تفسیرسورۃیونس آیت ۸۸۔ وَقَالَ مُوْسٰی رَبَّنَآ اِنَّکَ اٰتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَاَہ زِیْنَۃً وَّاَمْوٰلًا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا

حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی دعائے جلال کی وجہ سے گستاخ ذلیل ورسواہوگئے

{وَقَالَ مُوْسٰی رَبَّنَآ اِنَّکَ اٰتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَاَہ زِیْنَۃً وَّاَمْوٰلًا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِکَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰٓی اَمْوٰلِہِمْ وَاشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ }(۸۸)

ترجمہ کنزالایمان:اور موسیٰ نے عرض کی اے رب ہمارے تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو آرائش اور مال دنیا کی زندگی میں دیئے اے رب ہمارے اس لیے کہ تیری راہ سے بہکاویں اے رب ہمارے ان کے مال برباد کردے اور ان کے دل سخت کردے کہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔

ترجمہ ضیاء الایمان:اور موسیٰ (علیہ السلام ) نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کی:اے ہمارے رب!تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیوی زندگی میں آرائش اور مال دیدیا، اے ہمارے رب!تاکہ وہ تیرے راستے سے ہٹادیں۔ اے ہمارے رب !ان کے مال برباد کردے اور ان کے دلوں کو سخت کردے تاکہ وہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔

حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی دعائے جلال

عَن ابْن عَبَّاس رَضِی اللہ عَنْہُمَا فِی قَوْلہ(رَبنَا اطْمِسْ علی أَمْوَالہم)یَقُول:دمر علی أَمْوَالہم وأہلکہا (وَاشْدُدْ علی قُلُوبہم)قَالَ:إطبع (فَلَا یُؤمنُوا حَتَّی یرَوا الْعَذَاب الْأَلِیم)وَہُوَ الْغَرق۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما{رَبنَا اطْمِسْ علی أَمْوَالہم}کی تفسیرمیں فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کی :اے اللہ!ان کے مالوں کو غرق کردے اورانہیں ہلاک کردے {وَاشْدُدْ علی قُلُوبہم}اوران گستاخوںکے دلوں پرمہرلگادے اورفرمایاکہ {الْعَذَاب الْأَلِیم}سے مراد ان کاسمندرمیں غرق ہوناہے ۔
(تفسیر القرآن العظیم :أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس الرازی ابن أبی حاتم (۹:۶۲۵۲)

فرعونی گستاخوں پر عذاب کی تفصیل

عَن مُحَمَّد بن کَعْب الْقرظِیّ رَضِی اللہ عَنہُ قَالَ:سَأَلَنی عمر بن عبد الْعَزِیز رَضِی اللہ عَنہُ عَن قَوْلہ (رَبنَا اطْمِسْ علی أَمْوَالہم)فَأَخْبَرتہ أَن اللہ طمس علی أَمْوَال فِرْعَوْن وَآل فِرْعَوْن حَتَّی صَارَت حِجَارَۃ فَقَالَ عمر:کَمَا أَنْت حَتَّی آتِیک فَدَعَا بکیس مختوم ففکہ فَإِذا فِیہِ الْفضۃ مَقْطُوعَۃ کَأَنَّہَا الْحِجَارَۃ وَالدَّنَانِیر وَالدَّرَاہِم وَأَشْبَاہ ذَلِک من الْأَمْوَال حِجَارَۃ کلہَا۔

