تفسیرسورۃیونس آیت ۲۱۔ وَ اِذَآ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَۃً مِّنْ بَعْدِ ضَرَّآء َ مَسَّتْہُمْ اِذَا لَہُمْ مَّکْرٌ فِیْٓ اٰیَاتِنَا

حضورتاجدارختم نبوتﷺکی گستاخیوں کی وجہ سے اہل مکہ پرسات سال قحط سالی مسلط کی گئی

{وَ اِذَآ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَۃً مِّنْ بَعْدِ ضَرَّآء َ مَسَّتْہُمْ اِذَا لَہُمْ مَّکْرٌ فِیْٓ اٰیَاتِنَا قُلِ اللہُ اَسْرَعُ مَکْرًا اِنَّ رُسُلَنَا یَکْتُبُوْنَ مَا تَمْکُرُوْنَ }(۲۱)

ترجمہ کنزالایمان:اور جب کہ ہم آدمیوں کو رحمت کا مزہ دیتے ہیں کسی تکلیف کے بعد جو انہیں پہنچی تھی جبھی وہ ہماری آیتوں کے ساتھ دائوں چلتے ہیں تم فرمادو اللہ کی خفیہ تدبیر سب سے جلد ہوجاتی ہے بیشک ہمارے فرشتے تمہارے مکر لکھ رہے ہیں۔

ترجمہ ضیاء الایمان:اور جب ہم لوگوں کو انہیں تکلیف پہنچنے کے بعد رحمت کا مزہ دیتے ہیں تو اسی وقت ان کا کام ہماری آیتوں کے بارے میں سازش کرنا ہوجاتا ہے ۔اے حبیب کریمﷺ!:اللہ تعالی سب سے جلد خفیہ تدبیرفرمانے والا ہے۔بیشک ہمارے ملائکہ کرام علیہم السلام تمہارے مکراوردھوکہ کو لکھ رہے ہیں۔

شان نزول
قیل:قال أبو سفیان قحطنا بل بِدُعَائِکَ فَإِنْ سَقَیْتَنَا صَدَّقْنَاکَ،فَسُقُوا بِاسْتِسْقَائِہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یُؤْمِنُوا،فَہَذَا مَکْرُہُمْ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ابوسفیان نے حضوتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ اقدس میں عرض کی:یارسول اللہ ﷺ!آپکی دعاسے ہم پرقحط مسلط کردیاگیاہے ، پس آپ ﷺاگردعاکریں اوریہ قحط دورہوجائے توہم آپﷺپرایمان لے آئیں گے ، پس آپﷺنے بارش کی دعا کی تواللہ تعالی نے بارش عطافرمادی ، لیکن وہ ایمان نہ لائے ، پس یہی ان کامکراوردھوکہ تھا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (۸:۳۲۴)

حضورتاجدارختم نبوتﷺکی دعائے جلال

ٍعَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ قُرَیْشًا لَمَّا أَبْطَئُوا عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْإِسْلَامِ قَالَ اللَّہُمَّ اکْفِنِیہِمْ بِسَبْعٍ کَسَبْعِ یُوسُفَ فَأَصَابَتْہُمْ سَنَۃٌ حَصَّتْ کُلَّ شَیْء ٍ حَتَّی أَکَلُوا الْعِظَامَ حَتَّی جَعَلَ الرَّجُلُ یَنْظُرُ إِلَی السَّمَاء ِ فَیَرَی بَیْنَہُ وَبَیْنَہَا مِثْلَ الدُّخَانِ قَالَ اللَّہُ فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَأْتِی السَّمَاء ُ بِدُخَانٍ مُبِینٍ قَالَ اللَّہُ إِنَّا کَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِیلًا إِنَّکُمْ عَائِدُونَ أَفَیُکْشَفُ عَنْہُمْ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَقَدْ مَضَی الدُّخَانُ وَمَضَتْ الْبَطْشَۃُ۔

ترجمہ :حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب قریش نے حضورتاجدارختم نبوتﷺپر ایمان لانے میں تاخیر کی تو آپ ﷺنے ان کے خلاف دعائے جلال کی:اے اللہ!ان پر حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام کے زمانے کا سا قحط نازل فرما۔چنانچہ ایسا قحط پڑا کہ ہر چیز ملیامیٹ ہو گئی، کوئی چیز نہیں ملتی تھی اور اہل مکہ ہڈیاں کھانے پر مجبور ہو گئے تھے، حتی کہ ان کی یہ کیفیت ہو گئی کہ کوئی شخص آسمان کی طرف نظر اٹھاتا تو اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں سا نظر آتا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا:آپ اس دن کے منتظر رہیں جبکہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔اور فرمایا:بیشک ہم عذاب کو تھوڑا سا دور کر دیں گے تو تم پھر اپنی اسی حالت پر آ جاؤ گے۔حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:عذاب سے یہی قحط کا عذاب مراد ہے کیونکہ قیامت کے دن کا عذاب تو ٹلنے والا نہیں۔ الغرض دخان اور بطشہ جن کا ذکر سورہ دخان میں ہے، وہ آ چکا ہے۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۶:۷۷)

