تفسیرسورۃیونس آیت ۴۱تا۴۳۔ وَ اِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ لِّیْ عَمَلِیْ وَ لَکُمْ عَمَلُکُمْ

حضورتاجدارختم نبوتﷺکے گستاخوں سے قطع تعلقی کرنے کابیان

{وَ اِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ لِّیْ عَمَلِیْ وَ لَکُمْ عَمَلُکُمْ اَنْتُمْ بَرِیْٓــُوْنَ مِمَّآ اَعْمَلُ وَ اَنَا بَرِیْٓء ٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ }(۴۱){وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُوْنَ اِلَیْکَ اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَ لَوْکَانُوْا لَایَعْقِلُوْنَ }(۴۲){وَ مِنْہُمْ مَّنْ یَّنْظُرُ اِلَیْکَ اَفَاَنْتَ تَہْدِی الْعُمْیَ وَ لَوْکَانُوْا لَایُبْصِرُوْنَ }(۴۳)

ترجمہ کنزالایمان:اور اگر وہ تمہیں جھٹلائیں تو فرمادو کہ میرے لیے میری کرنی اور تمہارے لیے تمہاری کرنی تمہیں میرے کام سے علاقہ نہیں اور مجھے تمہارے کام سے تعلق نہیں۔اور ان میں کوئی وہ ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو کیا تم بہروں کو سنا دو گے اگرچہ انہیں عقل نہ ہو۔اور ان میں کوئی تمہاری طرف تکتا ہے کیا تم اندھوں کو راہ دکھا دو گے اگرچہ وہ نہ سوجھیں۔

ترجمہ ضیاء الایمان: اوراے حبیب کریمﷺ! اگر وہ آپ کو جھٹلائیں تو آپﷺ فرمادیں کہ میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لئے ہے اور تم میرے عمل سے الگ ہو اور میراتمہارے اعمال سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔اور ان میں کچھ وہ ہیں جو آپﷺکی طرف کان لگاتے ہیں تو کیاآپﷺ بہروں کو سنا دیںگے؟ اگرچہ وہ سمجھتے نہ ہوں۔اور ان میں کوئی آپﷺ کی طرف دیکھتا ہے توکیا آپﷺ اندھوں کو راستہ دکھا دیں گے؟ اگرچہ انہیں کچھ نظرنہ آتاہو۔

لاتعلق رہنے کاحکم منسوخ ہوگیا، اب جہاد کاحکم ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو یَزِیدَ الْقَرَاطِیسِیُّ، فِیمَا کَتَبَ إِلَیَّ، ثنا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ، قَالَ:سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ فِی قَوْلِ اللَّہِ:(وَإِنْ کَذَّبُوکَ فَقُلْ لِی عَمَلِی وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ أَنْتُمْ بَرِیئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِیء ٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ)(یونس:۴۱)قَالَ:أَمَرَہُ بِہَذَا ثُمَّ نَسَخَہُ فَأَمَرَہُ بِجِہَادِہِمْ۔

ترجمہ :حضرت سیدناعبدالرحمن بن زیدبن اسلم رضی اللہ عنہ اللہ تعالی کے اس فرمان شریف {وَإِنْ کَذَّبُوکَ فَقُلْ لِی عَمَلِی وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ أَنْتُمْ بَرِیئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِیء ٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ}(اوراے حبیب کریمﷺ! اگر وہ آپ کو جھٹلائیں تو آپﷺ فرمادیں کہ میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لئے ہے اور تم میرے عمل سے الگ ہو اور میراتمہارے اعمال سے کوئی تعلق نہیں ہے )فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے آپﷺکواس کاحکم دیا،پھراسے منسوخ فرمادیا۔ پھرآپﷺکوان کے ساتھ جہاد کرنے کاحکم دیا۔
(تفسیر القرآن العظیم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس الرازی ابن أبی حاتم (۶:۱۹۵۴)

آ یت کریمہ کامعنی
وَالْمَعْنَی:لِی ثَوَابُ عَمَلِی فِی التَّبْلِیغِ وَالْإِنْذَارِ وَالطَّاعَۃِ لِلَّہِ تَعَالَی(وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ) أَیْ جَزَاؤُہُ مِنَ الشِّرْکِ(أَنْتُمْ بَرِیئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِیء ٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ)مِثْلُہُ، أَیْ لَا یُؤَاخَذُ أَحَدٌ بِذَنْبِ الْآخَرِوَہَذِہِ الْآیَۃُ مَنْسُوخَۃٌ بِآیَۃِ السَّیْفِ، فِی قَوْلِ مُجَاہِدٍ وَالْکَلْبِیِّ وَمُقَاتِلٍ وَابْنِ زَیْدٍ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کامعنی یہ ہے کہ تبلیغ کرنے ،ڈرانے اوراللہ تعالی کی اطاعت کے بارے میں میرے عمل کاثواب میرے لئے ہے اورتمھارے عمل شرک وغیرہ کی جزاتمھارے لئے ہے ۔ یعنی کسی ایک سے دوسرے کے عمل کامواخذہ نہیں ہوگااوریہ آیت کریمہ آیت السیف سے منسوخ ہے ۔ امام مجاہد، کلبی ، مقاتل اورابن زید کاقول ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۳۴۵)

حضورتاجدارختم نبوتﷺکے دشمن ایمان سے محروم کردیئے گئے

وَالْمُرَادُ تَسْلِیَۃُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَیْ کَمَا لَا تَقْدِرُ أَنْ تُسْمِعَ مَنْ سُلِبَ السَّمْعَ وَلَا تَقْدِرَ أَنْ تَخْلُقَ لِلْأَعْمَی بَصَرًا یَہْتَدِی بِہِ، فَکَذَلِکَ لَا تَقْدِرُ أَنْ تُوَفِّقَ ہَؤُلَاء ِ لِلْإِیمَانِ وَقَدْ حَکَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ أَلَّا یُؤْمِنُوا وَمَعْنَی یَنْظُرُ إِلَیْکَ أَیْ یُدِیمُ النَّظَرَ إِلَیْکَ،کَمَا قَالَ:یَنْظُرُونَ إِلَیْکَ تَدُورُ أَعْیُنُہُمْ کَالَّذِی یُغْشی عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ (الأحزاب: ۱۹)

ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو تسلی دی گئی ہے یعنی جس طرح آپﷺاسے سنانے کی قدرت نہیں رکھتے جس کی قوت سماعت سلب کرلی گئی ہو اورآپﷺیہ قدرت نہیں رکھتے کہ اندھے کے لئے بصارت کو پیداکردیں کہ وہ اس کے ساتھ رہنمائی حاصل کرسکے ، پس اسی طرح آپ ﷺان دین دشمنوں کو ایمان کی توفیق دینے کی قدرت نہیں رکھتے ، اس حال میں کہ اللہ تعالی نے ان کے بارے میں فیصلہ کرلیاکہ وہ ایمان نہیں لائیں گے اور{یَنْظُرُ إِلَیْکَ}کامعنی ہے یعنی وہ مسلسل آپﷺکی طرف دیکھتاہے جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا{یَنْظُرُونَ إِلَیْکَ تَدُورُ أَعْیُنُہُمْ کَالَّذِی یُغْشی عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْت}ترجمہ : وہ آپﷺکی طرف یوں دیکھنے لگتے ہیں کہ ان کی آنکھیں چکرارہی ہوتی ہیں ، اس کی مثل جس پرموت کی غشی طاری ہو۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۳۴۵)

یہ آیت کریمہ گستاخوں کے متعلق نازل ہوئی

قِیلَ:إِنَّہَا نَزَلَتْ فِی الْمُسْتَہْزِئِینَ، وَاللَّہُ أَعْلَمُ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ان کے متعلق نازل ہوئی جو حضورتاجدارختم نبوتﷺکی گستاخیاں کرنے والے تھے۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۸:۳۴۵)

گستاخوں کو حضورتاجدارختم نبوتﷺکے فضائل نظرنہیں آتے

اعْلَمْ أَنَّہُ تَعَالَی فِی الْآیَۃِ الْأُولَی،قَسَّمَ الْکُفَّارَ إِلَی قِسْمَیْنِ مِنْہُمْ مَنْ یُؤْمِنُ بِہِ وَمِنْہُمْ مَنْ لَا یُؤْمِنُ بِہِ، وَفِی ہَذِہِ الْآیَۃِ قَسَّمَ مَنْ لَا یُؤْمِنُ بِہِ قِسْمَیْنِ:مِنْہُمْ مَنْ یَکُونُ فِی غَایَۃِ الْبُغْضِ لَہُ وَالْعَدَاوَۃِ لَہُ وَنِہَایَۃِ النَّفْرَۃِ عَنْ قَبُولِ دِینِہِ، وَمِنْہُمْ مَنْ لَا یَکُونُ کَذَلِکَ،فَوَصَفَ الْقِسْمَ الْأَوَّلَ فِی ہَذِہِ الْآیَۃِ فَقَالَ:وَمِنْہُمْ مَنْ یَسْتَمِعُ کَلَامَکَ مَعَ أَنَّہُ یَکُونُ کَالْأَصَمِّ مِنْ حَیْثُ إِنَّہُ لَا یَنْتَفِعُ أَلْبَتَّۃَ بِذَلِکَ الْکَلَامِ فَإِنَّ الْإِنْسَانَ إِذَا قَوِیَ بُغْضُہُ لِإِنْسَانٍ آخَرَ، وَعَظُمَتْ نُفْرَتُہُ عَنْہُ،صَارَتْ نَفْسُہُ مُتَوَجِّہَۃً إِلَی طَلَبِ مَقَابِحِ کَلَامِہِ مُعْرِضَۃً عَنْ جَمِیعِ جِہَاتِ مَحَاسِنِ کَلَامِہِ، فَالصَّمَمُ فِی الْأُذُنِ، مَعْنًی یُنَافِی حُصُولَ إِدْرَاکِ الصَّوْتِ فَکَذَلِکَ حُصُولُ ہَذَا الْبُغْضِ الشَّدِیدِ کَالْمُنَافِی لِلْوُقُوفِ عَلَی مَحَاسِنِ ذَلِکَ الْکَلَامِ وَالْعَمَی فِی الْعَیْنِ مَعْنًی یُنَافِی حُصُولَ إِدْرَاکِ الصُّورَۃِ، فَکَذَلِکَ الْبُغْضُ یُنَافِی وُقُوفَ الْإِنْسَانِ عَلَی مَحَاسِنِ مَنْ یُعَادِیہِ وَالْوُقُوفُ عَلَی مَا آتَاہُ اللَّہ تَعَالَی مِنَ الْفَضَائِلِ، فَبَیَّنَ تَعَالَی أَنَّ فِی أُولَئِکَ الْکُفَّارِ مَنْ بَلَغَتْ حَالَتُہُ فِی الْبُغْضِ وَالْعَدَاوَۃِ إِلَی ہَذَا الْحَدِّ، ثُمَّ کَمَا أَنَّہُ لَا یُمْکِنُ جَعْلُ الْأَصَمِّ سَمِیعًا وَلَا جَعْلُ الْأَعْمَی بَصِیرًا،فَکَذَلِکَ لَا یُمْکِنُ جَعْلُ الْعَدُوِّ الْبَالِغِ فِی الْعَدَاوَۃِ إِلَی ہَذَا الْحَدِّ صَدِیقًا تَابِعًا لِلرَّسُولِ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالْمَقْصُودُ مِنْ ہَذَا الْکَلَامِ تَسْلِیَۃُ الرَّسُولِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ بِأَنَّ ہَذِہِ الطَّائِفَۃَ، قَدْ بَلَغُوا فِی مَرَضِ الْعَقْلِ إِلَی حَیْثُ لَا یَقْبَلُونَ الْعِلَاجَ وَالطَّبِیبُ إِذَا رَأَی مَرِیضًا لَا یَقْبَلُ الْعِلَاجَ أَعْرَضَ عَنْہُ، وَلَمْ یَسْتَوْحِشْ مِنْ عَدَمِ قَبُولِہِ لِلْعِلَاجِ، فَکَذَلِکَ وَجَبَ عَلَیْکَ أَنْ لَا تَسْتَوْحِشَ مِنْ حَالِ ہَؤُلَاء ِ الْکُفَّارِ.

ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے پہلی آیت کریمہ میں کفارکی دوقسمیں بیان کیں کہ کچھ ان میں سے ایمان لائیں گے اورکچھ ایمان نہیں لائیں گے ، اس آیت کریمہ میں ایمان نہ لانے والوں کی دوقسمیں بیان کیں۔ ان میں سے کچھ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ بغض ، عداوت اورا س دین کے قبول کرنے سے انتہائی نفرت کرتے ہیں اوران میں سے کچھ اس درجہ پرنہیں ، اس آیت کریمہ میں پہلی قسم کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: کچھ لوگ وہ ہیں جوآپﷺکاکلام سنتے ہیں حالانکہ وہ بہروں کی طرح ہیںکہ وہ اس کلام سے ہرگزنفع نہیں پاتے کیونکہ جب کسی انسان کادوسرے سے بغض قوی اورنفرت عظیم ہوتواس کانفس اس کے کلام کی قباحتوں کی طلب کی طرف متوجہ اوراس کے کلام کے محاسن کی تمام جہات سے اعراض کرے گاتویہ کانوں میں بہراپن اوران میں آواز کے ادراک کے حصول کے منافی ہے تواسی طرح اس بغض شدیدکاحصول اس کلام کے محاسن سے آگاہی سے منافی کی طرح ہوگااورآنکھوں کااندھاپن اس میں ادراک کی صورت حصول کے منافی ہے تواسی طرح بغض انسان کے اپنے دشمن کے محاسن کی آگاہی سے منافی ہے ۔ اوراس کی آگاہی سے جواللہ تعالی نے اسے فضائل عطاکئے ہیں تواللہ تعالی نے ان کفارکے بارے میں واضح کیاجوحضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ بغض وعداوت میں اس حد اورحالت کو پہنچے ہوئے ہیں جیسے بہرے کاسننے والاہونااوراندھے کادیکھنے والاہوناممکن نہیں ہے اسی طرح حضورتاجدارختم نبوتﷺکی عداوت ودشمنی میں اس حد تک پہنچنے والادشمن آپﷺکادوست اورتابع نہیں ہوسکتا۔
اس کلام سے مقصود حضورتاجدارختم نبوتﷺکو یہ تسلی دیناہے کہ یہ گروہ عقل کی بیماری میں یہاں تک پہنچاہے کہ علاج کو قبول نہیں کرتے اورطبیب جب کسی مریض کو علاج قبول کرنے والانہیں پاتاتووہ اس مریض کے علاج سے اعراض کرتاہے اوراس کے علاج کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے وہ وحشت زدہ نہیں ہوتا، اسی طرح حضورتاجدارختم نبوتﷺپریہ لازم ہے کہ آپﷺان کفارکی حالت سے وحشت نہ پائیں۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۷:۲۵۶)

حضورتاجدارختم نبوتﷺکے گستاخوں کو اندھابہرہ کہنے کی وجہ ؟

فقد شبہ اللہ المکذبین الذین أصروا علی التکذیب بالأصم والأعمی من حیث ان شدۃ بغضہم وکمال نفرتہم عن رسول اللہ منعہم عن ادراک محاسن کلامہ ومشاہدۃ دلائل نبوتہ کما یمنع الصمم فی الاذن عن ادراک محاسن الکلام ویمنع العمی فی العین عن مشاہدۃ محاسن الصورۃ ۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے کفارمکہ کوکاذب ، اندھے اوربہرے سے اس لئے تشبیہ دی ہے کیونکہ یہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ بغض وعداوت سے نہ آپﷺکے کلام کے محاسن کو سن سکے اورنہ ہی آپﷺکی نبوت شریفہ کے دلائل دیکھ سکے جیسے اندھااوربہرہ کسی کے کلام کے محاسن سن سکتاہے اورنہ کسی کی اچھی صورت کے خدوخال اورنہ اس کی صورت کے حسن وجمال کودیکھ سکتاہے۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۴۷)

گستاخوں کو تبلیغ ترک کرنے پرلبرل کااعتراض

فلما بلغوا فی معرض العقل الی حیث لا یقبلون الفلاح والطبیب إذا رأی مریضا لا یقبل العلاج اعرض عنہ ولا یستوحش من عدم قبولہ للفلاح فقد وجب التبری منہم وعدم الانفعال من إصرارہم علی التکذیب۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ چونکہ کفاراپنے کرتوتوں سے عقلی کمزوریوں کی انتہاء کو پہنچ کرفلاح ونجات کے قابل بھی نہ رہے ، اسی لئے اللہ تعالی نے ان سے ہدایت قبول کرنے کامادہ ہی ختم کردیا۔جیسے طبیب کسی مریض کو لاعلاج پاتاہے تواس کے علاج کی تمام کاروائیاں ختم کردیتاہے ایسے ہی کافروں کاحال ہے۔جب وہ ہدایت کے قابل نہ ہوتوان سے وحشت ضروری ہے اورہرمتوحش سے دوری اوربیزاری لازمی ہے اس لئے کہ کفاراپنے کفرپراصراراورتکذیب پرٹوٹ پڑنے سے اس قابل نہیں کہ ان سے انس یادوستی کادم بھراجائے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۴۷)
اس سے لبرل وسیکولرلوگوں کارد ہوگیاجبکہ یہ کہتے ہیں کہ کفارسے ہدایت کی ناامیدی کیوں؟ جبکہ اللہ تعالی قادرمطلق ہے۔تواس کے جواب میں ہم کہیں گے یہ دنیاعالم اسباب ہے ، اس میں جس طرح کاسبب ہوگااسی طرح کا حکم لگے گا۔

