گستاخوں کوگستاخیوں کی وجہ سے ایمان سے محروم کردیاجاتاہے
{ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِہٖ رُسُلًا اِلٰی قَوْمِہِمْ فَجَآء ُوْہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا کَذَّبُوْا بِہٖ مِنْ قَبْلُ کَذٰلِکَ نَطْبَعُ عَلٰی قُلُوْبِ الْمُعْتَدِیْنَ }(۷۴)
ترجمہ کنزالایمان:پھر اس کے بعد اور رسول ہم نے ان کی قوموں کی طرف بھیجے تو وہ ان کے پاس روشن دلیلیں لائے تو وہ ایسے نہ تھے کہ ایمان لاتے اس پر جسے پہلے جھٹلا چکے تھے ہم یونہی مہر لگادیتے ہیں سرکشوں کے دلوں پر۔
ترجمہ ضیاء الایمان:پھر اس کے بعدہم نے ان کی قوموں کی طرف کئی رسول بھیجے تو وہ ان کے پاس روشن دلیلیں لائے (لیکن) وہ کفار ایسے نہ تھے کہ ان پر ایمان لے آئیں جسے پہلے جھٹلا چکے ہیں۔ ہم اسی طرح سرکشوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔
گستاخوں کی دائمی گستاخیاں ان کوایمان سے محروم کرگئیں
فَما کانُوا لِیُؤْمِنُوا ای فما صح وما استقام لقوم من أولئک الأقوام فی وقت من الأوقات ان یؤمنوا بل کان ذلک ممتنعا منہم لشدۃ شکیمتہم فی الکفر والعناد بِما کَذَّبُوا بِہِ مِنْ قَبْلُ ما موصولۃ عبارۃ عن جمیع الشرائع التی جاء بہا کل رسول أصولہا وفروعہا والمراد بیان استمرار تکذیبہم من حین مجیء الرسل الی زمان الإصرار والعناد فان المحکی آخر حال کل قوم او عبارۃ عن اصول الشرائع التی أجمعت علیہا الرسل قاطبۃ. والمراد بیان استمرار تکذیبہم من قبل مجیء الرسل الی زمان مجیئہم الی آخرہ فالمحکی جمیع احوال کل قوم ومعنی تکذیبہم بہا قبل مجیء رسلہم انہم ما کانوا فی زمن الجاہلیۃ بحیث لم یسمعوا بکلمۃ التوحید قط بل کان کل قوم من أولئک الأقوام یتسامعون بہا من بقایا من قبلہم کثمود من بقایا عاد وعاد من بقایا قوم نوح فیکذبونہا ثم کانت حالتہم بعد مجیئہم الرسل کحالتہم قبل ذلک کأن لم یبعث إلیہم أحد۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ {فَما کانُوا لِیُؤْمِنُوا }پس وہ ایمان لانے والے نہیں تھے ، ان کی طبیعت میں کفرگھس چکاتھا، اسی لئے ان کاایمان قبول کرناممتنع ہوگیا، ان کے کفراورانبیاء کرام علیہ السلام کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے{ بِما کَذَّبُوا بِہِ مِنْ قَبْل}میں ماموصولہ ہے ،ا س سے وہ تمام شریعتیں مراد ہیںیعنی ہرایک نبی علیہ السلام کے لائے ہوئے اصول وفروع۔ اس سے ان کی استمراری تکذیب مراد ہے ( یعنی وہ رسل کرام علیہم السلام کی تشریف آوری سے لیکران کے دنیاسے جانے تک ہمیشہ ہمیشہ ان کے دشمن رہے ، یہ ان تمام کے آخری حال تک کابیان ہے یااس سے ہررسول علیہ السلا م کے اصول مراد ہیں ، اب معنی یہ ہوگاکہ رسل کرام علیہم السلام کے تشریف لانے سے پیشترہی زمانہ جاہلیت سے تکذیب کے درپے تھے ، اس لئے کہ وہ اپنے سے پہلے لوگوں سے سنتے آئے تھے ۔ مثلاًانہوں قوم عاد سے سنااورقوم عاد نے قوم نوح سے سناوغیرہ وغیرہ۔ اس لحاظ سے ان کی حالت یعنی جہالت کے دوروالی حالت انبیاء کرام علیہم السلام کے تشریف لانے پراسی طرح رہی ، گویاکہ رسول علیہ السلام ان کے ہاں تشریف لائے ہی نہیں ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۶۷)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اوراولیاء کرام کے گستاخ بھی ایمان سے محروم کردیئے جاتے ہیں
