تفسیرسورۃیونس آیت ۶۲۔۶۳۔ اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآء َ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ

سچے اولیاء اللہ کون؟

{اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآء َ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ }{الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ }(سورۃ یونس : ۶۲،۶۳)

ترجمہ کنزالایمان:سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم،وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں۔
ترجمہ ضیاء الایمان :سن لو بیشک اللہ تعالی کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم،وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں ۔

ولی کامل کی چھے صفات

{وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآء ُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَیُطِیْعُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہ اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللہُ اِنَّ اللہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ }(سورۃ اتوبہ: ۷۱)
ترجمہ ضیاء الایمان:اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور اللہ تعالی و رسول کریمﷺ کا حکم مانیں یہ ہیں جن پر عنقریب اللہ تعالی رحم کرے گا بیشک اللہ تعالی غالب حکمت والا ہے ۔
اس فرمان الہی سے معلوم ہوا کہ ولی وہ ہے جو :
(۱)…نیکی کی تلقین کرے۔(۲)…برائی سے روکے۔(۳)…نماز قائم کرے۔(۴)…زکوۃادا کرے۔(۵)…اللہ تعالی کی اطاعت کرے۔(۶)…حضورتاجدارختم نبوتﷺکی اطاعت بجا لائے۔
یہ چھ خصوصیات جن میں پائی جائیں وہ ولی ہیں یعنی وہ مومن جو ان خصوصیات کے حامل ہیں وہ ولی ہیں۔قرآن و حدیث میں یہ کہیں نہیں آیا کہ ولی وہ ہوتے ہیں جن سے کرامات کا ظہور ہو اور جھوٹے سچے قصے ان کے بارے میں معروف ہوں۔حیرت ہے کہ آج ولیوں کا ایک پورا گروہ پیدا ہو گیا ہے اور بعض نسل در نسل چلتے ہیں۔باپ مر گیا تو بیٹا گدی نشین بن کر ولی بن گیا پھر پوتا ولی بن گیا،یوں ولیوں کی نسل پیدا ہو گئی ہیں اور ہوتی چلی جا رہی ہیں۔

