حضرت سیدنایوسف علیہ السلام اورمسئلہ ناموس رسالت
{فَلَمَّا ذَہَبُوْا بِہٖ وَاَجْمَعُوْٓا اَنْ یَّجْعَلُوْہُ فِیْ غَیٰبَتِ الْجُبِّ وَاَوْحَیْنَآ اِلَیْہِ لَتُنَبِّئَنَّہُمْ بِاَمْرِہِمْ ہٰذَا وَہُمْ لَایَشْعُرُوْنَ }(۱۵)
ترجمہ کنزالایمان:پھر جب اسے لے گئے اور سب کی رائے یہی ٹھہری کہ اسے اندھے کنویں میں ڈال دیں اور ہم نے اسے وحی بھیجی کہ ضرور تو انہیں ان کا یہ کام جتادے گا ایسے وقت کہ وہ نہ جانتے ہوں گے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:پھر جب وہ یوسف علیہ السلام کو لے گئے اور سب نے اتفاق کرلیا کہ انہیں تاریک کنویں میں ڈال دیں اور ہم نے انہیں وحی بھیجی کہ آپ ضرور انہیں ان کی یہ حرکت یاد دلائیں گے اور اس وقت وہ جانتے نہ ہوں گے۔
حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام اور ناموس رسالت کادفاع
ذَکَرَہُ السُّدِّیُّ وَغَیْرُہُ أَنَّ إِخْوَتَہُ لَمَّا جَعَلُوا یُدَلُّونَہُ فِی الْبِئْرِ، تَعَلَّقَ بِشَفِیرِ الْبِئْرِ، فَرَبَطُوا یَدَیْہِ وَنَزَعُوا قَمِیصَہُ، فَقَالَ:یَا إِخْوَتاہُ!رُدُّوا عَلَیَّ قَمِیصِی أَتَوَارَی بِہِ فِی ہَذَا الْجُبِّ، فَإِنْ مُتُّ کَانَ کَفَنِی، وَإِنْ عِشْتُ أُوَارِی بِہِ عَوْرَتِی، فَقَالُوا:ادْعُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالْأَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا فَلْتُؤْنِسْکَ وَتَکْسُکَ، فَقَالَ:إِنِّی لَمْ أَرَ شَیْئًا، فَدَلَّوْہُ فِی الْبِئْرِ حَتَّی إِذَا بَلَغَ نِصْفَہَا أَلْقَوْہُ إِرَادَۃَ أَنْ یَسْقُطَ فَیَمُوتُ، فَکَانَ فِی الْبِئْرِ مَاء ٌ فَسَقَطَ فِیہِ، ثُمَّ آوَی إِلَی صَخْرَۃٍ فَقَامَ عَلَیْہَاوَقِیلَ:إِنَّ شَمْعُونَ ہُوَ الَّذِی قَطَعَ الْحَبْلَ إِرَادَۃَ أَنْ یَتَفَتَّتَ عَلَی الصَّخْرَۃِ، وَکَانَ جِبْرِیلُ تَحْتَ سَاقَ الْعَرْشِ، فَأَوْحَی اللَّہُ إِلَیْہِ أَنْ أَدْرِکْ عَبْدِی، قَالَ جِبْرِیلُ:فَأَسْرَعْتُ وَہَبَطْتُ حَتَّی عَارَضْتُہُ بَیْنَ الرَّمْیِ وَالْوُقُوعِ فَأَقْعَدْتُہُ عَلَی الصَّخْرَۃِ سَالِمًاوَکَانَ ذَلِکَ الْجُبُّ مَأْوَی الْہَوَامِّ، فَقَامَ عَلَی الصَّخْرَۃِ وَجَعَلَ یَبْکِی، فَنَادَوْہُ، فَظَنَّ أَنَّہَا رَحْمَۃٌ عَلَیْہِ أَدْرَکَتْہُمْ، فَأَجَابَہُمْ، فَأَرَادُوا أَنْ یَرْضَخُوہُ بِالصَّخْرَۃِ فَمَنَعَہُمْ یَہُوذَا، وَکَانَ یَہُوذَا یَأْتِیہِ بِالطَّعَامِ، فَلَمَّا وَقَعَ عُرْیَانًا نَزَلَ جِبْرِیلُ إِلَیْہِ،وَکَانَ إِبْرَاہِیمُ حِینَ أُلْقِیَ فِی النَّارِ عُرْیَانًا أَتَاہُ جِبْرِیلُ بِقَمِیصٍ مِنْ حَرِیرِ الْجَنَّۃِ فَأَلْبَسُہُ إِیَّاہُ، فَکَانَ ذَلِکَ عِنْدَ إِبْرَاہِیمَ، ثُمَّ وَرِثَہُ إِسْحَاقُ، ثُمَّ وَرِثَہُ یَعْقُوبُ، فَلَمَّا شَبَّ یُوسُفَ جَعَلَ یَعْقُوبُ ذَلِکَ الْقَمِیصَ فِی تَعْوِیذَۃٍ وَجَعَلَہُ فِی عُنُقِہِ، فَکَانَ لَا یُفَارِقُہُ، فَلَمَّا أُلْقِیَ فِی الْجُبِّ عُرْیَانًا أَخْرَجَ جِبْرِیلُ دلک الْقَمِیصَ فَأَلْبَسُہُ إِیَّاہُ قَالَ وَہْبٌ:فَلَمَّا قَامَ عَلَی الصَّخْرَۃِ قَالَ:یَا إِخْوَتاہُ إِنَّ لِکُلِّ مَیِّتٍ وَصِیَّۃٍ، فَاسْمَعُوا وَصِیَّتِی،قَالُوا:وَمَا ہِیَ؟ قَالَ:إِذَا اجْتَمَعْتُمْ کُلُّکُمْ فَأَنِسَ بَعْضُکُمْ بَعْضًا فَاذْکُرُوا وَحْشَتِی، وَإِذَا أَکَلْتُمْ فَاذْکُرُوا جُوعِی، وَإِذَا شَرِبْتُمْ فَاذْکُرُوا عَطَشِی، وَإِذَا رَأَیْتُمْ غَرِیبًا فَاذْکُرُوا غُرْبَتِی، وَإِذَا رَأَیْتُمْ شَابًّا فَاذْکُرُوا شَبَابِی، فَقَالَ لَہُ جِبْرِیلُ: یَا یُوسُفُ کُفَّ عَنْ ہَذَا واشتغل بالدعاء ، فإن الدعاء عند اللہ بِمَکَانٍ، ثُمَّ عَلَّمَہُ فَقَالَ:قُلِ اللَّہُمَّ یَا مُؤْنِسَ کُلِّ غَرِیبٍ، وَیَا صَاحِبَ کُلِّ وَحِیدٍ، وَیَا مَلْجَأَ کُلِّ خَائِفٍ، وَیَا کَاشِفَ کُلِّ کُرْبَۃٍ، وَیَا عَالِمَ کُلِّ نَجْوَی، وَیَا مُنْتَہَی کُلِّ شَکْوَی، وَیَا حَاضِرَ کُلِّ مَلَأٍ، یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ! أَسْأَلُکَ أَنْ تَقْذِفَ رَجَاء َکَ فِی قَلْبِی، حَتَّی لَا یَکُونُ لِی ہَمٌّ وَلَا شُغْلٌ غَیْرَکَ، وَأَنْ تَجْعَلَ لِی مِنْ أمری فرجا ومخرجا، إنک علی کل شی قَدِیرٌ، فَقَالَتِ الْمَلَائِکَۃُ:إِلَہَنَا! نَسْمَعُ صَوْتًا وَدُعَاء ً، الصَّوْتُ صَوْتُ صَبِیٍّ، وَالدُّعَاء ُ دُعَاء ُ نَبِیٍّ۔
