلق بھی احکام جاری فرمائے کہ فلاں جائز ہے، فلاں حرام ہے، یہاں تک کہ مسلمانوں اور کافروں کے لباس میں امتیاز ہوگیا، اور بے شمار احادیثِ نبویہ سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺنے کافروں کی مشابہت سے ممانعت فرمائی ہے اور ان کی مخالفت کا حکم دیا ہے، اور جو لباس دشمنانِ خدا سے مشابہت کا سبب بنے ایسے لباس کو ممنوع قرار دیا ہے۔
اگرلباس میں کوئی فرق نہیں تھاتو ۔۔۔
أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَخْبَرَہُ، قَالَ: رَأَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیَّ ثَوْبَیْنِ مُعَصْفَرَیْنِ، فَقَالَ: إِنَّ ہَذِہِ مِنْ ثِیَابِ الْکُفَّارِ فَلَا تَلْبَسْہَا۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے مجھے دیکھا تو میں نے معصفرکے دوکپڑے پہنے ہوئے تھے ،مجھے فرمایا: یہ کافروں کے(جیسے)کپڑے ہیں ، پس ان کو نہ پہننا۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۳:۱۶۴۷)
اگرلباس سب کاایک جیساتھاتورسول اللہ ﷺنے حضرت سیدناعبداللہ بن عمرو العاص رضی اللہ عنہ کو منع کیوں فرمایا، رسول اللہ ﷺکاان کو منع فرماتے ہوئے یہ کہناکہ کافروں والالباس نہ پہناکرو اس بات کی دلیل ہے کہ اہل اسلام اورکفارکالباس ایک نہیں تھا، جب رسول اللہ ﷺاپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوکفاروالالباس پہننے سے منع فرماتے ہیں تویہ کیسے ہوسکتاہے کہ رسول اللہ ﷺخود لباس کے معاملے میں کفارکی پیروی کرتے ہوں؟۔
نیز یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات، نباتات اور جمادات، سب کو ایک ہی مادہ سے پیدا کیا ہے، مگر اس کے باوجود ہر چیز کی صورت اور شکل مختلف بنائی تاکہ ان میں امتیاز قائم رہے، کیوں کہ امتیاز کا ذریعہ یہی ظاہری شکل و صورت ہے، اور جس طرح دنیا کی قومیں ایک دوسرے سے معنوی خصائص اور باطنی امتیازات کے ذریعہ جدا ہیں ، اس طرح ہر قوم کا الگ تمدن اور اس کی تہذیب اور اس کا طرزِ لباس بھی اس کو دوسری قوم سے ممتاز کرتا ہے، عبادات کی انہی خاص شکلوں کی وجہ سے ایک مسلم ، موحد، مشرک اور بت پرست سے جدا ہے، اور ایک عیسائی ایک پارسی سے جدا ہے، غرض قوموں میں امتیاز کا ذریعہ یہی قومی خصوصیات ہیں، جب تک ان مخصوص شکلوں اور ہیئتوں کی حفاظت نہ کی جائے تو قوموں کا امتیاز باقی نہیں رہتا۔
دینِ اسلام ایک کامل اور مکمل مذہب ہے، تمام ملتوں اور شریعتوں کا ناسخ بن کر آیا ہے، وہ اپنے پیروکاروں کواس کی اجازت نہیں دیتا کہ ناقص اور منسوخ ملتوں کے پیروکاروں کی مشابہت اختیار کی جائے، جس طرح اسلام اعتقادات اور عبادات میں مستقل ہے کسی کا تابع نہیں ہے، اسی طرح اسلام اپنے معاشرہ اور عادات میں بھی مستقل ہے، کسی دوسرے کا تابع اور مقلد نہیں ہے۔
نیز یہود ونصاریٰ اور کافروں کو دوست بنانے یا ان کی مشابہت اختیار کرنے سے مسلمانوں کے دل بھی ان کی طرح سخت ہوجاتے ہیں ، اور احکامِ شریعت کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔
میرے دشمنوں جیسالباس نہ پہنو!
