اللہ تعالی حضورتاجدارختم نبوتﷺکے گستاخوں سے ضروربدلہ لے گا
{وَلَا یَحْزُنْکَ قَوْلُہُمْ اِنَّ الْعِزَّۃَ لِلہِ جَمِیْعًا ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ }(۶۶)
ترجمہ کنزالایمان:اور تم ان کی باتو ں کا غم نہ کرو بیشک عزت ساری اللہ کے لیے ہے وہی سنتا جانتا ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اے حبیب کریم ﷺ!آپ ان کی باتو ں کا غم نہ کریںبیشک تمام عزتوں کا مالک اللہ تعالی ہے ، وہی سننے والا جاننے والاہے۔
شان نزول
اعْلَمْ أَنَّ الْقَوْمَ لَمَّا أَوْرَدُوا أَنْوَاعَ الشُّبُہَاتِ الَّتِی حَکَاہَا اللَّہ تَعَالَی عَنْہُمْ فِیمَا تَقَدَّمَ مِنْ ہَذِہِ السُّورَۃِ وَأَجَابَ اللَّہ عَنْہَا بِالْأَجْوِبَۃِ الَّتِی فَسَّرْنَاہَا وَقَرَّرْنَاہَا، عَدَلُوا إِلَی طَرِیقٍ آخَرَ، وَہُوَ أَنَّہُمْ ہَدَّدُوہُ وَخَوَّفُوہُ وَزَعَمُوا أَنَّا أَصْحَابُ التَّبَعِ وَالْمَالِ،فَنَسْعَی فِی قَہْرِکَ وَفِی إِبْطَالِ أَمْرِکَ،واللَّہ سُبْحَانَہُ أَجَابَ عَنْ ہَذَا الطَّرِیقِ بِقَوْلِہِ:وَلا یَحْزُنْکَ قَوْلُہُمْ إِنَّ الْعِزَّۃَ لِلَّہِ جَمِیعاًوَاعْلَمْ أَنَّ الْإِنْسَانَ إِنَّمَا یَحْزَنُ مِنْ وَعِیدِ الْغَیْرِ وَتَہْدِیدِہِ وَمَکْرِہِ وَکَیْدِہِ، لَوْ جَوَّزَ کَوْنُہُ مُؤَثِّرًا فِی حَالِہِ، فَإِذَا عَلِمَ مِنْ جِہَۃِ عَلَّامِ الْغُیُوبِ أَنَّ ذَلِکَ لَا یُؤَثِّرُ، خَرَجَ مِنْ أَنْ یَکُونَ سَبَبًا لِحُزْنِہِ ثُمَّ إِنَّہُ تَعَالَی کَمَا أَزَالَ عَنِ الرَّسُولِ حُزْنَ الْآخِرَۃِ بِسَبَبِ قَوْلِہِ:أَلا إِنَّ أَوْلِیاء َ اللَّہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلا ہُمْ یَحْزَنُونَ (یُونُسَ:۶۲)فَکَذَلِکَ أَزَالَ حُزْنَ الدُّنْیَا بِقَوْلِہِ:وَلا یَحْزُنْکَ قَوْلُہُمْ إِنَّ الْعِزَّۃَ لِلَّہِ جَمِیعاً فَإِذَا کَانَ اللَّہ تَعَالَی ہُوَ الَّذِی أَرْسَلَہُ إِلَی الْخَلْقِ وَہُوَ الَّذِی أَمَرَہُ بِدَعْوَتِہِمْ إِلَی ہَذَا الدِّینِ کَانَ لَا مَحَالَۃَ نَاصِرًا لَہُ وَمُعِینًا، وَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ الْعِزَّۃَ وَالْقَہْرَ وَالْغَلَبَۃَ لَیْسَتْ إِلَّا لَہُ، فَقَدْ حَصَلَ الْأَمْنُ وَزَالَ الْخَوْفُ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب حضورتاجدارختم نبوتﷺکے دشمنوں نے شبہات کی انواع واردکیں جنہیں اللہ تعالی نے اس سورت میں پہلے نقل کیااوران کے متعددجوابات دیئے ، جن کی ہم نے تفسیربیان کی ، ان لوگوںنے ایک اورطریقہ اختیارکیاجوخوف دلانے کے لئے تھاکہ ہم مالدارہیں ،ہم آپﷺکے دین کو باطل اورمغلوب کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اللہ تعالی نے ان کاجواب ان کلمات میں دیا{وَلا یَحْزُنْکَ قَوْلُہُمْ إِنَّ الْعِزَّۃَ لِلَّہِ جَمِیعاً}اے حبیب کریمﷺ!آپ ان کی باتوں کاغم نہ کریں بے شک عزت ساری اللہ تعالی کے لئے ہے ۔
واضح رہے کہ جب انسان دوسرے کی وعید وتہدید، مکرودھوکہ سے پریشان ہوتاہے ، اگروہ اسے اپنے حوالے سے موثرتصورکرے تووہ پریشان ہوگا، اگروہ علام الغیوب کی طرف سے جان لے تو یہ موثرنہیں ہوسکتے توپھروہ اس کے غم کاسبب بننے سے نکل جائیں گے تواللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے آخرت کے غم کواپنے اس ارشادشریف میں زائل کیا{اَلا إِنَّ أَوْلِیاء َ اللَّہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلا ہُمْ یَحْزَنُونَ}سن لو!اللہ تعالی کے اولیاء پرنہ کچھ خوف ہے اورنہ ہی کچھ غم وہ جوایمان لائے اورپرہیزگاری کرتے رہے ۔
اس طرح آپ ﷺسے دنیاکے غم کاازالہ اپنے اس ارشادسے کیا{وَلا یَحْزُنْکَ قَوْلُہُمْ إِنَّ الْعِزَّۃَ لِلَّہِ جَمِیعاً}اے حبیب کریمﷺ!آپ ان کی باتوں کاغم نہ کریں بے شک عزت ساری اللہ تعالی کے لئے ہے ۔
توجب اللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکو مخلوق کی طرف رسول بنایااورآپﷺکو اس دین کی طرف بلانے کاحکم دیاتولامحالہ وہ آپ ﷺکاناصرومددگارہوگا، جب ثابت ہے کہ عزت ، قہراورغلبہ صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے توامن کاحصول ہوگااورخوف زائل ہوجائے گا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۷:۲۷۶)
آیت کریمہ کامعنی
قَالَ الْأَصَمُّ:الْمُرَادُ أَنَّ الْمُشْرِکِینَ یَتَعَزَّزُونَ بِکَثْرَۃِ خَدَمِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ وَیُخَوِّفُونَکَ بِہَا وَتِلْکَ الْأَشْیَاء ُ کُلُّہَا للَّہ تَعَالَی فَہُوَ الْقَادِرُ عَلَی أَنْ یَسْلُبَ مِنْہُمْ کُلَّ تِلْکَ الْأَشْیَاء ِ وَأَنْ یَنْصُرَکَ وَیَنْقُلَ أَمْوَالَہُمْ وَدِیَارَہُمْ إِلَیْکَ.