ترجمہ :امام السدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب حضرت سیدنایوسف علیہ السلام کو گہرے کنویں میں ڈالاگیا، جب آپ علیہ السلام کے بھائیوں نے آپ کوکنویں میں لٹکادیاتوآپ علیہ السلام کنویں کی منڈیرکے ساتھ چمٹ گئے ، توانہوںنے آپ علیہ السلام کے ہاتھ باندھ دیئے اورآپ علیہ السلام کی قمیص اتاردی توآپ علیہ السلام نے فرمایا: اے میرے بھائیو!مجھے میری قمیص واپس کردوتاکہ اس کنویں میں اس کے ذریعے چھپ جائوں ، پس اگرمیں فوت ہوگیاتویہی میراکفن ہوگی اوراورمیں زندہ رہاتواس کوپہن لوںگاتوانہوںنے کہاسورج ، چانداورگیارہ ستاروں کو بلاوہ تمھارے سرکوڈھانپیں اورتجھے کپڑے پہنائیں ، آپ علیہ السلام نے فرمایاکہ میںنے کسی چیز کو نہیں دیکھا، پس انہوں نے آپ علیہ السلام کوکنویں میں لٹکادیایہاں تک کہ آپ علیہ السلام کنویں کی نصف تک پہنچ گئے، توانہوںنے آپ علیہ السلا م کو اس ارداہ کے ساتھ پھینک دیاکہ آپ گریں گے اورمرجائیں گے (نعوذباللہ من ذلک )۔ کنویں میں پانی تھا، آپ علیہ السلام اس میں گرے ، پھرآپ علیہ السلام نے ایک چٹان کی پناہ لی اوراس پرکھڑے ہوگئے ، ایک قول یہ ہے کہ شمعون نے اس کو چاہتے ہوئے کاٹاکہ آپ علیہ السلام کو چٹان پرٹکڑے ٹکڑے کردے ، جبکہ جبریل امین علیہ السلام اس وقت ساق عرش کے نیچے تھے ۔ پس اللہ تعالی نے حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ میرے بندے یوسف ( علیہ السلام) تک پہنچو!جبریل امین علیہ السلام نے فرمایا: میں نے بہت زیادہ جلدی کی اورزمین پراترایہاں تک کہ میں رسی اورحضرت سیدنایوسف علیہ السلام کے کنویں کے وقوع کے درمیان حائل ہوگیااورمیں نے آپ علیہ السلام کو صحیح سلامت چٹان پربٹھادیا، وہ کنواں شیروں کی پناہ گاہ تھا، آپ علیہ السلام چٹان پرکھڑے ہوئے اوررونے لگے توانہوںنے آپ علیہ السلام کو آواز دی ، آپ علیہ السلام نے حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام کی مبارک آواز کو اپنے اوپرایسی رحمت سمجھا، جس نے انہیں بھائیوں کوپکڑلیاہے توآپ علیہ السلام نے انہیں جواب دیا، انہوںنے آپ علیہ السلام کو چٹان سے گراناچاہامگریہوذانے انہیں روکا، یہوذاآپ علیہ السلام کے پاس کھانالایاکرتاتھا، جب آپ علیہ السلام کی قمیص اتارلی گئی توحضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام آپ علیہ السلام کے پاس پہنچے ۔
جب حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کی قمیص مبارک اتاکرآپ علیہ السلام کو آگ میں ڈالاگیاتواس وقت حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام ریشم کی ایک قمیص لے کرآئے اوروہ حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کو پہنادی، وہ قمیص حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کے پاس تھی ، پھرحضرت سیدنااسحاق علیہ السلام اس کے وارث بنے ، پھرحضرت سیدنایعقوب علیہ السلام اس کے وارث بنے ۔ جب حضرت سیدنایوسف علیہ السلام بڑے ہوئے توحضرت سیدنایعقوب علیہ السلام نے اس قمیص کو ایک تعویذمیں ڈال کرآپ علیہ السلام کے گلے میں ڈال دیا، حضرت یوسف علیہ السلام اس تعویزکو اپنے سے جدانہیں کرتے تھے۔جب آپ علیہ السلام کی قمیص اتارکرآپ علیہ السلام کو کنویں میں ڈالاگیاتوحضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام نے وہ قمیص اس تعویذسے نکال کرآپ علیہ السلام کو پہنادی۔
امام وہب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب حضرت سیدنایوسف علیہ السلام چٹان پرکھڑے ہوئے توآپ علیہ السلام نے کہا: اے بھائیو!ہرمیت کی کوئی نہ کوئی وصیت ہوتی ہے ، میری وصیت کو سنو!انہوںنے کہاکہ وہ کیاہے ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایاکہ جب تم سب جمع ہوکرایک دوسرے سے مانوس ہورہے ہوگے تومیری غربت کویادکرنااورجب تم کسی نوجوان کودیکھوگے تومیری جوانی کویادکرنا، حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام نے کہا: اے یوسف !اس وصیت کو چھوڑواوراللہ تعالی کی بارگاہ میں مشغول ہوجائو۔ دعاکااللہ تعالی کے ہاں بڑامقام ہے ۔ پھرحضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام نے آپ علیہ السلام کو دعابتائی توآپ علیہ السلام نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کی: اے اللہ !اے ہراجنبی کے مونس !اے ہرتنہاکے ساتھی ، اے ہرخوفزدہ کے ملجاء ، اے ہرمصیبت کو دورکرنے والے ، اے ہرسرگوشی کوجاننے والے اے ہرشکوہ کی انتہاء!اوراے اجتماع کے حاضر!اے زندہ !اے زندہ رکھنے والے!میں تجھ سے سوال کرتاہوں کہ اپنی امیدمیرے دل میں ڈال دے یہاں تک کہ میرے نزدیک تیرے سوانہ کوئی غم ہواورنہ ہی کوئی مصروفیت رہے اورمیرے لئے میرے معاملے میں وسعت اورنکلنے کی راہ پیدافرمادے ، بے شک توہرچیز پرقادرہے ، فرشتوں نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کی: اے اللہ !ہم آوز اوردعاسنتے ہیں ، آواز بچے کی ہے اوردعاتیرے نبی کی ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۹:۱۴۳)
حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام نے حضرت سیدنایوسف علیہ السلام کو دعاسکھلائی
وَقَالَ الضَّحَّاکُ:نَزَلَ جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ عَلَی یُوسُفَ وَہُوَ فِی الْجُبِّ فَقَالَ لَہُ:أَلَا أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ إِذَا أَنْتَ قُلْتَہُنَّ عَجَّلَ اللَّہُ لَکَ خُرُوجَکَ مِنْ ہَذَا الْجُبِّ؟ فَقَالَ:نَعَمْ فَقَالَ لَہُ:قُلْ یَا صَانِعَ کُلِّ مَصْنُوعٍ، وَیَا جَابِرَ کُلِّ کَسِیرٍ، وَیَا شَاہِدَ کُلِّ نَجْوَی، وَیَا حَاضِرَ کُلِّ مَلَأٍ، وَیَا مُفَرِّجَ کُلِّ کُرْبَۃٍ، وَیَا صَاحِبَ کُلِّ غَرِیبٍ، وَیَا مُؤْنِسَ کُلِّ وَحِیدٍ، ایتِنِی بِالْفَرَجِ وَالرَّجَاء ِ، وَاقْذِفْ رَجَاء َکَ فِی قَلْبِی حَتَّی لَا أَرْجُو أَحَدًا سِوَاکَ، فَرَدَّدَہَا یُوسُفُ فِی لَیْلَتِہِ مِرَارًا، فَأَخْرَجَہُ اللَّہُ فی صبیحۃ یومہ ذلک من الجب.
ترجمہ :امام الضحاک رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام حضرت سیدنایوسف علیہ السلام کے پاس اس حال میں اترے کہ آپ علیہ السلام گہرے کنویں میں تھے ،حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام نے کہا: کیامیں آپ کو ایسے کلمات نہ سکھائوںکہ جن کو آگرآپ پڑھیں تواللہ تعالی آپ کوجلدی اس کنویں سے نکال دے ؟آپ علیہ السلام نے فرمایا:ہاں ۔ توجبریل امین علیہ السلام نے یہ دعاتلقین کی { یَا صَانِعَ کُلِّ مَصْنُوعٍ، وَیَا جَابِرَ کُلِّ کَسِیرٍ، وَیَا شَاہِدَ کُلِّ نَجْوَی، وَیَا حَاضِرَ کُلِّ مَلَأٍ، وَیَا مُفَرِّجَ کُلِّ کُرْبَۃٍ، وَیَا صَاحِبَ کُلِّ غَرِیبٍ، وَیَا مُؤْنِسَ کُلِّ وَحِیدٍ، ایتِنِی بِالْفَرَجِ وَالرَّجَاء ِ، وَاقْذِفْ رَجَاء َکَ فِی قَلْبِی حَتَّی لَا أَرْجُو أَحَدًا سِوَاکَ، فَرَدَّدَہَا}اے ہرمصنوع کوبنانے والے !اے ہرٹوٹی ہوئی چیز کو درست کرنے والے !اے ہرراز کے شاہد!اے ہراجتماع کے حاضر!اے ہرمصیبت کودورکرنے والے !اے ہراجنبی کے دوست!اوراے ہرتنہاء کے مونس!میرے لئے کشادگی اورامیدکولااوراپنی امیدمیرے دل میں ڈال دے ،یہاں تک کہ میں تیرے سواکسی سے کوئی بھی امیدنہ رکھوں۔ حضرت سیدنایوسف علیہ السلام نے اس دعاکواس رات بارباردہرایاتواللہ تعالی نے اس دن صبح آپ علیہ السلام کو اس کنویں سے نجات دے دی۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۹:۱۴۳)
آپ علیہ السلام کاادب کرنے والے موذی سانپ اورگستاخی کرنے والے کاانجام
وروی ان ہوام البئر قال بعضہا لبعض لا تخرجن من مساکنکن فان نبیا ممن الأنبیاء نزل بساحتکن فانجحرن الا الأفعی فانہا قصدت یوسف فصاح بہا جبریل فصمت وبقی الصمم فی نسلہا۔
ترجمہ:اورروایت کیاگیاہے کہ جب حضرت سیدنایوسف علیہ السلام کنویں میں تشریف لے گئے توکنویں کے تمام موذی سانپوں نے آپس میں مشورہ کیاکہ گھروں سے مت نکلوتاکہ اللہ تعالی کے نبی علیہ السلام کوہماری وجہ سے پریشان نہ ہوں اورحضرت سیدنایوسف علیہ السلام کو ڈرانے کے لئے اژدہانے اپنے سراخ سے باہرنکلنے کاارادہ کیاتوحضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام نے ایسی چیخ ماری کہ قیامت تک یہ اوراس کی ساری نسل بہری ہوگئی ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۲۲۴)
ا س سے معلوم ہواکہ موذی جانور بھی اللہ تعالی کے انبیا ء کرام علیہم السلام کاحیاء کرتے ہیں اورایک یہ لبرل وسیکولر بے دین لوگ ہیں جوبات بات پرحضورتاجدارختم نبوتﷺکی شان اقدس میں گستاخیاں کرتے نظرآتے ہیں۔
کنویں کی دیواروں کاحضر ت سیدنایوسف علیہ السلام کی جدائی میں رونا
در معالم آوردہ کہ دیوارہای چاہ بر فراق یوسف بگریستند) وذلک لان للجمادات حیاۃ حقانیۃ لا یعرفہا الا العلماء باللہ فلہا انس الذکر والتوحید والتسبیح ومجاورۃ اہل الحق وقد صح ان الجزع الذی کان یعتمد علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حین الموعظۃ للناس انّ انین بنی آدم لما فارقہ رسول اللہ وذلک بعد ان عمل لہ المنبر۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی: ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب حضرت سیدنایوسف علیہ السلام کنویں سے باہرجانے لگے توکنویں کی دیواریں حضرت سیدنایوسف علیہ السلام کے فراق میں رونے لگیں ۔
جمادات میں بھی حیات حقیقی ہوتی ہے جسے صرف عارف باللہ اولیاء اللہ ہی جانتے ہیں ، وہ ذکروتوحیدوتسبیح اوراہل حق کی صبحت سے انس حاصل کرتی ہیں ۔صحیح حدیث شریف میں ہے کہ جس ستون کے ساتھ حضورتاجدارختم نبوتﷺخطبہ کے وقت سہارالیکرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وعظ فرمایاکرتے جب آپ ﷺاسے چھوڑکرنئے منبرپروعظ فرمانے لگے تووہ ایسے دھاڑیں مارمارکررونے لگاجیسے بنی آدم کسی کی جدائی سے زورزورسے روتے ہیں۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۲۲۸)
