تفسیرسورۃیوسف آیت ۳۔ نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ وَ اِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ

حضورتاجدارختم نبوتﷺکی طرف غفلت کی نسبت کرناکیسا؟

{نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ وَ اِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ }(۳)

ترجمہ کنزالایمان:ہم تمہیں سب سے اچھا بیان سناتے ہیں اس لیے کہ ہم نے تمہاری طرف اس قرآن کی وحی بھیجی اگرچہ بیشک اس سے پہلے تمہیں خبر نہ تھی۔

ترجمہ ضیاء الایمان: اے حبیب کریمﷺ!ہم نے آپ ﷺکی طرف اس قرآن کی وحی بھیجی اس کے ذریعے ہم آپﷺکے سامنے سب سے اچھا واقعہ بیان کرتے ہیں اگرچہ اس سے پہلے آپﷺ یقینا اس سے بے خبر تھے۔

احسن القصص فرمانے کی وجوہات؟

مَسْأَلَۃٌ:وَاخْتَلَفَ الْعُلَمَاء ُ لِمَ سُمِّیَتْ ہَذِہِ السُّورَۃُ أَحْسَنَ الْقَصَصِ مِنْ بَیْنِ سَائِرِ الْأَقَاصِیصِ؟ فَقِیلَ:لِأَنَّہُ لَیْسَتْ قِصَّۃٌ فِی الْقُرْآنِ تَتَضَمَّنُ مِنَ الْعِبَرِ وَالْحِکَمِ مَا تَتَضَمَّنُ ہَذِہِ الْقِصَّۃُ، وَبَیَانُہُ قَوْلُہُ فِی آخِرِہَا:لَقَدْ کانَ فِی قَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ لِأُولِی الْأَلْبابِ (یوسف:۱۱۱)وَقِیلَ:سَمَّاہَا أَحْسَنَ الْقَصَصِ لِحُسْنِ مُجَاوَزَۃِ یُوسُفَ عَنْ إِخْوَتِہِ، وَصَبْرِہِ عَلَی أَذَاہُمْ، وَعَفْوِہِ عَنْہُمْ بَعْدَ الِالْتِقَاء ِ بِہِمْ عَنْ ذِکْرِ مَا تَعَاطَوْہُ، وَکَرَمِہِ فِی الْعَفْوِ عَنْہُمْ، حَتَّی قَالَ:لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ (یوسف:۹۲)وَقِیلَ: لِأَنَّ فِیہَا ذِکْرَ الْأَنْبِیَاء ِ وَالصَّالِحِینَ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالشَّیَاطِینِ، وَالْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالْأَنْعَامِ وَالطَّیْرِ، وَسِیَرِ الْمُلُوکِ وَالْمَمَالِکِ، وَالتُّجَّارِ وَالْعُلَمَاء ِ وَالْجُہَّالِ، وَالرِّجَالِ وَالنِّسَاء ِ وَحِیَلِہِنَّ وَمَکْرِہِنَّ، وَفِیہَا ذِکْرُ التَّوْحِیدِ وَالْفِقْہِ وَالسِّیَرِ وَتَعْبِیرُ الرُّؤْیَا، وَالسِّیَاسَۃُ وَالْمُعَاشَرَۃُ وَتَدْبِیرُ الْمَعَاشِ، وَجُمَلُ الْفَوَائِدِ الَّتِی تَصْلُحُ لِلدِّینِ وَالدُّنْیَاوَقِیلَ لِأَنَّ فِیہَا ذِکْرَ الْحَبِیبِ وَالْمَحْبُوبِ وَسِیَرِہِمَاوَقِیلَ:أَحْسَنَ ہُنَا بِمَعْنَی أَعْجَبَ وَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْمَعَانِی:إِنَّمَا کَانَتْ أَحْسَنَ الْقَصَصِ لِأَنَّ کُلَّ مَنْ ذُکِرَ فِیہَا کَانَ مَآلُہُ السَّعَادَۃَ، انْظُرْ إِلَی یُوسُفَ وَأَبِیہِ وَإِخْوَتِہِ، وَامْرَأَۃِ الْعَزِیزِ، قِیلَ:وَالْمَلِکُ أَیْضًا أَسْلَمَ بِیُوسُفَ وَحَسُنَ إِسْلَامُہُ، وَمُسْتَعْبِرُ الرُّؤْیَا السَّاقِی، وَالشَّاہِدُ فِیمَا یُقَالُ:فَمَا کَانَ أَمْرُ الْجَمِیعِ إلا إلی خیر.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ علماء کرام کااس بات میں اختلاف ہے کہ اس سورت شریف کو ساری سورتوں سے احسن القصص کیوں فرمایاگیا؟
٭…اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ سارے قرآن کریم میں ایساکوئی قصہ نہیں جس میں اتنی عبرتیں اورحکمتیں ہوںجواس قصہ میں مذکورہیں۔
٭…اورایک قول یہ ہے کہ حضرت سیدنایوسف علیہ السلام کے اپنے بھائیوں کومعاف کرنے اوران سے درگزرکرنے اورآپ علیہ السلام کے ان کی اذیتوں پرصبرکرنے اوران کے آپ علیہ السلام کو کنویں میں لٹکانے اورآپ علیہ السلام کے ان کو معاف کرنے میں کرم کے حسن کی وجہ سے اللہ تعالی نے اس قصہ کو احسن القصص سے تعبیرفرمایاحتی کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا{لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ }
٭…اورایک قول یہ بھی ہے کہ اس سورت میں انبیاء کرام علیہم السلام کاذکرخیر، صالحین ، ملائکہ کرام علیہم السلام ، شیاطین ، جن ، انس ، جانور، پرندے، بادشاہوں کی سیرت ، مختلف ممالک ، تاجر، علماء ، جاہل ، مردوں ، عورتوں اوران کے حیلوںاورفریبوں کاذکرہے ۔
اوراس میں توحیدورسالت ، فقہ ، بین الاقوامی قانون ، خوابوں کی تعبیر، سیاست ، معاشرت ، تدبیرمعاش کا، اوران تمام فوائد کاذکرہے جو دین ودنیاکی اصلاح کرتے ہیں۔
٭…اورایک قول یہ ہے کیونکہ ا س میں حبیب ومحبوب اوران دونوں کی سیرت کاذکرہے ۔
٭…اورایک قول یہ ہے کہ یہاں احسن بمعنی اعجب ہے ۔
٭…اوربعض اہل معانی نے کہاہے کہ اس کو احسن القصص اس لئے کہاگیاہے کہ اس میں جس جس شخص کاذکرہے اس کاانجام کارسعادت ونیک بختی پرہواہے ۔حضرت سیدنایوسف علیہ السلام کودیکھیں ، آپ علیہ السلام کے والد ماجد حضرت سیدنایعقوب علیہ السلام کودیکھیں ۔اورآپ علیہ السلام کے بھائی اورعزیزمصراوراس کی بیوی کودیکھیں ۔
٭…اورایک قول یہ ہے کہ بادشاہ بھی حضرت سیدنایوسف علیہ السلام کی وجہ سے اسلام لایااوراس کااسلام عمدہ تھااورخوابوں کی تعبیرچاہنے والے اورگواہوں کامعاملہ بھی بھلائی پرمبنی تھا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۹:۱۱۹)