حکم شرع کی مخالفت کرنے والوں سے لاتعلقی کرنے کابیان

جوعورت کواس کے خاوند سے بددل کرے

حَدَّثَنَا وَکِیعٌ،حَدَّثَنَا الْوَلِیدُ بْنُ ثَعْلَبَۃَ الطَّائِیُّ،عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لَیْسَ مِنَّا مَنْ حَلَفَ بِالْأَمَانَۃِ، وَمَنْ خَبَّبَ عَلَی امْرِئٍ زَوْجَتَہُ أَوْ مَمْلُوکَہُ فَلَیْسَ مِنَّا۔
ترجمہ:حضرت سیدنابریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کہ وہ ہم میں سے نہیں جوعورت کواس کے خاوند سے بددل کرے اورغلام کواسکے مالک سے بددل کرے ۔
(السنۃ: أبو بکر أحمد بن محمد بن ہارون بن یزید الخَلَّال البغدادی الحنبلی (۵:۵)

ظالم کاساتھ دینے والااسلام سے خارج ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ، نا عَبْدُ الْحَمِیدِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ، نا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ سَالِمٍ، عَنِ الزُّبَیْدِیِّ، عَنْ عَیَّاشِ بْنِ مُؤْنِسٍ، أَنَّ أَبَا الْحَسَنِ نِمْرَانَ حَدَّثَہُ أَنَّ أَوْسَ بْنَ شُرَحْبِیلَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَحَدَ بَنِی الْمَجْمَعِ حَدَّثَہُ أَنَّہُ، سَمِعَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ مَشَی مَعَ ظَالِمٍ لِیُعِینَہُ وَہُوَ یَعْلَمُ أَنَّہُ ظَالِمٌ فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْإِسْلَام۔ِ
ترجمہ :حضرت سیدناشرحبیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: جو شخص یہ جانتے ہوئے کہ فلاں شخص ظالم ہے پھربھی اس کامددگار بناوہ شخص اسلام سے نکل گیا۔
(الآحاد والمثانی: أبو بکر بن أبی عاصم وہو أحمد بن عمرو بن الضحاک بن مخلد الشیبانی (۴:۲۴۹)

میرااس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں

حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی النَّضْرِ، نا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ،عَنِ الْأَشْجَعِیِّ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنِ السُّدِّیِّ، عَنْ رِفَاعَۃَ القَتْبَائِیِّ،عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَمِقِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ أَمَّنَ رَجُلًا عَلَی دَمِہِ ثُمَّ قَتْلَہُ فَأَنَا بَرِیء ٌ مِنَ الْقَاتِلِ وَإِنْ کَانَ الْمَقْتُولُ کَافِرًا۔
ترجمہ:حضرت سیدناعمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے کسی کوامن دے کر پھراس کوقتل کردیامیرااس سے کوئی تعلق نہیں اگرچہ وہ مقتول کافرہی کیوں نہ ہو۔
(المعجم الأوسط: سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۴:۲۹۸)

صدیق وفاروق کے گستاخ کواسلام سے خارج قراردیا

عن إبراہیم بن منبہ بن الحجاج السلمی عن أبیہ،عن جدہ، قال:قال رسول اللَّہ صلّی اللَّہ علیہ وسلّم:من رأیتموہ یذکر أبا بکر وعمر بسوء فإنّما یرتدّ عن الإسلام۔
ترجمہ:حضرت سیدناابراہیم بن منبہ بن الحجاج السلمی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے وہ اپنے داداجان سے روایت کرتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:کہ جس کودیکھو کہ وہ ابوبکر صدیق وعمر رضی اللہ عنہماکاذکر توہین کے ساتھ کررہاہے پس وہ شخص اسلام سے پھر چکاہے ۔
(الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ: أبو الفضل أحمد بن علی بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلانی (۲:۳۱)

تارک ِسنت کوگمراہ قراردیا

حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْأَقْمَرِ،عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ،عَنْ عَبْدِ اللہِ وَلَوْ تَرَکْتُمْ سُنَّۃَ نَبِیِّکُمْ لَضَلَلْتُمْ۔
ترجمہ: حضرت سیدناابوالاحوص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اگرتم نے اپنے نبی کریم ﷺکی سنت کوترک کیاتوتم گمراہ ہوجائوگے ۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (ا:۴۵۳)

وہ ہمارے دین پرنہیں مرے گا

حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ النَّحْوِیُّ الصُّورِیُّ،ثنا سُلَیْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِیُّ، ثنا الْوَلِیدُ بْنُ مُسْلِمٍ،حَدَّثَنِی شَیْبَۃُ بْنُ الْأَحْنَفِ،عَنْ أَبِی سَلَّامٍ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ الْأَشْعَرِیِّ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللہِ الْأَشْعَرِیِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَی رَجُلًا لَا یُتِمَّ رُکُوعَہُ یَنْقُرُ فِی سُجُودِہِ وَہُوَ یُصَلِّی، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لَوْ مَاتَ ہَذَا عَلَی حَالِہِ ہَذِہِ مَاتَ عَلَی غَیْرِ مِلَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوعبداللہ الاشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺنے ایک شخص کو دیکھاجو نماز کے دوران رکوع وسجدہ صحیح طورپرنہیں اداکررہاتھااورسجدہ میں ٹھونگے ماررہاتھا،ا ٓپﷺنے فرمایا: اگر یہ شخص اسی حال میں مرگیاتورسول اللہ ﷺ کے دین پرنہیں مریگا۔
(المعجم الکبیر: سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۴:۱۱۵)
ترک تعلق کی دوصورتیں ہیں
ترک تعلق اگراس کے ذاتی حقوق کی بناء پر ہوجیسے اس نے اس کی غیبت کی ہوتویہ جائز نہیں اگر ترک تعلق دین میںتقصیر کی بناپر ہوتوجیسے کوئی بدمذہب ہوگیاتواس سے ترک تعلق ہمیشہ کے لئے واجب ہے ۔
(الدرلمنضود جلد ۶ ص۵۵۴)

