دارالسلام کی طرف دعوت دینے والے کون؟
{وَاللہُ یَدْعُوْٓا اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ وَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآء ُ اِلٰی صِرٰطٍ مُّسْتَقِیْمٍ }(۲۵)
ترجمہ کنزالایمان:اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف پکارتا ہے اور جسے چاہے سیدھی راہ چلاتا ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اور اللہ تعالی سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور جسے پسندفرماتاہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت عطافرمادیتا ہے۔
جس نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی دعوت قبول کی
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَادَۃَ أَخْبَرَنَا یَزِیدُ حَدَّثَنَا سَلِیمُ بْنُ حَیَّانَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مِینَاء َ حَدَّثَنَا أَوْ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ یَقُولُ جَاء َتْ مَلَائِکَۃٌ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ نَائِمٌ فَقَالَ بَعْضُہُمْ إِنَّہُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُہُمْ إِنَّ الْعَیْنَ نَائِمَۃٌ وَالْقَلْبَ یَقْظَانُ فَقَالُوا إِنَّ لِصَاحِبِکُمْ ہَذَا مَثَلًا فَاضْرِبُوا لَہُ مَثَلًا فَقَالَ بَعْضُہُمْ إِنَّہُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُہُمْ إِنَّ الْعَیْنَ نَائِمَۃٌ وَالْقَلْبَ یَقْظَانُ فَقَالُوا مَثَلُہُ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی دَارًا وَجَعَلَ فِیہَا مَأْدُبَۃً وَبَعَثَ دَاعِیًا فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِیَ دَخَلَ الدَّارَ وَأَکَلَ مِنْ الْمَأْدُبَۃِ وَمَنْ لَمْ یُجِبْ الدَّاعِیَ لَمْ یَدْخُلْ الدَّارَ وَلَمْ یَأْکُلْ مِنْ الْمَأْدُبَۃِ فَقَالُوا أَوِّلُوہَا لَہُ یَفْقَہْہَا فَقَالَ بَعْضُہُمْ إِنَّہُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُہُمْ إِنَّ الْعَیْنَ نَائِمَۃٌ وَالْقَلْبَ یَقْظَانُ فَقَالُوا فَالدَّارُ الْجَنَّۃُ وَالدَّاعِی مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَنْ أَطَاعَ مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّہَ وَمَنْ عَصَی مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَدْ عَصَی اللَّہَ وَمُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرْقٌ بَیْنَ النَّاسِ تَابَعَہُ قُتَیْبَۃُ عَنْ لَیْثٍ عَنْ خَالِدٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی ہِلَالٍ عَنْ جَابِرٍ خَرَجَ عَلَیْنَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
ترجمہ :حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا:چند فرشتے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے پاس آئے جبکہ آپ ﷺمحو استراحت تھے۔ بعض فرشتوں نے کہا:اس وقت آپﷺ سو رہے ہیں اور بعض نے کہا:ان کی صرف آنکھ سوتی ہے مگر دل بیدار رہتا ہے ۔پھر انہوں نے کہا:تمہارے ان صاحب کی ایک مثال ہے وہ مثال بیان کرو، کچھ فرشتوں نے کہا:وہ تو سو رہے ہیں۔بعض نے کہا:نہیںصرف آنکھ سوتی ہے مگر دل بیدار رہتا ہے ۔پھر وہ کہنے لگے :ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک گھر تعمیر کیا پھر لوگوں کی دعوت کے لیے کھانا تیار کیا اب ایک شخص کو دعوت دینے کے لیے بھیجا تو جس شخص نے اس بلانے والے کی بات مان لی وہ مکان میں داخل ہوگا اور کھانا کھائے گااور جس نے بلانے والے کی بات نہ مانی تو وہ مکان میں داخل ہوگا اور نہ کھانا کھا سکے گا پھرانہوں نے کہا:اس مثال کی وضاحت کرو تاکہ وہ سمجھ لیں۔ بعض کہنے لگے :یہ سو رہے ہیں اور بعض نے کہا:صرف آنکھیں سو تی ہیں مگر دل بیدار رہتا ہے۔ پھر کہنے لگے:وہ مکان جنت ہے اور بلانے والے حضورتاجدارختم نبوتﷺہیں لہذا جس نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی اطاعت کی اس نے گویا اللہ تعالی کی اطاعت کی اور جس نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی نافرمانی کی اس نے گویا اللہ تعالی کی نافرمانی کی ۔حضورتاجدارختم نبوتﷺلوگوں کواچھے برے سے الگ کرنے والے ہیں ۔قتیبہ نے اپنی سند کے ذریعے سے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے میں محمد بن عبادہ کی متابعت کی کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺہمارے پاس تشریف لائے۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۹:۹۳)
دوفرشتے روزانہ اس دعوت کااعلان کرتے ہیں
عَنْ أَبِی الدَّرْدَاء ِ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ،مَا مِنْ یَوْمٍ طَلَعَتْ فِیہِ شَمْسُہُ إِلَّاوَتَجَلَیَتْہَا مَلَکَانِ یُنَادِیَانِ یَسْمَعْہُ خَلْقُ اللَّہِ کُلُّہُمْ إِلَّا الثَّقَلَیْنِ:یَا أَیُّہَا النَّاسُ،ہَلُمُّوا إِلَی رَبِّکُمْ (وَاللَّہُ یَدْعُو إِلَی دَارِ السَّلَامِ وَیَہْدِی مَنْ یَشَاء ُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابودرداء رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:ہرروز جب سورج طلوع ہوتاہے تواس کی دونوں اطراف دوفرشتے آواز دیتے ہیں جسے جنوں اورانسانوں کے علاوہ ساری مخلوق سنتی ہے اے لوگو!اپنے رب تعالی کی طرف آئواوراللہ تعالی جنت کی دعوت دیتاہے ۔اوراللہ تعالی جسے چاہتاہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتاہے ۔
(تفسیر القرآن العظیم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد الرازی ابن أبی حاتم (۶:۱۹۴۲)
اللہ تعالی کی دعوت قبول کرنے کی علامت
واعلم ان قبول الدعوۃ لا بد فیہ من علامۃ وہی التزہد فی الدنیا والسلوک الی طریق الفردوس الأعلی والتوجہ الی الحضرۃ العلیا ألا تری الی ابن أدہم خرج یوما یصطاد فاثار ثعلبا أو أرنبا فبینما ہو فی طلبہ ہتف بہ ہاتف ألہذا خلقت أم بہذا أمرت ثم ہتف بہ من قربوس سرجہ واللہ ما لہذا خلقت ولا بہذا أمرت فنزل عن مرکوبہ وصادف راعیا لابیہ فاخذ جبۃ الراعی وہی من صوف فلبسہا وأعطاہ فرسہ وما معہ ثم دخل البادیۃ وکان من شأنہ ما کان۔
ترجمہ :اللہ تعالی کی دعوت قبول ہونے کی علامت یہ ہے کہ بندہ دنیااوراس کے جمیع تعلقات سے فارغ ہوکرجنت الفردوس کی راہ پرگامزن ہوجائے اورہمہ وقت اورہمہ جہت اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو۔
حضرت سیدناابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ تعالی ایک دفعہ شکارکے لئے نکلے توآپ رحمہ اللہ تعالی کے سامنے لومڑی یاہرنی آئی ،آپ نے اسے شکارکرنے کے لئے اس کے پیچھے گھوڑادوڑایاتوہاتف غیبی سے آواز آئی :کیاتم اسی لئے پیداہوئے ہو؟ کیاتمھیں شکارکرنے کے لئے مامورکیاگیاہے ، آپ رحمہ اللہ تعالی نے اس طرف توجہ نہ دی ، پھروہی آواز دوبارہ سنی توگھوڑے سے اترپڑے اورایک چرواہے سے اون کالباس لے کرپہن لیااورشاہی گھوڑااوردیگرسامان اسی چرواہے کودے دیااورخود جنگل کی جانب روانہ ہوگئے ، پھروہ مرتبہ پایاکہ جس پر اولیاء کرام بھی رشک کرتے ہیں۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۳۷)
حضورتاجدارختم نبوتﷺکے جنت کے داعی ہونے اورنعت خوانوں کاجنت سے اعراض کرنے کے بیان میں