ولی کی صفات قرآن کریم کے آئینے میں

پہلامقام
{قُلْنَا اہْبِطُوْا مِنْہَا جَمِیْعًا فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ہُدًی فَمَنْ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْن}(سورۃ البقرہ : ۳۸)
ترجمہ ضیاء الایمان: ہم نے فرمایا تم سب جنت سے اتر جاؤ پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کا پیروکار ہوا اسے نہ کوئی اندیشہ نہ کچھ غم۔
دوسرامقام
{بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہ لِلہِ وَہُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٓ اَجْرُہ عِنْدَ رَبِّہٖ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ}( سورۃ البقرۃ : ۱۱۲)
ترجمہ ضیاء الایمان: ہاں کیوں نہیں جس نے اپنا چہرہ اللہ تعالی کے لئے جھکادیا وہی نیک شخص ہے تو اس کی نیکی کابدلہ اس کے رب تعالی کے پاس ہے اور انہیں نہ کچھ اندیشہ ہو اور نہ کچھ غم۔
تیسرامقام
{اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوٰلَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَآ اَذًی لَّہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ}(سورۃ البقرۃ : ۲۶۲)
ترجمہ ضیاء الایمان: وہ جو اپنے مال اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ،اپنامال اللہ تعالی کے نام پردینے کے بعد نہ ان کو احسان جتلائیں اورنہ ہی ان کو تکلیف دیں۔ان کی نیکی ان کے رب تعالی کے پاس ہے اور انہیں نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم۔
چوتھامقام
{اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوٰلَہُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ}(سورۃ ابقرۃ : ۲۷۴)
ترجمہ ضیاء الایمان : وہ لوگ جو اپنے مال خیرات کرتے ہیں رات میں اور دن میں چھپے او رظاہران لوگوں کے لئے ان کااجران کے رب تعالی کے پاس ہے ،ان کو نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم ۔
پانچواں مقام
{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ لَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ}(سورۃ البقرہ: ۲۷۷)
ترجمہ ضیاء الایمان:بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور نماز قائم کی اور زکٰوۃ دی اُن کا اجر ان کے رب تعالی کے پاس ہے اور نہ انہیں کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم ۔
چھٹامقام
{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالصّٰبِـُوْنَ وَالنَّصٰرٰی مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صٰلِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ }(سورۃ المائدۃ: ۶۹)
ترجمہ ضیاء الایمان:بے شک وہ لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیںاور اسی طرح یہودی اور ستارہ پرست اور نصرانی ان میں جو کوئی سچّے دل سے اللہ تعالی اورقیامت پر ایمان لائے اور اچھاکام کرے تو ان پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ کچھ غم ۔
ساتواں مقام
{وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ فَمَنْ اٰمَنَ وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ}(سورۃ الانعام: ۴۸)
ترجمہ ضیاء الایمان: اور ہم نہیں بھیجتے رسولوں کو مگر خوشی اور ڈر سناتے تو جو ایمان لائے اوراپنی اصلاح کرلے ان کو نہ کچھ اندیشہ نہ کچھ غم ۔
آٹھواں مقام
{یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِیْ فَمَنِ اتَّقٰی وَاَصْلَحَ فَلَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاہُمْ یَحْزَنُوْنَ}(سورۃ الاعراف: ۳۵)
ترجمہ ضیاء الایمان: اے آدم کی اولاد! اگر تمہارے پاس تم میں سے رسول کریمﷺ آئیں میری آیتیں پڑھتے تو جو پرہیزگاری کرے اور اپنی اصلاح کرلے تو اس پر نہ کچھ خوف اور نہ کچھ غم ۔
نواں مقام
{اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقٰمُوْا فَلَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ}(سورۃ الاحقاف : ۱۳)
ترجمہ ضیاء الایمان: بیشک وہ لوگ جنہوں نے کہا :ہمارا رب اللہ تعالی ہے پھر ثابت قدم رہے نہ ان پر خوف نہ ان کو غم۔
دسواں مقام
{اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآء َ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ }{الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ }(سورۃ یونس : ۶۲،۶۳)
ترجمہ ضیاء الایمان :سن لو بیشک اللہ تعالی کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم،وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں ۔
گیارہواں مقام
{اَلْاَخِلَّآء ُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ }{یٰعِبَادِ لَاخَوْفٌ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ وَلَآ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ}(سورۃ الزخرف : ۶۷،۶۸)
ترجمہ ضیاء الایمان: گہرے دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر پرہیزگار ،ان سے فرمایا جائے گا: اے میرے بندو! آج نہ تم پر خوف نہ تم کو غم ہو ۔
بارہواں مقام
{اَہٰٓؤُلَآء ِ الَّذِیْنَ اَقْسَمْتُمْ لَایَنَالُہُمُ اللہُ بِرَحْمَۃٍ اُدْخُلُوا الْجَنَّۃَ لَاخَوْفٌ عَلَیْکُمْ وَلَآ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ}(سورۃ الاعراف : ۴۹)
ترجمہ ضیاء الایمان: کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر تم قسمیں کھاتے تھے کہ اللہ تعالی ان پر اپنی رحمت نہ فرمائے گا ،ان سے تو کہا گیا کہ جنت میں جاؤ نہ تم کو اندیشہ نہ کچھ غم ۔