کسی مسلمان کیساتھ تین دن سے زیادہ ترک تعلق جائز نہیں

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ،عَنْ مَالِکٍ،عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:َلا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَحَاسَدُوا،وَلَا تَدَابَرُوا، وَکُونُوا عِبَادَ اللَّہِ إِخْوَانًا، وَلَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ یَہْجُرَ أَخَاہُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَیَالٍ۔
ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:آپس میں بغض نہ رکھو،ایک دوسرے پرحسد نہ کرو،آپس میںایک دوسرے کے ساتھ قطع تعلق نہ کرو،اللہ کے بندوں آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو،کسی مسلمان کے لئے جائز نہیںکہ کسی مسلمان کے ساتھ تین دن سے زیادہ ترک تعلق کرے ۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر بن شداد بن عمرو الأزدی السَِّجِسْتانی (۴:۲۷۸)
اس سے ثابت ہواکہ کسی مسلمان کے ساتھ تین دن تک ترک تعلق حرام نہیںکیونکہ تین دن تک انسان میں غضب رہتاہے بعد میںٹھنڈاہوجاتاہے اس لئے اتنامعاف رکھاگیاہے ۔

مشرکین کے ساتھ نہ بیٹھو

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْل،أنا عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ نا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ نا أَبُو الْیَمَانِ نا جَرِیرعَنْ سُلَیْمَانَ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ أَنَّہُ قَدِمَ عَلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ لَہُ:کَیْفَ تَرَکْتَ أَہْلَ الشَّامِ؟ فَأَخْبَرَہُ عَنْ حَالِہِمْ فَحَمِدَ اللہَ ثُمَّ قَالَ:لَعَلَّکُمْ تَجَالِسُونَ أَہْلَ الشِّرْکِ؟فَقَالَ:لَا یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ قَالَ:إِنَّکُمْ إِنْ جَالَسْتُمُوہُمْ أَکَلْتُمْ وَشَرِبْتُمْ مَعَہُمْ وَلَنْ تَزَالُوا بِخَیْرٍ مَا لَمْ تَفْعَلُوا ذَلِکَ۔
ترجمہ:حضرت حارث بن معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اہل شام کاکیاحال ہے ؟ حضرت حارث نے عرض کیاسب ٹھیک ہیںتوحضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا:کیاتم مشرکین کے پاس تو نہیںبیٹھتے ؟ تم خیر میں رہوگے جب تک تم ان سے دور رہوگے۔
(شعب الإیمان: أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۱۲:۱۴)

بدمذہب کے ساتھ کھاناکھانا

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بُشْرَانَ أنا دَعْلَجُ بْنُ أَحْمَدَنا عِیسَی بْنُ سُلَیْمَانَ نا دَاوُدُ بْنُ رُشَیْدنا خَلَفُ بْنُ خَلِیفَۃَ عَنْ حَصِینٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍقَالَ:أَرْبَعَۃٌ تُعَدُّ مِنَ الْجَفَاء ِ:دُخُولُ الرَّجُلِ الْمَسْجِدَ یُصَلِّی فِی مُؤَخِّرِہ وَیَدَعُ أَنْ یَتَقَدَّمَ فِی مُقَدِّمِہِ وَیَمُرُّ الرَّجُلُ بَیْنَ یَدَیِ الرَّجُلِ وَہُوَ یُصَلِّی وَمَسَحُ الرَّجُلِ جَبْہَتَہُ قَبْلَ أَنْ یَقْضِیَ صَلَاتَہُ وَمُؤَاکِلَۃُ الرَّجُلِ مَعَ غَیْرِ أَہْلِ دِینِہِ ۔
ترجمہ:حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ چار چیزیں ظلم میں شمارکی جاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ کوئی مسجد میں جائے مگر نماز پیچھے پڑھے اوراگلی جگہ چھوڑ دے اورکسی شخص کاکسی نماز ی کے سامنے سے گزرناجس وقت وہ نماز اداکررہاہواورکسی شخص کانماز ختم ہونے سے پہلے اپنی پیشانی صاف کرنااورمسلمان کے علاوہ کسی اورمذہب والے کے ساتھ بیٹھ کرکھاناکھانا۔
(شعب الإیمان: أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۱۲:۱۴)

اللہ کے دشمنوں سے دوررہو

عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّہُ قَالَ:اجْتَنِبُوا أَعْدَاء َ اللہِ الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی فِی عِیدِہِمْ یَوْمَ جَمْعِہِمْ فَإِنَّ السَّخَطُ یَنْزِلُ عَلَیْہِمْ فَأَخْشَی أَنْ یُصِیبَکُمْ وَلَا تَعْلَمُوا بِطَانَتَہُمْ فَتَخَلَّقُوا بِخُلُقِہِمْ ۔
ترجمہ:حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ اے لوگو !اللہ کے دشمن یہود ونصاری سے دوررہوان کی عید میں اوران کے اجتماع میںجمع نہ ہوناکیونکہ ان پر اللہ تعالی کاغضب نازل ہوتاہے مجھے ڈرہے کہ وہ تم پرنہ نازل ہوجائے اورتم ان کی خفیہ سازشیں نہیں جانتے تم ان کے اخلاق اپنابیٹھوگے ۔
(شعب الإیمان: أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۱۲:۱۸)

حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کاعمل

وَإِنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ غَطَّی وَجْہَہُ عَنْ رَجُلٍ۔
ترجمہ:حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کودیکھ کراپنامنہ ڈھانپ لیاتھا۔
(سنن أبی داود: أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر بن شداد بن عمرو الأزدی السَِّجِسْتانی (۴:۲۷۸)

ناحق کوئی چیز دبانے والاہم میں سے نہیں

عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ، قَال:حَدَّثَنِی یَحْیَی بْنُ یَعْمَرَ، أَنَّ أَبَا الْأَسْوَدِ الدِّیلِیَّ،حَدَّثَہُ عَنْ أَبِی ذَرٍّ، أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:مَنِ ادَّعَی مَا لَیْسَ لَہُ فَلَیْسَ مِنَّا، وَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جو کوئی اس چیز کادعوی کرے جو اس کی نہیں ہے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے اوروہ اپناٹھکاناجہنم بنالے ۔
(سنن ابن ماجہ: ابن ماجۃ أبو عبد اللہ محمد بن یزید القزوینی، وماجۃ اسم أبیہ یزید (۲:۷۷۷)
اس سے بڑھ کر اورڈانٹ کیاہوسکتی ہے کہ رسول اللہ ﷺایسے شخص سے بیزاری اورنفرت کااظہارفرمارے ہیں کہ اس کاہمارے ساتھ تعلق نہیں ہے ۔