تحفظ ناموس رسالت اورجانور
بچھوکاحضرت سیدنانوح علیہ السلام پردرودپڑھنے والے کاحیاء کرنا
عَن خَالِد رَضِی اللہ عَنہُ قَالَ:لما حمل نوح فِی السَّفِینَۃ مَا حمل جَاء َت الْعَقْرَب تحجل قَالَت: یَا نَبِی اللہ أدخلنی مَعَک قَالَ:لَا أَنْت تلدغین النَّاس وتؤذینہم قَالَ:لَا احملنی مَعَک فلک عَلیّ أَن لَا ألدغ من یُصَلِّی عَلَیْک اللَّیْلَۃ۔
ترجمہ :حضرت سیدناخالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت سیدنانوح علیہ السلام ان تمام کو کشتی میں سوارکرچکے جنہیں سوارکرناتھاتوبچھوایک پائوں پرچلتے ہوئے آیااورعرض کی: یارسول اللہ !مجھے بھی اپنے ساتھ داخل فرمالیں، آپ علیہ السلام نے فرمایا:نہیں ، میں تجھے کیسے داخل کروں کیوں کہ توتولوگوں کوڈس لیتاہے اوران کواذیت دیتاہے ۔ اس نے عرض کی : نہیں ۔ آپ علیہ السلام مجھے اپنے ساتھ سوارکرلیں اورآپ علیہ السلام کے ساتھ میرایہ وعدہ ہے کہ جورات کے وقت آپ علیہ السلام پردرودپڑھ لے گامیں اسے نہیں کاٹوں گا۔
(تاریخ دمشق:أبو القاسم علی بن الحسن بن ہبۃ اللہ المعروف بابن عساکر (۶۲:۲۵۷)
بچھوآج بھی درودپڑھنے والے کاحیاء کرتے ہیں
عَن أبی أُمَامَۃ رَضِی اللہ عَنہُ قَالَ:قَالَ رَسُول اللہ صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم من قَالَ حِین یُمْسِی:صلی اللہ علی نوح وعَلی نوح السَّلَام لم تلدغہ عقرب تِلْکَ اللَّیْلَۃ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: جس کسی نے شام کے وقت یہ کہا: {صلی اللہ علی نوح وعَلی نوح السَّلَام}تواس رات بچھواس کو نہیں کاٹے گا۔
(تاریخ دمشق:أبو القاسم علی بن الحسن بن ہبۃ اللہ المعروف بابن عساکر (۶۲:۲۵۶)
مینڈک کوناموس رسالت پرپہرہ کی وجہ ٹھنڈک نصیب ہوئی
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:أَمِّنُوا الضُّفْدَعَ؛ فَإِنَّ صَوْتَہُ الَّذِی تَسْمَعُونَ تَسْبِیحٌ، وَتَقْدِیسٌ، وَتَکْبِیرٌ، إِنَّ الْبَہَائِمَ اسْتَأْذَنَتْ رَبَّہَا فِی أَنْ تُطْفِئَ النَّارَ عَنْ إِبْرَاہِیمَ، فَأَذِنَ لِلضَّفَادِعِ فَتَرَاکَبَتْ عَلَیْہِ، فَأَبْدَلَہَا اللَّہُ بِحَرِّ النَّارِ الْمَاء َ۔
ترجمہ :حضرت سیدناانس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: مینڈک کوامن دو، اس کی آواز جوتم سنتے ہووہ اللہ تعالی کی تسبیح بیان کرتے ہیں اورتکبیرپڑھتے ہیں۔ بے شک تمام جانوروں نے اللہ تعالی سے حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کی آگ بجھانے کی اجازت مانگی تومینڈک کو اجازت مل گئی ، وہ اس آگ میں گھس گئیں ، اللہ تعالی نے ان کے لئے آگ کی گرمی کوپانی میں بدل دیا۔
(المصنف:أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (۴:۴۴۶)
بچھوپرحضورتاجدارختم نبوتﷺکالعنت فرمانا
عَنْ أَیُّوبَ، قَالَ:لَدَغَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَقْرَبٌ،فَنَفَضَ یَدَہُ، وَقَالَ:لَعَنَکِ اللَّہُ، إِنْ لَا تُبَالِینَ نَبِیًّا، وَلَا غَیْرَہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناایوب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ایک باربچھونے حضورتاجدارختم نبوتﷺکوڈس لیا، آپﷺنے اپنادست مبارک جھاڑااورفرمایا: اللہ تعالی کی لعنت ہواس پریہ نہ اللہ تعالی کے نبی علیہ السلام کاحیاء کرتاہے اورنہ ہی کسی اورکا۔
(الجامع:معمر بن أبی عمرو راشد الأزدی مولاہم، أبو عروۃ البصری، نزیل الیمن (۱۰:۴۳۶)
جس نے بچھوکومارااس نے کافرکومارا
عَنْ بَعْضِ الْکُوفِیِّینَ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ، قَالَ:مَنْ قَتَلَ حَیَّۃً فَکَأَنَّمَا قَتَلَ کَافِرًا، وَمَنْ قَتَلَ عَقْرَبًا، فَکَأَنَّمَا قَتَلَ کَافِرًا۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے سانپ کوقتل کیااس نے کافرکوقتل کیااورجس نے کسی بچھوکوقتل کیااس نے کافرکوقتل کیا۔
(الجامع:معمر بن أبی عمرو راشد الأزدی مولاہم، أبو عروۃ البصری، نزیل الیمن (۱۰:۴۳۶)
حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کی بے ادبی کی وجہ سے خچرمنقطع النسل بنا
وقد صح ان البغال کانت اسرع الدواب فی نقل الحطب لنار ابراہیم علیہ السلام ولذلک دعا علیہا فقطع اللہ نسلہاَ۔
ترجمہ :مروی ہے کہ حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ سلگائی گئی تولکڑیاں اٹھانے میں خچرپیش پیش تھا، اللہ تعالی نے اس کے لئے یہ سزامقررفرمائی کہ تاقیامت اس کی نسل ہی منقطع کردی ۔ گویااسے حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کی دعائے جلال نے بانجھ کردیا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۲۷)