کَذلِکَ الکاف نعت مصدر محذوف ای مثل ذلک الطبع والختم المحکم الممتنع زوالہ نَطْبَعُ (مہر می نہیم)عَلی قُلُوبِ الْمُعْتَدِینَ المتجاوزین باختیار الإصرار علی الکفر اعلم ان اللہ تعالی قددعا الکل الی التوحید یوم المیثاق ثم لما وقع التنزل الی ہذہ النشأۃ الجسمانیۃ لم یزل الروح الإنسانی داعیا الی قبول تلک الدعوۃ الالہیۃ والعمل بمقتضاہا لکن من کان شقیا بالشقاوۃ الاصلیۃ الازلیۃ لما لم یقبلہا فی ذلک الیوم استمر علی ذلک فلم یؤمن بدعوۃ الأنبیاء ومعجزاتہم فتکذیب الأنبیاء مسبب عن تکذیب الروح وتکذیبہ مسبب عن تکذیب اللہ تعالی یوم المیثاق وہم وان کانوا ممن قال بلی لکن کان ذلک من وراء الحجب حیث سمعوا نداء ألست بربکم من ورائہا فلم یفہموا حقیقتہ وأجابوا بما أجاب بہ غیرہم لکن تقلیدا لا تحقیقا وکما ان اللہ تعالی طبع علی قلوب المکذبین للرسل بسوء اختیارہم وانہماکہم فی الغی والضلال کذلک طبع علی قلوب المنکرین للاولیاء بسوء معاملاتہم وتہالکہم علی التقلید فما دخل فی قلوبہم الاعتقاد وما جری علی ألسنتہم الإقرار کما لم یدخل فی قلوب الأولین التصدیق ولم یصدر من ألسنتہم ما یستدل بہ علی التوفیق ثم ہم مع کثرتہم قد جاؤا وذہبوا ولم یبق منہم أثر ولا اسم وسیلحق بہم الموجودون ومن یلیہم الی آخر الزمان۔
ترجمہ :{ کَذلِک}میں ک مصدرمحذوف کی صفت ہے یعنی مثل { ذلک الطبع والختم المحکم الممتنع زوالہ }یعنی جومہران گستاخوں کے دلوں پرلگائی اس کی صفت یہ ہے اس کازوال ممتنع ہے ۔{ نَطْبَعُ َعلی قُلُوبِ الْمُعْتَدِینَ}یعنی ہم مہرلگادیں حدسے تجاوزکرنے والوںکے دلوں پریعنی ان کے کفرپراصرارکی وجہ سے ۔
اللہ تعالی نے ہرایک کو میثاق میں توحیدکی دعوت دی ، پھرجب روح نے جسم کی طرف تنزل کیاتوروح انسانی ہمیشہ دعوت الہیہ کی طرف داعی رہی اوراسی کے تقاضاکے مطابق عمل کرتی رہی لیکن جوازلی بدبخت اوراصلی شقی تھااس نے ازل سے ہی ایمان سے انکارکردیا، اسی لئے عالم دنیامیں آکراس نے انبیاء کرام علیہم السلام کی نہ دعوت قبول کی اورنہ ہی ان کے معجزات کو تسلیم کیا، دراصل دنیامیں ایمان کا انکاراسی ازلی انکارکانتیجہ ہے اگرچہ اس وقت بھی کفارنے’’ بلی‘‘ کہاتھالیکن تھاوہ پردے سے یعنی الست بربکم کی آواز سنی توتھی لیکن ’’الست‘‘ کہنے والے کو دیکھ نہ سکے ، اسی لئے ’’الست بربکم ‘‘ کی حقیقت کو سمجھے بغیردوسروں کے کہنے پر’’بلی‘‘ کہہ دیا، اسی معنی پران کاایمان تحقیقی نہیںبلکہ تقلیدی ہوا۔