جو بھائیوں سے بھاگے وہ ہم میں سے نہیں

حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ جَحْشٍ قَالَ:نَا جُنَادَۃُ بْنُ مَرْوَانَ قَالَ:نَا الْحَارِثُ بْنُ النُّعْمَانِ قَالَ:سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ، یَقُولُ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یُوَقِّرْ کَبِیرَنَا، وَیَرْحَمْ صَغِیرَنَا، وَیُؤَاخِی فِینَا وَیَزُورُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جو ہمارے بڑوں کی عزت اورچھوٹوں پر شفقت نہ کرے ، مسلمانوں کے ساتھ بھائی چارہ اورملاقات نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔
(المعجم الأوسط:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۵:۱۰۷)

ریشمی لباس اورچاندی کے برتن استعمال کرنے والا

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنْ لَبِسَ الْحَرِیرَ أَوْ شَرِبَ مِنْ فِضَّۃٍ فَلَیْسَ مِنَّا۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماروایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جو شخص ریشمی لباس پہنے اورچاندی کے برتن میں پیئے ہ ہم میں سے نہیں ہے ۔
(المعجم الأوسط:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۸:۷۹)

جو سانپ کو نہ مارے وہ ہم میں سے نہیں ہے

عَنْ جَرِیرٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:اقْتُلُوا الْحَیَّاتِ کُلَّہَا مَنْ تَرَکَہَا خَشْیَۃَ ثَأْرِہا فَلَیْسَ مِنَّا۔
ترجمہ:حضرت سیدناجریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: تمام سانپوں کو قتل کرو ، جس شخص نے سانپ کے انتقام کے ڈرسے اس کو قتل نہ کیاتو وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔
(المعجم الکبیر:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۲:۵۳۵)
اس حدیث شریف کے تحت محدثین بیان کرتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کہاکرتے تھے کہ سانپوں کو قتل نہ کرو کیونکہ اگرتم اس کو ماروگے تو اس کاجوڑ ی دار آکر بطور انتقام تم کو ضرورڈسے گا ۔ اس حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺنے اس اعتقاد سے منع فرمایا، حدیث شریف کاایک معنی یہ بھی ہے کہ اگرکوئی شخص اس خیال سے سانپ کو مارنے سے احتراز کرے کہ یہ جن ہے جوسانپ کی شکل میں نمودار ہواہے ، اگراس کو ماروں گاتودوسرے جن مجھ سے انتقام لیں گے ، اس خیال سے بھی سانپ کو زندہ چھوڑ نامناسب نہیں ہے، البتہ اگرکوئی ایسی علامت ظاہر ہوجس سے یہ یقین ہوجائے کہ یہ واقعی جن ہے سانپ نہیں ہے پھراس کو زندہ چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں
پہلے جہلاء عرب کہتے تھے اورجہلائے ہندتوابھی تک بھی کہتے ہیں کہ سانپ کو مارنے والے سے اس کی ناگنی بدلہ لیتی ہے اس لئے سانپ کو مت مارو ، اس فرمان عالی شان میں اسی خیال کی تردیدکی گئی ہے ، بھلاسانپنی یعنی نانگن کو کیاخبرکہ اس کو کس نے ماراہے ؟ لوگوں میں مشہور ہے کہ مارے ہوئے سانپ کی آنکھوں میں مارنے والے کافوٹوآجاتاہے ،اس فوٹوسے ناگن قاتل کو پہچان لیتی ہے ، اس لئے سانپ کو مارکر اس کاسرجلادیاجاتاہے تاکہ آنکھوں میں فوٹونہ رہ جائے ، مگریہ بھی غلط ہے ، اس کاسرجلادینااس کو مارڈالنے کے لئے ہے، وہ لاٹھی کھاکر بے ہوش ہوجاتاہے ، لوگ اس کو مردہ جان کرچھوڑ دیتے ہیں ، وہ کچھ عرصہ بعد ہوش میں آکر چلاجاتاہے ، آگ میں جلانااس لئے ہے تاکہ واقعی مرجائے ، خیال رہے کہ جب تک سانپ الٹانہ پڑ جائے کہ پیٹ اوپر آجائے تب تک وہ زندہ رہتاہے ۔
(مرۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح لعلامہ مفتی احمدیارخاں نعیمی (۵: ۶۸۷)

جو ہمارے خلاف ہتھیار اٹھالے وہ ہم میں سے نہیں

حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ، ثنا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ الْحَوْضِیُّ،ثنا سُوَیْدُ بْنُ الْخَطَّابِ، ثنا إِیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ، قَالَ:سَمِعْتُ أَبِی یَقُولُ:سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ سَلَّ السَّیْفَ عَلَیْنَا فَلَیْسَ مِنَّا۔
ترجمہ :حضرت سیدناسلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جو شخص ہم پر تلوار سونت لے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔
(المعجم الکبیر:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۷:۱۹)
امام شرف الدین النووی الشافعی المتوفی ( ۶۷۶ھ) کاقول
وَہِیَ أَنَّ مَنْ حَمَلَ السِّلَاحَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَلَا تَأْوِیلٍ وَلَمْ یَسْتَحِلَّہُ فَہُوَ عَاصٍ وَلَا یَکْفُرُ بِذَلِکَ فَإِنِ اسْتَحَلَّہُ کَفَرَ فَأَمَّا تَأْوِیلُ الْحَدِیثِ فَقِیلَ ہُوَ مَحْمُولٌ عَلَی الْمُسْتَحِلِّ بِغَیْرِ تَأْوِیلٍ فَیَکْفُرُ وَیَخْرُجُ مِنَ الْمِلَّۃِ ۔
ترجمہ :جو شخص اہل اسلام پر ناحق اوربلاتاویل تلواراٹھالے اوراس قتل کو حلال بھی نہ جانتاہو وہ گناہگارہے لیکن کافرنہیں ہوگااوردین سے خارج بھی نہیں ہوگا، رہی یہ بات کہ اگروہ مسلمانوں کے قتل کو حلال جانتاہوتوپھراس کو کافرکہاجائے گاکیونکہ پھریہ حدیث شریف اپنے ظاہری معنی پر محمول ہوگی اورایساشخص دین سے خارج ہوجائے گا۔
(المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج:أبو زکریا محیی الدین یحیی بن شرف النووی (۲:۱۰۸)
امام محمدبن محمدالخادمی الحنفی المتوفی ( ۱۱۵۶ھ) اس کی شرح میں فرماتے ہیں
الْحَمْلُ کِنَایَۃٌ عَنْ الْمُقَاتَلَۃِ وَالْمُضَارَبَۃِ فَلَیْسَ مِنَّا إنْ اسْتَحَلَّ وَإِلَّا فَالْمُرَادُ فَلَیْسَ الْمُتَخَلِّقُ بِأَخْلَاقِنَا أَوْ الْعَامِلُ بِسُنَّتِنَا وَالْمُسْتَحِقُّ لِشَفَاعَتِنَا۔

