تفسیرسورۃیوسف آیت ۱۱۰۔ حَتّٰٓی اِذَا اسْتَایْــَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوْا جَآء َہُمْ نَصْرُنَا

مسئلہ ناموس رسالت کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ کی وضاحت

{حَتّٰٓی اِذَا اسْتَایْــَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوْا جَآء َہُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّیَ مَنْ نَّشَآء ُ وَلَا یُرَدُّ بَاْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ}(۱۱۰)

ترجمہ کنزالایمان: یہاں تک کہ جب رسولوں کو ظاہری اسباب کی امید نہ رہی اور لوگ سمجھے کہ رسولوں نے ان سے غلط کہا تھا اس وقت ہماری مدد آئی تو جسے ہم نے چاہا بچالیا گیا اور ہمارا عذاب مجرم لوگوں سے پھیرا نہیں جاتا۔
ترجمہ ضیاء الایمان:یہاں تک کہ جب رسل کرام علیہم السلام کو ظاہری اسباب کی امید نہ رہی اور لوگ سمجھے کہ ان سے جھوٹ کہا گیا ہے تو اس وقت ان کے پاس ہماری مدد آگئی تو جسے ہم نے چاہا اسے بچالیا گیا اور ہمارا عذاب مجرم لوگوں سے پھیرا نہیں جاتا۔

اس آیت کریمہ میں کفارمکہ کو بتایاگیاہے کہ اگرعذاب آنے میں تاخیرہورہی ہے اورباوجود کفرکے تم کومہلت دی جارہی ہے تواس پردھوکہ نہ کھائو، کیونکہ امم سابقہ کوتواتنی طویل مہلتیں ملتی رہیں اوراصلاح کااتناموقع دیاگیاکہ انبیاء کرام علیہم السلام سوچنے لگے کہ شایدعذاب جلدی نہیں آئے گااوران کی قوم کے کافروں نے یقین کرلیاان انبیاء کرام علیہم السلام سے عذاب کے وعدہ میں کذب بیانی سے کام لیاگیاہے اورعذاب آنے والانہیں ، آخرکارہماری مددآپہنچی ، پھرہم نے جسے چاہاعذاب سے بچالیااورجب ہماراعذاب آئے پیچھے مجرموں سے واپس نہیں کیاجاتایعنی مہلت پردھوکہ نہ کھائو، پہلی امتوں کواس قدرمہلتیں ملتی رہیں یہاں تک کہ انبیاء کرام علیہم السلام کوان کے ایمان لانے کی کوئی امیدنہ رہی ، ادھرکافروں نے اس کایقین کرلیاکہ عذاب کاوعدہ سچانہ تھاتوعین اس وقت جب انبیاء کرام علیہم السلام یہ کہنے لگے کہ {متی نصراللہ}ہماری مددآپہنچی ، پھرہم نے جس کو چاہااس کو بچالیایعنی اہل اسلام کو نجات دے دی اورمجرموں پرعذاب آیاجونہیں ٹل سکتایادرہے کہ آثارواسباب کی وجہ سے اگرکبھی تھوڑی سی مایوسی ہووہ مذموم نہیں البتہ اللہ تعالی کی رحمتوں سے مایوس ہونامذموم ہے ۔