ترجمہ :حضرت سیدناامام محمدبن کعب القرظی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت سیدناعمربن عبدالعزیزرضی اللہ عنہ نے اس آیت کریمہ {رَبنَا اطْمِسْ علی أَمْوَالہم}کے بارے میں پوچھاتومیںنے ان کوبتایاکہ اللہ تعالی نے فرعون اورآل فرعون کے مالو ں کوبربادکردیایہاں تک کہ وہ پتھرہوگئے توحضرت سیدناعمربن عبدالعزیزرضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ تم یہیں ٹھہرو!یہاں تک کہ میں تمھارے پاس آتاہوں۔ چنانچہ انہوںنے مہربند تھیلامنگوایااوراسے کھولاتواس میں چاندی کے ٹکڑے تھے گویاکہ وہ پتھرہیں ، اسی طرح دراہم اوردنانیراورانہی کی مثل مال سب کاسب پتھربناہواتھا۔
(تفسیر القرآن العظیم :أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس الرازی ابن أبی حاتم (۹:۶۲۵۲)
گستاخوں کی کھیتیاں تک پتھرہوگئیں
عَنْ قَتَادَۃَ فِی قَوْلِہِ تَعَالَی:(رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَی أَمْوَالِہِمْ)(یونس:۸۸)قَالَ:بَلَغَنَا أَنَّ حُرُوثًا لَہُمْ صَارَتْ حِجَارَۃً۔
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے اس فرمان شریف {رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَی أَمْوَالِہِمْ}کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ فرعونیوں کی کھیتیاں تک پتھرہوگئیں تھیں۔
(تفسیر عبد الرزاق:أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (۲:۱۷۷)

اب یہ گستاخ ایمان ہی نہ لائیں

عَن مُجَاہِد رَضِی اللہ عَنہُ فِی قَوْلہ (اطْمِسْ علی أَمْوَالہم)قَالَ:أہلکہا (وَاشْدُدْ علی قُلُوبہم)قَالَ:بالضلالۃ (فَلَا یُؤمنُوا)بِاللَّہ فِیمَا یرَوْنَ من الْآیَات(حَتَّی یرَوا الْعَذَاب الْأَلِیم)۔

ترجمہ :حضرت سیدنامجاہدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے اس فرمان شریف {رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَی أَمْوَالِہِمْ}کامعنی ہے کہ اے اللہ !ان گستاخوںکے مالوں کوہلاک کردے{وَاشْدُدْ علی قُلُوبہم}اورگمراہی کے سبب ان گستاخوں کے دلوں کو سخت کردے {فَلَا یُؤمنُوا}وہ اللہ تعالی پرایمان نہ لائیں ۔ ان آیات اورنشانیوں کے سبب جووہ دیکھتے ہیں یہاں تک کہ وہ دردناک عذاب دیکھ لیں ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ:أبو بکر بن أبی شیبۃ، عبد اللہ بن محمد (۷:۳۵۹)

گستاخوں کی ہرچیز پتھربنادی گئی

قَالَ السُّدِّیُّ:مَسَخَ اللَّہُ أَمْوَالَہُمْ حِجَارَۃً، وَالنَّخِیلَ وَالثِّمَارَ وَالدَّقِیقَ وَالْأَطْعِمَۃَ، فَکَانَتْ إِحْدَی الْآیَاتِ التِّسْعِ.
ترجمہ :امام السدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ان کے اموال کھجور، آٹا، پھل اورغلہ وغیرہ کو مسخ فرماکرپتھربنادیاتویہ نوآیات میں سے ایک ہے ۔
(تفسیر البغوی:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی (۴:۱۴۷)

روٹی بناتی ہوئی عورت بھی پتھربنادی گئی

وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ کَعْبٍ:جَعَلَ سُکَّرَہُمْ حِجَارَۃً (وَکَانَ الرَّجُلُ مَعَ أَہْلِہِ فِی فِرَاشِہِ فَصَارَا حَجَرَیْنِ، وَالْمَرْأَۃُ قَائِمَۃٌ تَخْبِزُ فَصَارَتْ حَجَرًا.
ترجمہ :حضرت سیدناامام محمدبن کعب القرظی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے گستاخوں کی صورتیں تک پتھرہوگئیں ، آدمی اپنی بیوی کے ساتھ بسترپرسویاہواتھاوہ دونوں وہیں پرہی پتھرہوگئے اورعورت روٹی پکارہی تھی وہ بھی وہیں پرپتھرہوگئی ۔
(تفسیر البغوی:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی (۴:۱۴۷)

اس سے معلوم ہواکہ انبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخوں کے خلاف دعائے جلال کرنابالکل جائز ہے اوریہ قرآن کریم اورانبیا ء کرام علیہم السلام کے عمل شریف سے ثابت ہے ۔ جیساکہ پہلے گزرچکاہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے مکہ کے گستاخوں کے خلاف دعائے جلال کی تھی اوروہ سات سال تک قحط سالی میں مبتلاء رہے ۔