وَقَالَ مَالِکُ بْنُ دِینَارٍ: أَوْحَی اللَّہُ إلَی نَبِیٍّ مِنْ الْأَنْبِیَاء ِ أَنْ قُلْ لِقَوْمِک لَا یَدْخُلُوا مَدَاخِلَ أَعْدَائِی: وَلَا یَلْبَسُوا مَلَابِسَ أَعْدَائِی، وَلَا یَرْکَبُوا مَرَاکِبَ أَعْدَائِی، وَلَا یَطْعَمُوا مَطَاعِمَ أَعْدَائِی فَیَکُونُوا أَعْدَائِی کَمَا ہُمْ أَعْدَائِی۔
ترجمہ :حضرت سیدنامالک بن دیناررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ا نبیاء ِ سابقین علیہم السلام میں سے ایک نبی (علیہ السلام )کی طرف اللہ تعالی کی یہ وحی آئی کہ آپ اپنی قوم سے کہہ دیں کہ نہ میرے دشمنوں کے گھسنے کی جگہ میں گھسیں اور نہ میرے دشمنوں جیسا لباس پہنیں اور نہ ہی میرے دشمنوں جیسے کھانے کھائیں اور نہ ہی میرے دشمنوں جیسی سواریوں پر سوار ہوں (یعنی ہر چیز میں ان سے ممتاز اور جدا رہیں)ایسا نہ ہوکہ یہ بھی میرے دشمنوں کی طرح میرے دشمن بن جائیں۔
(الزواجر عن اقتراف الکبائر: أحمد بن محمد بن علی بن حجر الہیتمی شہاب الدین شیخ الإسلام(۱:۲۳)
رسول اللہ ﷺکی داڑھی مبارک اپنی قوم کی اتباع میں نہ تھی بلکہ اللہ تعالی کے حکم کے سبب تھی
اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق احسن انداز میں کی ہے اور داڑھی کے ذریعے سے اسے زینت بخشی ہے،داڑھی جہاں اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے، وہاں اسوہ رسول ﷺبھی ہے، یہ جہاں انسان کا فطرتی حسن ہے، وہاں اللہ کی شریعت بھی ہے، داڑھی جہاں قومی زندگی کی علامت ہے ، وہاں اس کا صفایاعورت ہونے کی دلیل بھی ہے، داڑھی جہاں شعارِ اسلام ہے وہاں محبت رسول ﷺکا تقاضا بھی ہے ، داڑھی جہاں مرد کے لیے ظاہری حسن وجمال ہے ، وہاں اس کے باطن کی تطہیر کا سبب بھی ہے ،یہ تمام شریعتوں کا متفقہ اسلامی مسئلہ ہے،یہ اسلامی تہذیب ہے ، یہ وہ اسلامی وقار اور ہیبت ہے جس سے مرد و عورت کے درمیان تمیز ہوتی ہے ،نیز اس سے مردوں اور ہیجڑوں کے درمیان امتیاز ہوتا ہے، یہ وہ دینی روپ ہے جس سے سلف صالحین اور فساق و فجار کے درمیان فرق ہوتا ہے ،یہ ایک فطرتی طریقہ ہے جو دلیل کا محتاج نہیں ،نفسانی خواہشات،رسم و رواج اور ماحول سے مرعوب ہو کر اللہ تعالیٰ کی زینت کو بدنمائی میں تبدیل کرنا بزدلی ہے ۔
داڑھی منڈانا با لاجماع حرام ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی معصیت اور اس کی نعمتوں کی ناقدری ہے ، اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺکی مخالفت ہے، یہ اللہ کی تخلیق کے حسن و جمال کی تخریب کاری اور کفار سے مشابہت ہے۔
داڑھی کے معاملے میں لبرل اوربے دین اسکالر کانقطہ نظر یہ ہے کہ مردوں کا داڑھی رکھنا یا نہ رکھنا منجملہ قومی اور علاقائی عادات میںسے ہے۔یہ اُمورِ شریعت میں سے نہیں ہے کہ اِس میں فرضیت وحرمت کی بحث کی جائے۔ اِس معاملہ میں لوگوں کو اپنے عرف کی پیروی کرنی چاہیے۔ یہ رائے علمائے مصر میں سے علامہ شیخ محمود شلتوت(سابق رئیس جامعہ الازھر) اورجاد الحق علی جاد الحق(سابق رئیس جامعہ الازھر)اور بعض دیگر بے دین طبقہ کے لیڈروں کی ہے جیسے پاکستان میں اس غلیظ فکرکے حامل طبقہ کالیڈر مسٹرجاوید غامدی ہے اوراس کے سارے پیروکارہیں۔