ترجمہ :امام الاصم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ سے مراد یہ ہے کہ مشرکین نے اپنے خدام پراموال کی کثرت کی وجہ سے اپنے آپ کو معززسمجھااورآپﷺکوخوف میں مبتلاء کیا تواللہ تعالی واضح کیاکہ یہ تمام اشیاء اللہ تعالی کی ہیں ، اوروہ اس پرقادرہے کہ وہ تمام اشیاء ان سے چھین لے اورآپ ﷺکی مددکرے ، ان کے اموال اورعلاقوں کو اپنی طرف منتقل کردے ۔
التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۷:۲۷۶)
اللہ تعالی حضورتاجدارختم نبوتﷺکے دشمنوں سے بدلہ لے گا
(إِنَّ الْعِزَّۃَ لِلَّہِ)یَعْنِی الْغَلَبَۃَ وَالْقُدْرَۃَ لِلَّہِ (جَمِیعًا)ہُوَ نَاصِرُکَ،وَنَاصِرُ دِینِکَ،وَالْمُنْتَقِمُ مِنْہُمْ۔
ترجمہ:امام محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی المتوفی: ۵۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا {اِنَّ الْعِزَّۃَ لِلَّہِ}عزت وغلبہ اورقدرت اللہ تعالی کے لئے ہے اوروہی آپﷺکااورآپﷺکے دین متین کامددگارہے اوراللہ تعالی آپ ﷺکے دشمنوں سے بدلہ لے گا۔
(تفسیر البغوی:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی (۴:۱۴۲)
اللہ تعالی گستاخوں کو ضروربالضرورسزادے گا
(ہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ)السَّمِیعُ لِأَقْوَالِہِمْ وَأَصْوَاتِہِمْ، الْعَلِیمُ بأعمالہم وأفعالہم وجمیع حرکاتہم۔
ترجمہ:امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی: ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ {ہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ}کامطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی حضورتاجدارختم نبوتﷺکے گستاخو ں کی باتیں اوران کی آوازیں سننے والاہے اوران کے اعمال اوران کے افعال دیکھنے والاہے اوران کی جمیع حرکات کوجاننے والاہے۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۳۶۹)
اللہ تعالی کاحضورتاجدارختم نبوتﷺکوتسلیاں دینا
وَلا یَحْزُنْکَ قَوْلُہُمْ ہو فی الحقیقۃ نہی لہ علیہ السلام عن الحزن کأنہ قیل لا تحزن بقولہم ولا تبال بتکذیبہم وتشاورہم فی تدبیر ہلاکک وابطال أمرک وسائر ما یتفوہون بہ فی شأنک مما لا خیر فیہ وانما وجہ النہی الی قولہم للمبالغۃ فی نہیہ علیہ السلام عن الحزن لما ان النہی عن التأثیر نہی عن التأثر بأصلہ۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی :۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ{وَلا یَحْزُنْکَ قَوْلُہُمْ}سے حضورتاجدارختم نبوتﷺکوکفارکی باتوں سے غمگین ہونے سے روکاگیاہے ۔ یہ جملہ دراصل انشائیہ ہے ، اس کی عبارت یوں تھی { لا تحزن بقولہم ولا تبال بتکذیبہم}اے حبیب کریم ﷺ!آپ گستاخوں کی باتوں سے غم نہ کریں اورنہ ہی ان کی تکذیب کی پرواہ کریںاوروہ جو آپﷺکوشہیدکرنے اورآپﷺکے دین متین کے خلاف کاروائیاں کررہے ہیں اورآپﷺکے حق میں طرح طرح کی گستاخیاں کرتے ہیں ، آپ ﷺفکرنہ کریں اس لئے کہ ان کی تمام کارگزاریوں میں ذرہ بھربھی بھلائی نہیں ہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۶۳)
معارف ومسائل
(۱) حقیقی عزت اللہ تعالی کی ہے ،پھروہ جسے دے اس کی ہے ،کفاروفساق اوردنیاداروں کی عزت جھوٹی اورعارضی بلکہ ایک دھوکہ ہے کیونکہ انہیں عزت دولت ، حکومت اورجتھے وغیرہ سے ملتی ہے ۔
(۲)کفاروفساق کی عزت دیکھ کر اہل ایمان کو غمگین نہیں ہوناچاہیے کہ یہ چلتی پھرتی چیز ہے ، نہ ان کی شیخیوں پرملول ہوناچاہئے ، ان کی بکواس جانوروں کی سی آواز ہے ۔
(۳) دینی اوردنیاوی عزتیں بہت قسم کی ہیں ، ایمان ، عرفان ، ولایت ، صحابیت ، نبوت یہ سب دینی عزتیں ہیں اورسب اللہ تعالی کی طرف سے ہیں ۔ (تفسیرنعیمی ( ۱۱:۴۰۹)
یادرہے کہ کائنات میں عزت کا پیمانہ ہی حضورتاجدارختم نبوتﷺکی ذات ِ مبارکہ ہے جو آپ ﷺسے جتنا قریب ہے وہ اتنا ہی زیادہ معزز ہے چنانچہ صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ سب سے زیادہ قریب تھے تو اُمت میں سب سے معزز بھی وہی ہیں اور ابوجہل سب سے زیادہ دور تھا اس لئے کفار میں سب سے خبیث ترین بھی وہی قرار پایا۔