حضورتاجدارختم نبوتﷺکی طرف ’’غفلت ‘‘کی نسبت کرناکیسا؟

والتعبیر عن عدم العلم بالغفلۃ لاجلال شأنہ علیہ السلام کما فی الإرشاد فلیست ہی الغفلۃ المتعارفۃ بین الناس وللہ ان یخاطب حبیبہ بما شاء ألا تری الی قولہ ما کُنْتَ تَدْرِی مَا الْکِتابُ وَلَا الْإِیمانُ وقولہ وَوَجَدَکَ ضَالًّا ونحو ہما فان مثل ہذا التعبیر انما ہو بالنسبۃ الی اللہ تعالی وقد تعارفہ العرب من غیر ان یخطر ببالہم نقص ویجب علینا حسن الأداء فی مثل ہذا المقام رعایۃ للادب فی التعبیر وتقریرالکلام مع ان الزمان واہلہ قد مضی وانقضت الأیام والأنام اللہم اجعلنا فیمن ہدیتہم الی لطائف البیان ووفقتہم لما ہو الأدب فی کل أمر وشان انک أنت المنان۔

ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی: ۱۱۲۷ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے اس عدم علم کو غفلت سے تعبیرفرمایاتاکہ حبیب کریمﷺکی طرف لاعلمی کی نسبت نہ ہوایساہی الارشادمیں ہے ۔لیکن یہ بھی یادرہے کہ اس غفلت سے مراد وہ غفلت نہیں ہے جوعوام الناس میں متعارف ہے یاعام انسانوں کو لاحق ہوتی ہے ۔ یوں کہوکہ اس غفلت کواللہ تعالی جانے یاحضورتاجدارختم نبوتﷺجانیں۔ اللہ تعالی کی شان رفیع کے لائق ہے وہ جیسے چاہے اپنے حبیب کریم ﷺکویادفرمائے اوراس کی مثال دوسری آیت کریمہ ہے{ما کُنْتَ تَدْرِی مَا الْکِتابُ وَلَا الْإِیمانُ}(آپ ﷺکوکیاپتہ کہ علم ِ کتاب کیاہے اورایمان کیاہے)اورفرمایا{ وَوَجَدَکَ ضَالًّا }(اورہم نے آپﷺکواپنی محبت میں وارفتہ پایا)

اوراہل عرب کوبھی ایسے الفاظ سے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی طرف معمولی نقص ، عیب کاوہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔ ہم مسلمانوں پرواجب ہے کہ ہم ایسے مقامات پرایسے احسن طریقے سے الفاظ اداکریں جن سے ادب کاپہلونکلے۔ تحریروتقریرمیں ایسے الفاظ استعمال کریں کہ جن سے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے متعلق بے ادبی اورگستاخی کاشائبہ تک نہ ہو۔پھرحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے وصال شریف کو صدیاں گزرگئیں، ان حضرات کے سادہ الفاظ میں بھی ادب ومحبت کی خوشبوتھی آج سینکڑوں سال گزرنے پرادب وعقیدت اٹھ گئی لھذاسنبھل کرقدم رکھناضروری ہے ۔
یااللہ !ہمیں ان میں سے بناجنہیں تونے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی عظمت وشان بیان کرنے میں لطیف طریقہ بیان عطافرمایااورانہیں ہرامروشان میں ادب کی توفیق بخشی ۔ انک انت المنان۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۲۱۰)

یہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکاعظیم معجزہ ہے

اے لم تخطرببالک تلک القصۃ ولم تسمعہاقط ، بل کنت خالی الذہن منھاوھذامن معجزاتہ ﷺحیث یخبرعن لمتقدمین والمتاخرین۔

ترجمہ :امام احمدالصاوی المالکی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا: اے حبیب کریمﷺیہ قصہ پہلے آپﷺکے قلب اطہرمیں کھٹکابھی نہیں تھااورنہ ہی آپﷺنے کبھی اسے سناتھابلکہ آپﷺاس قصہ کے متعلق خالی الذہن تھے ۔حضورتاجدارختم نبوتﷺکا ایک معجزہ ہے کہ آپﷺ نے سب سے اچھے انداز اور بہترین طریقے سے گزشتہ اور آئندہ لوگوں کی خبر دی ہے۔
(حاشیۃ الصاوی علی الجلالین لامام احمدالصاوی ( ۳:۲۴۰)
ا س سے معلو م ہواکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکایہ قصہ بیان فرماناآپ ﷺکی نبوت ورسالت پربہت زبردست دلیل ہے کہ آپﷺوحی الہی سے صحیح صحیح واقعات بیان فرماتے ہیں جوآپﷺنے نہ ظاہری آنکھ سے دیکھے اورنہ ہی کسی سے سنے اورنہ کہیں پڑھے۔

ہمارے یوسف بھی حضورتاجدارختم نبوتﷺہیں

یقول الفقیر لا یبعد ان یقال ان قصۃ یوسف احسن الأقاصیص السالفۃ فی سورۃ ہود فی باب تسلیۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم وفی نفسہا ایضا إذ ما یتعلق بالمحبوب محبوب وما ینبء عن الأحسن احسن کما قال المولی الجامی:
بس دلکش است قصہ خوبان وزان میان … تو یوسفی وقصہ تو احسن القصص
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی: ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس قصہ کو احسن القصص کہنے کی وجہ سورہ ہودکے قصے ہیںاوراس سے حضورتاجدارختم نبوتﷺکوتسلی دینامقصودہے۔ خود بھی اس قصہ میں محبت کی باتیں ہیں اورقاعدہ ہے کہ جوچیز محبوب ہوتی ہے اس کے متعلقات بھی محبوب ہوتے ہیںاورجوچیز فی نفسہ احسن ہوتی ہے اس کی خبریں بھی احسن ہی ہوتی ہیں۔

مولاناجامی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :
بس دلکش است قصہ خوبان وزان میان … تو یوسفی وقصہ تو احسن القصص
ترجمہ :محبوبوں کاقصہ بہت خوب ، لیکن اے حبیب کریمﷺہمارے تویوسف بھی آپ ﷺہیں اورہمارے لئے احسن القصص بھی آپ ﷺکاہی قصہ ہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۲۱۰)

کیونکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکافرمان عالی شان ہے کہ سورہ ہود اوراس جیسی سورتوں نے مجھے بوڑھاکردیاہے تواللہ تعالی نے حبیب کریمﷺکی تسلی کے لئے سورہ یوسف نازل فرماکراس میں حضرت سیدنایوسف علیہ السلام کاقصہ بیان فرمایااوراپنے حبیب کریمﷺکوتسلی دی ۔ سبحان اللہ !کیاشان ہے کہ حبیب کریم ﷺغمگین ہوں تورب تعالی اپنے حبیب کریم ﷺکوتسلی دینے کے لئے اتنالمباقصہ بیان فرماتاہے۔

جوبھی غمگین شخص سنے اس کاغم دورہوجائے گا

وَقَالَ ابْنُ عَطَاء ٍ:لَا یَسْمَعُ سُورَۃَ یُوسُفَ مَحْزُونٌ إِلَّا اسْتَرَاحَ إِلَیْہَا.
ترجمہ :امام ابن عطاء رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جوبھی شخص جوغم میں مبتلاء ہووہ سورہ یوسف سنے تواس کاغم دورہوجائے گا۔
(تفسیر البغوی:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی (۴:۲۰۹)

اس سے معلو م ہواکہ اللہ تعالی نے جو سورت اپنے حبیب کریم ﷺکی تسلی کے لئے نازل فرمائی اسی سورت میں حبیب کریم ﷺکی امت کے غم دورکرنے کابھی سامان رکھ دیاہے۔ اس سے وہ لوگ بھی عبرت پکڑیں جو پریشانی کی حالت میں فلمیں ڈرامیں دیکھتے ہیں ان کوبھی چاہئے کہ اگروہ اپناغم دورکرناچاہتے توقرآن کریم کے ساتھ اپنے آپ کومانوس کریں۔

Leave a Reply