یہود ونصاری کاحضورتاجدارختم نبوتﷺپر شرک پسندی کاالزام لگانااوراللہ تعالی کاان کی گستاخی کاجواب دینااورلیڈرپرستی کاوبال
{قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآء ٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْـًا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ}(۶۴)
ترجمہ کنزالایمان:تم فرماؤاے کتابیوں ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں یکساں ہے یہ کہ عبادت نہ کریں مگر خدا کی اور اس کا شریک کسی کو نہ کریں اور ہم میں کوئی ایک دوسرے کو رب نہ بنالے اللہ کے سوا پھر اگر وہ نہ مانیں تو کہہ دو تم گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں
ترجمہ ضیاء الایمان: اے حبیب کریمﷺ! آپ فرمادیں کہ اے اہل کتاب ! ایسے کلمہ کی طرف آئوجو ہمارے اورتمھارے درمیان برابر(یعنی مسلم )ہے کہ ہم اللہ تعالی کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریںاورکسی بھی چیز کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائیں اورہم اللہ تعالی کے علاوہ بعض میں سے بعض کو رب نہ بنائیںپس اگریہ لوگ یہ بات تسلیم نہ کریں تواے اہل اسلام !تم ان سے کہہ دو!تم گواہ رہوبے شک ہم اللہ تعالی کے حکم کی پیروی کرنے والے ہیں۔
شان نزول
رُوِیَ فِی سَبَبِ النُّزُولِ،أَنَّ الْیَہُودَ قَالُوا لِلنَّبِیِّ عَلَیْہِ الصلاۃ والسلام،ما ترید إِلَّا أَنْ نَتَّخِذَکَ رَبًّا کَمَا اتَّخَذَتِ النَّصَارَی عِیسَی!وَقَالَتِ النَّصَارَی:یَا مُحَمَّدُ مَا تُرِیدُ إِلَّا أَنْ نَقُولَ فِیکَ مَا قَالَتِ الْیَہُودُ فی عزیز! فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی ہَذِہِ الْآیَۃَ، وَعِنْدِی أَنَّ الْأَقْرَبَ حَمْلُہُ عَلَی النَّصَارَی، لِمَا بَیَّنَّا أَنَّہُ لَمَّا أَوْرَدَ الدَّلَائِلَ عَلَیْہِمْ أَوَّلًا، ثُمَّ بَاہَلَہُمْ ثَانِیًا،فَعَدَلَ فِی ہَذَا الْمَقَامِ إِلَی الْکَلَامِ الْمَبْنِیِّ عَلَی رِعَایَۃِ الْإِنْصَافِ،وَتَرْکِ الْمُجَادَلَۃِ، وَطَلَبِ الْإِفْحَامِ وَالْإِلْزَام۔ِ
ترجمہ :شان نزول یوں منقول ہے کہ یہودیوں نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے کہا: آپ ﷺکاارادہ یہ ہے کہ ہم آپ ﷺکو رب مان لیں جیسے نصرانیوں نے حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کو بنایا، اے محمدﷺ!تم یہی چاہتے ہوکہ آپ ﷺکووہی کہیں جو حضرت سیدناعزیرعلیہ السلام کے بارے میں کہاگیایعنی ان کو اللہ تعالی کابیٹاکہاگیااللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
امام فخرالدین الرازی المتوفی: ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک اقرب یہ ہے کہ اس سے نصاری مراد لئے جائیں چونکہ ہم نے پیچھے بیان کیاہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے دلائل بیان کئے ، پھران کو مباہلہ کی دعوت دی ، پھرآپ ﷺنے ایسے کلام کی طرف اعراض فرمایاجس میں سراسرانصاف اورترک جدال اورطلب الزام ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۸:۲۵۱)
آیت کریمہ کامخاطب کون؟
وَفِی قَوْلِ قَتَادَۃَ وَابْنِ جُرَیْجٍ وَغَیْرِہِمَا لِیَہُودِ الْمَدِینَۃِ، خُوطِبُوا بِذَلِکَ لِأَنَّہُمْ جَعَلُوا أَحْبَارَہُمْ فِی الطَّاعَۃِ لَہُمْ کَالْأَرْبَابِ وَقِیلَ:ہُوَ لِلْیَہُودِ وَالنَّصَارَی جَمِیعًاقَوْلُہُ تَعَالَی:(وَلا یَتَّخِذَ بَعْضُنا بَعْضاً أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّہِ) أی لا نتبعہ فی تحلیل شی أَوْ تَحْرِیمِہِ إِلَّا فِیمَا حَلَّلَہُ اللَّہُ تَعَالَی وَہُوَ نَظِیرُ قَوْلِہِ تَعَالَی:اتَّخَذُوا أَحْبارَہُمْ وَرُہْبانَہُمْ أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّہِ(التوبۃ:۳۱)مَعْنَاہُ أَنَّہُمْ أَنْزَلُوہُمْ مَنْزِلَۃَ رَبِّہِمْ فِی قَبُولِ تَحْرِیمِہِمْ وَتَحْلِیلِہِمْ لِمَا لَمْ یُحَرِّمْہُ اللَّہُ وَلَمْ یُحِلَّہُ اللَّہُ۔ملتقطاً۔