خلاصہ کلام
وہ ولی کہ جسے کوئی خوف اور غم نہیں مندرجہ بالا قرآنی مقامات کے مطابق اسے خوف اور غم سے نجات کا مقام تب ملے گا جب وہ:
(۱)… اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہدایت کی پیروی کرے گا۔
(۲)… اس نے اپنا چہرہ اللہ تعالی کے سامنے خم کر دیا اور نیک بن گیا۔
(۳)… اس نے اللہ تعالی کے راستے میں مال خر چ کیا پھر نہ احسان جتلایااور نہ ستایا۔
(۴)… دن رات خفیہ اور اعلانیہ اپنا مال خرچ کیا۔
(۵)… ایمان لایا،نیک عمل کیے،نمازی بنا اور زکوۃ ادا کی۔
(۶)… منافق،یہودی،بے دین،عیسائی وغیرہ ،وہ جو بھی تھا،تائب ہو کر اللہ پر ایمان لے آیااور اس نے آخرت کے دن کو مان لیا تو وہ بھی ولیوں کے زمرے میں شامل ہو جائے گا ۔
(۷)… جو ایمان لایا اور اس نے اپنی اور لوگوں کی اصلاح کا کام کیا۔
(۸)… اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ ہدایت کو ماناپھرتقوی اختیار کیا اور اصلاح کی۔
(۹)… اللہ تعالی کو رب مان کر پھر اس کی توحید پراوراس کے دین پر ڈٹ جانا۔
(۱۰)… اللہ کے راستے میں جہادو قتال کرتے ہوئے جو شہید ہوئے وہ جنتوں میں خوش ہیں اور اس بات پر بھی خوش ہیں کہ ان کے جو ساتھی ان کے پیچھے دعوت و اصلاح اور جہاد و قتال کے راستے پر لگے ہوئے ہیں ،جب وہ ان سے آن ملیں گے تو ان کی طرح انہیں بھی نہ خوف ہو گا اور نہ غم۔
(۱۱)… ان لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ اعلان فرمائے گا کہ جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ۔
یہ ہیں اولیاء اللہ کی صفات جو قرآن بیان کر رہا ہے اور واضح کر رہا ہے کہ یہ لوگ توحید و سنت کا احیاء کرنے والے ،غلبہ دین کاکام کرنے والے ، اصلاح کا کام کرنے والے،جہاد کرنے والے،جانیں دینے والے اور شہادت کی موت پانے والے ہیں۔

ولی کامل تومجاہدفی سبیل اللہ ہوتاہے

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَنَّہُ قَالَ:مِنْ خَیْرِ مَعَاشِ النَّاسِ لَہُمْ، رَجُلٌ مُمْسِکٌ عِنَانَ فَرَسِہِ فِی سَبِیلِ اللہِ، یَطِیرُ عَلَی مَتْنِہِ،کُلَّمَا سَمِعَ ہَیْعَۃً، أَوْ فَزْعَۃً طَارَ عَلَیْہِ، یَبْتَغِی الْقَتْلَ وَالْمَوْتَ مَظَانَّہُ، أَوْ رَجُلٌ فِی غُنَیْمَۃٍ فِی رَأْسِ شَعَفَۃٍ مِنْ ہَذِہِ الشَّعَفِ،أَوْ بَطْنِ وَادٍ مِنْ ہَذِہِ الْأَوْدِیَۃِ، یُقِیمُ الصَّلَاۃَ، وَیُؤْتِی الزَّکَاۃَ،وَیَعْبُدُ رَبَّہُ حَتَّی یَأْتِیَہُ الْیَقِینُ، لَیْسَ مِنَ النَّاسِ إِلَّا فِی خَیْرٍ۔

ترجمہ :حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضورتاجدارختم نبوتﷺسے روایت کی کہ آپ ﷺنے فرمایا: لوگوں کے لیے زندگی کے بہترین طریقوں میں سے یہ ہے کہ آدمی نے اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کے لیے گھوڑے کی لگام پکڑ رکھی ہو، اس کی پیٹھ پر اللہ تعالی کی راہ میں اڑتا (تیزی سے حرکت کرتا)پھرے، جب بھی (دشمن کی)آہٹ یا (کسی کے)ڈرنے کی آواز سنے، اڑ کر وہاں پہنچ جائے، ہر اس جگہ قتل اور موت کو تلاش کرتا ہو جہاں اس کے ہونے کا گمان ہو یا پھر وہ آدمی جو بکریوں کے چھوٹے سے ریوڑ کے ساتھ ان چوٹیوں میں سے کسی ایک چوٹی پر یا ان وادیوں میں سے کسی وادی میں ہو، نماز قائم کرے، زکوۃ دے اور یقینی انجام (موت)تک اپنے رب تعالی کی عبادت کرے، اچھائی کے معاملات کے سوا لوگوں سے کوئی تعلق نہ رکھے۔
(صحیح مسلم : مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۳:۱۵۰۳)
ہمارے دورکے نام نہاد ولی توجہاد کے نام سے ہی بھاگتے ہیں ۔