گستاخیوں کی وجہ سے کفارمکہ پرقحط سالی ہوئی

(إِذَا لَہُمْ مَکْرٌ فِی آیَاتِنَا)قَالَ مُجَاہِدٌ:تَکْذِیبٌ وَاسْتِہْزَاء ٌ۔
ترجمہ :{إِذَا لَہُمْ مَکْرٌ فِی آیَاتِنَا}کے تحت حضرت سیدناامام مجاہدرحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ کفارمکہ قرآن کریم کی آیات اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکوجھوٹاکہتے اورمذاق اڑایاکرتے تھے۔
(تفسیر البغوی:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی (۴:۱۲۷)

کافرگستاخی کرنے میں بڑابے باک ہوتاہے

قولہ إِذا للمفاجأۃ لَہُمْ مَکْرٌ فِی آیاتِنا ای فاجأوا فی وقت اذاقۃ الرحمۃ وقوع المکر منہم بالطعن فی الآیات والاحتیال فی دفعہا وسارعوا الیہ قبل ان ینفضوا عن رؤسہم غبار الضراء ۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ {إِذَا لَہُمْ مَکْرٌ فِی آیَاتِنَا}میں اذامفاجاتیہ ہے یعنی جب ہم نے بارش عطاکی توانہوںنے فوراًہمارے قرآن کریم کے خلاف منصوبے بناناشروع کردیئے ، مثلاًآیات کریمہ پرطعن وتشنیع اوران کے بارے میں حیلہ سازی کرنے لگے ، اوراس میں اتنی جلدی کی کہ ابھی قحط سالی کی غبار ان کے سروں میں موجودتھی۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۳۰)

کفارمکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی عظمت کے انکاری تھے

قیل قحط اہل مکۃ سبع سنین حتی کادوا یہلکون ثم رحمہم اللہ وانزل الغیث علی أراضیہم فطفقوا یقدحون فی آیات اللہ ویکیدون رسولہ قال مقاتل لا یقولون ہذا رزق اللہ وانما یقولون سقینا بنوء ۔
ترجمہ :اوریہ بھی بیان کیاگیاہے اہل مکہ سات سال تک قحط سالی میں مبتلارہے یہاں تک کہ تباہ وبربادہونے والے تھے ، تواللہ تعالی نے اپنے فضل وکرم سے ان پررحم فرماکربارش عطافرمادی ، جس سے ان کی آبادیاں شاداب ہوئیں ، اس سے ان میں سرکشی پیداہوگئی تواللہ تعالی کی آیات کریمہ کاانکارکرنے لگے اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی دشمنی میں طرح طرح کے حیلے اورمکروفریب کرنے لگے ۔ جب بارش ہوگئی اوران کی کھیتی سرسبزہوگئی توبجائے اس کے کہ وہ کہیں کہ یہ اللہ تعالی کاعطاکردہ رزق ہے کہتے کہ یہ فلاں ستارے کی تاثیرسے ہواہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۳۰)
چونکہ یہ بارش حضورتاجدارختم نبوتﷺکی دعاکی برکت سے ہوئی تھی تواس میں آپﷺکی عظمت وشان کااظہاربھی ہے اوراللہ تعالی کی قدرت کاملہ سے بارش ہوئی تو اس طرح اللہ تعالی کی شان کااظہاربھی ہے توانہوںنے یہ کہہ کریہ بارش ستارے کی وجہ سے ہوئی ، اللہ تعالی کی قدرت کاملہ اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی شان محبوبی کابھی انکارکردیا۔
کفارمکہ کوہرہرغزوہ میں شکست ان کی گستاخیوں کی وجہ سے ہوئی
روی عن مقاتل انہ تعالی قتلہم یوم بدروجازی مکرہم فی آیاتہ بعقاب ذلک الیوم فکان اسرع فی إہلاکہم من کیدہم فی إہلاکہ علیہ السلام وابطال آیاتہ والمکر إخفاء الکید وارادۃ اللہ خفیۃ علیہم وإرادتہم ظاہرۃ۔
ترجمہ :امام مقاتل رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ کفارکواللہ تعالی نے بدرمیں تباہ وبربادکیا، یہ انہیں آیات کریمہ کے انکاراورمذاق اڑانے کی سزاتھی ، اس کے بعد جب بھی ان کوکہیں سزاملی توگویاان کے اسی قرآن کریم کی گستاخیوں کی وجہ سے تھی ، اسی معنی پراللہ تعالی ان کی گستاخیوں کی سزادینے میں عجلت فرمانے والاہے ۔ ان کامکریہ تھاکہ یہ لوگ حضورتاجدارختم نبوتﷺکونقصان پہنچائیں تواللہ تعالی کے مکرکے معنی یہ ہے کہ وہ کفارکو مذکورہ بالاطریقوں سے تباہ وبربادکردے۔ چونکہ کفارتوحضورتاجدارختم نبوتﷺکاکچھ نہ بگاڑسکے لیکن اللہ تعالی نے بدرکے علاوہ اور بھی متعددغزوات میں شکستیں دیں۔اس معنی میں اسرع مکراًکامفہوم صحیح ہوا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۳۰)

Leave a Reply