آیت کریمہ کاجومعنی اورمطلب بیان کیاگیاوہ انبیاء کرام علیہم السلام کی شان وعظمت کے مطابق بھی ہیں اوربے داغ اوربے غباربھی ہیں ، جس سے ہرطرح کے شکوک وشبہات ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائیں گے ، اس کی تفصیل یہ ہے کہ آیت کریمہ کایہ حصہ بڑاغورطلب ہے ۔رسل کرام علیہم السلام کے مایوس ہونے کامطلب کیاہے ؟ {ظنوا }کافاعل کون ہے ؟ {انھم }کامرجع کون ہے ؟ {قدکذبوا}کانائب فاعل کون ہے ؟ پہلی بات کاجواب تویہ ہے کہ جب انبیا ء کرام علیہم السلام نے اپنی اپنی قوموں کوتوحیدکی دعوت دی ، اس کی صداقت پردلائل وبراہین پیش کئے اورطرح طرح کے معجزات بھی دکھائے اوردعوت وارشادکایہ سلسلہ سال دوسال تک نہیں بلکہ عرصہ دارتک جاری وساری رہاتب بھی ان کے دل میںایمان کی شمع روشن نہیںہوئی توانبیاء کرام علیہم السلام ان کے ایمان سے مایوس ہوگئے {حَتَّیٰٓ إِذَا سْتَیْـَسَ لرُّسُلُ}۔

{ظنوا}کافاعل بعض مفسرین نے انبیاء کرام علیہم السلام کو بنایاہے اوراس کاترجمہ یہ کیاہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام نے یہ ظن کیاکہ ان کے ساتھ اللہ تعالی نے ان کی نصرت اورکفارپرعذاب نازل کرنے کاجووعدہ کیاتھاوہ ایفانہیں کیاگیالیکن اس طرح کاظن انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف منسوب کرناجائز نہیں ہے ، اس لئے انہوں نے ظن کے معنی میں تاویل کی اورکہاکہ اس سے مراد محض وہم وخیال ہے ، جس پرکوئی مواخذہ نہیں ہوتااورکبھی یہ کہاکہ اس ظن کی وجہ ان کااجتہادتھاوغیرہ ۔
لیکن درست اورصاف بات یہ ہے کہ {ظنوا}کافاعل کفارہیں ، یہ گمان کیاکہ یہ رسل کرام علیہم السلام جوہمیں ہرروز عذاب کے نزول سے ڈراتے ہیں وہ عذاب کہاں ہے ؟ ہم نے توان کی دعوت کوٹھکرانے میں اورانہیں اذیت پہنچانے میں کوئی کمی نہیں کی اوراگروہ عذاب آناہوتاتواب تک آچکاہوتا، عذاب کانہ آنااس بات کی دلیل ہے کہ انہوںنے ہم سے غلط بیانی سے کام لیاہے ، یاجس نے ان سے وعدہ کیاکہ میں ان پرعذاب اتاروں گااس نے وعدہ خلافی کی ہے ۔