مولاعلی رضی اللہ عنہ کے نزدیک ولی کی صفات

وقال علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ:أَوْلِیَاء ُ اللَّہِ قَوْمٌ صُفْرُ الْوُجُوہِ مِنَ السَّہَرِ، عُمْشُ الْعُیُونِ مِنَ الْعِبَرِ، خُمْصُ الْبُطُونِ مِنَ الْجُوعِ، یُبْسُ الشِّفَاہِ مِنَ الذُّوِیِّ ۔
ترجمہ:حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ اللہ تعالی کے اولیاء کرام ایسی قوم ہیں جن کے چہرے راتوں کو جاگنے کے سبب زردہوں ، آنسوئوں کے سبب آنکھیں کمزورہوں ، بھوک کے سبب پیٹ دبلے اورخالی ہوں اوران کے ہونٹ گرمی یاپیاس کی وجہ سے خشک ہوں ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر القرطبی (۸:۵۵۷)

ولی کونہ اپنی دنیاکاکوئی غم ہوتاہے اورنہ ہی اپنی اولاد کی کوئی فکر

وَقِیلَ:لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ فِی ذُرِّیَّتِہِمْ، لِأَنَّ اللَّہَ یَتَوَلَّاہُمْ وَلا ہُمْ یَحْزَنُونَ عَلَی دُنْیَاہُمْ لِتَعْوِیضِ اللَّہِ إِیَّاہُمْ فِی أُولَاہُمْ وَأُخْرَاہُمْ لِأَنَّہُ وَلِیُّہُمْ وَمَوْلَاہُمْ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کاایک معنی یہ بھی بیان کیاگیاہے کہ یعنی انہیں اپنی اولاد کے بارے میں کوئی خوف نہیں ہوگاکیونکہ اللہ تعالی ان کی ذمہ داری لے لیتاہے۔ {وَلا ہُمْ یَحْزَنُونَ}اورنہ انہیں اپنی دنیاپرکوئی غم ہوگاکیونکہ اللہ تعالی انہیں عوض عطافرمادیتاہے ، ان کے پہلوں میں بھی اوران کے پچھلوں میں بھی کیونکہ اللہ تعالی ولیوں کامددگاربن جاتاہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر القرطبی (۸:۵۵۷)
ہمارے دورکے جدیداولیاء تواپنی اولاد وں کے لئے بڑے بڑے محلات تیارکرکے پھرمرتے ہیں اوران کے لئے بڑے بڑے ہوٹل تیارکرواتے ہیں اوراپنی اولادوں کے لئے جنت دنیامیں ہی بناکرجاتے ہیں۔

کیابدعقیدہ اوربدعمل ولی ہوسکتاہے ؟