یہ لبرل طبقہ اپنی رائے کی تفصیل اِس طرح کرتے ہیں کہ عرب اور دیگر قوموں کی قدیم تاریخ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ داڑھی رکھنا اُن کے ہاں اچھی عادات میں شمار ہوا کرتا تھا۔اور پھر اکثر اُمتوں میں دین ،نسل اور علاقوں کے اختلاف کے باوجود اُن کے علما وفلاسفہ میں بھی داڑھی رکھنے کی یہ عادت اِسی طرح موجود رہی ہے۔وہ اِسے جمالِ شخصیت کا مظہر اور ذریعہ وقار سمجھتے تھے۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اپنی اُمت کو ایسی مستحسن عادات کو اپنانے کی ہدایت فرماتے جو عرف کے مطابق شخصیت کی خوبصورتی اور وقار کا ذریعہ ہوں۔ داڑھی بڑھانے سے متعلق آپﷺکے ارشادات اِسی قبیل سے ہیں۔
علتیں تلاش کرکے حکم پرعمل کرنے والے لوگ
ایک نقطہ نظر ایک عراقی شیخ عبد اللہ بن یوسف الجُدیع کا ہے۔اس کاکہنا ہے کہ مسلمان مردوں کے لیے داڑھی رکھنے اور بڑھانے کی نبوی ہدایت ایک خاص علت پر مبنی ہے،جو خود آپﷺکے ارشادات میں بیان ہوئی ہے۔ اور وہ مسلمانوں کامحض معاشرے میں موجود غیرمسلموں سے ممیز ہونے کی غرض سے علامتی طور پر اظہارِ مخالفت ہے۔
شیخ الجُدیع کا مزیدکہناہے کہ حکم کی اصل علت چونکہ یہی بیان ہوئی ہے ،چنانچہ کسی زمانے یا علاقے میں غیرمسلموں کا طریقہ اور امتیاز بڑی داڑھی رکھنا ہوگا تو اُس صورت میں بھی مسلمانوں کو اپنا امتیاز قائم رکھنے کی غرض سے اُن کے بر عکس طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔
یہ البتہ واضح رہے کہ غیرمسلموں سے مظاہر میں مخالفت کا یہ حکم بھی زیادہ سے زیادہ’’مستحب ومندوب‘‘کے درجے کا ہے۔یہ مسلمان مردوں پر واجب نہیں ہے۔چنانچہ آدمی کی نیت ،جو کہ ایک داخلی چیز ہے؛اگر غیر مسلموں سے مشابہت اختیار کرنے کی نہ ہوتو اِس حکم کو ترک کرنا بھی زیادہ سے زیادہ کراہت کے دائرے میں آئے گا۔کسی مستحب عمل کو ترک کردینا حرمت یا شریعت کی مخالفت کے زمرے میں قطعاً نہیں آتا۔
داڑھی بڑھا نے کا حکم غیر مسلموں سے اظہارِ مخالفت کی علت پر مبنی ہے۔چنانچہ یہ علت جب تک موجود رہے گی ؛یہ حکم بھی باقی رہے گا۔ اور جب علت موجود نہ رہے تو حکم بھی معطل ہوجائے گا۔اور علت کے مفقود ہوجانے کی صورت میںداڑھی رکھنے کے عمل کو حکم کے اعتبار سے اپنی اصل حیثیت پر رکھا جائے گا۔اور داڑھی کا معاملہ اپنی اصل کے اعتبار سے چونکہ عاداتِ معاشرہ کے قبیل سے ہے۔اور عادات کے باب میں عرف کی بڑی اہمیت ہے۔عرف کا کوئی عمل اگر خلاف شرع نہ ہو تو نبیﷺ کا طریقہ بھی یہی رہا ہے کہ وہ اُس کی موافقت کرتے تھے۔ چنانچہ ایسی صورت میں پھر داڑھی کے معاملے میں معاشرے کے عرف ہی کی پیروی کی جائے گی۔ یعنی مسلمانوں کا عرف اگر کسی زمانے اور علاقے میں داڑھی منڈاکر رکھنے کا ہو اور داڑھی کو بڑھانا وہاں شذوذ میں شمار کیا جاتاہو اور باعث شہرت بن جاتا ہو تو ایسی صورت میں عرف کی پیروی کرنا ہی موافقِ سنت ہوگا۔کیونکہ اِس طرح کی صورت حال میں داڑھی کو بڑھانا دین کی کسی مصلحت ومقصد کو پورا نہیں کرتا۔
اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ علتِ حکم کو پیش نظر رکھتے ہوئے داڑھی بڑھانے کے اِس حکم کی تعمیل بھی اُسی زمانے اور معاشرے میں کی جائے گی جہاں مسلمانوں کو اقتدار وغلبہ حاصل ہو۔کیونکہ اِس کے بغیر غیر مسلموں سے اظہارِ مخالفت ممکن ہے،نہ نبی ﷺنے دورِ مغلوبیت میں اِس طرح کا کوئی حکم مسلمانوں کو کبھی دیا ہے۔
اب ہم احادیث صحیحہ کی روشنی میں پہلی فکرکی تردیدکریں گے اوررہی دوسری فکرجو علت کے پائے جانے تک حکم پرعمل کرتے ہیں اوربعد میں ترک کردیتے ہیں، ان کارد ہم بڑے پرزورانداز میں کرچکے ہیں جہاں یہ بیان ہواکہ احکامات کی مصلحتیں جان کردین پرعمل نہیں بلکہ خداتعالی اوراس کے رسول کریم ﷺکاحکم جان کر عمل پیرارہواسی میں فلاح اوربھلائی ہے ۔
جب کہ تیسرانظریہ اہل اسلام کاہے جو ہمیشہ حق پر قائم رہے وہ یہ ہے کہ داڑھی بڑھانے کاحکم نہ توکسی کی اتباع میں تھااورنہ ہی قومی یاوطنی شعارکی وجہ سے اورنہ ہی کسی اوروجہ سے بلکہ داڑھی رکھنے کاحکم اللہ تعالی اوراس کے پیارے ر سول کریم ﷺنے دیااورتمام اہل اسلام اسی وجہ سے اس پرسلفاً خلفاً کاربندہیں ، اللہ تعالی اہل حق کی ہمیشہ نصرت فرمائے۔
آیئے اب اس غلط اوربے دینی کی فکرکارد احادیث شریفہ کی روشنی میں پڑھیں:
داڑھی فطرت اسلام سے ہے
عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَۃِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاء ُ اللِّحْیَۃِ، وَالسِّوَاکُ، وَاسْتِنْشَاقُ الْمَاء ِ، وَقَصُّ الْأَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ، وَنَتْفُ الْإِبِطِ، وَحَلْقُ الْعَانَۃِ، وَانْتِقَاصُ الْمَاء ِ قَالَ زَکَرِیَّا: قَالَ مُصْعَبٌ: وَنَسِیتُ الْعَاشِرَۃَ إِلَّا أَنْ تَکُونَ الْمَضْمَضَۃَ زَادَ قُتَیْبَۃُ، قَالَ وَکِیعٌ: انْتِقَاصُ الْمَاء ِ: یَعْنِی الِاسْتِنْجَاء َ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن الزبیررضی اللہ عنہ حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:دس خصلتیں فطرتِ اسلامیہ میں سے ہیں:(۱)مونچھیں کاٹنا،(۲)داڑھی کو چھوڑ دینا ،(۳)مسواک کرنا، (۴) وضو کرتے وقت ناک میں پانی چڑھانا، (۵)ناخن کاٹنا، (۶) انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، (۷)بغل کے بال نوچنا، (۸)زیرِ ناف بال مونڈنا، (۹)استنجاء کرنا، راوی کا کہنا ہے کہ دسویں چیز مجھے بھول گئی ہے ،شاید کلی کرنا ہو۔
(صحیح مسلم : مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (ا:۲۲۳)
اس حدیث شریف کے الفاظ سے ہی واضح ہے کہ داڑھی رکھنافطرت اسلام میں سے ہے اوراسی وجہ سے رسول اللہ ﷺنے اپنی امت کو داڑھی رکھنے کاحکم ارشادفرمایاکیونکہ ہر ہرمسلمان اپنی فطرت سے محبت کرتاہے ۔ اس سے معلوم ہوگیاکہ رسول اللہ ﷺکاداڑھی رکھنے کاحکم دیناوہ آ پ ﷺکے قومی یاوطنی شعارکے سبب نہ تھابلکہ یہ توفطرت اسلام کے سبب تھا۔
داڑھی توشعاراسلام ہے