’’قدکذبوا‘‘کی تشدیدکی ساتھ قرات کامعنی

وَأَمَّا قِرَاء َۃُ التَّشْدِیدِ فَفِیہَا وَجْہَانِ:الْأَوَّلُ:أَنَّ الظَّنَّ بِمَعْنَی الْیَقِینِ، أَیْ وَأَیْقَنُوا أَنَّ الْأُمَمَ کَذَّبُوہُمْ تَکْذِیبًا لَا یَصْدُرُ مِنْہُمُ الْإِیمَانُ بَعْدَ ذَلِکَ، فَحِینَئِذٍ دَعَوْا عَلَیْہِمْ فَہُنَالِکَ أنزل اللَّہ سبحانہ علیہم عذاب والاستئصال، وَوُرُودُ الظَّنِّ بِمَعْنَی الْعِلْمِ کَثِیرٌ فِی الْقُرْآنِ قال تعالی:الَّذِینَ یَظُنُّونَ أَنَّہُمْ مُلاقُوا رَبِّہِمْ (الْبَقَرَۃِ:۴۶)أَیْ یَتَیَقَّنُونَ ذَلِکَ وَالثَّانِی:أَنْ یَکُونَ الظَّنُّ بِمَعْنَی الْحُسْبَانِ وَالتَّقْدِیرُحَتَّی إِذَا اسْتَیْأَسَ الرُّسُلُ مِنْ إِیمَانِ قَوْمِہِمْ فَظَنَّ الرُّسُلُ أَنَّ الَّذِینَ آمَنُوا بِہِمْ کَذَّبُوہُمْ وَہَذَا التَّأْوِیلُ مَنْقُولٌ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہ عَنْہَا، وَہُوَ أَحْسَنُ الْوُجُوہِ الْمَذْکُورَۃِ فِی الْآیَۃِ، رُوِیَ أَنَّ ابْنَ أَبِی مُلَیْکَۃَ نُقِلَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہ عَنْہُمَا أَنَّہُ قَالَ:وَظَنَّ الرُّسُلُ أَنَّہُمْ کُذِبُوا، لِأَنَّہُمْ کَانُوا بَشَرًا أَلَا تَرَی إِلَی قَوْلِہِ:حَتَّی یَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَہُ مَتی نَصْرُ اللَّہِ (الْبَقَرَۃِ:۲۱۴)قَالَ فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِعَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہ عَنْہَا فأنکرتہ وقالت:ما وعد اللَّہ محمد صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئًا إِلَّا وَقَدْ عَلِمَ أَنَّہُ سَیُوَفِّیہِ وَلَکِنَّ الْبَلَاء َ لَمْ یَزَلْ بِالْأَنْبِیَاء ِ حَتَّی خَافُوا مِنْ أَنْ یُکَذِّبَہُمُ الَّذِینَ کَانُوا قَدْ آمَنُوا بِہِمْ وَہَذَا الرَّدُّ وَالتَّأْوِیلُ فِی غَایَۃِ الْحُسْنِ مِنْ عَائِشَۃَ۔وَأَمَّا قَوْلُہُ: جاء َہُمْ نَصْرُنا أَیْ لَمَّا بَلَغَ الْحَالُ إِلَی الْحَدِّ الْمَذْکُورِ جاء َہُمْ نَصْرُنا فَنُجِّیَ مَنْ نَشاء ُ۔

ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ شدکے ساتھ قرات کی دوصورتیں ہیں :
پہلی صورت : ظن کامعنی یقین یعنی رسول علیہ السلام نے یقین کیاکہ امتوں نے ان کی ایسی تکذیب کی ہے کہ اس کے بعد ان سے ایمان کاصدورنہیں ہوسکتا، اب ان رسل کرام علیہم السلام نے ان کے خلاف دعائے جلال کی ، جس پراللہ تعالی نے ان قوموںپر جڑکاٹنے والے عذاب نازل فرمایا۔ظن بمعنی علم ویقین ۔ قرآن کریم میں کثرت کے ساتھ آیاہے جیسے اللہ تعالی کافرمان شریف ہے {الَّذِینَ یَظُنُّونَ أَنَّہُمْ مُلاقُوا رَبِّہِمْ }جنہیں یقین ہے کہ انہوںنے اپنے رب تعالی سے ملناہے ۔
یعنی انہیں اپنے رب تعالی سے ملاقات کایقین تھا۔

دوسری صورت: ظن کامعنی گمان ہوتاہے ، اب بات یوں ہوگی حتی کہ رسل کرام علیہم السلام اپنی قوموں کے ایمان سے مایوس ہوگئے اوررسل کرام علیہم السلام نے یہ گمان کیاکہ جوان پرایمان لائے وہ ان کی تکذیب کردیں گے ، یہ تاویل حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاسے منقول ہے اوریہ تاویل اس آیت کریمہ کی بیان کردہ تمام تاویلات سے سب سے خوبصورت ہے ۔ منقول ہے کہ حضرت سیدناابن ابی ملیکہ نے حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے نقل کیاکہ رسل کرام علیہم السلام نے یہ گمان کیاکہ انہیں جھوٹاقراردیاجائے گاکیونکہ وہ بشرتھے ، کیاتم اللہ تعالی کے اس فرمان شریف کی طرف نہیں دیکھتے {حَتَّی یَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَہُ مَتی نَصْرُ اللَّہِ}یہاں تک کہہ اٹھے رسول علیہ السلام اوران کے ساتھ کے ایمان والے کہ کب آئے گی اللہ تعالی کی مدد؟ میں نے یہ بات حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاسے بیان کی توآپ رضی اللہ عنہانے اس کارد کرتے ہوئے فرمایاکہ اللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ جو بھی وعدہ کیاآپ ﷺکویقین تھاکہ اللہ تعالی اسے پورافرمائے گالیکن آزمائش ہمیشہ انبیاء کرام علیہم السلام پرآئی ہے حتی کہ وہ اس سے ڈرتے ہیں کہ وہ لوگ ان کی تکذیب نہ کرڈالیں جوان پرایمان لاچکے ہیں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی تاویل نہایت ہی خوبصورت ہے ۔{جاء َہُمْ نَصْرُنا }یعنی جب حالت اس حد تک پہنچ گئی {جاء َہُمْ نَصْرُنا فَنُجِّیَ مَنْ نَشاء ُ }اس وقت ہماری مددآئی توجسے ہم نے چاہابچالیا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۸:۵۲۱)