حضرت سیدناصدرالافاضل سید نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ولی کی اصل ولاء سے ہے جو قرب و نصرت کے معنی میں ہے ۔ ولی اللہ وہ ہے جو فرائض سے قُرب الٰہی حاصل کرے او راطاعتِ الٰہی میں مشغول رہے اور اس کا دل نورِ جلالِ الہٰی کی معرِفت میں مستغرق ہو جب دیکھے دلائلِ قدرتِ الٰہی کو دیکھے اور جب سنے اللہ کی آیتیں ہی سنے اور جب بولے تو اپنے ربّ کی ثنا ہی کے ساتھ بولے اور جب حرکت کرے طاعتِ الہٰی میں حرکت کرے اور جب کوشش کرے اسی امر میں کوشش کرے جو ذریعہ قُربِ الٰہی ہو ، اللہ کے ذکر سے نہ تھکے اور چشمِ دل سے خدا کے سوا غیر کو نہ دیکھے ، یہ صفت اولیاء کی ہے ، بندہ جب اس حال پر پہنچتا ہے تو اللہ اس کا ولی و ناصر اور معین و مددگار ہوتا ہے ۔ متکلِّمین کہتے ہیں ولی وہ ہے جو اعتقادِ صحیح مبنی بر دلیل رکھتا ہو اور اعمالِ صالحہ شریعت کے مطابق بجا لاتا ہو ۔ بعض عارفین نے فرمایا کہ ولایت نام ہے قُربِ الٰہی اور ہمیشہ اللہ کے ساتھ مشغول رہنے کا ۔ جب بندہ اس مقام پر پہنچتا ہے تو اس کو کسی چیز کا خوف نہیں رہتا اور نہ کسی شے کے فوت ہونے کا غم ہوتا ہے ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ولی وہ ہے جس کو دیکھنے سے اللہ یاد آئے یہی طبری کی حدیث میں بھی ہے ۔ ابنِ زید نے کہا کہ ولی وہی ہے جس میں وہ صفت ہو جو اس آیت میں مذکور ہے۔ {اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْایَتَّقُوْنَ}یعنی ایمان و تقوٰی دونوں کا جامع ہو ۔ بعض عُلَماء نے فرمایا کہ ولی وہ ہیں جو خالص اللہ کے لئے محبت کریں ، اولیاء کی یہ صفَت احادیثِ کثیرہ میں وارِد ہوئی ہے ۔ بعض اکابر نے فرمایا ولی وہ ہیں جو طاعت سے قُربِ الٰہی کی طلب کرتے ہیں اور اللہ تعالٰی کرامت سے ان کی کار سازی فرماتا ہے یا وہ جن کی ہدایت کا برہان کے ساتھ اللہ کفیل ہو اور وہ اس کا حقِ بندگی ادا کرنے اور اس کی خَلق پر رحم کرنے کے لئے وقف ہو گئے ۔ یہ معانی اور عبارات اگرچہ جداگانہ ہیں لیکن ان میں اختلاف کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ ہر ایک عبارت میں ولی کی ایک ایک صفَت بیان کر دی گئی ہے جسے قُربِ الٰہی حاصل ہوتا ہے یہ تمام صفات اس میں ہوتی ہیں ۔ ولایت کے درجے اور مراتب میں ہر ایک بقدر اپنے درجے کے فضل و شرف رکھتا ہے ۔( تفسیرخزائن العرفان از سیدنعیم الدین مراد آبادی (سورۃ یونس : ۶۲)