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ اورابن جریج رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں خطاب مدینہ منورہ کے یہودیوںکو ہے ، انہیں اس لئے خطاب کیاگیاکیونکہ انہوںنے اپنے علماء کو ان کی اطاعت وپیروی کرنے میں رب کی طرح بنارکھاتھااوریہ بھی کہاگیاہے کہ یہ خطاب یہودونصاری تمام کے لئے ہے ۔ یعنی ہم کسی شئی کو حلال کرنے یااسے حرام کرنے میں اس کی اتباع وپیروی نہ کریں گے مگراسی میں جسے اللہ تعالی نے حلال کیاہے اوریہ اللہ تعالی کے اس قول شریف کے مثل ہے {اتَّخَذُوا أَحْبارَہُمْ وَرُہْبانَہُمْ أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّہ}اس کامعنی یہ ہے انہوںنے اپنے علماء کوان کے حرام کردہ اورحلال کردہ چیزوںکو قبول کرنے میں اپنے رب تعالی کے رتبہ اوردرجہ میں رکھا، ان چیزوں کے بارے میں جنہیں اللہ تعالی نے نہ حرام کیااورنہ اللہ تعالی نے انہیں حلال کیا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۴:۱۰۵)
لیڈرپرستی
عَنْ ابْنِ جُرَیْجٍ فِی قَوْلِہِ:وَلا یَتَّخِذَ بَعْضُنا بَعْضاً أَرْباباً قَالَ:لَا یُطِیعُ بَعْضُنَا بَعْضًا فِی مَعْصِیَۃِ اللَّہِ، وَیُقَالُ:إِنَّ تِلْکَ الرُّبُوبِیَّۃَ أَنْ یطیع الناس سادتہم وَقَادَتَہُمْ فِی غَیْرِ عِبَادَۃٍ وَإِنْ لَمْ یُصَلُّوا لَہُمْ.
ترجمہ :حضرت سیدناامام ابن جریج رحمہ اللہ تعالی اس آیت کریمہ کی تفسیرمیں نقل فرماتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی کی معصیت کرتے ہوئے ایک دوسرے کی اطاعت نہ کریں۔ کہاجاتاہے کہ اس ربوبیت کامطلب یہ تھاکہ یالوگ عبادت کے علاوہ اپنے سرداروں اورلیڈروں کی ہر ہرمعاملے میں اطاعت کرتے اگرچہ ان کے لئے نماز نہ پڑھتے تھے۔
(تفسیر الطبری :محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۵:۴۷۹)
قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّہِ أَنْداداً أصناما او رؤساء ہم الذین کانوا یطیعونہم او ما ہو أعم منہما یعنی کل ما کان مشغلا عن اللہ تعالی مانعا عن امتثال او امرہ یُحِبُّونَہُمْ یعظمونہم ویطیعونہم کَحُبِّ اللَّہِ کتعظیمہم للہ ای یسوون بینہ وبینہم فی المحبۃ والطاعۃ والمحبۃ۔
ترجمہ: اللہ تعالی کے علاوہ شریک بنانے کا مطلب ہے یا تو انہوں نے اصنام(بتوں)کو اللہ تعالی کا شریک بنا لیا اور پھر اپنے ان سرداروں کو جن کی وہ اطاعت کرتے تھے اللہ تعالیٰ کا شریک بنا لیا۔ ان شرکاء سے محبت کا یہ معنی ہے کہ وہ ان کی تعظیم کرتے تھے اور اطاعت کرتے تھے جیسا کہ مومن اللہ تعالی کی تعظیم کرتے ہیں تو انہوں نے اللہ تعالی اور ان شرکاء کو اطاعت اور محبت میں برابر کر دیا۔
(التفسیر المظہری:قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی(۱:۱۶۱)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
فیمن یکون عامیاً، ویقلد رجلا من الْفُقَہَاء بِعَیْنِہ یری أَنہ یمْتَنع من مثلہ الْخَطَأ،وَأَن مَا قَالَہ ہُوَ الصَّوَاب أَلْبَتَّۃ، وأضمر فِی قلبہ أَلا یتْرک تَقْلِیدہ وَإِن ظہر الدَّلِیل علی خِلَافہ،وَذَلِکَ مَا رَوَاہُ التِّرْمِذِیّ عَن عدی بن حَاتِم أَنہ قَالَ:سمعتہ یَعْنِی رَسُول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ،یقْرَأ(اتَّخذُوا أَحْبَارہم وَرُہْبَانہمْ أَرْبَابًا من دون اللہ)قَالَ:إِنَّہُم لم یَکُونُوا یَعْبُدُونَہُمْ،وَلَکنہُمْ کَانُوا إِذا أحلُّوا لَہُم شَیْئااسْتَحَلُّوہُ، وَإِذا حرمُوہُ ۔