جیسے اللہ تعالی نے انبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخوں کے دلوں میں مہرلگادی ہے اسی طرح اس نے اولیا ء کرام کے گستاخوں اوران کے منکرین کے دلوں پربھی مہرلگادی ہے ۔جیسے انبیاء کرام علیہم السلام کے دلوں پرایمان کی باتیں اثراندازنہیں ہوسکتیں ، جس کی وجہ سے وہ زبان سے بھی ایمان قبول نہیں کرتے ایسے ہی اولیا ء کرام کے گستاخوں کاحال ہے کہ گستاخی اوربے ادبی کی وجہ سے اولیا کرام کی ولایت کااعتقاد ان کے دلوں میں کبھی بھی جاگزیں نہیں ہوسکتااسی لئے وہ ان کی بزرگی اورولایت کازبان سے اقرارنہیں کرتے ۔ بالآخریہ انجام ہواکہ انبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخ اوراولیاء کرام کے بے ادب اپنی کثرت کے باوجودآج ان کانام ونشان تک مٹ گیا، اسی طرح موجودہ اورآنے والے گستاخوں کاحال ہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۶۷)
حضورتاجدارختم نبوتﷺکے گستاخوں کانام ونشان مٹ گیا
منبری کو کہ بر آنجا مخبری … یاد آرد روزکار منکری
سکہ شاہان ہمی کردد دکر … سکہ احمد ببین تا مستقر
برزخ نقرہ ویا روی زری … وانما بر سکہ نام منکری
ترجمہ :مولاناروم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ کسی بھی جگہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے دشمن اورگستاخ کانام نہیںسناجاتا، تمام بادشاہوں کے شاہی سکے مٹ گئے لیکن حضورتاجدارختم نبوتﷺکاشاہی سکہ تاقیامت جاری وساری رہے گا، اب سونے اورچاندی کی مہریں خالی ہوگئیں جبکہ گستاخ ہی دنیامیں نہ رہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۶۷)
امام احمدرضاحنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی اسی مضمون کو اپنے اس شعرمیں بیان کرتے ہیں کہ
مٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعداء تیرے
نہ مٹاہے نہ مٹے گاکبھی چرچاتیرا
گستاخوں کی گستاخیوں سے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی شان میں کوئی کمی نہیں آتی
حق تعالی از غم وخشم خصام
کی کذارد أولیا را در عوام
مہ فشاند نور وسگ وع وع کند
سگ ز نور ماہ کی مرتع کند
خس خسانہ میرود بر روی آب
آب صافی میرود بی اضطراب
مصطفی مہ میشکافد نیمشب
ژاژ می خاید ز کینہ بو لہب
آن مسیحا مردہ زندہ میکند
وآن جہود از خشم سبلت میکند
ترجمہ :مولاناروم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی دشمنوں کے خطروں سے اپنے محبوب اولیا ء کرام کوان کے پنجے میں کیسے دیتاہے ، چاندکی کرن سے کتابھونکتاہے ، کتاچاندکے نورسے کس طرح نفع پاسکتاہے ؟ خس وخاشاک دریاکے اوپرکمزوری سے تیرتے چلے جاتے ہیںلیکن صاف پانی بلااضطراب چلتاہے۔حضورتاجدارختم نبوتﷺنے چاندکے دوٹکڑے کردیئے لیکن ابولہب حضورتاجدارختم نبوتﷺکی دشمنی کی وجہ سے ششدروحیران رہ گیا۔ وہ حضرت سیدناعیسی علیہ السلام مردہ زندہ کرتے تھے لیکن یہودی تاحال ان کی مخالفت میں سرگرداں ہیں۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۷۰)