دین کادفاع کرنے میں مجاورین کا پیچھے پیچھے رہنا اوراہل سنت کے وسائل پرقبضہ کرنے میں پیش پیش ہوناایک المیہ ہے

آج دین اسلام پرہرطرف سے حملے ہورہے ہیں ، آئے دن کفارحضورتاجدارختم نبوتﷺکی گستاخیوں کاسلسلہ شروع کردیتے ہیں ، آج اہل اسلام تمام اطراف سے فتنوں میں گھرے ہوئے ہیں ، مگرکوئی بھی ان فتنوں سے لڑنے والانظرنہیںآتاالایہ کہ چندایک علماء جوحضورامیرالمجاہدین مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی کی سربراہی میں لڑرہے ہیں ، جیلوں میں جائیں تووہی ۔ منبرومحراب میں حق کی آواز بلندکریں تووہی ، ان کے علاوہ جتنے بھی پاکستان میں مشائخ ہیں وہ سب کے سب چپ سادھے بیٹھے ہیں اوران کاسارازورنذرانے بٹورنے پرہے ۔

اب ہم چندباتیں جوبطورچیلنج اہل اسلام کو درپیش ہیں یہاں عرض کرتے ہیں :

(۱)…آج پوری دنیامیں کفرکی حکومت ہے اورکہیں بھی خلافت اسلامیہ کانام ونشان تک نہیں ہے۔
(۲)…اورآج جہاں کہیں نام نہاد مسلمانوں کی حکومتیں قائم ہیں وہ بھی انگریزوں کے فتنوں میں گھری ہوئی ہیں۔
(۳)…آج چندایک علماء حق کے علاوہ نام نہاد علماء بھی انگریزی حکومتوں کے خوشہ چین بنے ہوئے ہیں ۔
(۴)…آج دین اسلام کااہم شعارجہاد معطل ہوکررہ گیاہے ۔
(۵)…جہاد کی آیات مبارکہ نصاب سے نکالی جارہی ہیں ۔
(۶)…سکول وکالج اوریونیورسٹی کے ذریعے الحاد اوربے دینی پھیلائی جارہی ہے ۔
(۷)…ہمارے ملک پاکستان میں چن چن کردین دشمن حکمرانوں کو مسلط کیاجاتاہے ۔
(۸)…پاکستان میں انگریزوں کی این جی اوز کفراوربے حیائی پھیلانے کے لئے رات دن ایک کئے ہوئے ہیں۔
(۹)…جوعالم دین حق کی اورغلبہ دین کی بات کرتاہے ، اس کے ساتھ وہ حشرکیاجاتاہے جوچنگیزاورہلاکو نے بھی نہ کیاہو۔
(۱۰)…دین اسلام کاسرعام مذاق اڑایاجارہاہے ۔
(۱۱)…دین اسلام اورشعائراسلامی کے خلاف فلمیں ، ڈرامے بناکرنشرکئے جارہے ہیں۔
(۱۲)… اسلام کے خلاف ٹیلی ویژن پرسرعام پروگرام کئے جاتے ہیں اوران میں اسلامی احکامات کامذاق اڑایاجاتاہے۔
(۱۳)…آج پاکستان میںبڑے بڑے شہروں میں قادیانیوں کو بڑی بڑی سوسائٹیوں میں جگہیں دی جارہی ہیں اوروہ وہاں پراپنے عبادت خانے تعمیرکررہے ہیں۔
(۱۴)…پاکستان میں قادیانیوں کوکھلے عام تبلیغ کرنے کی اجازت دی گئی ہے مگرکوئی روکنے ٹوکنے والانہیں۔
(۱۵)…اس کے برعکس اہل اسلام کوتاجدارختم نبوتﷺکانفرنس کرنے پرجیلوں میں ڈالاجارہاہے ۔
(۱۶)…اسلام کے خلاف زہرآلود مواد انٹرنیٹ پرشائع کیاجاتاہے ۔
حضرت امیرشکیب ارسلان رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ فرنگیوں نے اسلام کے خلاف اوراسلام کے اصلی خدوخال مٹانے کے لئے پانچ لاکھ سے زائد کتب شائع کی ہیںاوراس عیارومکارقوم نے اسلام کے خلاف وہ وہ سازشیں کی ہیں جن کے سامنے چنگیزکے مظالم بھی ہیچ ہیں۔
(۱۷)…آج مزارات پربراجمان گدی نشین داڑھی منڈے ، انگریزی بال اورانگریزی پینٹ کوٹ میں ملبوس نظرآتے ہیں نہ انہیں احساس ہے اورنہ ہی ان کے معتقدین کو، ایک بے دینی کاعالم ہے جس میں ساری مخلوق پھنسی ہوئی ہے۔
(۱۸)…مسئلہ ختم نبوت پرآئے دن پاکستان میں موجود امریکی غلاموں کی طرف سے حملہ ہوتاہے ، مگرکوئی پیراس مسئلہ کے حق میں بیان تک نہیں دیتا۔
(۱۹)…سندھ میں یہ بل پیش ہواکہ کوئی بھی بچہ اگراسلام قبول کرے تواس کو کافروں کے سپردکیاجائے گا، وہ اسے اسلام کے خلاف مواد فراہم کریں گے اگراس مواد کو پڑھنے کے بعد بھی وہ اسلام پرقائم رہاتومسلمان سمجھاجائے گاوگرنہ نہیں ۔
(۲۰)…پاکستان کے مرکزی شہراسلام آبادمیں مندربننے جارہاہے اوریہ بھی اسی غلام حکومت کاکارنامہ ہے ۔
(۲۱)…آج مزارات سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف تحریکیں چل رہی ہیں اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سرعام گالیاں دی جارہی ہیں ۔ نعوذباللہ من ذلک )
ہم دست بستہ ان مشائخ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ جناب !ان فتنوں کے خلاف کون کھڑاہوگااوران کاتعاقب کون کرے گا؟ کیااہل اسلام کے ایمان کی فکرکسی اورکوکرنی ہے ۔