کوے کے لئے دعائے جلال اورکبوترکے لئے دعائے رحمت کاسبب؟
حکی فی التفاسیر انہ لمارست السفینۃ علی الجودی کشف نوح الطبق الذی فیہ الطیر فبعث الغراب لینظر ہل غرقت البلاد کما فی حیاۃ الحیوان او کم بقی من الماء فیأتیہ بخبر الأرض کما فی تفسیر ابی اللیث فابصر جیفۃ فوقع علیہا واشتغل بہا فلم یرجع ولذا قالوا فی المثل ابطأ من غراب نوح ثم أرسل الحمامۃ فلم تجد موضعا فی الأرض فجاء ت بورق الزیتون فی منقارہا فعرف نوح ان الماء قد نقص وظہرت الأشجار ثم أرسلہا فوقعت علی الأرض فغابت رجلاہا فی الطین قدر حمرتہما فجاء ت الی نوح وارتہ فعرف ان الأرض قد ظہرت فبارک علی الحمامۃ وطوقہا الخضرۃ التی فی عنقہا ودعالہا بالأمان فمن ثم تألف البیوت ودعا علی الغراب بالخوف فلذلک لا یألف البیوت وتشاء م العرب بالغراب۔
ترجمہ :تفاسیرمیں ہے کہ حضرت سیدنانوح علیہ السلام نے جب کشتی کوجودی پہاڑ پرٹھہرایاتوآپ علیہ السلام نے کشتی کاوہ حصہ کھولاجہاں پرندے رہتے تھے ، آپ علیہ السلام نے کوے کوفرمایاکہ زمین کودیکھ کہ اس پرکتناپانی باقی ہے ؟ یاکتناشہرغرق ہوچکاہے ؟۔
کوے کوایک مردارملاوہ اسی کے کھانے میں مست ہوگیااورواپس نہ آیا، اسی سے عرب کی ایک مشہورکہاوت ہے {ابطاء من غراب }فلاں توکوے سے بھی زیادہ تاخیرکرتاہے۔ کیونکہ حضرت سیدنانوح علیہ السلام کوخشک اورسخت زمین کی ضرورت تھی ، اسی لئے اس کے دیرکرنے پرکبوترکوبھیجااسے زمین کاکوئی خطہ بھی نظرنہ آیا۔ اسی لئے زیتون کاایک پتہ لیکرحاضرہوا، اس سے حضرت سیدنانوح علیہ السلام نے اندازہ لگایاکہ پانی کم ہوگیاہے ، جس سے درخت ظاہرہوگئے ہیں لیکن ابھی بھی زیرآب ہیں۔ چنددن بعد پھراسی کبوترکوبھیجا، وہ زمین پرپہنچاتوزمین کی کیچڑمیں اس کے پائوں بھرگئے ، واپس آیاتوحضرت سیدنانوح علیہ السلام نے اسے دیکھ کراندازہ لگایاکہ اب پانی زمین میں جذب ہوگیالیکن زمین خشک نہیں ہوئی ، حضرت سیدنانوح علیہ السلام کبوترکی اس خدمت میں بہت خوش ہوئے اوراس کے گلے میں سبزہارپہنایا، آج وہی ہاراس کبوترکی خو ش بختی کی خبردیتاہے اورساتھ کبوترکے لئے حضرت سیدنانوح علیہ السلام نے امان اورسلامتی کی دعاکی ، یہی وجہ ہے کہ کبوترانسانی آبادی سے مانوس ہے اورکوے کے خلاف دعائے جلال کی کہ وہ خوف میں مبتلاء رہے ، یہی وجہ ہے کہ کواانسانی آبادی سے ہراساں رہتاہے ۔ اسی وجہ سے آج تک لوگ منحوس جانتے ہیں ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۱۴۲)
ایک بدکے ہوئے اونٹ کاحضورتاجدارختم نبوتﷺکی عزت وناموس کوپہچاننا
عَنْ حَفْصٍ،عَنْ عَمِّہِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ:کَانَ أَہْلُ بَیْتٍ مِنَ الْأَنْصَارِ لَہُمْ جَمَلٌ یَسْنُونَ عَلَیْہِ، وَإِنَّ الْجَمَلَ اسْتُصْعِبَ عَلَیْہِمْ، فَمَنَعَہُمْ ظَہْرَہُ، وَإِنَّ الْأَنْصَارَ جَاء ُوا إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا:إِنَّہُ کَانَ لَنَا جَمَلٌ نَسْنَی عَلَیْہِ، وَإِنَّہُ اسْتُصْعِبَ عَلَیْنَا، وَمَنَعَنَا ظَہْرَہُ، وَقَدْ عَطِشَ الزَّرْعُ وَالنَّخْلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِہِ:قُومُوا فَقَامُوا، فَدَخَلَ الْحَائِطَ وَالْجَمَلُ فِی نَاحِیَتِہِ، فَمَشَی النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَہُ، فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ:یَا رَسُولَ اللَّہِ، إِنَّہُ قَدْ صَارَ مِثْلَ الْکَلْبِ الْکَلِبِ،وَإِنَّا نَخَافُ عَلَیْکَ صَوْلَتَہُ، فَقَالَ:لَیْسَ عَلَیَّ مِنْہُ بَأْسٌ فَلَمَّا نَظَرَ الْجَمَلُ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ نَحْوَہُ، حَتَّی خَرَّ سَاجِدًا بَیْنَ یَدَیْہِ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَاصِیَتِہِ أَذَلَّ مَا کَانَتْ قَطُّ، حَتَّی أَدْخَلَہُ فِی الْعَمَلِ فَقَالَ لَہُ أَصْحَابُہُ:یَا نَبِیَّ اللَّہِ، ہَذِہِ بَہِیمَۃٌ لَا تَعْقِلُ تَسْجُدُ لَکَ وَنَحْنُ نَعْقِلُ، فَنَحْنُ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَکَ، فَقَالَ: لَا یَصْلُحُ لِبَشَرٍ أَنْ یَسْجُدَ لِبَشَرٍ، وَلَوْ صَلَحَ لِبَشَرٍ أَنْ یَسْجُدَ لِبَشَرٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَۃَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِہَا، مِنْ عِظَمِ حَقِّہِ عَلَیْہَا، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ، لَوْ کَانَ مِنْ قَدَمِہِ إِلَی مَفْرِقِ رَأْسِہِ قُرْحَۃٌ تَنْبَجِسُ بِالْقَیْحِ وَالصَّدِیدِ، ثُمَّ اسْتَقْبَلَتْہُ تَلْحَسُہُ مَا أَدَّتْ حَقَّہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انصارکاایک گھرانہ تھا، جن کے پاس پانی لانے والااونٹ تھا، ایک دن وہ اونٹ سخت بدک گیا، کسی کو اپنے اوپرسوارنہیں ہونے دیتاتھا، وہ لوگ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے پاس آکرکہنے لگے کہ ہماراایک اونٹ تھا، جس پرہم پانی بھرکرلایاکرتے تھے ، آج وہ اس قدربدکاہواہے کہ وہ کسی کو اپنے اوپرسوارہی نہیں ہونے دیتا۔کھیت اورباغات خشک پڑے ہوئے ہیں ، حضورتاجدارختم نبوتﷺنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایاکہ اٹھو!اورچل پڑے ، وہاں پہنچ کرباغ میں داخل ہوئے ۔ تودیکھاکہ وہ اونٹ ایک کونے میں ہے ، حضورتاجدارختم نبوتﷺاس کی طرف چل پڑے ۔ یہ دیکھ کرانصارعرض کرنے لگے : یارسول اللہﷺ!یہ تووحشی کتے کی طرح ہوگیاہے ، ہمیں خطرہ ہے کہ یہ کہیں آپﷺپرحملہ ہی نہ کردے ۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایاکہ مجھے اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، جب اونٹ نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکودیکھاتووہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے پاس آکرآپ ﷺکے سامنے سجدہ ریزہوگیا۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اسے اس کی پیشانی سے پکڑااوروہ پہلے سے بھی زیادہ فرمانبردارہوگیا۔حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اسے کام پرلگادیا، یہ دیکھ کرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم عرض گزارہوئے یارسول اللہ ﷺ!یہ ناسمجھ جاندارآپ ﷺکو سجدہ کرسکتے ہیںتوہم توپھرعقلمندہیں ، ہم آپﷺکوسجدہ کرنے کازیادہ حق رکھتے ہیں ۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایاکہ کسی انسان کے لئے دوسرے انسان کو سجدہ کرناجائز نہیں ہے ۔ اگرایساکرناجائز ہوتاتومیں عورت کو حکم دیتاکہ وہ اپنے شوہرکوسجدہ کرے کہ اس کاحق اس پرزیادہ ہے ۔ اس ذات کی قسم !جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگرمردکے پائوں سے لیکراس کے سرکی مانگ تک ساراجسم پھوڑابن جائے اورخون اورپیپ بہنے لگے اوربیوی آکراس کو چاٹنے لگے تب بھی اس کاحق ادانہیں کرسکتی۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۲۰:۶۴)
گائے کے پیٹ میں موجود بچے کاحضورتاجدارختم نبوتﷺکی نبوت شریفہ کااعلان کرنا
عَنْ مُجَاہِدٍ،قَالَ:حَدَّثَنَا شَیْخٌ، أَدْرَکَ الْجَاہِلِیَّۃَ، وَنَحْنُ فِی غَزْوَۃِ رُودِسَ، یُقَالُ لَہُ:ابْنُ عَبْسٍ، قَالَ:کُنْتُ أَسُوقُ لِآلٍ لَنَا بَقَرَۃً، قَالَ:فَسَمِعْتُ مِنْ جَوْفِہَا:یَا آلَ ذَرِیحْ، قَوْلٌ فَصِیحْ، رَجُلٌ یَصِیحْ:أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ قَالَ:فَقَدِمْنَا مَکَّۃَ، فَوَجَدْنَا النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ خَرَجَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابن عبس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے گھروالوں کی ایک گائے چرایاکرتاتھاکہ ایک دن میں نے اس کے پیٹ سے یہ آواز سنی کہ اے آل ذریح !ایک فصیح بات ایک شخص اعلان کرکے کہہ رہاہے کہ اللہ تعالی کے سواکوئی معبودنہیں ، اس کے بعد جب ہم مکہ مکرمہ پہنچے تومعلوم ہواکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اعلان نبوت کردیاہے۔
مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۲۴:۲۰۴)
حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاگستاخ کو مارنے کے لئے اسلحہ تیاررکھتی تھیں
حَدَّثَتْنِی سَائِبَۃُ، مَوْلَاۃٌ لِلْفَاکِہِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ، قَالَتْ:دَخَلْتُ عَلَی عَائِشَۃَ، فَرَأَیْتُ فِی بَیْتِہَا رُمْحًا مَوْضُوعًا، قُلْتُ:یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ، مَا تَصْنَعُونَ بِہَذَا الرُّمْحِ؟ قَالَتْ:ہَذَا لِہَذِہِ الْأَوْزَاغِ نَقْتُلُہُنَّ بِہِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَنَّ إِبْرَاہِیمَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃ وَالسَّلَامُ حِینَ أُلْقِیَ فِی النَّارِ لَمْ تَکُنْ فِی الْأَرْضِ دَابَّۃٌ إِلَّا تُطْفِئُ النَّارَ عَنْہُ، غَیْرَ الْوَزَغِ،کَانَ یَنْفُخُ عَلَیْہِ، فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِہِ۔