یااللہ !گستاخوں کو ایمان کی دولت سے محروم کردے

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:أَیِ امْنَعْہُمُ الْإِیمَانَ وَقِیلَ:قَسِّہَا وَاطْبَعْ عَلَیْہَا حَتَّی لَا تَنْشَرِحَ لِلْإِیمَانِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماحضرت سیدناموسی علیہ السلام کی دعاکے ان الفاظ {وَاشْدُدْ عَلی قُلُوبِہِمْ }کے متعلق فرماتے ہیں کہ اے اللہ !توان گستاخوں کو ایمان لانے سے روک دے اوریہ بھی کہاگیاہے کہ اے اللہ !توان گستاخوں کے دلوں کو سخت کردے اوران پرمہرلگادے تاکہ وہ ایمان کے لئے نہ کھل سکیں۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (۸:۳۷۳)

ایک اشکال اوراس کاجواب
وَقَدِ اسْتَشْکَلَ بَعْضُ النَّاسِ ہَذِہِ الْآیَۃَ فَقَالَ:کَیْفَ دَعَا عَلَیْہِمْ وَحُکْمُ الرُّسُلِ اسْتِدْعَاء ُ إِیمَانِ قَوْمِہِمْ، فَالْجَوَابُ أَنَّہُ لَا یَجُوزُ أَنْ یَدْعُوَ نَبِیٌّ عَلَی قَوْمِہِ إِلَّا بِإِذْنٍ مِنَ اللَّہِ، وَإِعْلَامٍ أَنَّہُ لَیْسَ فِیہِمْ مَنْ یُؤْمِنُ وَلَا یَخْرُجُ مِنْ أَصْلَابِہِمْ مَنْ یُؤْمِنُ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی: ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں بعض لوگوں نے یہاں اشکال واردکیاہے کہ یہ دعائے جلال ان کے لئے کیسے ہوسکتی ہے حالانکہ انبیاء کرام علیہم السلام کوتوحکم ہوتاہے کہ وہ قوم کے لئے ایمان کی دعاکریںتواس کاجواب یہ ہے کہ کوئی بھی نبی علیہ السلام اللہ تعالی کی اجازت کے بغیرکسی کے لئے دعائے جلال نہیں کرتے مگرجب انہیں اللہ تعالی کی طرف سے اذن ملتاہے اوران کو اس بات کی اطلاع دی جاتی ہے کہ اب انہوںنے ایمان نہیں لانااورکافرہی رہناتوپھران کے خلاف دعائے جلال کرتے ہیں کہ یہ لوگ ایمان نہ لائیں ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (۸:۳۷۳)

حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی دعاکی قبولیت

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَمَّا أَغْرَقَ اللَّہُ فِرْعَوْنَ قَالَ آمَنْتُ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا الَّذِی آمَنَتْ بِہِ بَنُو إِسْرَائِیلَ فَقَالَ جِبْرِیلُ یَا مُحَمَّدُ فَلَوْ رَأَیْتَنِی وَأَنَا آخُذُ مِنْ حَالِ الْبَحْرِ فَأَدُسُّہُ فِی فِیہِ مَخَافَۃَ أَنْ تُدْرِکَہُ الرَّحْمَۃُ قَالَ أَبُو عِیسَی ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی ا للہ عنہماروایت فرماتے ہیںکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:جب اللہ تعالی نے فرعون کو ڈبویا تو اس نے (اس موقع پر)کہاکہ میں اس بات پر ایمان لایاکہ اس معبود کے سوا کوئی معبود (برحق)نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیںپھر حضرت سیدناجبرئیل علیہ السلام نے عرض کی :یارسول اللہ ﷺ!کاش اس وقت آپﷺ نے میری حالت دیکھی ہوتی ۔ میں اس ڈر سے کہ کہیں اس (مردود)کو اللہ تعالی کی رحمت حاصل نہ ہوجائے ، میں سمندر سے کیچڑ نکال نکال کر اس کے منہ میں ٹھونسنے لگا ۔امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث حسن ہے۔
( سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۵:۱۳۹)

Leave a Reply