ترجمہ :’’مَنْ حَمَلَ عَلَیْنَا السِّلَاحَ‘‘ الحمل کنایہ ہے مقاتلہ اورمضاربہ سے یعنی جو شخص ہمارے خلاف ہتھیاراٹھاکرقتال کرے یاہمارے مسلمانوں کو مارے وہ ہم میںسے نہیں ہے۔ اگروہ حلال جان کر اہل اسلام کو قتل کرناشروع کردے توہ دین اسلام سے خارج ہوجائے گااگرحلال نہیں جانتاتو پھراس کامعنی یہ ہے کہ اس نے ہمارے اخلاق نہیں اپنائے اوروہ ہماری سنت پر عمل پیرانہیں ہوا، اوروہ ہماری شفاعت کامستحق نہیں ہے۔
(بریقۃ محمودیۃ فی شرح طریقۃ محمدیۃمحمد بن محمد بن مصطفی بن عثمان، أبو سعید الخادمی الحنفی(۴:۸۱)

اس حدیث پاک سے ہر شخص بآسانی نتیجہ اخذ کرسکتاہے کہ رسول اللہ ﷺنے اس شخص کے ساتھ بیزار ی اورلاتعلقی کااعلان فرمادیاہے کہ جو شخص اہل اسلام پر ہی تلوار اٹھالے اوران کو قتل کرناشروع کردے ۔ آج آپ ملاحظ کرسکتے ہیں کہ ساری دنیامیں جہاں کہیں بھی مسلمان کاقتل ہورہاہے وہاں صرف کافر ہی نہیں بلکہ وہاں مسلمان کاہاتھ اس میں ضرورہے ۔ ان کی مدداورتعاون ان کفار کو حاصل ہے ۔ فلسطینی مسلمان کاقتل ہوتووہاں اسرائیل کو سعودیہ ،اورتمام عرب ممالک کی مددحاصل ہے اوراسی طرح جب افغانستان میں اہل اسلام پر ظلم ہواتو وہاں امریکہ کو امداددینے والا پاکستان کا حرام خور جرنل مشرف تھا، آج کشمیرمیں جتناظلم ہورہاہے اس میں بھی نام نہاد مسلمانوں کاہاتھ شامل ہے ، اگرپاکستان میں اسامہ بن لادن پکڑاجاتاہے تو اس میں ایک حرام خور ڈاکٹر کاہاتھ شامل ہے ، اورآج ہماری حکومت اوردفاعی ادارے جب بھی ہتھیار اٹھاتے ہیں تووہ اہل اسلام کے خلاف ہی اٹھاتے ہیں ۔ ان سب کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ رسول اللہ ﷺفرمارہے ہیں کہ ان کامیرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔

غسل کے بعد وضو کرنے والاہم میں سے نہیں

عَنْ عِکْرِمَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِی اللہُ عَنْہُ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنْ تَوَضَّأَ بَعْدَ الْغُسْلِ فَلَیْسَ مِنَّا۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جو شخص غسل کرنے کے بعد بھی وضو کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔
(المعجم الصغیر:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۱:۱۸۶)

رسول اللہ ﷺغسل فرمانے کے بعد وضو نہیں کرتے تھے

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُوسَی، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَۃَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ لاَ یَتَوَضَّأُ بَعْدَ الغُسْلِ ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌوَہَذَا قَوْلُ غَیْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَالتَّابِعِینَ:أَنْ لاَ یَتَوَضَّأَ بَعْدَ الغُسْل۔
ترجمہ:حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺغسل فرمانے کے بعد وضو نہیں کیاکرتے تھے ۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ اوریہی قول بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورتابعین کرام رضی اللہ عنہم غسل کرنے کے بعد وضونہیں کیاکرتے تھے ۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (ا:۱۶۸)

اگرکسی شخص نے غسل کرنے سے پہلے وضونہیں کیاتو بھی اس کے لئے جائز ہے کہ وہ نماز پڑھ لے کیونکہ طہارت کبری کے ضمن میں طہارت صغری یعنی وضو بھی ہوجاتا ہے ۔کیونکہ جو اعضاوضو میں دھوئے جاتے ہیں وہ اعضاء غسل میں بھی دھل جاتے ہیں لہذاغسل کے بعد وضو کی حاجت نہیں ہے ۔

جو وترادانہ کرے وہ ہم میں سے نہیں

عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ، عَنْ أَبِیہِ،قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:الْوَتْرُ حَقٌّ، فَمَنْ لَمْ یُوتِرْ فَلَیْسَ مِنَّا۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد ماجد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: وترکی نماز حق ہے اورجوشخص وترنہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ۔
(الکتاب المصنف :أبو بکر بن أبی شیبۃ، عبد اللہ بن محمد بن إبراہیم بن عثمان بن خواستی العبسی (۲:۹۲)

جو سلام کاجواب نہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے

عن عبد الرحمن بن شبل الصحابی رضی اللہ عنہ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:مَنْ أجَابَ السَّلامَ فَہُوَ لَہُ،وَمَنْ لَمْ یُجِبْ فَلَیْسَ مِنَّا ۔
ترجمہ : حضرت سیدناعبدالرحمن بن شبل الصحابی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس نے سلام کاجواب دیاوہ اس کااجرپائے گا اورجس نے سلام کاجواب نہ دیاوہ ہم میں سے نہیں ہے ۔
(الأذکار:أبو زکریا محیی الدین یحیی بن شرف النووی :۲۵۹)