ترجمہ :حضرت سائبہ جوفاکہ بن المغیرہ کی باندی تھیں کہتی ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی خدمت اقدس میں حاضرہوئی ، ان کے گھرمیں ایک نیزہ رکھاہوادیکھامیںنے ان سے پوچھاکہ اے ام المومنین !آپ اس نیزے کاکیاکرتی ہیں؟ توآپ رضی اللہ عنہانے فرمایاکہ یہ ان چھپکلیوںکے لئے رکھاہواہے ، اس سے انہیں مارتی ہوں ، کیونکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ہم سے یہ حدیث شریف بیان فرمائی کہ جب حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالاگیاتوزمین میں کوئی جانورایسانہ تھاجوآگ کو بجھانہ رہاہو سوائے اس چھپکلی کے ، یہ اس میں پھونکیں مارہی تھی ۔ اس لئے حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ہمیں اس چھپکلی کو مارنے کاحکم دیا۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۴۱:۸۰)
بھیڑیئے کاناموس رسالت پرغیرت سے بھرپورکلام
رُوِیَ أَنَّ یَعْقُوبَ لَمَّا قَالُوا لَہُ:فَأَکَلَہُ الذِّئْبُ قَالَ لَہُمْ:أَلَمْ یَتْرُکِ الذِّئْبُ لَہُ عُضْوًا فَتَأْتُونِی بِہِ أَسْتَأْنِسُ بِہِ؟! أَلَمْ یَتْرُکْ لِی ثَوْبًا أَشُمُّ فِیہِ رَائِحَتَہُ؟ قَالُوا:بَلَی! ہَذَا قَمِیصُہُ مَلْطُوخٌ بِدَمِہِ، فَذَلِکَ قَوْلُہُ تعالی:وَجاؤُ عَلی قَمِیصِہِ بِدَمٍ کَذِبٍ فَبَکَی یَعْقُوبُ عِنْدَ ذَلِکَ وَقَالَ، لِبَنِیہِ:أَرُونِی قَمِیصَہُ، فَأَرَوْہُ فَشَمَّہُ وَقَبَّلَہُ، ثُمَّ جَعَلَ یُقَلِّبُہُ فَلَا یَرَی فِیہِ شَقًّا وَلَا تَمْزِیقًا، فَقَالَ:وَاللَّہِ الَّذِی لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ مَا رَأَیْتُ کَالْیَوْمِ ذِئْبًا أَحْکَمَ مِنْہُ، أَکَلَ ابْنِی وَاخْتَلَسَہُ مِنْ قَمِیصِہِ وَلَمْ یُمَزِّقْہُ عَلَیْہِ، وَعَلِمَ أَنَّ الْأَمْرَ لَیْسَ کَمَا قَالُوا، وَأَنَّ الذِّئْبَ لَمْ یَأْکُلْہُ، فَأَعْرَضَ عَنْہُمْ کَالْمُغْضَبِ بَاکِیًا حَزِینًا وَقَالَ: یَا مَعْشَرَ وَلَدِی! دُلُّونِی عَلَی وَلَدِی، فَإِنْ کَانَ حَیًّا رَدَدْتُہُ إِلَیَّ، وَإِنْ کَانَ مَیِّتًا کَفَّنْتُہُ وَدَفَنْتُہُ، فَقِیلَ قَالُوا حِینَئِذٍ:أَلَمْ تَرَوْا إِلَی أَبِینَا کَیْفَ یُکَذِّبُنَا فِی مَقَالَتِنَا!تَعَالَوْا نُخْرِجْہُ مِنَ الْجُبِّ وَنَقْطَعْہُ عُضْوًا عُضْوًا، وَنَأْتِ أَبَانَا بِأَحَدِ أعضائہ فیصدقنا فِی مَقَالَتِنَا وَیَقْطَعُ یَأْسَہُ،فَقَالَ یَہُوذَا:وَاللَّہِ لَئِنْ فَعَلْتُمْ لَأَکُونَنَّ لَکُمْ عَدُوًّا مَا بَقِیتُ، وَلَأُخْبِرَنَّ أَبَاکُمْ بِسُوء ِ صَنِیعِکُمْ، قَالُوا:فَإِذَا مَنَعْتِنَا مِنْ ہَذَا فَتَعَالَوْا نَصْطَدْ لَہُ ذِئْبًا، قَالَ:فَاصْطَادُوا ذِئْبًا وَلَطِّخُوہُ بِالدَّمِ،وَأَوْثِقُوہُ بِالْحِبَالِ، ثُمَّ جَاء ُوا بِہِ یَعْقُوبَ وَقَالُوا:یَا أَبَانَا!إِنَّ ہَذَا الذِّئْبَ الَّذِی یَحِلُّ بِأَغْنَامِنَا وَیَفْتَرِسُہَا،وَلَعَلَّہُ الَّذِی أَفْجَعَنَا بِأَخِینَا لَا نَشُکُّ فِیہِ، وَہَذَا دَمُہُ عَلَیْہِ، فَقَالَ یَعْقُوبُ:أَطْلِقُوہُ، فَأَطْلَقُوہُ، وَتَبَصْبَصَ لَہُ الذِّئْبُ،فَأَقْبَلَ یَدْنُو (مِنْہُ وَیَعْقُوبُ یَقُولُ لَہُ:ادْنُ ادْنُ، حَتَّی أَلْصَقَ خَدَّہُ بِخَدِّہِ فَقَالَ لَہُ یَعْقُوبُ:أَیُّہَا الذِّئْبُ!لِمَ فَجَعْتَنِی بِوَلَدِی وَأَوْرَثْتَنِی حُزْنًا طَوِیلًا؟!ثُمَّ قَالَ اللَّہُمَّ أَنْطِقْہُ، فَأَنْطَقَہُ اللَّہُ تَعَالَی فَقَالَ:وَالَّذِی اصْطَفَاکَ نَبِیًّا مَا أَکَلْتُ لَحْمَہُ،وَلَا مَزَّقْتُ جِلْدَہُ، ولا نتفت شعرۃ من شعراتہ،واللہ!مَا لِی بِوَلَدِکَ عَہْدٌ، وَإِنَّمَا أَنَا ذِئْبٌ غَرِیبٌ أَقْبَلْتُ مِنْ نَوَاحِی مِصْرَ فِی طَلَبِ أَخٍ لِی فُقِدَ، فَلَا أَدْرِی أَحَیٌّ ہُوَ أَمْ مَیِّتٌ، فَاصْطَادَنِی أَوْلَادُکَ وَأَوْثَقُونِی، وَإِنَّ لُحُومَ الْأَنْبِیَاء ِ حُرِّمَتْ عَلَیْنَا وَعَلَی جَمِیعِ الْوُحُوشِ، وَتَاللَّہِ!لَا أَقَمْتُ فِی بِلَادٍ یَکْذِبُ فِیہَا أَوْلَادُ الْأَنْبِیَاء ِ عَلَی الْوُحُوشِ، فَأَطْلَقَہُ یَعْقُوبُ وَقَالَ:وَاللَّہِ لَقَدْ أَتَیْتُمْ بِالْحُجَّۃِ عَلَی أَنْفُسِکُمْ، ہَذَا ذِئْبٌ بَہِیمٌ خَرَجَ یَتَّبِعُ ذِمَامَ أَخِیہِ، وَأَنْتُمْ ضَیَّعْتُمْ أخاکم، وقد علمت أن الذئب برء مما جئتم بہ۔