آجکل بہت سے نعت خوان جنت کی توہین کرتے ہوئے نظرآتے ہیں
ایک شاعرکہتاہے کہ
جیہڑی جنت داتومان کریندے ملاں اس جنت وچ مول نہ وڑسوں
جیہڑی دوزخ دے توڈراوے ڈیندیں اس دوزخ مول نہ سڑسوں
مطلب :شاعرکہتاہے کہ اے مولوی !جس جنت پرتجھے فخرہے اس جنت میں ہم توکبھی نہیں جائیں گے اورجس دوزخ کی باتیں کرکے توہمیں ڈراتاہے اس دوزخ میں بھی ہم نہیں جائیں گے ۔
اس شعرمیں جنت اورجہنم کی توہین کی گئی ہے ۔
ایک اورشاعرکہتاہے:
اے جنت تجھ میں حوروقصوررہتے ہیں
آ توطواف کرمیرامیرے دل میں حضوررہتے ہیں
اوراس شعرمیں بھی جواس نے جنت کے متعلق الفاظ لکھے ہیں وہ ہربندہ سمجھ سکتاہے کہ وہ کیاکہناچاہ رہاہے ۔
اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ
مجھے دیکھ کرجہنم کو بھی آگیاپسینہ (نعوذباللہ من ذلک )
اسی طرح ایک جاہل خطیب کوکہتے ہوئے سناکہ جب قیامت کادن آئے گاتومیں جنت کو آگ لگادوں اوردوزخ کوبھجاکررکھ دوں گا۔ استغفراللہ العظیم ۔
اب ہم یہاں پرجنت کے حصول کے متعلق چندایک احادیث شریفہ بیان کرتے ہیں ، آپ بھی پڑھیں اورایمان تازہ کریں۔
حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بعثت کے مقاصدمیں سے ایک مقصدیہ بھی ہے
عَنْ أَبِی ذَرٍّ،قَالَ:تَرَکْنَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،وَمَا طَائِرٌ یُقَلِّبُ جَنَاحَیْہِ فِی الْہَوَاء ِ، إِلَّا وَہُوَ یُذَکِّرُنَا مِنْہُ عِلْمًا،قَالَ:فَقَالَ:صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَا بَقِیَ شَیْء ٌ یُقَرِّبُ مِنَ الْجَنَّۃِ،ویُبَاعِدُ مِنَ النَّارِ، إِلَّا وَقَدْ بُیِّنَ لَکُمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ہم کواس وقت تک نہیں چھوڑاجب تک کہ ہمیں ہرایک چیز کے بارے میں بتانہیں دیایہاں تک کہ اگرکوئی پرندہ ہوامیں بھی اڑناتھاتوآپﷺنے ہمیں وہ بھی بتادیا۔اوریہ بھی فرمایاکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا کہ کوئی ایسی چیز باقی نہیں بچی جوجنت کے قریب اور جہنم سے د ور کردینے والی ہو مگر وہ تمہارے لئے بیان کردی گئی ہے۔
(المعجم الکبیر:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۲:۱۵۵)
اس سے معلوم ہواکہ بعثتِ نبوی ﷺکا ایک مقصد امت کیلئے ایسے اعمال کی نشاندہی کرنا بھی تھا، جن سے جنت کاقرب حاصل ہوجائے اور جہنم سے د وری ہوجائے۔ توہمارے نعت خوان جنت سے بھاگتے پھرتے ہیں۔
حضورتاجدارختم نبوتﷺتوجنت کی ضمانت دیتے ہیں
عَنْ ثَوْبَانَ،قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنْ یَتَکَفَّلُ لِی بِوَاحِدَۃٍ أَتَقَبَّلْ أَوْ أَتَکَفَّلْ لَہُ بِالْجَنَّۃِ؟ قَالَ ثَوْبَانُ:فَقُلْتُ:أَنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ،قَالَ:لَا تَسْأَلْ أَحَدًا شَیْئًا فَقَالَ فَکَانَ ثَوْبَانُ رُبَّمَا وَقَعَ سَوْطُہُ فَیَنْزِلُ حَتَّی یَتَنَاوَلَہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: کون ہے جو مجھے ایک چیز کی ضمانت دے، میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں؟حضرت سیدناثوبان رضی اللہ عنہ نے عرض کی:میں ضمانت دیتاہوں!آپﷺنے فرمایا:لوگوں سے کسی بھی چیز کا سوال نہ کرنا،(اس کے بعد)حضرت سیدناثوبان رضی اللہ عنہ سے اگر چابک بھی گرجاتا تھا تو سواری سے اتر کر خوداٹھاتے کسی کواٹھاکر دینے کا نہ کہتے۔
(سنن ابن ماجہ:ابن ماجۃ أبو عبد اللہ محمد بن یزید القزوینی، وماجۃ اسم أبیہ یزید (ا:۵۸۹)
حضرت سیدناثوبان رضی اللہ عنہ ایساکیوں کرتے رہے؟ حصولِ جنت کیلئے، اب نعت خوان حدیث ثوبان رضی اللہ عنہ کاکیاجواب دیتے ہیں؟اور اس عمل پر کیاتبصرہ کرتے ہیں؟۔