عَنْ یَحْیَی بْنِ یَعْمَرَ، قَالَ: خَرَجْتُ أَنَا وَحُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْیَرِیُّ حَاجَّیْنِ أَوْ مُعْتَمِرَیْنِ، وَقُلْنَا: لَعَلَّنَا لَقِینَا رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ: بَیْنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ جَالِسًا، إِذْ جَاء َ شَدِیدُ سَوَادِ اللِّحْیَۃِ، شَدِیدُ بَیَاضِ الثِّیَابِ، فَوَضَعَ رُکْبَتَہُ عَلَی رُکْبَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَتَوَلَّی وَذَہَبَ، فَقَالَ عُمَرُ:فَلَقِیَنِی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ثَالِثَۃٍ، فَقَالَ: یَا عُمَرُ، أَتَدْرِی مَنِ الرَّجُلُ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ:ذَاکَ جِبْرِیلُ أَتَاکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِینَکُمْ۔ملخصاً۔
ترجمہ:حضرت سیدنایحیی بن یعمراورحمیدبن عبدالرحمن رضی اللہ عنہماایک مرتبہ حج یاعمرہ کرنے کے لئے مکہ مکرمہ گئے تو وہاں رسول اللہ ﷺکے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی توانہوںنے ہمیں بتایاکہ ان کو حضرت سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ ایک دن نبی کریمﷺتشریف فرماتھے کہ اچانک ایک شخص آیا جس کی داڑھی گہری سیاہ تھی۔۔۔۔اس کے چلے جانے کے بعد نبیﷺنے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا ،کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ شخص کون تھا ؟ عرض کی، نہیں!فرمایا{ذَاکَ جِبْرِیلُ أَتَاکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِینَکُمْ }۔ وہ جبریل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔
(صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان:محمد بن حبان بن أحمد بن حبان أبو حاتم، الدارمی، البُستی (ا:۳۸۹)
ان لبرل وبے دین طبقہ سے ہم سوال کرتے ہیں کہ اس حدیث شریف میں جس کو محدثین کرام صحیح کہہ رہے ہیں سے واضح ہوتاہے کہ حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام جب رسول اللہ ﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضرہوئے توان کے چہرہ پر گاڑھی سیاہ رنگ کی داڑھی تھی توکیاحضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام کی داڑھی شعاراسلام کو واضح کرنے کے لئے اوراہل اسلام میں داڑھی کی محبت پیداکرنے کے لئے دکھائی گئی یایہ بتایاگیاکہ داڑھی رکھنااسلام کے شعار میں سے نہیں ہے بلکہ یہ ایک قومی اوروطنی شعارہے نعوذ باللہ من ذالک ۔
یہ لبرل طبقہ یہ کہہ کرجان نہیں چھڑاسکتاکہ رسول اللہ ﷺنے داڑھی مبارک اپنی قوم کے رکھنے کی وجہ سے رکھی ہوئی تھی ، اگران کی بات درست ہوتی تو جبریل امین علیہ السلام تو مکہ مکرمہ کے رہنے والے نہ تھے پھران کے چہرہ مبارکہ پر داڑھی کیوں دکھائی گئی ۔
ایک تابعی رضی اللہ عنہ کارسول اللہ ﷺکوخواب میں دیکھنا