امام ابوزکریاالنووی المتوفی ( ۶۷۶ھ) فرماتے ہیں
ویُستحبّ لمن سلَّم علی إنسان فلم یَرُدَّ علیہِ أن یقول لہ بعبارۃ لطیفۃ :ردُّ السلام واجبٌ،فینبغی لک أن تردّ علیّ لیسقطَ عنک الفرضُ،واللہ أعلم.
ترجمہ :مستحب ہے کہ جو شخص سلام کرنے والاہے وہ جواب نہ دینے والے شخص کو کہے کہ ’’سلام کاجواب دیناواجب ہے ، اورآپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ مجھے سلام کاجواب دیں تاکہ آپ فرض سے سبکدوش ہوسکیں ۔
(الأذکار:أبو زکریا محیی الدین یحیی بن شرف النووی :۲۵۹)

مونچھیں نہ تراشنے والاہم میں سے نہیں ہے

عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ،قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَأْخُذْ مِنْ شَارِبِہِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنازید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جو شخص اپنی مونچھیں نہ تراشے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔
(مسند ابن أبی شیبۃ:أبو بکر بن أبی شیبۃ، عبد اللہ بن محمد بن إبراہیم بن عثمان بن خواستی العبسی (۱:۳۵۴)
امام محمدبن محمدالخادمی الحنفی المتوفی ( ۱۱۵۶ھ) اس کی شرح میں فرماتے ہیں
مَا طَالَ حَتَّی یُبَیِّنَ الشَّفَۃَ بَیَانًا فَلَیْسَ مِنَّا أَیْ لَیْسَ عَلَی طَرِیقَتِنَا الْإِسْلَامِیَّۃِ ۔
ترجمہ :فرماتے ہیں کہ اس فرمان شریف میں اس شخص کے لئے وعید ہے جس کی مونچھیں اتنی لمبی ہوجائیں کہ ہونٹ چھپ جائیں ، اوریہ جو فرمایاکہ وہ ہم میں سے نہیں ہے کامطلب یہ ہے کہ وہ ہمارے اسلامی طریقہ پر نہیں ہے ۔
(بریقۃ محمودیۃ فی شرح طریقۃ محمدیۃ:محمد بن محمد بن مصطفی بن عثمان، أبو سعید الخادمی الحنفی(۴:۱۷۳)

جوتیر اندازی چھوڑ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے

عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ فِی اخْتِلَافِہِ بَیْنَ الْغَرَضَیْنِ، وَقَوْلِہِ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ عُلِّمَ الرَّمْیَ، ثُمَّ تَرَکَہُ فَلَیْسَ مِنَّا،أَوْ قَدْ عَصَی۔
ترجمہ :حضرت سیدناعقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جو شخص تیراندازی سیکھے پھراس کو چھوڑدے وہ ہم میں سے نہیں ہے یافرمایاکہ اس نے نافرمانی کی ہے ۔
(السنن الصغیر للبیہقی:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۴:۹۰)

مشرکین کے ساتھ تعلق رکھنے والے سے کوئی تعلق نہیں

عَنْ سَمُرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَال:لَا تُسَاکِنُوا الْمُشْرِکِینَ، وَلَا تُجَامِعُوہُمْ، فَمَنْ سَاکَنَہُمْ أَوْ جَامَعَہُمْ فَلَیْسَ مِنَّا۔
ترجمہ :حضرت سیدناسمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: تم مشرکین کے ساتھ ایک گھرمیں نہ رہواورجہاں وہ ہوں وہاں بھی نہ جائو،جو شخص ان کے ساتھ رہایاان کی مجالس میں بیٹھاوہ ہم میں سے نہیں ہے ۔
(المستدرک علی الصحیحین:أبو عبد اللہ الحاکم محمد بن عبد اللہ بن محمد بن حمدویہ بن نُعیم المعروف بابن البیع (۲:۱۵۴)
حکمرانوں کے خوشامدی لوگوںکے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے
عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ، قَالَ:قَالَ لِی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:أُعِیذُکَ بِاللَّہِ یَا کَعْبَ بْنَ عُجْرَۃَ مِنْ أُمَرَاء َ یَکُونُونَ مِنْ بَعْدِی،فَمَنْ غَشِیَ أَبْوَابَہُمْ فَصَدَّقَہُمْ فِی کَذِبِہِمْ، وَأَعَانَہُمْ عَلَی ظُلْمِہِمْ فَلَیْسَ مِنِّی وَلَسْتُ مِنْہُ، وَلَا یَرِدُ عَلَیَّ الحَوْضَ، وَمَنْ غَشِیَ أَبْوَابَہُمْ أَوْ لَمْ یَغْشَ وَلَمْ یُصَدِّقْہُمْ فِی کَذِبِہِمْ، وَلَمْ یُعِنْہُمْ عَلَی ظُلْمِہِمْ، فَہُوَ مِنِّی وَأَنَا مِنْہُ، وَسَیَرِدُ عَلَیَّ الحَوْضَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناکعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺہمارے پاس تشریف لا ئے اورفرمایا: اے کعب!میں تمھیں ان حکمرانوں سے محفوظ رہنے کی دعادیتاہوں جو میرے بعدآنے والے ہیں ، جوشخص ان کے دروازوں پرجائے گااوران کی جھوٹی باتوں کی تصدیق کرے گا اوران کے ظلم میں ان کامددگاربنے گااس کامجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے اورمیراان سے تعلق نہیں ہے اوروہ میرے حوض کوثرپر بھی نہیں آسکے گا۔اوروہ شخص جو ان کے دروازے پر نہ جائے اوران کے ظلم میں ان کامددگارنہ بنے اوران کے جھوٹ کی تصدیق نہ کرے اس کامیرے ساتھ بھی تعلق ہے اورمیرااس کے ساتھ تعلق ہے اورایساشخص میرے حوض کوثر پر بھی آئے گا۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (:۲:۵۱۲)

Leave a Reply