حضورتاجدارختم نبوتﷺجنت جانے کے نسخے ارشادفرماتے ہیں
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ أَعْرَابِیًّا أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ دُلَّنِی عَلَی عَمَلٍ إِذَا عَمِلْتُہُ دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ قَالَ تَعْبُدُ اللَّہَ لَا تُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا وَتُقِیمُ الصَّلَاۃَ الْمَکْتُوبَۃَ وَتُؤَدِّی الزَّکَاۃَ الْمَفْرُوضَۃَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ قَالَ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَا أَزِیدُ عَلَی ہَذَا فَلَمَّا وَلَّی قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ سَرَّہُ أَنْ یَنْظُرَ إِلَی رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فَلْیَنْظُرْ إِلَی ہَذَا حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ عَنْ یَحْیَی عَنْ أَبِی حَیَّانَ قَالَ أَخْبَرَنِی أَبُو زُرْعَۃَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِہَذَا۔
ترجمہ :حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی حضورتاجدارختم نبوتﷺکے پاس آیا اور عرض کرنے لگا:آپ ﷺمجھے کوئی ایسا عمل بتائیں اگر وہ بجالاؤں تو جنت میں داخل ہوجاؤں ۔آپﷺ نے فرمایا:اللہ تعالی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ،فرض نمازیں اور فرض زکوۃ اداکرو اور رمضان کے روزے رکھو۔دیہاتی بولا:مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میں اس سے زیادہ نہیں کرونگا۔ جب وہ چلا گیا تو حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:جو شخص کسی جنتی کو دیکھنا چاہتا ہو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (ا:۴۴)
اب نعت خوان کہاجائیں گے ؟ غورکریں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺتوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جنت جانے کے لئے اعمال ارشادفرمارہے ہیںاوریہ نعت خوان کہتے ہیں کہ ہم نے جنت جاناہی نہیں۔
حضورتاجدارختم نبوتﷺنے جنت کی ضمانت دی
عَنِ ابْنِ شِمَاسَۃَ الْمَہْرِیِّ،قَالَ:حَضَرْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ،وَہُوَ فِی سِیَاقَۃِ الْمَوْتِ،یَبَکِی طَوِیلًا،وَحَوَّلَ وَجْہَہُ إِلَی الْجِدَارِ،فَجَعَلَ ابْنُہُ یَقُولُ:یَا أَبَتَاہُ،أَمَا بَشَّرَکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِکَذَا؟ أَمَا بَشَّرَکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِکَذَا؟قَالَ:فَأَقْبَلَ بِوَجْہِہِ،فَقَالَ:إِنَّ أَفْضَلَ مَا نُعِدُّ شَہَادَۃُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ،إِنِّی قَدْ کُنْتُ عَلَی أَطْبَاقٍ ثَلَاثٍ،لَقَدْ رَأَیْتُنِی وَمَا أَحَدٌ أَشَدَّ بُغْضًا لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنِّی،وَلَا أَحَبَّ إِلَیَّ أَنْ أَکُونَ قَدِ اسْتَمْکَنْتُ مِنْہُ،فَقَتَلْتُہُ، فَلَوْ مُتُّ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ لَکُنْتُ مِنْ أَہْلِ النَّارِ،فَلَمَّا جَعَلَ اللہُ الْإِسْلَامَ فِی قَلْبِی أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،فَقُلْتُ:ابْسُطْ یَمِینَکَ فَلْأُبَایِعْکَ،فَبَسَطَ یَمِینَہُ،قَالَ:فَقَبَضْتُ یَدِی،قَالَ:مَا لَکَ یَا عَمْرُو؟قَالَ:قُلْتُ:أَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِطَ،قَالَ:تَشْتَرِطُ بِمَاذَا؟قُلْتُ:أَنْ یُغْفَرَ لِی،قَالَ:أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ؟