امام حکیم الترمذی رحمہ اللہ تعالی کی توجیہ

وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ الْحَکِیمُ:وَجْہُہُ عِنْدَنَا أَنَّ الرُّسُلَ کَانَتْ تَخَافُ بُعْدَ مَا وَعَدَ اللَّہُ النَّصْرَ، لَا مِنْ تُہْمَۃٍ لِوَعْدِ اللَّہِ، وَلَکِنْ لِتُہْمَۃِ النُّفُوسِ أَنْ تَکُونَ قَدْ أَحْدَثَتْ،حَدَثًا یَنْقُضُ ذَلِکَ الشَّرْطَ وَالْعَہْدَ الَّذِی عُہِدَ إِلَیْہِمْ، فَکَانَتْ إِذَا طَالَتْ (عَلَیْہِمُ)الْمُدَّۃُ دَخَلَہُمُ الْإِیَاسُ وَالظُّنُونُ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ۔

ترجمہ :امام حکیم الترمذی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک اسکی توجیہ یہ ہے کہ رسل کرام علیہم السلام اللہ تعالی کی مددکے وعدے کے بعد خوفزدہ ہوگئے تھے اوران کاخوف زدہ ہونااللہ تعالی کے وعدہ میں کمزری کی وجہ سے نہیں تھابلکہ ان کے دلوں کی کمزوری کی وجہ سے تھاکہ کہیں کوئی ایسی بات نہ ہوگئی ہوجس نے اس شرط اوروعدوں کوتوڑدیاہو۔جوان کے ساتھ کیاگیاتھاتوجب مدت طویل ہوگئی تواس بناء پرناامیدی اورگمان درآئے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۹:۲۷۶)

یعنی امام حکیم الترمذی رحمہ اللہ تعالی نے فرمایاکہ رسل کرام علیہم السلام کی ناامیدی اورگمان کی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ اللہ تعالی کے وعدہ کے بعد معاذاللہ انبیاء کرام علیہم السلام کویہ ڈرنہ تھاکہ اللہ تعالی کاوعدہ پورانہ ہوگااورنہ معاذ اللہ تعالی رسل کرام علیہم السلام کے حق تعالی کی طرف سے کوئی بدگمانی تھی بلکہ انبیاء کرام علیہم السلام کواپنے نفسوں کی طرف سے یہ گمان پیداہواکہ خدانخواستہ ہماری جانب سے کوئی ایسی بات توسرزدنہیں ہوگئی کہ جواس وعدہ کے منافی اورمناقض ہواوروعدہ خداوندی اس شرط کے ساتھ مشروط ہو۔ خدانخواستہ ہم سے توجہ نہ ہونے کی بناء پراس شرط کی خلاف ورزی نہ ہوگئی ، جب شرط پوری نہ ہوگی تواس وعدہ کاپوراہونابھی ضروری نہ ہوگا، جواس شرط کے ساتھ مشروط ہو، پس جب اللہ تعالی کے وعدہ کی مدت پوری ہوجاتی ہے توانبیاء کرام علیہم السلام کواس راہ سے یعنی نفس کی راہ سے اس طرح کاگمان پیداہوتاہے نہ کہ نعوذباللہ من ذلک وہ اللہ تعالی کی جانب سے بدگمان ہوتے ہیں۔

حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکابیان کردہ معنی

عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ لَہُ وَہُوَ یَسْأَلُہَا عَنْ قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی حَتَّی إِذَا اسْتَیْأَسَ الرُّسُلُ قَالَ قُلْتُ أَکُذِبُوا أَمْ کُذِّبُوا قَالَتْ عَائِشَۃُ کُذِّبُوا قُلْتُ فَقَدْ اسْتَیْقَنُوا أَنَّ قَوْمَہُمْ کَذَّبُوہُمْ فَمَا ہُوَ بِالظَّنِّ قَالَتْ أَجَلْ لَعَمْرِی لَقَدْ اسْتَیْقَنُوا بِذَلِکَ فَقُلْتُ لَہَا وَظَنُّوا أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوا قَالَتْ مَعَاذَ اللَّہِ لَمْ تَکُنْ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذَلِکَ بِرَبِّہَا قُلْتُ فَمَا ہَذِہِ الْآیَۃُ قَالَتْ ہُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ الَّذِینَ آمَنُوا بِرَبِّہِمْ وَصَدَّقُوہُمْ فَطَالَ عَلَیْہِمْ الْبَلَاء ُ وَاسْتَأْخَرَ عَنْہُمْ النَّصْرُ حَتَّی إِذَا اسْتَیْأَسَ الرُّسُلُ مِمَّنْ کَذَّبَہُمْ مِنْ قَوْمِہِمْ وَظَنَّتْ الرُّسُلُ أَنَّ أَتْبَاعَہُمْ قَدْ کَذَّبُوہُمْ جَاء َہُمْ نَصْرُ اللَّہِ عِنْدَ ذَلِکَ۔

ترجمہ :حضرت سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ان سے حضرت سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا جبکہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس آیت کے متعلق پوچھا:{حَتَّیٰٓ إِذَا سْتَیْـَسَ لرُّسُلُ}حضرت سیدناعروہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نے پوچھا تھا کہ آیت میں {کُذِّبُوا} (تخفیف کے ساتھ)ہے یا {کُذِّبُوا }(تشدید کے ساتھ ہے؟)حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا: {کُذِّبُوا} (تشدید کے ساتھ)ہے۔ اس پر میں نے کہا: انبیاء کرام علیہم السلام تو یقین کے ساتھ جانتے تھے کہ ان کی قوم انہیں جھٹلا رہی ہے، پھر{ ظَنُّوٓا }سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے فرمایا:ہاں، زندگی کی قسم! بلاشبہ انبیاء کرام علیہم السلام کو اس امر کا یقین تھا۔ میں نے کہا: {وَظَنُّوٓا أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوا} میں اگر{ کُذِبُوا }(تخفیف کے ساتھ)پڑھیں تو کیا قباحت ہے؟ انہوں نے فرمایا:معاذاللہ ! انبیاء کرام علیہم السلام اپنے رب کے متعلق ایسا گمان کیونکر کر سکتے ہیں؟ میں نے عرض کی:پھر اس آیت کا مطلب کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: انبیاء کرام علیہم السلام کو جن لوگوں نے مانا اور ان کی تصدیق کی اور اپنے رب پر ایمان لائے، جب ان پر مدت دراز تک آفت اور مصیبت آتی رہی اور اللہ تعالی کی مدد آنے میں تاخیر ہوئی اورا نبیاء کرام علیہم السلام ان لوگوں کے ایمان لانے سے مایوس ہو گئے جنہوں نے ان کی تکذیب کی تھی اور وہ گمان کرنے لگے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اب وہ بھی ہمیں جھوٹا خیال کرنے لگیں گے، اس وقت اللہ کی مدد آ پہنچی۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۶:۷۷)