عَنْ یَزِیدَ الْفَارِسِیِّ قَالَ:رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ صلّی اللہ علیہ وسلم فِی النَّوْمِ زَمَنَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَی الْبَصْرَۃِ قَالَ:فَقُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنِّی قَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ صلّی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّہِ صلّی اللہ علیہ وسلم کَانَ یَقُولُ: إِنَّ الشَّیْطَانَ لَا یَسْتَطِیعُ أَنْ یَتَشَبَّہَ بِی فَمَنْ رَآنِی فِی النَّوْمِ فَقَدْ رَآنِی ، فَہَلْ تَسْتَطِیعُ أَنْ تَنْعَتَ ہَذَا الرَّجُلَ الَّذِی قَدْ رَأَیْتَ؟ قَالَ: نَعَمْ أَنْعَتُ لَکَ رَجُلًا بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ، جِسْمُہُ وَلَحْمُہُ أَسْمَرُ إِلَی الْبَیَاضِ حَسَنُ الْمَضْحَکِ أَکْحَلُ الْعَیْنَیْنِ جَمِیلُ دَوَائِرِ الْوَجْہِ قَدْ مَلَأَتْ لِحْیَتُہُ مَا لَدُنْ ہَذِہِ إِلَی ہَذِہِ وَأَشَارَ بِیَدِہِ إِلَی صُدْغَیْہِ حَتَّی کَادَتْ تَمْلَأُ نَحْرَہُ قَالَ عَوْفٌ:وَلَا أَدْرِی مَا کَانَ مَعَ ہَذَا مِنَ النَّعْتِ قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَوْ رَأَیْتَہُ فِی الْیَقَظَۃِ مَا اسْتَطَعْتَ أَنْ تَنْعَتَہُ فَوْقَ ہَذَا۔
ترجمہ
حضرت سیدنایزیدالفارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدناعبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماکے زمانہ میں رسول اللہ ﷺکو خواب میں دیکھا تو اس کا ذکرحضرت سیدناعبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماسے کیا ،آپ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺفرمایا کرتے تھے،شیطان میری مشابہت اختیار کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ،جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا ،اس نے مجھے ہی دیکھا تو اس شخص کی صفت بیان کرسکتا ہے ،جس کو تو نے خواب میں دیکھا ہے ؟کہا ،ہاں!درمیانے قد والا،گندمی رنگ سفیدی کی طرف مائل ،آنکھیں بڑی بڑی گویا کہ سرمہ ڈالا ہوا ہو ،خوبصو رت مسکراہٹ اور شکل، گول چہرہ {قَدْ مَلَأَتْ لِحْیَتُہُ، مِنْ ہَذِہِ إِلَی ہَذِہِ قَدْ مَلَأَتْ نحرہ }داڑھی جو سینے کو بھرے ہوئے تھی ، حضرت سیدناعبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمانے لگے ،اگر تو جاگتے ہوئے آپ ﷺکو دیکھتا تو ان صفات کے سوا اور صفات بیان نہیں کر سکتا تھا ۔
(الطبقات الکبری:أبو عبد اللہ محمد بن سعد بن منیع الہاشمی بالولاء البغدادی المعروف بابن سعد (۱:۴۱۷)
رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میںسے کسی کی بھی داڑھی حدشرع سے کم نہ تھی
عَنْ شُرَحْبِیلَ بْنِ مَسْلَمَۃَ، رَأَیْتُ خَمْسَۃً مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَبَا أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیَّ، وَعَبْدَ اللَّہِ بْنَ بُسْرٍ، وَعُتْبَۃَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِیَّ، وَالْحَجَّاجَ بْنَ عَامِرٍ الثُّمَالِیَّ، وَالْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِی کَرِبٍ الْکِنْدِیَّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ یَقُمُّونَ شَوَارِبَہُمْ، وَیُعْفُونَ لِحَاہُمْ، وَیُصَفِّرُونَہَا، وَکَانُوا یَقُمُّونَ مِنْ طَرَفِ الشَّفَۃِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناشرحبیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پانچ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زیارت کی کہ وہ مونچھوں کو کاٹتے تھے اور داڑھیوں کو بڑھاتے تھے اور ان کو رنگتے تھے ،سیدنا ابو امامہ الباہلی،سیدنا حجاج بن عامر الشمالی،سیدنا معدام بن معدی کرب،سیدنا عبداللہ بن بسر المازنی،سیدنا عتبہ بن عبد السلمی رضی اللہ عنہم وہ سب ہونٹ کے کنارے سے مونچھیں کاٹتے تھے۔
(مسند الشامیین:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (ا:۸۷)
یہودونصاری کی مخالفت کاحکم
حَدَّثَنِی الْقَاسِمُ قَالَ:سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَۃَ یَقُولُ:خَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی مَشْیَخَۃٍ مِنَ الْأَنْصَارٍ بِیضٌ لِحَاہُمْ فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ حَمِّرُوا وَصَفِّرُوا، وَخَالِفُوا أَہْلَ الْکِتَابِ قَالَ: فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، إِنَّ أَہْلَ الْکِتَابِ یَتَسَرْوَلَونَ وَلْا یَأْتَزِرُونَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:تَسَرْوَلُوا وَائْتَزِرُوا وَخَالِفُوا أَہْلَ الْکِتَابِ قَالَ: فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، إِنَّ أَہْلَ الْکِتَابِ یَتَخَفَّفُونَ وَلَا یَنْتَعِلُونَ. قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:فَتَخَفَّفُوا وَانْتَعِلُوا وَخَالِفُوا أَہْلَ الْکِتَابِ قَالَ:فَقُلْنَا:یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّ أَہْلَ الْکِتَابِ یَقُصُّونَ عَثَانِینَہُمْ وَیُوَفِّرُونَ سِبَالَہُمْ.قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: قُصُّوا سِبَالَکُمْ وَوَفِّرُوا عَثَانِینَکُمْ وَخَالِفُوا أَہْلَ الْکِتَابِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناقاسم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیدناابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺانصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کچھ عمررسیدہ افراد کے پاس جن کی داڑھیاں سفید ہوچکی تھیں ، تشریف لائے اورفرمایا: اے جماعت انصار! اپنی داڑھیوں کو سرخ یازرد کرلو اوریہودونصاری کی مخالفت کرو ، ہم نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ!یہودونصاری شلوارپہنتے ہیں تہبندنہیں باندھتے ؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:تم شلواربھی پہن سکتے ہواورتہبندبھی باندھ سکتے ہو،البتہ یہووونصاری کی مخالفت کیاکرو ، ہم نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!یہودونصاری موزے پہنتے ہیں جوتے نہیں پہنتے ؟ تورسول اللہ ﷺنے فرمایا: تم موزے بھی پہنواورجوتے بھی ،اس طرح یہودونصاری کی مخالفت کرو۔ہم نے عرض کیا:یارسول اللہ ﷺ!اہلِ کتاب تو اپنی داڑھیاں کٹواتے اور مونچھیں بڑھاتے ہیں،آپﷺنے فرمایا:تم اپنی مونچھیں کٹواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ اور اہلِ کتاب کی مخالفت کرو۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۳۶:۶۱۳)