وَأَنَّ الْہِجْرَۃَ تَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہَا؟وَأَنَّ الْحَجَّ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ؟وَمَا کَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،وَلَا أَجَلَّ فِی عَیْنِی مِنْہُ،وَمَا کُنْتُ أُطِیقُ أَنْ أَمْلَأَ عَیْنَیَّ مِنْہُ إِجْلَالًا لَہُ،وَلَوْ سُئِلْتُ أَنْ أَصِفَہُ مَا أَطَقْتُ؛ لِأَنِّی لَمْ أَکُنْ أَمْلَأُ عَیْنَیَّ مِنْہُ،وَلَوْ مُتُّ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ لَرَجَوْتُ أَنْ أَکُونَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ،ثُمَّ وَلِینَا أَشْیَاء َ مَا أَدْرِی مَا حَالِی فِیہَا،فَإِذَا أَنَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِی نَائِحَۃٌ،وَلَا نَارٌ،فَإِذَا دَفَنْتُمُونِی فَشُنُّوا عَلَیَّ التُّرَابَ شَنًّا،ثُمَّ أَقِیمُوا حَوْلَ قَبْرِی قَدْرَمَا تُنْحَرُ جَزُورٌ وَیُقْسَمُ لَحْمُہَا،حَتَّی أَسْتَأْنِسَ بِکُمْ،وَأَنْظُرَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِہِ رُسُلَ رَبِّی۔
ترجمہ :حضرت سیدناابن شماسہ مہری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا :ہم حضرت سیدناعمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے ، وہ موت کے سفر پر روانہ تھے ، روتے جاتے تھے اور اپنا چہرہ دیوار کی طرف کر لیا تھا ۔ ان کے بیٹے کہنے لگے:ابا جان !کیا حضورتاجدارختم نبوتﷺنے آپ کو فلاں چیز کی بشارت نہ دی تھی ؟ کیا فلاں بات کی بشارت نہ دی تھی ؟ انہوں نے ہماری طرف رخ کیا اور کہا :جو کچھ ہم (آئندہ کے لیے )تیار کرتے ہیں ، یقیناً اس میں سے بہترین یہ گواہی ہے کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں ا ورحضورتاجدارختم نبوتﷺاللہ تعالی کے رسو ل ہیں ۔ میں تین درجوں (مرحلوں)میں رہا ۔ (پہلا یہ کہ )میں نے اپنے آپ کو اس حالت میں پایا کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ مجھ سے زیادہ بغض کسی کو نہ تھا اور نہ اس کی نسبت کوئی اور بات زیادہ پسند تھی کہ میں آپ ﷺپر قابو پا کر آپ ﷺکو قتل کر دوں ۔ اگر میں اس حالت میں مر جاتا تو یقیناً دوزخی ہوتا ۔ (دوسرے مرحلے میں)جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا کر دی تو میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی :اپنا دایاں ہاتھ بڑھایئے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں ، آپ ﷺنے دایاں ہاتھ بڑھایا،تو میں نے اپنا ہاتھ ( پیچھے)کھینچ لیا ۔ آپ ﷺنے فرمایا:عمرو!تمہیں کیا ہوا ہے ؟ میں نے عرض کی :میں ایک شرط رکھنا چاہتا ہوں ۔ فرمایا :کیا شرط رکھنا چاہتے ہو ؟ میں نے عرض کی:یہ (شرط)کہ مجھے معافی مل جائے ۔ آپ ﷺنے فرمایا : عمرو!کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام ان تمام گناہوں کو ساقط کر دیتا ہے جو اس سے پہلے کئے تھے ؟ او رہجرت ان تمام گناہوں کوساقط کر دیتی ہے جو اس (ہجرت)سے پہلے کیے گئے تھے اور حج ان سب گناہوں کو ساقط کر دیتا ہے جو اس سے پہلے کئے تھے ۔ اس وقت مجھے حضورتاجدارختم نبوتﷺسے زیادہ محبوب کوئی نہ تھا اور نہ آپ ﷺسے بڑھ کر میری نظر میں کسی کی عظمت تھی، میں آپﷺ کی عظمت کی بنا پر آنکھ بھر کر آپﷺ کو دیکھ بھی نہ سکتا تھا اور اگر مجھ سے آپ ﷺکا حلیہ پوچھا جائے تو میں بتا نہ سکوں گا کیونکہ میں آپ ﷺکو آنکھ بھر کر دیکھتا ہی نہ تھا اور اگر میں اس حالت میں مر جاتا تو مجھے امید ہے کہ میں جنتی ہوتا ، پھر (تیسرا مرحلہ یہ آیا )ہم نے کچھ چیزوں کی ذمہ داری لے لی ، میں نہیں جانتا کہ ان میں میرا حال کیسا رہا ؟ جب میں مر جاؤں تو کوئی نوحہ کرنیوالی میرے ساتھ نہ جائے ، نہ ہی آگ ساتھ ہو اور جب تم مجھے دفن کر چکو تو مجھ پر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا ، پھر میری قبر کے گرد اتنی دیر (دعا کرتے ہوئے)ٹھہرنا ، جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جا سکتا ہے تاکہ میں تمہاری وجہ سے (اپنی نئی منزل کے ساتھ)مانوس ہو جاؤں اور دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے فرستادوں کو کیا جواب دیتا ہوں ۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (ا:۴۴)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم توایک دوسرے کوجنتی قراردیاکرتے تھے
حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَزْہَرُ السَّمَّانُ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ قَالَ کُنْتُ جَالِسًا فِی مَسْجِدِ الْمَدِینَۃِ فَدَخَلَ رَجُلٌ عَلَی وَجْہِہِ أَثَرُ الْخُشُوعِ فَقَالُوا ہَذَا رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ تَجَوَّزَ فِیہِمَا ثُمَّ خَرَجَ وَتَبِعْتُہُ فَقُلْتُ إِنَّکَ حِینَ دَخَلْتَ الْمَسْجِدَ قَالُوا ہَذَا رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ قَالَ وَاللَّہِ مَا یَنْبَغِی لِأَحَدٍ أَنْ یَقُولَ مَا لَا یَعْلَمُ وَسَأُحَدِّثُکَ لِمَ ذَاکَ رَأَیْتُ رُؤْیَا عَلَی عَہْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَصَصْتُہَا عَلَیْہِ وَرَأَیْتُ کَأَنِّی فِی رَوْضَۃٍ ذَکَرَ مِنْ سَعَتِہَا وَخُضْرَتِہَا وَسْطَہَا عَمُودٌ مِنْ حَدِیدٍ أَسْفَلُہُ فِی الْأَرْضِ وَأَعْلَاہُ فِی السَّمَاء ِ فِی أَعْلَاہُ عُرْوَۃٌ فَقِیلَ لِی ارْقَ قُلْتُ لَا أَسْتَطِیعُ فَأَتَانِی مِنْصَفٌ فَرَفَعَ ثِیَابِی مِنْ خَلْفِی فَرَقِیتُ حَتَّی کُنْتُ فِی أَعْلَاہَا فَأَخَذْتُ بِالْعُرْوَۃِ فَقِیلَ لَہُ اسْتَمْسِکْ فَاسْتَیْقَظْتُ وَإِنَّہَا لَفِی یَدِی فَقَصَصْتُہَا عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ تِلْکَ الرَّوْضَۃُ الْإِسْلَامُ وَذَلِکَ الْعَمُودُ عَمُودُ الْإِسْلَامِ وَتِلْکَ الْعُرْوَۃُ عُرْوَۃُ الْوُثْقَی فَأَنْتَ عَلَی الْإِسْلَامِ حَتَّی تَمُوتَ وَذَاکَ الرَّجُلُ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ سَلَامٍ و قَالَ لِی خَلِیفَۃُ حَدَّثَنَا مُعَاذٌ حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا قَیْسُ بْنُ عُبَادٍ عَنْ ابْنِ سَلَامٍ قَالَ وَصِیفٌ مَکَانَ مِنْصَفٌ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا قیس بن عباد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:میں مسجد نبوی میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بزرگ مسجد میں داخل ہوئے جن کے چہرے پر خشوع کے اثرات تھے۔ لوگوں نے کہا:یہ بزرگ جنتی ہیں۔ انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں۔ ان میں اختصار کیا۔ پھر وہ باہر چلے گئے تو میں ان کے پیچھے ہو لیا اور عرض کی:جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگوں نے کہا تھا کہ یہ بزرگ جنتی ہیں۔ انہوں نے فرمایا:اللہ کی قسم!کسی کے لیے ایسی بات منہ سے نکالنا جائز نہیں جسے وہ نہ جانتا ہو۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ لوگ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ دراصل میں نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے عہد مبارک میں ایک خواب دیکھا اور آپ ﷺسے اسے بیان کیا۔ میں نے دیکھا گویا میں ایک باغ میں ہوں۔ انہوں نے اس کی کشادگی اور شادابی بیان کی۔ پھر کہا:اس باغ کے درمیان ایک لوہے کا ستون ہے جس کا نچلا حصہ زمین میں اور اوپر والا آسمان میں ہے، اوپر کی طرف ایک کنڈا لگا ہوا ہے۔ خواب میں مجھے کہا گیا کہ تم اس پر چڑھ جاؤ۔ میں نے کہا مجھ سے نہیں چڑھا جاتا۔ اس دوران میں میرے پاس ایک خادم آیا۔ اس نے پیچھے کی طرف سے میرے کپڑے اٹھا دیے۔ آخر میں اوپر چڑھ گیا۔ جب میں اس کی چوٹی پر پہنچ گیا تو میں نے وہ کنڈا پکڑ لیا۔ مجھ سے کہا گیا:اس کو مضبوطی سے تھام لو۔ اسی دوران میں کہ کنڈا میرے ہاتھ میں تھا، میری آنکھ کھل گئی، چنانچہ میں نے یہ خواب حضورتاجدارختم نبوتﷺسے بیان کیا تو آپ ﷺنے یوں تعبیر فرمائی: وہ باغ تو دین اسلام ہے۔ اور وہ ستون اسلام کا ستون ہے۔ اور کنڈا ’’عروہ وثقی‘‘ہے۔ اور تم اپنی موت تک اسلام پر قائم ہو گے۔یہ بزرگ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تھے۔ ایک روایت میں لفظ (منصف)(خادم)کے بجائے (وصیف)کا لفظ ہے۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (ا:۴۴)
ایک مائی صاحبہ کازندگی بھرجنت کے لئے بیماری برداشت کرنا
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا یَحْیَی، عَنْ عِمْرَانَ أَبِی بَکْرٍ، قَالَ:حَدَّثَنِی عَطَاء ُ بْنُ أَبِی رَبَاحٍ، قَالَ:قَالَ لِی ابْنُ عَبَّاسٍ: أَلاَ أُرِیکَ امْرَأَۃً مِنْ أَہْلِ الجَنَّۃِ؟ قُلْتُ:بَلَی،قَالَ:ہَذِہِ المَرْأَۃُ السَّوْدَاء ُ،أَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ:إِنِّی أُصْرَعُ، وَإِنِّی أَتَکَشَّفُ، فَادْعُ اللَّہَ لِی،قَالَ:إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَکِ الجَنَّۃُ،وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللَّہَ أَنْ یُعَافِیَکِ فَقَالَتْ:أَصْبِرُ، فَقَالَتْ:إِنِّی أَتَکَشَّفُ،فَادْعُ اللَّہَ لِی أَنْ لاَ أَتَکَشَّفَ،فَدَعَا لَہَا ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا عطاء بن ابی رباح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے حضرت سیدناعبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہمانے فرمایا:کیا میںتجھے ایک جنتی عورت نہ دکھاؤں؟ میں نے کہا:ضرور دکھائیں۔ انہوں نے کہا :اس سیاہ فام عورت نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی:یارسول اللہ ﷺ!مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے اس وجہ سے میرا ستر کھل جاتا ہے آپﷺ میرے لیے اللہ تعالٰی سے دعا کریں۔ آپ ﷺنے فرمایا:اگر تو چاہے تو صبر کر، اس کے عوض تجھے جنت ملے گی اور اگر تو چاہتی ہے تو میں اللہ تعالٰی سے دعا کردیتا ہوں کہ تجھے تندرستی دے۔ اس نے کہا:میں صبر کروں گی۔ پھر اس نے عرض کی کہ مرگی کے دورے کے دوران میں میرا ستر کھل جاتا ہے آپﷺ میرے لیے اللہ سے دعا کریں کہ میرا ستر نہ کھلا کرے تو آپ ﷺنے اس کے لیے دعا فرمائی۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۴:۱۹۹۴)
وہ صحابیہ حصولِ جنت کیلئے پوری زندگی اس مرض کی شدت برداشت کرتی رہیں، آپ کیا تبصرہ فرمائیں گے صحابیہ کے اس طرزِ عمل پر؟
اس سے معلوم ہواکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺجنت کے داعی ہیں’’ اورہمارے جاہل صوفی اورنعت خوان یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ ہم نے جنت جاناہی نہیں ‘‘اس سے واضح یہی ہوتاہے کہ انہوں نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی دعوت شریفہ کوٹھکرادیاہے اوراسے قبول ہی نہیں کیا۔ اللہ تعالی انہیں عقل سلیم عطافرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین الکریم ﷺ