ترجمہ :جب حضرت سیدنایعقوب علیہ السلام نے کوا ن کے بیٹوں نے کہا{فَأَکَلَہُ الذِّئْبُ}آپ علیہ السلام نے فرمایاکہ بھیڑئے نے اس کاکوئی عضونہیں چھوڑا؟ وہ میرے پاس لے آئوتاکہ میں اس کے ذریعے انس حاصل کروں ، کیااس نے میرے لئے کوئی کپڑانہیں چھوڑاجس میں اس کی خوشبوسونگھو؟ انہوںنے کہاکہ کیوں نہیں ، یہ اس کی قمیص ہے ۔ جواس کے خون میں لت پت ہے ، یہی اللہ تعالی کاارشادہے {وَجاؤُ عَلی قَمِیصِہِ بِدَمٍ کَذِب}تواس وقت حضرت سیدنایعقوب علیہ السلام روئے اوراپنے بیٹوں کو فرمایا: اس کی قمیص مجھے دکھائو، انہوںنے قمیص دکھائی اورآپ علیہ السلام نے اسے سونگھااوراسے چوما، پھرآپ علیہ السلام اس کو الٹ پلٹ کرنے لگے تواس میں کوئی سرخ اورپھٹن دکھائی نہ دیا، توآپ علیہ السلام نے فرمایا: اس اللہ تعالی کی قسم !جس کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں ، میں نے ایک آج تک ایسامضبوط بھیڑیانہیں دیکھاجو میرے بیٹے کوکھاگیااوراس نے اسے قمیص سے ایسے نکال لیاہے کہ قمیص کو بالکل پھاڑاہی نہیں ، آپ علیہ السلام کو پتہ چل گیاکہ معاملہ اس طرح نہیں ہے جس طرح وہ بیان کررہے ہیں اوریہ معلو م ہوگیاکہ بھیڑئے نے اس کونہیں کھایا، آپ علیہ السلام نے ناراض شخص کی طرح ان سے اعراض فرمالیا، اس حال میں کہ آپ علیہ السلام پریشان بھی تھے اورروبھی رہے تھے اورکہاکہ اے میرے بیٹوں کی جماعت !میرے بیٹے کی طرف میری رہنمائی کرو!اگروہ زندہ ہواتواسے میں اپنے پاس لے آئوں گااوروہ اگروہ شہیدہوگیاہواتومیں اس کاکفن ودفن کروں گا۔ اس وقت انہوںنے کہاکہ ہمارے باپ کو دیکھوکہ کس طرح ہمارے کلام کوجھوٹاکہہ رہے ہیں، آئواسے کنویں سے نکالیں اوراس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں اوراپنے والد کے پاس اس کاکوئی عضولے آئیں تاکہ یہ ہماری گفتگوکی تصدیق کریں اوران کی امیدختم ہو۔ یہوذانے کہااللہ تعالی کی قسم !اگرتم نے ایساکیاتوجب تک میں زندہ رہوں گاتمھارادشمن بن جائوں گااورتمھارے باپ کوتمھاری بری کاروائی سے آگاہ کروں گا، انہوںنے کہااگرتوہمیں اس کام سے روکتاہے توآئوہم کسی بھیڑیئے کاشکارکریں ، اس نے کہاکہ انہوں نے بھیڑیئے کاشکارکیااوراسے خون میں لت پت کیااوررسیوں کے ساتھ باندھ دیا، پھرحضرت سیدنایعقوب علیہ السلام کے پاس آئے اورکہا: اے ہمارے والد!یہ وہ بھیڑیاہے جوہمارے ریوڑ کانقصان کرتاہے شایداس نے حضرت سیدنایوسف علیہ السلام کو کھالیاہے اورہمیں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس پراس کاخون بھی لگاہواہے ۔ حضرت سیدنایعقوب علیہ السلام نے فرمایاکہ اس کو چھوڑو، انہوںنے اسے چھوڑدیا،توبھیڑیاآپ علیہ السلام کی خاطراپنی دم ہلانے لگااورآپ علیہ السلام کے قریب ہونے لگا، حضرت سیدنایعقوب علیہ السلام نے اسے فرمایاکہ قریب آقریب آیہاں تک کہ وہ بہت زیادہ قریب ہوگیا۔ توحضرت سیدنایعقوب علیہ السلام نے فرمایاکہ اے بھیڑئیے تونے مجھے میرے بیٹے کی وجہ سے کیوں تکلیف پہنچائی اورمجھے لمبی پریشانی میں مبتلاء کردیا۔ پھرعرض کی: اے اللہ !اسے قوت گویائی عطافرما۔ تواللہ تعالی نے اسے قوت گویائی دے دی تواس نے کہاکہ اس ذات کی قسم !جس نے آپ علیہ السلام کو نبی بنایاہے ، نہ میں نے ان کاگوشت کھایاہے اورنہ ہی میں نے ان کے کپڑے پھاڑے ہیں اورنہ ہی میں نے ان کاکوئی بال بیکاکیاہے اوراللہ تعالی کی قسم !نہ ہی مجھے آپ علیہ السلام کے بیٹے کے بارے میں کوئی خبرہے ۔ میں توایک اجنبی بھیڑیاہوں مصرکے نواحی علاقے سے اپنے گم شدہ بھائی کی تلاش میں آیاہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یامرگیاہے ، پھرآپ علیہ السلام کے بیٹوں نے مجھے شکارکرکے باندھ دیاہے ۔ بے شک انبیاء کرام علیہم السلام کے گوشت مجھ پراورتمام وحشی جانوروں پرحرام ہیں اوراللہ تعالی کی قسم!میں ایسے شہرمیں نہیں رہتاجہاں انبیاء کرام علیہم السلام کی اولادیں جانوروں پرجھوٹے الزام لگائیںتوحضرت سیدنایعقوب علیہ السلام نے اسے چھوڑدیااورفرمایاکہ اللہ تعالی کی قسم ! تم تواپنے خلاف میرے پاس حجت لائے ہو،یہ بھیڑیاایک جانورہے جو اپنے بھائی کی تلاش میں اس کے پیچھے نکلاہواہے اورتم نے اپنے بھائی کو ضائع کردیاہے ، مجھے معلوم ہوگیاہے کہ بھیڑیااس الزام سے بری ہے ،جس میں پکڑکرتم اسے لائے ہو۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۹:۱۵۰)
بھیڑیئے کے اس قول (کہ میں ایسے شہرمیں نہیں رہ سکتاجہاں جانوروں پرگستاخی کے الزام لگائے جائیں )سے معلوم ہواکہ وہ بھیڑیابھی اتناغیرت والاہے کہ جہاں ان پرگستاخی کاالزام لگے تووہاں سے ہجرت کرجائیں مگرہمارے وہ مبلغین یورپ جوڈالروں کی خواہش میں لندن یاتراکرنے کے لئے جاتے ہیں اوروہاں حضورتاجدارختم نبوتﷺکی گستاخیاں سن کروہیں بیٹھے رہتے ہیں کاش کہ وہ بھی اس سے عبرت پکڑتے اورایسے ملک سے نکل جاتے جہاں حضورتاجدارختم نبوتﷺپرالزام لگائے جاتے ہیں اورقرآن کریم کودہشت گردی کی کتاب کہاجاتاہے۔
ایک ضروری تنبیہ : ہم پہلے تفصیلاًلکھ آئے ہیں کہ ایسے ممالک یاایسے شہروں میں اقامت رکھناحرام ہے جہاں انبیاء کرام علیہم السلام یاحضورتاجدارختم نبوتﷺکی گستاخی جاتی ہو۔اسے وہاں ملاحظہ فرمائیں۔
تنبیہ : اس موضوع پرمزید پڑھنے کے لئے ہماری کتاب’’ اذان حجاز ‘‘جدیدکامطالعہ فرمائیں ۔