ترجمہ:جو عام شخص فقہاء میں سے کسی ایک کی تقلید کرتا ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ اس جیسے فقیہہ سے غلطی ناممکن ہے اور جو اس نے کہا وہی صحیح ہے اور دل میں اس نے یہ ارادہ کیا کہ وہ اس کی تقلید کو ہر گز نہیں چھوڑے گا اگرچہ دلیل اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ وہ بھی اس حدیث کا مصداق ہے جو امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ نے عدی بن حاتم سے نقل کی ہے کہ عدی بن حاتم فرماتے ہیں کہ میں نے حضور تاجدار ختم نبوتﷺ کو یہ آیت (اتخذو احبارھم ورھبانھم۔۔۔۔۔۔الخ)پڑھتے سنا۔ فرمایا کہ وہ اپنے علماء کی عبادت نہیں کرتے تھے (یعنی ان کو سجدہ وغیرہ نہیں کرتے تھے)لیکن جس چیز کو وہ حلال قرار دے دیتے حلال سمجھتے تھے اور جس کو حرام کہہ دیتے اس کو حرام سمجھتے تھے۔
(حجۃ اللہ البالغۃ:أحمد بن عبد الرحیم بن الشہید وجیہ الدینـ الشاہ ولی اللہ الدہلوی (ا:۲۶۶)
انتباہ: یہ آیت (اتخذو احبارھم ورھبانھم۔الخ)یہود و نصاریٰ کے بیان میں ہے کہ وہ اسلئے مشرک ٹھہرے کہ انہوں نے حلال اور حرام میں اپنے جوگیوں اورپادریوں کے اقوال کو معیار ٹھہرا لیا تھا اس اعتراض کا جواب اوپر بیان کی گئی شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالی کی عبارت میں ہی موجود ہے۔ حلال اور حرام کا تعلق افعال سے ہے کیونکہ یہ دونوں لفظ افعال میں استعمال کیے جاتے ہیں۔
مزید فرماتے ہیں کہ
فَإِن بلغنَا حَدِیث عَن الرَّسُول الْمَعْصُوم الَّذِی فرض اللہ علینا طَاعَتہ بِسَنَد صَالح یدل علی خلاف مذْہبہ، وَتَرکنَا حَدِیثہ،وَاتَّبَعنَا ذَلِک التخمین فَمن أظلم منا، وَمَا عذرنا یَوْم یقوم النَّاس لرب الْعَالمین.
ترجمہ: اگر ہمارے پاس اس رسول معصوم ﷺ کی حدیث قابل حجت سند کے ساتھ پہنچ جائے، جن کی اطاعت اللہ تعالیٰ نے ہم پر فرض کی ہے اور وہ حدیث ہمارے امام کے مذہب کے خلاف جاتی ہو اور ہم حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی حدیث کو چھوڑ کر اس ظن کی پیروی میں لگ جاہیں، تو ہم سے بڑا ظالم کون ہو گا اور جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے، اس دن ہمارا کیا عذر ہو گا؟
(حجۃ اللہ البالغۃ:أحمد بن عبد الرحیم بن الشہید وجیہ الدینـ الشاہ ولی اللہ الدہلوی (ا:۲۶۶
جب ہمیں یہ حکم ہے کہ حدیث شریف صحیح مل جائے تو ہم اپنے ائمہ کے قول کو ترک کردیں گے تو پھرقرآن وحدیث کے مقابلے میں ان لبرل کے اقوال بدتراز ابوال کی کیاوقعت ہے یاپھرغامدی وغیرہ جیسے اپنی طرف سے جو بھی کہتے رہیں اس کی کسی طرح کی کوئی قدرنہیں ہے۔
ان عبارات سے معلوم ہواکہ جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے فرمان شریف کے مقابلے میں کسی بھی امام کاقول ماننے والے کے لئے اتناوبال شدیدہے توپھرا س شخص کاکیاحال ہوگاجو دین دشمن اوربے دین حکمرانوں کی پیروی میں قرآن وحدیث کو پشت پیچھے چھوڑے ہوئے کھڑاہے۔
یہ عبارات فقہی مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف نہیں ہیں کہ کیونکہ ان کے نزدیک تو سب سے پہلے قرآن کریم کو دیکھاجاتاہے ، اس کے بعد حدیث شریف کو اورپھراس کے بعد اجماع صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ۔ اگران تینوں ماخذ وں میں دلیل نہ ملے تو پھرائمہ کرام کے اقوال دیکھے جاتے ہیں۔