معارف ومسائل

(۱)اسی طرح ولی کے ساتھ محبت کا مطلب ہے کہ اگر وہ کتاب و سنت کا پیروکار ہے تو اس کی نصیحت کو سنا جائے،وہ کتاب و سنت کا مبلغ ہے تو اس کا ساتھ دیا جائے،اس سے تعاون کیا جائے،دین کی سربلندی کے لیے اس کا ساتھی بن کر اپنا مال خرچ کیا جائے،پسینہ بہایا جائے اور خون بھی پیش کرنا پڑے تو وہ بھی پیش کر دیا جائے۔وہ بیمار ہو تو عیادت کی جائے،تحفہ تحائف پیش کیے جائیں کہ اس سے محبت بڑھتی ہے۔ایسے ولی سے رب کے حضور دعا کرائی جائے۔یہ ہے ولی سے محبت اور اسے ماننا۔بس ماننے ماننے میں فرق ہے،محبت محبت میں فرق ہے۔
(۲)دکھ تو اس بات کا ہوتا ہے کہ ان کے مرید یہ جانتے ہوئے بھی کہ سب جعلی ہیں پھر بھی ان پر اندھا اعتقاد رکھتے ہیں ۔چند دن پہلے قصور کے علاقے سے ایسے پیر کو پکڑا گیا جو مریدوں کے لیے (نعوذباللہ)کسی اللہ کے ولی سے کم نہیں تھا ۔خواتین کے ساتھ اس کے آستانے پر کیا کیا جاتا تھا میرا ہاتھ وہ سب کچھ لکھنے سے بھی رک گیاہے ۔مگر اس نام نہاد (ولی اللہ )کو جب پوچھا گیا کہ قرآن پڑھاتو جواب نفی میں آیا، اس سے بڑھ کر یہ کہ مسلمان ہونے کے لیے پہلی شرط کلمہ طیبہ بھی اس کی زبان سے ادا نہ ہو سکا۔ دوسری طرف اس کے پیروکاروں کا یہ حال تھا کہ وہ پیر ہونے کے دعوے دار کے لیے جان دینے کے لیے تیار تھے ۔ ان جعلی پیروں ، فقیروں کوماننے والوں میں مردوں کی تعداد بھی کم نہیں لیکن سب سے زیادہ ماننے والی خواتین ہیں۔خواتین جن کا مسئلہ صرف یہ ہوتا ہے کہ اپنے خاوند کو قابو کرلیں ، ساس کے خلاف کچھ کر لیں نندوں ، بھابیوں کے خلاف کچھ نہ کچھ کرنا ان کی پہلی ترجیح ہوتی ہے جس کے لیے وہ ان جعلی آستانوں کا رخ کرتیں ہیں ۔ ان جعلی پیروں کا طریقہ واردات بھی انوکھا ہوتا ہے ۔یہ جعلی پیر جس جگہ ڈیرا لگاتے ہیں وہاں اپنے ایجنٹ مرد اور خواتین چھوڑ دیتے ہیں جو پیر کی (جعلی )کرامات کا ڈھنڈورا اس علاقے میں پیٹتے ہیں ،باقی کام ہمارے کچے عقیدے کے لوگ کر دیتے ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالی سے توکل اور سچے اولیاء کرام کی معرفت کے اٹھنے کے بعد ہمیں بہکانے کے لیے کچھ بھی چل جاتاہے ۔اس کے بعد جعلی پیر دنوں میں گھر ، بنگلے ، اور کروڑوں روپے کا مالک بن جاتاہے ۔وہ پیر جس کو کلمہ بھی نہ آتا ہو ہماری کم عقلی اور ناپختہ عقیدے کی وجہ سے ہماری مشکلیں آسان کرنے کا دعوی ٰ کرتاہے ۔ جب کہ اصل میں اسکی اپنی مشکلیںرقم ، نذرونیاز حاصل کر کیحل ہوتی ہیں۔ میاں بیوی میں جدائی پیدا کروانے کے لیے نذرانہ وصول کرنا اور پھر میاں بیوی میں جھگڑا کروانے کے لیے کبھی ساس ، بہو، نند، بھاوج ان جعلی پیروں کا رخ کرتی ہیں۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ میاں بیوی میں جدائی ڈالنے والے کو شیطان سب سے زیادہ پسند کرتاہے پہلے تو ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ ہم اپنے آپ کو سیدھا کر یں ۔ جب ہم سیدھے ہوں گے تو ان جعلی پیروں فقیروں کی دکانیں ہی بند ہوجائیں گی ۔ جب تک ہم اللہ تعالی کی ذات کامل پر پختہ یقین نہیں کر لیں گے کہ ایک وہی ذات ہے جو تمام مشکلوں کاحل کر سکتی ہے ،جب تک ہم حق اوراہل حق کونہیں پہچانیں گے ہمیں ان جعلی پیروں فقیروں سے نجات نہیں مل سکتی ہے ۔

Leave a Reply