امام الرازی المتوفی: ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی کاجواب

أَنْ یَکُونَ الْمَعْنَی أَنَّ الرُّسُلَ ظَنُّوا أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوا فِیمَا وُعِدُوا وَہَذَا التَّأْوِیلُ مَنْقُولٌ عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہ عَنْہُمَا قَالُوا:وَإِنَّمَا کَانَ الْأَمْرُ کَذَلِکَ لِأَجْلِ ضَعْفِ الْبَشَرِیَّۃِ إِلَّا أَنَّہُ بَعِیدٌ، لِأَنَّ الْمُؤْمِنَ لَا یَجُوزُ أَنْ یَظُنَّ باللَّہ الْکَذِبَ،بَلْ یَخْرُجُ بِذَلِکَ عَنِ الْإِیمَانِ فَکَیْفَ یَجُوزُ مِثْلُہُ عَلَی الرُّسُلِ۔
ترجمہ :کچھ مفسرین کی طرف سے اس آیت کریمہ کی غلط تفسیرکی گئی اس کاذکرکرنے کے بعد امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ کچھ مفسرین نے اس کامعنی یہ بیان کیاہے کہ رسل کرام علیہم السلام نے گمان کیاکہ ان سے وعدہ کی گئی چیزوں میں تکذیب کی گئی یہ تفسیرحضرت سیدناابن ابی ملیکہ نے حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے نقل کی ہے ، مفسرین نے اس پرکہاہے کہ معاملہ اس طرح اس لئے ہواکہ انبیاء کرام علیہم السلام کی بشریت میں ضعف پایاجاتاہے لیکن یہ بات بہت بعیدہے کہ کسی بھی مومن کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اللہ تعالی کے بارے میں کذب بیانی کرے بلکہ وہ ایساگمان کرنے سے ایمان سے خارج ہوجاتاہے توایسی بات رسل کرام علیہم السلام کے بارے میں کیسے مناسب ہوسکتی ہے ؟۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۸:۵۲۱)

حضرت سیدناسعید بن جبیررضی اللہ عنہ کی شاندارتاویل

حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ أَبِی حُرَّۃَ الْجَزْرِیُّ قَالَ:سَأَلَ فَتَی مِنْ قُرَیْشٍ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ فَقَالَ لَہُ:یَا أَبَا عَبْدِ اللَّہِ کَیْفَ ہَذَا الْحَرْفُ،فَإِنِّی إِذَا أتیت علیہ تمنیت أن لَا أَقْرَأُ ہَذِہِ السُّورَۃَ حَتَّی إِذَا اسْتَیْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوا؟ قَالَ:نَعَمْ حَتَّی إِذَا اسْتَیْأَسَ الرُّسُلُ مِنْ قَوْمِہِمْ أَنْ یصدقوہم، وظن المرسل إلیہم أن الرسل قد کُذِّبُوا، فَقَالَ الضَّحَّاکُ بْنُ مُزَاحِمٍ:مَا رَأَیْتُ کَالْیَوْمِ قَطُّ رَجُلًا یُدْعَی إِلَی عِلْمٍ فَیَتَلَکَّأُ، ولو رحلت إلی الیمن فی ہذہ کَانَ قَلِیلًاثُمَّ رَوَی ابْنُ جَرِیرٍ أَیْضًا مِنْ وَجْہٍ آخَرَ أَنَّ مُسْلِمَ بْنَ یَسَارٍ سَأَلَ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ عَنْ ذَلِکَ، فَأَجَابَہُ بِہَذَا الْجَوَابِ، فَقَامَ إِلَی سَعِیدٍ فَاعْتَنَقَہُ وَقَالَ:فَرَّجَ اللَّہُ عَنْکَ کَمَا فَرَّجَتْ عَنّی۔