اس حدیث شریف سے معلوم ہواکہ رسول اللہ ﷺنے اہل کتاب کی مخالفت کاحکم ارشادفرمایاہے جب کہ وہ اس بات کادعوی کرتے ہیں کہ ہم الہامی مذہب کے ماننے والے ہیں توپھربتائیں رسول اللہﷺان کی اتباع میں کوئی حکم کیسے دے سکتے تھے جوہیں ہی مشرک ؟ ۔
اس سے معلوم ہواکہ رسول اللہ ْﷺکاداڑھی رکھنااورآپ ﷺکے لباس کی ہئیت وکیفیت اللہ تعالی کے حکم کے تابع تھی نہ کہ کسی قومی یاوطنی شعارکی وجہ سے ۔ جو لوگ ایسی بات کرتے ہیںان پر لازم ہے وہ پھرسے اسلام قبول کریںاورکلمہ طیبہ پڑھیں ۔
مجوسیوں کی مخالفت کرو
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: جُزُّوا الشَّوَارِبَ، وَأَرْخُوا اللِّحَی خَالِفُوا الْمَجُوسَ۔
ترجمہ :سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں لٹکاؤ،مجوسیوں کی مخالفت کرو۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۱:۲۲۲)
رسول اللہ ﷺنے ہر کافرکی مخالفت کاحکم دیا
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: ذَکَرَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَجُوسَ، فَقَالَ: إِنَّہُمْ یُوَفِّرُونَ سِبَالَہُمْ، وَیَحْلِقُونَ لِحَاہُمْ، فَخَالِفُوہُمْ۔
ترجمہ:سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺنے فرمایا:وہ مجوسی مونچھیں بڑھاتے اور داڑھیاں منڈاتے ہیں،تم ان کی مخالفت کرو۔
(المعجم الأوسط:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (ا۲:۸)
داڑھی منڈانامجوسیوں کاطریقہ ہے
واللحیۃ ہِیَ الفارقۃ الصَّغِیر وَالْکَبِیر وَہِی جمال الفحول وَتَمام ہیأتہم فَلَا بُد من إعفائہا، وقصہا سنۃ الْمَجُوس، وَفِیہ تَغْیِیر خلق اللہ۔
ترجمہ :حضرت سیدناشاہ ولی اللہ محدث دہلوی المتوفی : ۱۱۷۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ داڑھی بڑے اورچھوٹے میں فرق کرنے والی ہے اوریہی مردکاجمال ہے اورمردکی شخصیت کی تکمیل ہی داڑھی سے ہے ، پس ضروری ہے کہ داڑھی بڑھائی جائے اورداڑھی کو منڈانایہ مجوسیوں کاطریقہ ہے اوراللہ تعالی کی تخلیق کو بدلناہے۔
(حجۃ اللہ البالغۃ:أحمد بن عبد الرحیم بن الشہید المعروف بـ الشاہ ولی اللہ الدہلوی (۱:۳۰۹)
اس حدیث کاجواب کسی لبرل کے پاس ہوتو۔۔۔۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: خَالِفُوا الْمُشْرِکِینَ أَحْفُوا الشَّوَارِبَ، وَأَوْفُوا اللِّحَی۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایا:مشرکین کی مخالفت کرو،مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۱:۲۲۲)
اس سے بڑھ کرکیابات کی جائے کہ رسول اللہ ﷺنے خود بیان فرمادیاکہ داڑھیاں بڑھائواورمشرکین کی مخالفت کرو ، اس سے معلوم ہواکہ رسول اللہ ﷺتوخود مشرکین کی مخالفت کاحکم دے رہے ہیں توپھرخود کیسے ان کی اتباع کرسکتے تھے ۔
پہلاپارہ ختم ہوگیا (بحمداللہ تعالی آج تین شعبان المعظم ۱۴۴۱ھ/۲۸مارچ ۲۰۲۰)بروزہ ہفتہ دن گیارہ بج کراکیس منٹ )

Leave a Reply