ترجمہ :ایک نوجوان قریشی نے حضرت سیدناسعیدبن جبیررضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کی : حضرت ! ارشادفرمائیں کہ اس لفظ کوکیاپڑھیں؟مجھ سے تواس لفظ کوپڑھابھی نہیں جاتا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ سنو!اس آیت کریمہ کامطلب یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اس سے مایوس ہوگئے کہ ان کی قوم ان کی بات مانیں گی اورقوم والے سمجھ بیٹھے کہ انبیاء کرام علیہم السلام نے ان کو غلط کہاہے ، یہ سن کرحضرت سیدناضحاک رضی اللہ عنہ بہت ہی خوش ہوئے اورفرمایاکہ اس جیساجواب کسی اہل علم سے میں نے نہیں سنا، اگرمیں یہاں سے یمن پہنچ کربھی ایسے جواب کوسنتاتومیں اسے بہت آسان جانتا۔ حضرت سیدنامسلم بن یساررضی اللہ عنہ نے بھی آپ رضی اللہ عنہ کایہ جواب سن کراٹھ کرآپ سے معانقہ کیااورکہا:اللہ تعالی آپ کی پریشانیوں کوبھی اسی طرح دورکرے جس طرح آپ نے ہماری پریشانی دورفرمائی ۔
(تفسیر ابن کثیر:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۴:۳۶۳)

امام ابوعلی رحمہ اللہ تعالی کااس نظریہ کارد

فَقَالَ أَبُو عَلِیٍّ:إِنْ ذَہَبَ ذَاہِبٌ إِلَی أَنَّ الْمَعْنَی ظَنَّ الرُّسُلُ أَنَّ الَّذِی وَعَدَ اللَّہُ أُمَمَہُمْ عَلَی لِسَانِہِمْ قَدْ کُذِبُوا فِیہِ، فَقَدْ أَتَی عَظِیمًا لَا یَجُوزُ أَنْ یُنْسَبَ مِثْلُہُ إِلَی الْأَنْبِیَاء ِ،وَلَا إِلَی صَالِحِی عِبَادِ اللَّہِ قَالَ:وَکَذَلِکَ مَنْ زَعَمَ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ ذَہَبَ إِلَی أَنَّ الرُّسُلَ قَدْ ضَعُفُوا وَظَنُّوا أَنَّہُمْ قَدْ أُخْلِفُوا، لِأَنَّ اللَّہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیعَادَ، وَلَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہِ۔

ترجمہ :أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی المتوفی: ۷۴۵ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ امام ابوعلی رحمہ اللہ تعالی نے کہا:جس شخص نے اس آیت کریمہ کامعنی کیاکہ رسل کرام علیہم السلام نے یہ گمان کیاکہ اللہ تعالی نے ان کی زبانوں سے ان کی امتوں کے ساتھ جووعدہ کیاتھا، ان میں انہوں نے جھوٹ بولاتھااورجس شخص نے یہ کہااس نے بہت بڑی جسار ت کی ہے ، انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف اس طرح کے گمان کی نسبت کرناجائز نہیں ہے اورنہ اللہ تعالی کے نیک بندوں کی طرف ، اسی طرح جس نے یہ گمان کیاکہ حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکایہ قول کہ رسل کرام علیہم السلام کمزورتھے اورانہوںنے یہ گمان کیاکہ ان کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کے خلاف کیاگیا، یہ بھی جائزنہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتااوراس آیت کریمہ کامعنی یہ ہے کہ رسل کرام علیہم السلام کی قوموں نے گمان کیاکہ ان کے ساتھ جھوٹاوعدہ کیاگیاتھا۔
(البحر المحیط فی التفسیر:أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی (۳:۶۳۷)
سورۃ یوسف کااختتام (۲۹ ذوالقعدہ ۱۴۴۱ھ/۲۱جولائی ۲۰۲۰بوقت ۲بج کر۲۹ منٹ )

Leave a Reply